گلدستہ شاہد احمد دہلوی

’’ساقی‘‘ نے اردو کے قدردانوں سے جو مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’’ساقی‘‘ سے تعاون کرکے اردو زبان کی ترقی کا فرض ادا کریں

جنوری 1930 میں شاہد احمد دہلوی نے ''ساقی'' کے نام سے ایک ماہنامہ دہلی سے نکالا تو اس کا مقصد ''ملک میں پاکیزہ ادب کا ذوق پیدا کرنا اور اہل وطن کو زبان اردو کی قدردانی کی طرف مائل کرنا تھا۔ ''نگاہ اولیں'' کے عنوان سے اپنے پہلے اداریے میں انھوں نے لکھا۔ ''ہمارا نصب العین یہ ہے کہ ''ساقی'' ایک ایسا رسالہ ہو کہ ہر شخص اس کا مطالعہ کرکے محظوظ ہو۔ ''ساقی'' خالصتاً ایک ادبی اور علمی رسالہ ہوگا۔ سیاست اور مذہبی منافقتوں سے اسے کوئی سروکار نہ ہوگا اور اس میں صرف وہ مضامین درج کیے جائیں گے جو معیار ادب پر پورے اتریں گے۔''واقعہ یہ ہے کہ اپنی پہلی اشاعت سے 1947 کے وسط میں اپنی آخری اشاعت تک ''ساقی'' نے اس عہد کو پورا کیا۔

''ساقی'' نے اردو کے قدردانوں سے جو مطالبہ کیا تھا کہ وہ ''ساقی'' سے تعاون کرکے اردو زبان کی ترقی کا فرض ادا کریں تو انھوں نے بھی اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ اس کا اظہار ''ساقی'' میں شایع ہونیوالے منتخب اداریوں، تحریروں، خاکوں اور مضامین سے ہوتاہے جو راشد اشرف نے اپنی کتاب ''گلدستۂ شاہد احمد دہلوی'' میں شامل کیے ہیں، اسے بھی زبان اردو کی ایک خدمت سمجھنا چاہیے۔

''ساقی'' کی ایک مقصد میں کامیابی شاہد احمد دہلوی کے خلوص اور محنت کا نتیجہ تھی، ان کا تعلق ایک بڑے ادبی گھرانے سے تھا جس کی زبان اردو کے لیے خدمات معروف تھیں۔

راشد اشرف نے جو کتاب مرتب کی ہے اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ''شاہد احمد دہلوی بلاشبہ ادیب گر تھے۔ ایک کتاب میں ان جیسی عبقری شخصیت کو قید کرنا نا ممکن تھا تاہم اس میں شامل تحریروں سے ان کی شخصیت، ادب، ذہنی رجحان اور سوچ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، خاص طور پر شاہد احمد دہلوی پر لکھے گئے خاکوں اور خود ''ساقی'' میں چھپنے والی ان کی تحریروں سے ان کے مزاج کردار اور جد وجہد کا بہت کچھ اندازہ ہوجاتا ہے۔

''ساقی'' کے اجرا کو نو سال پورے ہوئے تو دسویں سال میں قدم رکھنے پر شاہد احمد دہلوی نے اپنے اداریے ''نگاہ اولیں'' میں اس ماہنامے کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ لکھتے ہیں ''ساقی'' میں اس بات پر زیادہ زور دیاگیا کہ ہمارا ادب زندگی کا آئینہ دار ہو۔ افسانوں میں اس کا اہتمام بہ طور خاص کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ''ساقی'' میں جو افسانے شایع ہوئے انھیں زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، شاعری کی طرح افسانہ بھی انقلابات برپا کرسکتا ہے، حسن و عشق کے قصے روح کو تسکین دے سکتے ہیں، اس حد تک بھی کہ روح کو سلادیں لیکن آج ہمیں رلانیوالی شاعری اور سلانیوالے افسانوں کی ضرورت نہیں ہے ہمیں ایسی شاعری اور ایسے ادب کی ضرورت ہے جو ہمارے خفتہ احساسات کو بیدار کردے، جو ہمیں آمادہ پیکار کردے، زندگی کے بے شمار مسائل محتاج غور ہیں جو ہمارے افسانوں کے موضوع بن سکتے ہیں۔''

راشد اشرف نے اپنی کتاب میں جوخاکے شامل کیے ہیں وہ شاہد احمد دہلوی کی نجی زندگی، ان کے کردار، ان کی دلچسپیوں پر روشنی ڈالتے ہیں کہ یہ ان کی بیوی، بیٹے اور بے تکلف دوستوں کے لکھے ہوئے ہیں، شاہد کی بیوی عاصمہ لکھتی ہیں ''شاہد صاحب بہت صابر و حوصلہ مند آدمی تھے، وہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا جانتے تھے، پست ہمت ہونا انھوں نے سیکھا ہی نہ تھا، وہ بلند عزائم، پختہ ارادے کے مالک تھے، لباس میں، گفتار میں، کھانے پینے میں وہ سادگی پسند کرتے تھے، ٹھاٹ باٹ کا تو ذکر ہی کیا۔ تضع اور بناوٹ سے متنفر تھے۔


محمود احمد شاہد کے بیٹے ہیں۔ انھیں جب باپ کی یاد آتی ہے تو ماضی کے سب دروازے وا ہوجاتے ہیں۔ ''ابا کے کمرے میں دوپہر کو حسن عسکری بڑی بہن کو فرانسیسی کا سبق دیتے نظر آتے ہیں، کہیں غلام عباس، جمیل جالبی، اسلم فرخی اور ابا تنقید، ادب اور افسانہ نگاری پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، شام کو گانے کی محفل کی تیاریوں میں گھرکی عورتیں دری، چاندنی بچھاتی اورگاؤ تکیے رکھتی نظر آتی ہیں۔ استاد بندوخاں، استاد رمضان خاں، استاد نصیر خاں کے چہرے ذہن میں ابھرتے ہیں، طبلہ، سارنگی اورگویئے کی جگل بندی کی آوازیں کانوں میں رس گھولتی ہیں، سامعین واہ واہ کرتے، لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔ اب صبح ہونے کو ہے، محفل برخواست ہو جاتی ہے، سازندے اور مہمان رخصت ہونے لگتے ہیں''

فضل حق قریشی دوستوں کے اس حلقے میں شامل تھے جو شاہد احمد دہلوی کے گرد گردش کرتا تھا۔ انھوں نے اپنے مضمون میں ان محفلوں کا ذکرکیا ہے جن میں کبھی ادب پر بحث ہوتی، کبھی راگ ورنگ کے سماں بندھتے اورکبھی محض خوش گپیوں میں شام سے صبح ہوجاتی، ایک وقت وہ تھا جب ہر رات محفل موسیقی سجتی، ہارمونیم بجتا، طبلے ٹھنکتے، پھر جب شاہد کی زیادہ توجہ پکے گانے کی طرف مبذول ہوئی اور وہ غزل گانے کو تضیع اوقات سمجھنے لگے تو دفتر ساقی میں شام کے وقت موسیقی کی محفلیں بالکل ختم ہو گئیں۔

فضل حق قریشی لکھتے ہیں ''ایک روز شاہد کو خیال آیا کہ ہم لوگ اپنی صحت کی طرف مطلقاً توجہ نہیں دے رہے اور ہمیں اس غفلت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، لہٰذا تجویز ہوئی کہ روزانہ شام کو ایک ڈیڑھ گھنٹے پہلوانوں کی طرح باقاعدہ کسرت ہوا کرے، چنانچہ ہر شخص اپنا اپنا لنگوٹ، تولیہ اور صابن لے آیا کسرت شروع ہوگئی، پھر تھکن ہونے لگی اور یہ مشغلہ ختم ہوگیا۔انصار ناصری جو بعد میں ریڈیو پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہوئے۔

سید حسام الدین راشدی سندھ کی ایک ممتاز علمی اور ادبی شخصیت ہیں ان کی نہ شاہد احمد دہلوی سے خط و کتابت تھی اور نہ انھوں نے ان کی کبھی تصویر دیکھی تھی لیکن ساقی کے روز اول سے قاری تھے اور اس رسالے میں ان کے ''شہد و شکر سے بھی زیادہ طرز نگارش'' پر عاشق تھے وہ 1939 میں دہلی گئے تو یہ ارادہ لے کر کہ شاہد سے ملیںگے لیکن یہ تو نہ ہوسکا لیکن ان کی چھاپی ہوئی تمام کتابیں انھوں نے اردو بازار سے خرید لیں، پاکستان بنا تو ساقی نے دم توڑدیا اور پھر ایک دن کسی نے کہا کہ شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے ہیں۔

حسام الدین راشدی لکھتے ہیں ''شاہد احمد سے میری ملاقات پہلی مرتبہ جب ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت ہی اچھے اور نفیس طبیعت کے انسان ہیں آواز مدھم اور بہت ملائم تھی اس میں قدرتی طور پر ایک رنگ رس تھا'' پھر جب ان سے ملاقات ہوگئی تو ملنا جلنا شروع ہوگیا کبھی دعوتوں میں، کبھی گلڈ کے جلسوں میں، کبھی کبھی راشد صاحب کے گھر پر بھی وہ آتے۔ لکھتے ہیں ''میں نے محسوس کیا کہ وہ متین اور سنجیدہ زیادہ ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ شروع ہی سے اس طرح تھے یا یہاں آکر غم روزگار نے انھیں ساکت اور ساکن بنادیا لیکن ویسے متانت اورسنجیدگی نے ان کی طبعی شگفتگی اور مزاجی نکھار کو ماند ہونے نہیں دیا تھا، مزیدار بات ہوتی تو وہ کھلکھلاکر قہقہہ بھی لگالیتے تھے اور یہ قہقہہ عام قہقہے سے کچھ مختلف ہوتا اس میں ایک خوشگوار پن اور ایک نغمگی ہوتی تھی۔''

شاہد احمد دہلوی کو کراچی میں وہ آسودگی تو کیا نصیب ہوتی جو دہلی میں تھی پورا وقت معاشی پریشانیوں ہی میں گزرا، بے قدری کے شکار ہوئے۔راشدی کو اس کا بہت دکھ تھا۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''کراچی بظاہر تو بہت ہی روشن، درخشاں اور زندوں کا شہر نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں یہ پاکستان کا سب سے بڑا قبرستان ہے ایک ایسا قبرستان جس میں اس پوری صدی کے جال، علمی، مشاہیر، قومی اور نامی اشخاص اس طرح خاک میں مل گئے کہ جب مسلمانوں کو ہوش آئے گا یہ خمار اترے گا اور وہ اس نقصان کی تلافی کرنے اٹھیںگے اس وقت افسوس کہ کسی ایک کا نام و نشان بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔ شاہد احمد بھی ان ہی مشاہیر میں سے تھے جن کے ساتھ پاکستان میں انصاف نہیں ہوا۔''
Load Next Story