طلبا کا تعلیمی و معاشی استحصال
معروف نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں اچانک یکطرفہ اور من مانے اضافے پر طلبا کے والدین سراپا احتجاج ہیں۔
معروف نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں اچانک یکطرفہ اور من مانے اضافے پر طلبا کے والدین سراپا احتجاج ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں ان کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ No fee till low fee کے سلوگن کے تحت طلبا اور ان کے والدین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں ، جن پر تحریر ہے کہ فیسوں میں اضافہ تعلیمی قتل، تعلیمی دہشت گردی بند کرو، شرم کرو، حیا کرو، پڑھائی کے نام پر چور بازاری بند کرو، تعلیم کے نام پر پرائیویٹ اسکول لوٹ مار بند کریں، وغیرہ وغیرہ۔ والدین کا کہنا ہے کہ سالانہ فیس میں ایک سے دو ہزار اور ماہانہ فیس میں ایک ہزار تک کا اضافہ ان کے ساتھ ظلم اور طلبا کا تعلیمی استحصال ہے۔اس غیر قانونی عمل پر پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشن اور وزارت تعلیم کا محکمہ کوئی کارروائی عمل میں نہیں لا رہا وہ اضافی فیس ادا نہیں کریں گے اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ والدین کے شدید ردعمل کے بعد کمشنرکراچی نے ڈائریکٹر اسکولز اور پرائیویٹ اسکول نمایندوں کا اجلاس طلب اور ان کی انتظامیہ سے فیسوں میں اضافہ ختم کرنے کا کہا ہے اور انھیں باورکرایا ہے کہ بغیر حکومتی اجازت کے وہ فیسوں میں اضافہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔
انتظامیہ نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرائی ہے، اس سلسلے میں کچھ اسکولوں کی انتظامیہ کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کردیے ہیں۔ مسابقتی کمیشن پاکستان بھی نجی اسکولوں کی فیسوں میں ناجائز اضافے اور فیس چالان میں مختلف مدات میں شامل رقوم کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ذرایع کے مطابق کمیشن کو ملک بھر سے مختلف اقسام کی لاتعداد شکایتیں موصول ہوئی ہیں، اس لیے انکوائری کا دائرہ کار وسیع کرکے مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں کمیشن ملک بھر میں نجی اسکولوں کے معاملات کو دیکھے گا۔ والدین کا کہنا ہے کہ انھیں جو چالان تھمائے گئے ہیں ان میں ٹیوشن فیس اور سالانہ فیس کے علاوہ بکس چارجز، جنریٹر چارجزکے علاوہ ایڈوانس ٹیکس بھی شامل ہیں جب کہ اسکولوں کی اکثریت حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کا دائرہ ملک بھر کے تمام نجی کمرشل اسکولوں تک وسیع ہونا چاہیے۔
والدین کی جانب سے نجی اسکولوں کی جانب سے لوٹ مار کے خلاف احتجاج کا یہ سلسلہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مترادف ہے۔ غریب آدمی کی سکت سے تو بچوں کی واجبی تعلیم باہر ہوچکی ہے۔ متوسط طبقہ جو پیٹ کاٹ کر قرض لے کر جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کا خواہاں ہے۔اب اس کا حصول ان کے لیے بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیم کا خالصتاً کمرشلزم اور طبقاتی تعلیم نے اہل اور لائق طلبا کے ساتھ تعلیمی دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے تعلیم صرف وہ بچہ حاصل کرسکتا ہے جس کے والدین نے اس کے لیے لاکھوں کا بجٹ رکھا ہو جو اس کے لیے مہنگے اسکول، مہنگے ٹیوشنز سینٹر، ہر مضمون کے لیے مہنگے و نامور ٹیوٹرز، مقابلے کے امتحانوں کی تیاری کرانیوالے سینٹر اور شخصیات کے اخراجات کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ بچہ پھر بھی نالائقی دکھائے تو ان کے لیے پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز کے دروازے ڈونیشن اور سیلف فنانس کے نام پر کھول دیتے ہیں جب کہ اہل و مستحق طلبا کا وسیع پیمانے پر صرف اس وجہ سے تعلیمی استحصال ہو رہا ہے کہ ان کے والدین بے تحاشا تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔
یہ صرف اہل ولائق طلبا کا استحصال نہیں ہے بلکہ ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق اور ظلم ہے کہ اسے ایک بڑے اور حقیقی تعلیمی ٹیلنٹ سے محروم کرکے محدود بلکہ مصنوعی ٹیلنٹ پر اکتفا کرنے پر مجبورکردیا جاتا ہے۔ عمومی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرکے کچرا چننے والا، تنور پر روٹیاں لگانے والا، پان فروش کا بیٹا، لیاری کے پسماندہ علاقے کی بچیوں کا امتحانات میں ٹاپ پوزیشن لینا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے اگر یکساں تعلیمی مواقعے فراہم کردیے جائیں تو ملک کو بے انتہا علمی قابلیت اور صلاحیتیں میسر آسکتی ہیں مگر بدقسمتی سے تعلیم کا شعبہ حکومتی ترجیحات میں ہمیشہ آخر میں رہا ہے جس کی وجہ سے شرح خواندگی میں اضافے کے بجائے کمی آرہی ہے، امتحانات میں پاس ہونے کا تناسب بھی کم ہو رہا ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے تحت منعقدہ حالیہ داخلہ ٹیسٹ میں طلبا کی اکثریت 50 فیصد کوالیفائنگ مارکس بھی حاصل نہ کرپائے Aاور A1گریڈ کے طلبا بھی ناکام رہے اس کی ایک بڑی وجہ حقیقی تعلیمی قابلیت نہ ہونا نظر آتی ہے۔
ایک طرف تو سرکاری تعلیمی اداروں، محکمہ تعلیم اور وزارت تعلیم میں کرپشن، بدنظمی و بدانتظامی، نااہلیت، دھونس دھمکی اور نقل کا رجحان ہے۔ تقرریاں، تبادلے، تنزلی و ترقیاں میرٹ سے ہٹ کر سیاسی اثر ورسوخ، اقربا پروری اور رشوت وسفارش پر ہو رہی ہیں طلبا میں محض سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں حاصل کرنے اور اساتذہ میں وقت گزاری کرنے کا رجحان ہے ۔ اساتذہ کی توجہ تعلیم اور دلچسپی تعلیم سے زیادہ اپنے ذاتی، سیاسی مفادات اور ٹیوشنز پر مرکوز ہوگئی ہیں چھٹیوں اور غیر حاضری کا تناسب بہت زیادہ ہے ۔گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ اسکول تعلیم کو پامال اور ملکی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی بڑی عمارتیں خالی اور اساتذہ و دیگر عملہ ناکارہ بیٹھا ہے لوگ سرکاری اسکولوں میں بچوں کو داخل کرانے سے اجتناب برتتے ہیں دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں میں جن کی اکثریت چھوٹے مکانات اور عمارتوں میں واقع ہے جن میں نہ تو مطلوبہ سہولیات ہیں نہ ہی اساتذہ کی تعلیم و اہلیت کا کوئی معیار مقرر ہے۔ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں پر بہت معمولی تعلیمی اہلیت کے اساتذہ بھرتی کرلیے جاتے ہیں انھیں نہ تو مطلوبہ قانونی سہولیات میسر ہوتی ہیں نہ تحفظ روزگار اور عزت و وقار اور عزت نفس کا تحفظ ہوتا ہے۔
عموماً سالانہ چھٹیوں سے قبل انھیں محض اس وجہ سے نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے کہ انھیں چھٹیوں کی تنخواہیں نہ دینی پڑیں پھرکم تنخواہ پر نئے اساتذہ بھرتی کرلیے جاتے ہیں جب کہ نجی تعلیمی ادارے طلبا سے چھٹیوں کی فیس اورٹرانسپورٹ چارجز تک ایڈوانس میں حاصل کرلیتے ہیں اسکول کی لیب ہو یا کینٹین،کمپیوٹر لیب ہو یا بک شاپ ویونیفارم سپلائی کرنیوالے سب سے انتظامیہ سیکیورٹی ڈپازٹ کے علاوہ اچھے خاصے چارجز یا کمیشن حاصل کرتی ہے ۔ قانون کے تحت نجی تعلیمی اداروں کے ملازم اساتذہ ودیگر اسٹاف کو بہت سی مراعات اور سماجی تحفظات حاصل ہیں مثلاً سوشل سیکیورٹی اور ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ وغیرہ اور ان کی کم سے کم تنخواہ کا تعین بھی طلبا سے ملنے والی فیس کے تناسب سے کردیا گیا ہے۔ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن آرڈیننس کے تحت ہر اسکول کا رجسٹر کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ مختلف محل وقوع پر قائم ایک ہی ادارے کے ایک ہی نام سے چلنے والے تعلیمی اداروں کو علیحدہ علیحدہ رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے اس کے باوجود بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ اسکول دھڑلے سے چل رہے ہیں۔
طالب علموں سے کوئی عطیہ رضاکارانہ یا کسی اور نام سے پروجیکٹ یا ادارے کی ڈیولپمنٹ کے نام سے پیسے لینے پر پابندی ہے تعلیمی اداروں کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ جو سہولتیں داخلے کے وقت مہیا کی جائیں انھیں ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ آرڈیننس کی خلاف ورزی پر ایک سال تک قید اور جرمانے کی سزا بھی رکھی گئی ہے لیکن تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن کی معطلی و منسوخی کی صورت میں اس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ جاری تعلیمی سیشن کو مکمل کرایا جائے گا تاکہ طلبا کا نقصان نہ ہو ۔ اس قانون کے تحت کی جانیوالی کسی بھی کارروائی، ہدایت یا حکم کے خلاف کوئی عدالت کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہوگی اس آرڈیننس کے تحت فیسوں میں اضافے کا محدود اختیار دیا گیا ہے اور تحفظ روزگار کی ضمانت خود ریاست نے لی ہے۔ مگر تمام اصول و ضوابط اور قانون الماریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں حکومتی محکمہ تعلیم اور ارباب اختیار محض اس لیے بے اختیار ہیں کہ ان کے مفادات اور ترجیحات کچھ اور ہیں۔
انتظامیہ نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرائی ہے، اس سلسلے میں کچھ اسکولوں کی انتظامیہ کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کردیے ہیں۔ مسابقتی کمیشن پاکستان بھی نجی اسکولوں کی فیسوں میں ناجائز اضافے اور فیس چالان میں مختلف مدات میں شامل رقوم کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ذرایع کے مطابق کمیشن کو ملک بھر سے مختلف اقسام کی لاتعداد شکایتیں موصول ہوئی ہیں، اس لیے انکوائری کا دائرہ کار وسیع کرکے مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں کمیشن ملک بھر میں نجی اسکولوں کے معاملات کو دیکھے گا۔ والدین کا کہنا ہے کہ انھیں جو چالان تھمائے گئے ہیں ان میں ٹیوشن فیس اور سالانہ فیس کے علاوہ بکس چارجز، جنریٹر چارجزکے علاوہ ایڈوانس ٹیکس بھی شامل ہیں جب کہ اسکولوں کی اکثریت حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کا دائرہ ملک بھر کے تمام نجی کمرشل اسکولوں تک وسیع ہونا چاہیے۔
والدین کی جانب سے نجی اسکولوں کی جانب سے لوٹ مار کے خلاف احتجاج کا یہ سلسلہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مترادف ہے۔ غریب آدمی کی سکت سے تو بچوں کی واجبی تعلیم باہر ہوچکی ہے۔ متوسط طبقہ جو پیٹ کاٹ کر قرض لے کر جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کا خواہاں ہے۔اب اس کا حصول ان کے لیے بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیم کا خالصتاً کمرشلزم اور طبقاتی تعلیم نے اہل اور لائق طلبا کے ساتھ تعلیمی دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے تعلیم صرف وہ بچہ حاصل کرسکتا ہے جس کے والدین نے اس کے لیے لاکھوں کا بجٹ رکھا ہو جو اس کے لیے مہنگے اسکول، مہنگے ٹیوشنز سینٹر، ہر مضمون کے لیے مہنگے و نامور ٹیوٹرز، مقابلے کے امتحانوں کی تیاری کرانیوالے سینٹر اور شخصیات کے اخراجات کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ بچہ پھر بھی نالائقی دکھائے تو ان کے لیے پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز کے دروازے ڈونیشن اور سیلف فنانس کے نام پر کھول دیتے ہیں جب کہ اہل و مستحق طلبا کا وسیع پیمانے پر صرف اس وجہ سے تعلیمی استحصال ہو رہا ہے کہ ان کے والدین بے تحاشا تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔
یہ صرف اہل ولائق طلبا کا استحصال نہیں ہے بلکہ ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق اور ظلم ہے کہ اسے ایک بڑے اور حقیقی تعلیمی ٹیلنٹ سے محروم کرکے محدود بلکہ مصنوعی ٹیلنٹ پر اکتفا کرنے پر مجبورکردیا جاتا ہے۔ عمومی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرکے کچرا چننے والا، تنور پر روٹیاں لگانے والا، پان فروش کا بیٹا، لیاری کے پسماندہ علاقے کی بچیوں کا امتحانات میں ٹاپ پوزیشن لینا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے اگر یکساں تعلیمی مواقعے فراہم کردیے جائیں تو ملک کو بے انتہا علمی قابلیت اور صلاحیتیں میسر آسکتی ہیں مگر بدقسمتی سے تعلیم کا شعبہ حکومتی ترجیحات میں ہمیشہ آخر میں رہا ہے جس کی وجہ سے شرح خواندگی میں اضافے کے بجائے کمی آرہی ہے، امتحانات میں پاس ہونے کا تناسب بھی کم ہو رہا ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے تحت منعقدہ حالیہ داخلہ ٹیسٹ میں طلبا کی اکثریت 50 فیصد کوالیفائنگ مارکس بھی حاصل نہ کرپائے Aاور A1گریڈ کے طلبا بھی ناکام رہے اس کی ایک بڑی وجہ حقیقی تعلیمی قابلیت نہ ہونا نظر آتی ہے۔
ایک طرف تو سرکاری تعلیمی اداروں، محکمہ تعلیم اور وزارت تعلیم میں کرپشن، بدنظمی و بدانتظامی، نااہلیت، دھونس دھمکی اور نقل کا رجحان ہے۔ تقرریاں، تبادلے، تنزلی و ترقیاں میرٹ سے ہٹ کر سیاسی اثر ورسوخ، اقربا پروری اور رشوت وسفارش پر ہو رہی ہیں طلبا میں محض سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں حاصل کرنے اور اساتذہ میں وقت گزاری کرنے کا رجحان ہے ۔ اساتذہ کی توجہ تعلیم اور دلچسپی تعلیم سے زیادہ اپنے ذاتی، سیاسی مفادات اور ٹیوشنز پر مرکوز ہوگئی ہیں چھٹیوں اور غیر حاضری کا تناسب بہت زیادہ ہے ۔گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ اسکول تعلیم کو پامال اور ملکی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی بڑی عمارتیں خالی اور اساتذہ و دیگر عملہ ناکارہ بیٹھا ہے لوگ سرکاری اسکولوں میں بچوں کو داخل کرانے سے اجتناب برتتے ہیں دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں میں جن کی اکثریت چھوٹے مکانات اور عمارتوں میں واقع ہے جن میں نہ تو مطلوبہ سہولیات ہیں نہ ہی اساتذہ کی تعلیم و اہلیت کا کوئی معیار مقرر ہے۔ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں پر بہت معمولی تعلیمی اہلیت کے اساتذہ بھرتی کرلیے جاتے ہیں انھیں نہ تو مطلوبہ قانونی سہولیات میسر ہوتی ہیں نہ تحفظ روزگار اور عزت و وقار اور عزت نفس کا تحفظ ہوتا ہے۔
عموماً سالانہ چھٹیوں سے قبل انھیں محض اس وجہ سے نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے کہ انھیں چھٹیوں کی تنخواہیں نہ دینی پڑیں پھرکم تنخواہ پر نئے اساتذہ بھرتی کرلیے جاتے ہیں جب کہ نجی تعلیمی ادارے طلبا سے چھٹیوں کی فیس اورٹرانسپورٹ چارجز تک ایڈوانس میں حاصل کرلیتے ہیں اسکول کی لیب ہو یا کینٹین،کمپیوٹر لیب ہو یا بک شاپ ویونیفارم سپلائی کرنیوالے سب سے انتظامیہ سیکیورٹی ڈپازٹ کے علاوہ اچھے خاصے چارجز یا کمیشن حاصل کرتی ہے ۔ قانون کے تحت نجی تعلیمی اداروں کے ملازم اساتذہ ودیگر اسٹاف کو بہت سی مراعات اور سماجی تحفظات حاصل ہیں مثلاً سوشل سیکیورٹی اور ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ وغیرہ اور ان کی کم سے کم تنخواہ کا تعین بھی طلبا سے ملنے والی فیس کے تناسب سے کردیا گیا ہے۔ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن آرڈیننس کے تحت ہر اسکول کا رجسٹر کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ مختلف محل وقوع پر قائم ایک ہی ادارے کے ایک ہی نام سے چلنے والے تعلیمی اداروں کو علیحدہ علیحدہ رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے اس کے باوجود بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ اسکول دھڑلے سے چل رہے ہیں۔
طالب علموں سے کوئی عطیہ رضاکارانہ یا کسی اور نام سے پروجیکٹ یا ادارے کی ڈیولپمنٹ کے نام سے پیسے لینے پر پابندی ہے تعلیمی اداروں کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ جو سہولتیں داخلے کے وقت مہیا کی جائیں انھیں ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ آرڈیننس کی خلاف ورزی پر ایک سال تک قید اور جرمانے کی سزا بھی رکھی گئی ہے لیکن تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن کی معطلی و منسوخی کی صورت میں اس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ جاری تعلیمی سیشن کو مکمل کرایا جائے گا تاکہ طلبا کا نقصان نہ ہو ۔ اس قانون کے تحت کی جانیوالی کسی بھی کارروائی، ہدایت یا حکم کے خلاف کوئی عدالت کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہوگی اس آرڈیننس کے تحت فیسوں میں اضافے کا محدود اختیار دیا گیا ہے اور تحفظ روزگار کی ضمانت خود ریاست نے لی ہے۔ مگر تمام اصول و ضوابط اور قانون الماریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں حکومتی محکمہ تعلیم اور ارباب اختیار محض اس لیے بے اختیار ہیں کہ ان کے مفادات اور ترجیحات کچھ اور ہیں۔