میں ایک کاشتکار یا قلم کار
ہمارے کشادہ دل اور شاہ خرچ وزیر اعظم نے جو اپنے اوپر اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں
لاہور:
ہمارے کشادہ دل اور شاہ خرچ وزیر اعظم نے جو اپنے اوپر اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں اس بار کاشتکاروں کے لیے اربوں روپوں کا ایک پیکیج منظور کیا ہے جس کا اعلان انھوں نے بڑے طمطراق کے ساتھ کرایا ہے۔ ہمارے آپ کے دیکھتے دیکھتے زمانہ کتنا بدل گیا ہے، کبھی بات زیادہ سے زیادہ لاکھوں میں کی جاتی تھی، جب لاکھوں کا رعب داب کم ہوا تو کروڑوں میں بات کی جانے لگی پھر کروڑوں پر بھی زوال آیا تو اب بات اربوں کھربوں میں کی جاتی ہے لیکن جو برکت لاکھوں میں تھی وہ اربوں میں بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہمارے دل نیک اور صاف نہیں رہے اور ہمارے کاموں سے برکت اٹھ گئی ہے۔
بہرکیف وزیر اعظم نے اس بار کاشتکاروں کا کھلے دل سے ذکر کیا ہے اور ان کے لیے مختلف قسم کی مراعات اربوں تک پہنچا دی ہیں جو کاشتکاروں کی قسمت نے ساتھ دیا تو ان کے وارے نیارے کر دیں گی۔ جناب وزیر اعظم خود چونکہ کاشتکار نہیں ایک تاجر ہیں اس لیے انھوں نے کسانوں کے لیے مراعات کو تاجرانہ رنگ دیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ کاشتکار ہل نہیں چلاتا دکانداری کرتا ہے اور ہل کی جگہ ترازو کو ہاتھ میں رکھتا ہے۔
جناب وزیر اعظم کے اس انقلابی کسان منصوبے کو دیکھ کر میں ذاتی طور پر ایک مخمصے کا شکار ہو گیا ہوں۔ یوں تو میں مدت سے لاہور جیسے غیر زرعی شہر میں مقیم ہوں لیکن اپنے آپ کو ہمیشہ ایک کاشتکار سمجھتا رہا جو ہل کی جگہ قلم چلاتا ہے اور کاشتکار نہیں قلمکار ہے۔ اس بھاری بھرکم زرعی منصوبے کو دیکھ کر مجھے یوں لگا ہے کہ میں میز کرسی چھوڑ کر کسی دکان پر بیٹھ گیا ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں ہمارے ہاں کے ہندو دکاندار اپنی دکان میں کس طرح جم کر بیٹھتے تھے اور اپنے دائیں بائیں وہ تمام اشیاء رکھ لیتے تھے جو کاشتکاروں کی روزمرہ کی ضرورت ہوتی ہیں۔
ان اشیاء میں سب سے اہم ایک ٹوپہ ہوتا تھا جو گندم باجرے کے دانوں سے بھر جاتا تھا تو اس کی ایک قیمت طے شدہ بن جاتی تھی۔ ٹوپے کے ساتھ ایک چھوٹا سا پیمانہ پڑوپی بھی ہوا کرتی تھی۔
میں خالص دیہی پنجابی زبان میں بات کر کے آپ کو پریشان کر رہا ہوں۔ بس یوں سمجھیے کہ کاشتکاروں کے دانے اس ٹوپے اور پڑوپی کے ذریعے اپنی قیمت طے کرتے تھے اور چاچا انوکھا رام اپنے علاوہ ان کاشتکاروں کو بھی خوش رکھتے تھے، چاچا انوکھا میرے گاؤں کا سب سے بڑا دکاندار تھا جس کا بیٹا کلکتے میں بھی کاروبار کرتا تھا۔ میاں صاحب نے جو کچھ یاد دلایا ہے میں اس کا ذکر کرنے لگوں تو کتابیں بن جائیں۔ ہمارے ہی گاؤں کے ایک تاجر شام داس تھے وہ کاروبار کسی دوسرے شہر میں کرتے تھے مگر یوں لگتا ہے کہ منافع کا بڑا حصہ اپنے گاؤں پر خرچ کر دیتے تھے۔
اس بارانی علاقے میں انھوں نے اپنے گاؤں میں عوام کے لیے کنوئیں کھدوائے، پہاڑوں سے جہاں کوئی چشمہ نکلتا تھا وہ اس کے سامنے ایک تالاب سا بنا دیتے تھے اور اس گہرے تالاب میں سے نوجوان پانی بھر کر سیڑھیوں کے ذریعے اوپر لے جاتے جہاں ان کے پیاسے مویشی ان کے منتظر ہوتے تھے۔ کسی سرکاری منصوبے کے بغیر زندگی چل رہی تھی لیکن یہ زندگی طاقتور اور جاندار لوگوں کی زندگی تھی جو کسی پہاڑی چشمے کے تالاب سے گھڑوں میں پانی بھر کر اوپر لے جاتے تھے یہ اتنا مشکل کام تھا کہ اب اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔
بات میں کاشتکاروں کی کر رہا تھا جن کے لیے اربوں روپوں کا ایک پیکیج منظور کیا گیا ہے جس میں سب سے زیادہ بینکوں کا کردار ہے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کاشتکاروں کو بینکوں کے بابو اس رقم کی ہوا ضرور لگوائیں گے۔ اگر حکومت نے ضد کی تو کاشتکاروں کی صورت میں مقروضوں کا ایک بھاری گروہ عمر بھر یہ قرضے اتارتا رہے گا۔
جس طرح یہ پوری قوم دنیا کے طاقتور مالی اداروں کے قرضے اتارتی رہے گی۔ بہرکیف یہ تو جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ میں اب ایک کاشتکار ہوں یا قلمکار۔ لاہور میں قلمکاری کرتے ہوئے اس بھروسے میں جیتا رہا کہ میرا ایک گاؤں ہے جہاں میرا گھر بار ہے اور جہاں کی زمین میری روٹی کی ذمے دار ہے۔ اب بھی جب گاؤں سے سبزی لاد کر ٹرک لاہور آتے ہیں تو کسی کونے کھدرے میں ایک آدھ بوری گندم بھی رکھ لیتے ہیں۔
اس طرح میں سال بھر کی ضرورت کی گندم گاؤں سے منگوا لیتا ہوں لیکن میرا گاؤں بارانی علاقے میں ہے اور کسی سال موقع پر بارش نہ ہو تو پھر اس سال گندم کی چھٹی۔ بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے یہ پیکیج دیکر مجھے ایک دکان پر بھی بٹھا دیا ہے جس میں میرے پاس ترازو ہے تکڑی ہے اور قلم بھی ہے۔ اسی قلم سے میں ادھار کے کھاتے بھی نقل کرتا ہوں اور بیچ میں فرصت پا کر کالم کی چند سطریں بھی گھسیٹ لیتا ہوں۔ میں نے کالم نویسی سے تھک کر لاہور میں اپنے واحد ہمدرد ساتھی مجیب شامی سے جب ذکر کیا کہ میں اب کالم کاری چھوڑنا چاہتا ہوں تو جواب میں انھوں نے زبانی کلامی جوتا اٹھایا ضرور مگر ایک سخت تقریر پر بات یک طرفہ ختم کر دی اور میں نے پھر سے قلم اٹھا لیا کہ میری ذات تک شامی جو کہتا اور سوچتا ہے وہ درست ہے۔
تو میں نے عرض کیا ہے کہ میاں صاحب کے اس کاشتکاری منصوبے نے مجھے قلمکاری کا چھوڑا ہے نہ کاشتکاری کا۔ میں نہ زمیندار ہوں اور نہ ہی قلمکار۔ اس کا بدلہ میں میاں صاحب سے لوں گا لیکن اس دعا کے ساتھ کہ ان کے منصوبے سے کاشتکار بچ جائیں۔
ابھی اتنی سطریں ہی لکھی تھیں کہ دہشت گردی کی اطلاع ملی جس میں کیپٹن اسفند جیسے پاکستانی شہید ہو گئے۔ اب اس کے بعد کوئی کیا لکھ سکتا ہے۔ کل کیپٹن کا ذکر جس نے اپنی اعزازی تلوار کی عزت رکھی اور اس بیٹی سے اظہار ہمدردی جو جلد ہی اسفند کی دلہن بن رہی تھی۔ اللہ سب کا محافظ ہے۔
ہمارے کشادہ دل اور شاہ خرچ وزیر اعظم نے جو اپنے اوپر اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں اس بار کاشتکاروں کے لیے اربوں روپوں کا ایک پیکیج منظور کیا ہے جس کا اعلان انھوں نے بڑے طمطراق کے ساتھ کرایا ہے۔ ہمارے آپ کے دیکھتے دیکھتے زمانہ کتنا بدل گیا ہے، کبھی بات زیادہ سے زیادہ لاکھوں میں کی جاتی تھی، جب لاکھوں کا رعب داب کم ہوا تو کروڑوں میں بات کی جانے لگی پھر کروڑوں پر بھی زوال آیا تو اب بات اربوں کھربوں میں کی جاتی ہے لیکن جو برکت لاکھوں میں تھی وہ اربوں میں بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہمارے دل نیک اور صاف نہیں رہے اور ہمارے کاموں سے برکت اٹھ گئی ہے۔
بہرکیف وزیر اعظم نے اس بار کاشتکاروں کا کھلے دل سے ذکر کیا ہے اور ان کے لیے مختلف قسم کی مراعات اربوں تک پہنچا دی ہیں جو کاشتکاروں کی قسمت نے ساتھ دیا تو ان کے وارے نیارے کر دیں گی۔ جناب وزیر اعظم خود چونکہ کاشتکار نہیں ایک تاجر ہیں اس لیے انھوں نے کسانوں کے لیے مراعات کو تاجرانہ رنگ دیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ کاشتکار ہل نہیں چلاتا دکانداری کرتا ہے اور ہل کی جگہ ترازو کو ہاتھ میں رکھتا ہے۔
جناب وزیر اعظم کے اس انقلابی کسان منصوبے کو دیکھ کر میں ذاتی طور پر ایک مخمصے کا شکار ہو گیا ہوں۔ یوں تو میں مدت سے لاہور جیسے غیر زرعی شہر میں مقیم ہوں لیکن اپنے آپ کو ہمیشہ ایک کاشتکار سمجھتا رہا جو ہل کی جگہ قلم چلاتا ہے اور کاشتکار نہیں قلمکار ہے۔ اس بھاری بھرکم زرعی منصوبے کو دیکھ کر مجھے یوں لگا ہے کہ میں میز کرسی چھوڑ کر کسی دکان پر بیٹھ گیا ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں ہمارے ہاں کے ہندو دکاندار اپنی دکان میں کس طرح جم کر بیٹھتے تھے اور اپنے دائیں بائیں وہ تمام اشیاء رکھ لیتے تھے جو کاشتکاروں کی روزمرہ کی ضرورت ہوتی ہیں۔
ان اشیاء میں سب سے اہم ایک ٹوپہ ہوتا تھا جو گندم باجرے کے دانوں سے بھر جاتا تھا تو اس کی ایک قیمت طے شدہ بن جاتی تھی۔ ٹوپے کے ساتھ ایک چھوٹا سا پیمانہ پڑوپی بھی ہوا کرتی تھی۔
میں خالص دیہی پنجابی زبان میں بات کر کے آپ کو پریشان کر رہا ہوں۔ بس یوں سمجھیے کہ کاشتکاروں کے دانے اس ٹوپے اور پڑوپی کے ذریعے اپنی قیمت طے کرتے تھے اور چاچا انوکھا رام اپنے علاوہ ان کاشتکاروں کو بھی خوش رکھتے تھے، چاچا انوکھا میرے گاؤں کا سب سے بڑا دکاندار تھا جس کا بیٹا کلکتے میں بھی کاروبار کرتا تھا۔ میاں صاحب نے جو کچھ یاد دلایا ہے میں اس کا ذکر کرنے لگوں تو کتابیں بن جائیں۔ ہمارے ہی گاؤں کے ایک تاجر شام داس تھے وہ کاروبار کسی دوسرے شہر میں کرتے تھے مگر یوں لگتا ہے کہ منافع کا بڑا حصہ اپنے گاؤں پر خرچ کر دیتے تھے۔
اس بارانی علاقے میں انھوں نے اپنے گاؤں میں عوام کے لیے کنوئیں کھدوائے، پہاڑوں سے جہاں کوئی چشمہ نکلتا تھا وہ اس کے سامنے ایک تالاب سا بنا دیتے تھے اور اس گہرے تالاب میں سے نوجوان پانی بھر کر سیڑھیوں کے ذریعے اوپر لے جاتے جہاں ان کے پیاسے مویشی ان کے منتظر ہوتے تھے۔ کسی سرکاری منصوبے کے بغیر زندگی چل رہی تھی لیکن یہ زندگی طاقتور اور جاندار لوگوں کی زندگی تھی جو کسی پہاڑی چشمے کے تالاب سے گھڑوں میں پانی بھر کر اوپر لے جاتے تھے یہ اتنا مشکل کام تھا کہ اب اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔
بات میں کاشتکاروں کی کر رہا تھا جن کے لیے اربوں روپوں کا ایک پیکیج منظور کیا گیا ہے جس میں سب سے زیادہ بینکوں کا کردار ہے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کاشتکاروں کو بینکوں کے بابو اس رقم کی ہوا ضرور لگوائیں گے۔ اگر حکومت نے ضد کی تو کاشتکاروں کی صورت میں مقروضوں کا ایک بھاری گروہ عمر بھر یہ قرضے اتارتا رہے گا۔
جس طرح یہ پوری قوم دنیا کے طاقتور مالی اداروں کے قرضے اتارتی رہے گی۔ بہرکیف یہ تو جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ میں اب ایک کاشتکار ہوں یا قلمکار۔ لاہور میں قلمکاری کرتے ہوئے اس بھروسے میں جیتا رہا کہ میرا ایک گاؤں ہے جہاں میرا گھر بار ہے اور جہاں کی زمین میری روٹی کی ذمے دار ہے۔ اب بھی جب گاؤں سے سبزی لاد کر ٹرک لاہور آتے ہیں تو کسی کونے کھدرے میں ایک آدھ بوری گندم بھی رکھ لیتے ہیں۔
اس طرح میں سال بھر کی ضرورت کی گندم گاؤں سے منگوا لیتا ہوں لیکن میرا گاؤں بارانی علاقے میں ہے اور کسی سال موقع پر بارش نہ ہو تو پھر اس سال گندم کی چھٹی۔ بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے یہ پیکیج دیکر مجھے ایک دکان پر بھی بٹھا دیا ہے جس میں میرے پاس ترازو ہے تکڑی ہے اور قلم بھی ہے۔ اسی قلم سے میں ادھار کے کھاتے بھی نقل کرتا ہوں اور بیچ میں فرصت پا کر کالم کی چند سطریں بھی گھسیٹ لیتا ہوں۔ میں نے کالم نویسی سے تھک کر لاہور میں اپنے واحد ہمدرد ساتھی مجیب شامی سے جب ذکر کیا کہ میں اب کالم کاری چھوڑنا چاہتا ہوں تو جواب میں انھوں نے زبانی کلامی جوتا اٹھایا ضرور مگر ایک سخت تقریر پر بات یک طرفہ ختم کر دی اور میں نے پھر سے قلم اٹھا لیا کہ میری ذات تک شامی جو کہتا اور سوچتا ہے وہ درست ہے۔
تو میں نے عرض کیا ہے کہ میاں صاحب کے اس کاشتکاری منصوبے نے مجھے قلمکاری کا چھوڑا ہے نہ کاشتکاری کا۔ میں نہ زمیندار ہوں اور نہ ہی قلمکار۔ اس کا بدلہ میں میاں صاحب سے لوں گا لیکن اس دعا کے ساتھ کہ ان کے منصوبے سے کاشتکار بچ جائیں۔
ابھی اتنی سطریں ہی لکھی تھیں کہ دہشت گردی کی اطلاع ملی جس میں کیپٹن اسفند جیسے پاکستانی شہید ہو گئے۔ اب اس کے بعد کوئی کیا لکھ سکتا ہے۔ کل کیپٹن کا ذکر جس نے اپنی اعزازی تلوار کی عزت رکھی اور اس بیٹی سے اظہار ہمدردی جو جلد ہی اسفند کی دلہن بن رہی تھی۔ اللہ سب کا محافظ ہے۔