کمال کا ملک ہے
ملک پاکستان ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، گزشتہ تقریباً 44 سالوں سے جو لفظوں سے تاج محل تعمیر کرتے ہیں
ملک پاکستان ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، گزشتہ تقریباً 44 سالوں سے جو لفظوں سے تاج محل تعمیر کرتے ہیں اور ان میں سرفہرست یہ حکومت بھی ہے ۔ بہت تعریفیں سابق صدرکی ٹی وی اینکرز کرتے نہیں تھکتے بلکہ انھیں ''سر مفاہمت'' کا خطاب دلوانے میں مصروف ہیں مگر کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ یہ مفاہمت کس قیمت پر تھی؟ ملک کی قیمت پر اس کا کیا حال ہوا ، پانچ سال پورے کرلیے ''اپنے'' ملک کہاں پہنچ گیا۔ ان کا سبق یہ بھی دہرا رہے ہیں اور پانچ سال پورے کرنے کا عزم ہے کس قیمت پر؟ اسی قیمت پر بلکہ اس سے زیادہ قیمت پر، بھارت کی شورش جاری ہے مہر بہ لب ہیں۔
چھوٹے موٹے درباری گیدڑ دھمکیاں دے رہے ہیں قوم خوش ہے اس ملک میں ضیا الحق کے فرزند بھی ملک پر اپنے باپ کا احسان جتاتے ہیں، یہ کوئی نئی بات ہیں ہے گوادر واپس لیا تھا فیروز خان نون نے وزیر اعظم پاکستان اور نام وہ کردیا گیا ایوب خان کے نام کارنامہ، یہ تاریخ نویسی ''درباری'' سرکاری سے زیادہ۔ ملک کو برباد کرنے کی اینٹ اگر سکندر مرزا نے اور ایوب خان نے رکھی تھی تو دیوار مکمل ضیا الحق نے کی تھی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ملک کی ترقی کے منصوبے ایوب خان اور ان کے بعد پرویز مشرف نے دیے اور کامیاب رہے۔
سیاسی قد وکاٹھ کے اعتبار سے تو لوگ پدرم سلطان بود کے مقولے پر دیکھ لیں تو بھٹو کو ایوب سے طاقت ملی اور نواز شریف کو ضیا الحق سے۔ نواز شریف نے پاکستان پیپلزپارٹی کو اس وقت ''دفن'' کرکے ''مسلم لیگ'' کا ''مردہ'' زندہ کردیا تھا جو وقت کی ضرورت تھی کیونکہ بھٹو کے بعض اقدام ''مفاد عامہ'' کے خلاف تھے۔ لہٰذا ''رائے عامہ ''ان کے خلاف تھی۔ یہ سب کچھ سرکاری یادداشتوں کا ایک حصہ ہے۔
کہیں میں نے اور پڑھا تھا کہ کہا گیا کہ کاروبار میرا حق ہے۔ کس نے کہا یہ یاد نہیں ۔ ملک کے فرائض ملک کے طور پر اور ملک کے خزانے سے انجام دیں اور اپنا کاروبار ، اپنے خزانے سے مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ پانچ ہزار کا Taxریکارڈ سے نکل نہیں سکتا اور یوں دیانت داری پر سوالیہ نشان لگا رہے گا۔ الزام ہم نہیں لگا رہے صرف سوالیہ نشان کا سوال ہے۔ اخبار کا اشتہار ہے میرے پاس 13 اگست کا جو اس دلچسپ دھوکے کو بیان کر رہا ہے اس کیمطابق 2014 میں اکتوبر میں .4795 فی یونٹ کمی ہوئی۔
نومبر 2.9672، دسمبر 3.2426، جنوری 2015، 2.084 ، فروری 4.4260، مارچ 3.62، اپریل1.86، مئی2.68 یوں سادہ حساب سے بھی لگتا ہے کہ شاید بجلی فری ہوگئی ہے ملک میں ایندھن اور بجلی پیدا کرنیوالے اداروں کو ادائیگیاں بہت بڑھ گئی ہیں، اور اس کے تیسرے حصے میں لوڈ شیڈنگ میں کمی کا چارٹ ہے جس کیمطابق16866 میگاواٹ کی ریکارڈ پیداوار ہو رہی ہے اور فوائد کے ضمن میں تجارتی سرگرمیوں کا فروغ، روزگار کے مواقعے، صنعتی پیداوار میں اضافہ اور عوام کے لیے ریلیف لکھا گیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے وقت میں کمی کا بھی چارٹ دیا گیا ہے۔
جو بالکل غلط ہے لوڈ شیڈنگ کم نہیں ہوئی وہی حال ہے یا بدتر حال ہے۔ یہ سب کس کے لیے ہے پڑھے لکھے اعتراض کرنے والوں کے لیے یہ سنہری جھلکیاں ہیں مگر کسی ایکسپرٹ سے اگر اس کا حساب کتاب کروایا جائے تو سارا پول کھل جائے گا۔ عوام کے ہاتھ میں تو وہی پنکھا ہے اور چھت کا پنکھا بند ہے۔بجلی کا محکمہ جو سارے پاکستان کے لوگوں کو ''چور'' قرار دیتا ہے خود کتنا ''باکردار'' ہے۔ کتنے اس محکمے کے لوگ ''پکڑے'' گئے بڑے بڑے ''جغادری'' تو اب بھی عیش کر رہے ہیں اور ان کی بجلی بند نہیں ہے۔ ''دھرنا'' پورا ہوا۔ اب دھرنے کے فوائد مل رہے ہیں، سیاسی باقی کا تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے جب تک علم نہ ہو ہمیں مگر خاصا ''مک مکا'' نظر آتا ہے دونوں پارٹیوں میں اور یہ ''گھن گرج'' سیاسی ہی لگتی ہے۔
بہت کمال کا ملک ہے ہمارا ایک طرف سیلاب آرہا تھا علاقے ڈوب رہے تھے اور ڈگری کی نہر میں پانی کی کمی کے خلاف آباد گار مظاہرہ کر رہے تھے۔ درخت بے دھڑک کاٹے گئے۔ عمران خان نے سالوں ''ٹمبر مافیا'' کو برداشت کیا، کیوں؟ کیا جانتے نہیں تھے؟ یا کہنا نہیں چاہتے تھے کیوں؟ بہت سے 'کیوں؟'' ہیں عوام کے پاس اور عوام کی بات کرنیوالے ہم جیسے لوگوں کے پاس، مگر ان سیاسی لیڈروں کے پاس صرف ''بیانات، تردید ، پریس ریلیز، جلسے جلوس، کے علاوہ کچھ نہیں ''سیاسی طاقت کا مظاہرہ'' لوگ اکٹھے کر لینا،یہ تو بہت طریقوں سے اکٹھے ہوجاتے ہیں ملک میں بے روزگاری ہے۔
کوئی کام تو کرے گا بندہ پیٹ بھرنے کو اس کا ثبوت جلسوں کے بعد کھانے کے ''عوامی مناظر'' سے ملتا ہے۔ تو ملک کے اوپر کے حصوں میں سیلاب اور ملک کے میدانی علاقوں میں ''خشک سالی'' بیک وقت دو منظر دونوں ایک دوسرے سے متضاد، کمال کے سیاستدان ہیں کراچی میں امن قائم ہو رہا ہے اور رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ (خدا انھیں صحت یاب رکھے) اسی فورس کی موجودگی میں جو روزانہ دو چار دہشتگرد کراچی سے پکڑ لیتی ہے اور پھر جب بڑے ''کیکڑوں'' کی طرف اس فورس نے ہاتھ بڑھایا تو سارے لوگ ناراض بقول شخصے کہتے ہیں کہ ''آپ اپنا کام کرو سارا شہر آپ کو دے دیا ہے آپ ہمارا ''گیم'' کیوں خراب کر رہے ہو ایسی ہی بات ایک اور جماعت نے کچھ اور لفظوں میں کی تھی کہ ہمارا اظہار رائے کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے تب اس پارٹی نے اس پارٹی کی کوئی مدد نہیں کی۔ اب خورشید شاہ بعض ایسے امور پر قوم سے معافی مانگ رہے ہیں۔
جن میں ان کی شمولیت تھی بحیثیت قائد حزب اختلاف اور وہ بیل منڈے نہیں چڑھی اور سارا ''دودھ پانی'' الگ ہو گیا تو شاہ صاحب کو کوئی کہہ دے کہ It is too late ہاں سابق صدر کے معاملے پر شاید آپ کی پارٹی کو سرگرم ہونے سے روکنے کے لیے شاید موجودہ حکومت کوئی ''سبیل'' کرلے ابتدا مولانا نے کردی ہے بہت کمال کے آدمی ہیں سب کے ساتھ ''اتحاد'' کے داعی ہیں ہمیشہ سے بس ان کا ''کام'' چلتا رہے۔
قوم وہیں ہے بلکہ اور نیچے زوال پذیر ہے مہنگائی روکنے، قیمتوں کے استحکام کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، کیوں؟ یہ ایک اور کیوں کا جواب ہے کہ آخر کاروبار بھی تو کرنا ہے خود اگر سیاست کریں گے تو خاندان کاروبار کرے گا، اس مقام کے طفیل جو اس عوام نے دیا ہے جس کے سر پر ٹوپی ہے، نہ پیر میں جوتی اور نہ پیٹ میں روٹی۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام اب یوں سوچنے لگے ہیں اور اظہار بھی کرنے لگے ہیں کہ سیاست اور جمہوریت کا نام ''بھوک'' ہے جو عوام کا مقدر بنے تو اس جمہوریت اور سیاست سے مردہ نظام بہتر ہے جس میں عوام کو پیٹ بھر روٹی سر چھپانے کو چھت اور تحفظ مل جائے جو کسی بھی پارٹی نے آج تک پاکستان کے عوام کو نہیں دیا اگر دیا تو جھوٹے وعدے اور جھوٹے نعرے، ہر چکی میں کون پس رہا ہے؟ عوام!
چھوٹے موٹے درباری گیدڑ دھمکیاں دے رہے ہیں قوم خوش ہے اس ملک میں ضیا الحق کے فرزند بھی ملک پر اپنے باپ کا احسان جتاتے ہیں، یہ کوئی نئی بات ہیں ہے گوادر واپس لیا تھا فیروز خان نون نے وزیر اعظم پاکستان اور نام وہ کردیا گیا ایوب خان کے نام کارنامہ، یہ تاریخ نویسی ''درباری'' سرکاری سے زیادہ۔ ملک کو برباد کرنے کی اینٹ اگر سکندر مرزا نے اور ایوب خان نے رکھی تھی تو دیوار مکمل ضیا الحق نے کی تھی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ملک کی ترقی کے منصوبے ایوب خان اور ان کے بعد پرویز مشرف نے دیے اور کامیاب رہے۔
سیاسی قد وکاٹھ کے اعتبار سے تو لوگ پدرم سلطان بود کے مقولے پر دیکھ لیں تو بھٹو کو ایوب سے طاقت ملی اور نواز شریف کو ضیا الحق سے۔ نواز شریف نے پاکستان پیپلزپارٹی کو اس وقت ''دفن'' کرکے ''مسلم لیگ'' کا ''مردہ'' زندہ کردیا تھا جو وقت کی ضرورت تھی کیونکہ بھٹو کے بعض اقدام ''مفاد عامہ'' کے خلاف تھے۔ لہٰذا ''رائے عامہ ''ان کے خلاف تھی۔ یہ سب کچھ سرکاری یادداشتوں کا ایک حصہ ہے۔
کہیں میں نے اور پڑھا تھا کہ کہا گیا کہ کاروبار میرا حق ہے۔ کس نے کہا یہ یاد نہیں ۔ ملک کے فرائض ملک کے طور پر اور ملک کے خزانے سے انجام دیں اور اپنا کاروبار ، اپنے خزانے سے مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ پانچ ہزار کا Taxریکارڈ سے نکل نہیں سکتا اور یوں دیانت داری پر سوالیہ نشان لگا رہے گا۔ الزام ہم نہیں لگا رہے صرف سوالیہ نشان کا سوال ہے۔ اخبار کا اشتہار ہے میرے پاس 13 اگست کا جو اس دلچسپ دھوکے کو بیان کر رہا ہے اس کیمطابق 2014 میں اکتوبر میں .4795 فی یونٹ کمی ہوئی۔
نومبر 2.9672، دسمبر 3.2426، جنوری 2015، 2.084 ، فروری 4.4260، مارچ 3.62، اپریل1.86، مئی2.68 یوں سادہ حساب سے بھی لگتا ہے کہ شاید بجلی فری ہوگئی ہے ملک میں ایندھن اور بجلی پیدا کرنیوالے اداروں کو ادائیگیاں بہت بڑھ گئی ہیں، اور اس کے تیسرے حصے میں لوڈ شیڈنگ میں کمی کا چارٹ ہے جس کیمطابق16866 میگاواٹ کی ریکارڈ پیداوار ہو رہی ہے اور فوائد کے ضمن میں تجارتی سرگرمیوں کا فروغ، روزگار کے مواقعے، صنعتی پیداوار میں اضافہ اور عوام کے لیے ریلیف لکھا گیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے وقت میں کمی کا بھی چارٹ دیا گیا ہے۔
جو بالکل غلط ہے لوڈ شیڈنگ کم نہیں ہوئی وہی حال ہے یا بدتر حال ہے۔ یہ سب کس کے لیے ہے پڑھے لکھے اعتراض کرنے والوں کے لیے یہ سنہری جھلکیاں ہیں مگر کسی ایکسپرٹ سے اگر اس کا حساب کتاب کروایا جائے تو سارا پول کھل جائے گا۔ عوام کے ہاتھ میں تو وہی پنکھا ہے اور چھت کا پنکھا بند ہے۔بجلی کا محکمہ جو سارے پاکستان کے لوگوں کو ''چور'' قرار دیتا ہے خود کتنا ''باکردار'' ہے۔ کتنے اس محکمے کے لوگ ''پکڑے'' گئے بڑے بڑے ''جغادری'' تو اب بھی عیش کر رہے ہیں اور ان کی بجلی بند نہیں ہے۔ ''دھرنا'' پورا ہوا۔ اب دھرنے کے فوائد مل رہے ہیں، سیاسی باقی کا تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے جب تک علم نہ ہو ہمیں مگر خاصا ''مک مکا'' نظر آتا ہے دونوں پارٹیوں میں اور یہ ''گھن گرج'' سیاسی ہی لگتی ہے۔
بہت کمال کا ملک ہے ہمارا ایک طرف سیلاب آرہا تھا علاقے ڈوب رہے تھے اور ڈگری کی نہر میں پانی کی کمی کے خلاف آباد گار مظاہرہ کر رہے تھے۔ درخت بے دھڑک کاٹے گئے۔ عمران خان نے سالوں ''ٹمبر مافیا'' کو برداشت کیا، کیوں؟ کیا جانتے نہیں تھے؟ یا کہنا نہیں چاہتے تھے کیوں؟ بہت سے 'کیوں؟'' ہیں عوام کے پاس اور عوام کی بات کرنیوالے ہم جیسے لوگوں کے پاس، مگر ان سیاسی لیڈروں کے پاس صرف ''بیانات، تردید ، پریس ریلیز، جلسے جلوس، کے علاوہ کچھ نہیں ''سیاسی طاقت کا مظاہرہ'' لوگ اکٹھے کر لینا،یہ تو بہت طریقوں سے اکٹھے ہوجاتے ہیں ملک میں بے روزگاری ہے۔
کوئی کام تو کرے گا بندہ پیٹ بھرنے کو اس کا ثبوت جلسوں کے بعد کھانے کے ''عوامی مناظر'' سے ملتا ہے۔ تو ملک کے اوپر کے حصوں میں سیلاب اور ملک کے میدانی علاقوں میں ''خشک سالی'' بیک وقت دو منظر دونوں ایک دوسرے سے متضاد، کمال کے سیاستدان ہیں کراچی میں امن قائم ہو رہا ہے اور رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ (خدا انھیں صحت یاب رکھے) اسی فورس کی موجودگی میں جو روزانہ دو چار دہشتگرد کراچی سے پکڑ لیتی ہے اور پھر جب بڑے ''کیکڑوں'' کی طرف اس فورس نے ہاتھ بڑھایا تو سارے لوگ ناراض بقول شخصے کہتے ہیں کہ ''آپ اپنا کام کرو سارا شہر آپ کو دے دیا ہے آپ ہمارا ''گیم'' کیوں خراب کر رہے ہو ایسی ہی بات ایک اور جماعت نے کچھ اور لفظوں میں کی تھی کہ ہمارا اظہار رائے کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے تب اس پارٹی نے اس پارٹی کی کوئی مدد نہیں کی۔ اب خورشید شاہ بعض ایسے امور پر قوم سے معافی مانگ رہے ہیں۔
جن میں ان کی شمولیت تھی بحیثیت قائد حزب اختلاف اور وہ بیل منڈے نہیں چڑھی اور سارا ''دودھ پانی'' الگ ہو گیا تو شاہ صاحب کو کوئی کہہ دے کہ It is too late ہاں سابق صدر کے معاملے پر شاید آپ کی پارٹی کو سرگرم ہونے سے روکنے کے لیے شاید موجودہ حکومت کوئی ''سبیل'' کرلے ابتدا مولانا نے کردی ہے بہت کمال کے آدمی ہیں سب کے ساتھ ''اتحاد'' کے داعی ہیں ہمیشہ سے بس ان کا ''کام'' چلتا رہے۔
قوم وہیں ہے بلکہ اور نیچے زوال پذیر ہے مہنگائی روکنے، قیمتوں کے استحکام کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، کیوں؟ یہ ایک اور کیوں کا جواب ہے کہ آخر کاروبار بھی تو کرنا ہے خود اگر سیاست کریں گے تو خاندان کاروبار کرے گا، اس مقام کے طفیل جو اس عوام نے دیا ہے جس کے سر پر ٹوپی ہے، نہ پیر میں جوتی اور نہ پیٹ میں روٹی۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام اب یوں سوچنے لگے ہیں اور اظہار بھی کرنے لگے ہیں کہ سیاست اور جمہوریت کا نام ''بھوک'' ہے جو عوام کا مقدر بنے تو اس جمہوریت اور سیاست سے مردہ نظام بہتر ہے جس میں عوام کو پیٹ بھر روٹی سر چھپانے کو چھت اور تحفظ مل جائے جو کسی بھی پارٹی نے آج تک پاکستان کے عوام کو نہیں دیا اگر دیا تو جھوٹے وعدے اور جھوٹے نعرے، ہر چکی میں کون پس رہا ہے؟ عوام!