ماضی کے چند مناظر 5

ہمارے ایک دوست جن کی موجودہ موسم گرما کے اوائل میں شہر ملتان میں تعیناتی ہوئی تھی

h.sethi@hotmail.com

لاہور:
ہر پندرہ بیس دن کے بعد عدالت ایڈیشنل کمشنر لاہور ڈویژن سے بلارا ہوتا تھا ''فلاں مرکزی وزیر و فلاں صوبائی وزیر بنام اسلم ریاض حسین پیش ہوں'' کبھی ایک فریق کا وکیل نہ آتا کبھی دوسرے فریق کا وکیل غیر حاضر ہوتا، کئی ماہ یوں ہی گزر گئے اور فریق اول کی طرف سے ہر تاریخ پر سفارش کرنے والی شخصیات کی تعداد بڑھنے لگی تو میں نے بھاری بھرکم فائل کو پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ معلوم ہوا کہ میرے دو پیش رو فیصلہ کرنے کی بجائے اس کیس کو دانستہ لٹکائے چلے جانے ہی میں مصلحت و عافیت سمجھتے رہے تھے۔

اتفاق سے فریق ثانی کی طرف سے کوئی سفارش نہ آتی تھی۔ ایک تاریخ پر میں نے ہر دو فریقوں کے وکلا کو اگلی پیشی کے لیے سختی سے پابند کیا اور پھر بحث سن کر ایم ریاض حسین کے حق میں مطابق میرٹ فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس جاوید اقبال کی بیگم ناصرہ صاحبہ بنیں تو پڑوسی ہونے کے ناتے میں بھی مبارکباد دینے گیا۔

وہاں میرا تعارف تیسرے پڑوسی اسلم ریاض حسین سے کرایا گیا تو جج صاحب کھڑے ہو گئے اور پوچھا کہ ''دوسرے فریق کی طرف سے سفارشیں تو آئی ہوں گی۔'' میں نے اثبات میں سر ہلا کر کہا ''بہت بھاری بھرکم تھیں فائل کے حجم کی طرح'' بولے ''پھر بھی فیصلہ میرے حق میں کیا۔'' میں نے جواب دیا ''میرٹ پر فیصلہ کیا۔'' اسلم ریاض صاحب نے کہا ''اب آپ کو میرے گھر آ کر چائے پینی پڑے گی۔''

فرشتوں کو چونکہ ہماری جانوں کی حفاظت کرنے کا حکم تھا اس لیے ہم ایک جگہ معجزاتی طور پر بچ کر لاہور سے سیالکوٹ پہنچ گئے۔ یہ ستمبر 1965 کی جنگ کے دوسرے شروع کے ہفتے کا واقعہ ہے۔ پاک و ہند جنگ اپنے عروج پر تھی۔ میں اور شیخ مقصود الرحمن مرے کالج کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاء کالج اور گورنمنٹ کالج میں تھے۔ دوستوں میں صرف مقصود کے پاس موٹرکار تھی، وہ اپنی مزدا 600cc میں شام کے بعد میری طرف آیا کہ چلو گھر چلتے ہیں۔

ہم غروب آفتاب کے بعد روانہ ہوئے۔ راستے میں جلد ہی تاریکی چھا گئی اور کبھی کبھی سائرن بجتے بھی سنائی دیتے جس کے بعد کہیں سے دھماکے کی آواز بھی آتی۔ پھر مکمل تاریکی ہو گئی یعنی بلیک آؤٹ ہو گیا۔ مقصود نہایت مہارت سے کار کو تیز رفتاری سے چلا رہا تھا۔ سڑک نظر نہیں آ رہی تھی، ہر طرف تاریکی تھی۔ کار بس اندازے سے چلائی جا رہی تھی۔ خالی سڑک تاریکی اور کبھی کبھی صرف سائرن کی آواز لیکن ہم خوفزدہ نہیں تھے صرف خاموش تھے۔

پھر اچانک وہ معجزہ ہوا جو پل بھر میں ہمیں پریشان کم اور مبہوت بے حد کر گیا۔ جب ہم سنبھلے تو معلوم ہوا کہ سامنے سے دو تیز رفتار گاڑیاں آئی تھیں۔ ان میں سے ایک ہمارے دائیں اور دوسری بائیں سے گزر گئی اور ہماری کار ان دونوں کے درمیان سے یوں سمجھیے پلک جھپکنے کے عرصے سے کم وقت میں بحفاظت گزر گئی۔ کبھی اس رات بچ جانے کا خیال آتا ہے تو پل صراط کا تصور ذہن کو جکڑ لیتا ہے۔


پھر میں اپنی فوٹو البم میں سے ایک یادگار تصویر نکال کر ستمبر کی اس جنگ کو یاد کر لیتا ہوں جس میں میرے وطن کے عظیم سپوتوں نے جامِ شہادت نوش کر کے ملک اور قوم کو فتح یاب کرنے والی قربانیاں دیں۔ اس تصویر میں میں دشمن کے ایک تباہ شدہ ٹینک کے ساتھ چونڈہ کے محاظ پر کھڑا ہوں۔

شیخ امتیاز صاحب یونیورسٹی لاء کالج لاہور کے ہردلعزیز پروفیسر اور پرنسپل تھے ان کے دور میں کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن ہوئے تو نسیم وقار اس کا صدر منتخب ہوا۔ اس نے مقابلے کا امتحان دیا تو کامیاب ہونے پر انکم ٹیکس سروس میں لیا گیا لیکن وہ سی ایس پی افسر بننے کا خواہش مند تھا اس لیے دوبارہ امتحان دینے پر اس کے خواب کی تکمیل ہو گئی۔ بنگلہ دیش اس وقت مشرقی پاکستان تھا، دوسرے بہت سے افسروں کی طرح اس کی تعیناتی بھی مشرقی پاکستان میں ہو گئی۔ وہ پہلے ضلع مولوی بازار میں تھا پھر اس کا تبادلہ کشتیہ میں ہو گیا اور اس کی جگہ اس کے Batch Mate چوہدری محمد اشرف تعینات ہو گئے۔

یہ سن 1971تھا جب وہاں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی البتہ اس سے ایک سال قبل ہی سے نسیم وقار مشرقی پاکستان سے اپنا تبادلہ مغربی پاکستان کروانے کی کوشش میں تھا۔ وہ 1970 کے اوائل میں والدہ کی علالت کی وجہ سے رخصت لے کر آیا لیکن وہ مشرقی پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات سے بخوبی واقف تھا۔ جناب ایم آر عنایت راولپنڈی سے گجرات آ کر انتظامی افسروں کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے کہ میرا لاء کالج کے دور کا کلاس فیلو دوست نسیم وقار اجازت لے کر کمشنر صاحب سے ملا اور ان سے درخواست کی کہ اس کی رخصت کی معیاد بڑھوا دیں۔ انھوں نے سفارش کرنے کا وعدہ تو کر لیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔

دراصل نسیم وقار واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں اس وقت اس کے ساتھی نثار الحمید، محمد اقبال، محب اللہ شاہ، خالد محمود اور چوہدری اشرف بھی تعینات تھے۔ آخرالذکر تین افسر مصائب جھیلتے مشرقی پاکستان سے نکل آئے جب کہ دونوں اول الذکر اور نسیم وقار شہید ہو گئے۔ نسیم وقار انکم ٹیکس کی نوکری ٹھکرا کر شاید شہادت کا درجہ پانے کے لیے ہی دوبارہ سول سروس کا امتحان دے کر سی ایس پی افسر بنا تھا؟

ہمارے ایک دوست جن کی موجودہ موسم گرما کے اوائل میں شہر ملتان میں تعیناتی ہوئی تھی چند روز سے جب کہ گرمی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور صبح سویرے اور شام کے بعد موسم میں خنکی ہو جاتی ہے اپنی فیملی اور دوستوں سے ملاقات کے لیے لاہور آئے ہوئے ہیں۔ یہاں وہ ایک روز دوستوں کی محفل میں بیٹھے تھے کہ کسی نے پوچھا ملتان کی کوئی خاص بات بتاؤ۔ انھوں نے موسم کی حدت و شدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملتان کے چار عدد ''گ'' بہت مشہور ہیں۔ ہمارے ایک دوسرے دوست نے ایک ہی سانس میں ''گرد، گرما، گدا اور گورستان'' بول کر کہا ان سے تو ہر شخص واقف ہے۔

کوئی نئی بات سناؤ۔ اس ملتانی نے جواباً کہا کچھ ہی عرصہ قبل کوہ مری میں ایک سال تعینات رہ کر آئے ہو تم ہی وہاں کی کوئی بات بتا دو۔ اس نے کہا تمہاری ''گ'' کا ایک ڈنڈہ گرا کر بتاتا ہوں۔ میں جب بھی عدالت میں جاتا یا رخصت کے بعد کچہری سے باہر نکلتا باہر کھلی جگہ پر پندرہ بیس مقامی لوگوں کو بیٹھے گپ شپ کرتے پایا۔ کچھ لوگوں کو تو میں ہر روز منڈلی جمائے کچہری کے باہر دیکھ کر پہچاننے بھی لگا تھا۔

ایک روز میں نے کچہری کے مقامی ملازم سے پوچھا کیا کچہری کا سامنے والا صحن نما گراؤنڈ کوئی پکنک پارک ہے جو یہ لوگ اکثر کچہری کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ مسکرا کر بولا ''شاید آپ کوہ مری کچہری کے باہر پائے جانے والے لوگوں کی پانچ عدد ''ک'' سے لاعلم ہیں۔ وہ ہیں ''کلا، کوٹ، کنڈی، کچہری اور کوڑ۔'' یہ لوگ سر پر کلا پہنتے ہیں، نیچے کوٹ اور ہاتھ میں چھتری یعنی کنڈی، کچہری کے سامنے بیٹھ کر مقدمہ بازوں کو گواہی کے لیے خدمات پیش کرتے اور ظاہر ہے جھوٹی گواہی دے کر جھوٹ یعنی کوڑ بکتے ہیں۔''
Load Next Story