تھوڑا ہولا ہاتھ رکھیں
کوئی پاگل ہے جو سڑک پرکھڑا ہوکر اپنا حق مانگتا ہے۔ وہ لوگ کیا جاہل ہوتے ہیں
کوئی پاگل ہے جو سڑک پرکھڑا ہوکر اپنا حق مانگتا ہے۔ وہ لوگ کیا جاہل ہوتے ہیں، جو اپنے مقصد کے لیے جدوجہدکرتے ہیں ۔انھیں کیا کوئی بیماری ہوتی ہے، جو اپنا کام کاج چھوڑ کر مظاہرے میں چلے جاتے ہیں ۔وہ لوگ کیا بے حس ہوتے ہیں جو اپنے ساتھیوں کو لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر بیٹھے رہتے ہیں ۔انھیں ہم کیا دہشت گرد کہیں گے جو انتہائی گرمی میں سورج کے سامنے کھڑے ہوکر نعرے لگا رہے ہوتے ہیں ۔کیا انھیں جاہل کہا جائے گا جو ہاتھوں میں پوسٹر لے کر سراپا احتجاج ہوں گے؟
کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ یہ کیوں سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ وہ کون سے حالات ہوتے ہیں جو ان کو اس حد تک لے آتے ہیں کہ یہ لاٹھیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ وہ کون سی ایسی مانگ ہوتی ہے جس کے ہاتھوں یہ لوگ اتنے مجبور ہو جاتے ہیں کہ پولیس کی گولیوں سے بھی نہیں ڈرتے ۔ ان کا دل کس بات سے جلا ہوتا ہے کہ وہ کسی کی بات پر اعتبار نہیں کر رہے ہوتے ہیں ۔ کیا تمام مظاہرہ کرنیوالے ،اپنا احتجاج کرنیوالے عیار اور جھوٹے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو تکلیف دینا ہوتا ہے ۔
کیا ہمیں بات یاد رہتی ہے کہ مظاہرے کی وجہ سے سڑک بند ہوگئی اور ہم پریشان ہوگئے ۔ تو کیا جو لوگ مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں وہ لوگ اپنی خوشی میں ناچتے ہوئے اس سڑک کو بندکر رہے ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ کیوں بتایا جاتا ہے کہ اسپتال میں ہڑتال کی وجہ سے پریشانی ہوگئی ۔ توکیا وہ لوگ جو احتجاج کررہے ہوتے ہیں اُن کو دلی خوشی ملتی ہے کہ وہ اس طرح پولیس کے دھکے کھا رہے ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کا اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا جمہوری روایت کے مطابق ہے ۔ پاکستان بنانیوالے رہنماؤں اور پاکستان پر سیاسی طور پر حکومت کرنیوالی تمام جماعتوں نے احتجاج کا حق استعمال کیا ،لیکن جب وہ حکومت میں ہوتی ہے تو اسی احتجاج کو پیروں تلے روندتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے ۔
کیا پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر دور میں اپنے مخالفین کے خلاف احتجاج نہیں کیا؟ مگر جب اساتذہ احتجاج کرتے ہیں تو وہ گولیاں برسانے سے بھی باز نہیں آتے ۔کیا اُن اساتذہ یا کسی کی بھی بات سُننے کی کوشش کی گئی ۔کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی یا پھر پرویز مشرف کے خلاف مظاہرے،ہڑتال یا احتجاج نہیں کیا ہے ؟ تو پھرکیوں وہ نابینا لوگوں کے مظاہرے اور ڈاکٹرز کے احتجاج کو غلط کہتی ہے اور جناب عزت مآب عمران خان نے ہڑتال اور مظاہرے اور دھرنے نہیں دیے ہیں ؟ تو پھرکیوں وہ بے گھرکیے جانے والے اُن لوگوں کے مظاہروں پر لاٹھیاں برساتی ہے جو اُن کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی لیبر یونینز،کسی ادارے کی فلاحی جماعت ،کسی محکمے کے ورکرزکے اتحاد یا پھر کسی محلے کی سطح پر ہونیوالے مظاہروں کو ہمیشہ دشمن کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے ۔
ان کے مطالبات اور ان کے مظاہروں کو عوام دشمن کیوں کہا جاتا ہے، اگر اساتذہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر پانی کی توپ کیوں چلا دی جاتی ہے ۔ ہمیشہ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹرزکی ہڑتال کی وجہ سے مریض مرگئے اور اُن ڈاکٹرز کا موقف شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ جس میں حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اسپتال کی ایمرجنسی ٹھیک طور پرکام کر رہی ہوتی ہے ۔ ان کی ہڑتال یا احتجاج صرف اور صرف اُن مریضوں کے لیے ہوتی ہے جہاں ایمرجنسی نہیں ہوتی ہے ۔ نقطہ یہ ہے کہ اصل مسئلے کے حل کی بجائے الزام تراشیاں کر کے ان چھوٹے چھوٹے گروپس کو اپنے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے یہ مثال لاہور کے ڈاکٹرز،اسلام آباد کے اسٹاف اورکراچی میں جناح اسپتال کے ورکرز کے احتجاج سے لی جاسکتی ہے ۔
آئیے پہلے ایک کا مسئلہ سنتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر صوبوں کو حقوق دینے کا دعویٰ کیا اورکہا یہ ہے کہ اٹھاریوں ترمیم کیمطابق اب بہت سارے محکمے صوبوں کے پاس ہوں گے جس میں صحت کا شعبہ بھی تھا ۔کراچی میں قائم سب سے بڑا سرکاری اسپتال جناح اسپتال ہے ۔
جو کہ اس سے پہلے وفاق کے ماتحت تھا ۔ عام طور پر کراچی میں ہونے والی کوئی بڑی ایمرجنسی یعنی دھماکا یا پھرگرمی میں زیادہ تر مریض اسی اسپتال میں لائے جاتے ہیں۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب جناح اسپتال کے معاملات صوبو ں کے حوالے ہونگے ۔ اس بات کو چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے ۔ مگر آپ کو حیرت ہو گی کہ اب تک اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوسکی ۔فائل ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں گھوم رہی ہے ۔
اسی دوران پنجاب میں وہاں کے ورکرز کو صحت کا الاؤنس نہیں مل رہا ہے ۔ اب آپ لطیفہ سُنیے کہ جو لوگ پورے کراچی کے لوگوں کو صحت کی سہولت فراہم کرتے ہیں ان کے پاس خود ہی صحت کا الاؤنس نہیں ہے۔ہمارے بڑے فیصلے کرتے نہیں ہے اور اگر فیصلے کرلیں تو انھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ نیچے عام آدمی کس چکی میں پستا ہے ۔ جب صحت کے محکمے کو صوبے کے حوالے کیا گیا تو یہاں کہ ملازمین کو تین سال کے لیے سندھ حکومت کے سپرد کر دیا گیا اور اس تین سال کو ختم ہوئے بھی ایک سال ہوچکا ہے ۔ جس کے بعد کوئی لیٹر جاری نہیں کیا گیا کہ ان ملازمین پر اب کس کا سکہ چلے گا۔ آخر ان ملازمین کا اسٹیٹس کیا ہے ۔ یہ لوگ سائیں سرکار کے خادم ہیں یا پھر ان پر وفاق کا سکہ چلے گا ۔
اب کہانی کا دوسرا حصہ دیکھیں کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تمام وفاقی ملازمین کو ہیلتھ الاوئنس دینے کا اعلان کیا تھا ۔ یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف آئے اس کے درمیان میں نگراں حکومت آئی اور پھر ڈھائی سال سے نواز شریف ہے ۔ان کا الاؤنس ابھی تک اُسی ڈبے میں ہے جس ڈبے میں گیلانی چھوڑکرگئے تھے ۔
سندھ کے ہیلتھ سیکریٹری چار سال سے انھیں کہہ رہے ہیں کہ بس اب تھوڑے دنوں میں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ وعدے بھی کیے گئے ۔ مگر وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ۔ چھ مہینے سے سمری سائیں قائم علی شاہ کی میز پر پڑی ہوئی ہے ۔مگرکون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ۔
وہاں آپ کسی سے بھی بات کریں وہ کہے گا کہ بس جلد ہی ہوجائے گا ۔ اس سے پہلے جب احتجاج کیا تو کہا گیا کہ لوگ احتجا ج ختم کردیں 15 دن میں آپ کا مسئلہ ہوجائے گا اوراس بات کو چارمہینے گزرگئے ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر صوبائی حکومت نہیں کرسکتی ہے تو وہ صاف طور پرکہہ دے کہ یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہو گا۔
ملازمین اس انتظار میں ہیں کہ شاید کسی طرح اُن کی ملازمت بھی پکی ہوجائے ۔ معاملہ الجھا ہوا ہے سندھ حکومت یہ کہتی ہے کہ ایک طرف یہ معاملہ عدالت میں بھی چل رہا ہے ۔
ہاں ، معاف کیجیے گا ۔اصل بات رہ گئی کہ کیا واقعی میں یہ لوگ اتنے ظالم ہیں کہ انھوں نے مریضوں کو مارنا شروع کردیا ہے ، جب کہ ایمرجنسی میں کام جاری ہے اور تمام مریضوں کو معمول کے مطابق دیکھا جا رہا ہے ، تو پھر یہ جو اطلاع آرہی ہے کہ 9 لوگ ہلاک ہوگئے اُس کی کیا حقیقت ہے ۔ یہ بھی پوری ایک سیاست ہے۔ اُسی طرح جس طرح ہرجگہ ہورہی ہے ۔
میں بھی کہاں سے کہاں نکل گیا ۔بات اتنی سی ہے کہ جو لوگ اپنے حق کے لیے نکلے ہیں وہ بھی ستائے ہوئے لوگ ہیں۔ ان پر جتنے پتھر پھینکیں گے سب لوٹ کر آپ کی طرف ہی آئیں گے۔اس لیے تھوڑا ہولا ہاتھ رکھیں ۔
کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ یہ کیوں سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ وہ کون سے حالات ہوتے ہیں جو ان کو اس حد تک لے آتے ہیں کہ یہ لاٹھیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ وہ کون سی ایسی مانگ ہوتی ہے جس کے ہاتھوں یہ لوگ اتنے مجبور ہو جاتے ہیں کہ پولیس کی گولیوں سے بھی نہیں ڈرتے ۔ ان کا دل کس بات سے جلا ہوتا ہے کہ وہ کسی کی بات پر اعتبار نہیں کر رہے ہوتے ہیں ۔ کیا تمام مظاہرہ کرنیوالے ،اپنا احتجاج کرنیوالے عیار اور جھوٹے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو تکلیف دینا ہوتا ہے ۔
کیا ہمیں بات یاد رہتی ہے کہ مظاہرے کی وجہ سے سڑک بند ہوگئی اور ہم پریشان ہوگئے ۔ تو کیا جو لوگ مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں وہ لوگ اپنی خوشی میں ناچتے ہوئے اس سڑک کو بندکر رہے ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ کیوں بتایا جاتا ہے کہ اسپتال میں ہڑتال کی وجہ سے پریشانی ہوگئی ۔ توکیا وہ لوگ جو احتجاج کررہے ہوتے ہیں اُن کو دلی خوشی ملتی ہے کہ وہ اس طرح پولیس کے دھکے کھا رہے ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کا اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا جمہوری روایت کے مطابق ہے ۔ پاکستان بنانیوالے رہنماؤں اور پاکستان پر سیاسی طور پر حکومت کرنیوالی تمام جماعتوں نے احتجاج کا حق استعمال کیا ،لیکن جب وہ حکومت میں ہوتی ہے تو اسی احتجاج کو پیروں تلے روندتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے ۔
کیا پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر دور میں اپنے مخالفین کے خلاف احتجاج نہیں کیا؟ مگر جب اساتذہ احتجاج کرتے ہیں تو وہ گولیاں برسانے سے بھی باز نہیں آتے ۔کیا اُن اساتذہ یا کسی کی بھی بات سُننے کی کوشش کی گئی ۔کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی یا پھر پرویز مشرف کے خلاف مظاہرے،ہڑتال یا احتجاج نہیں کیا ہے ؟ تو پھرکیوں وہ نابینا لوگوں کے مظاہرے اور ڈاکٹرز کے احتجاج کو غلط کہتی ہے اور جناب عزت مآب عمران خان نے ہڑتال اور مظاہرے اور دھرنے نہیں دیے ہیں ؟ تو پھرکیوں وہ بے گھرکیے جانے والے اُن لوگوں کے مظاہروں پر لاٹھیاں برساتی ہے جو اُن کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی لیبر یونینز،کسی ادارے کی فلاحی جماعت ،کسی محکمے کے ورکرزکے اتحاد یا پھر کسی محلے کی سطح پر ہونیوالے مظاہروں کو ہمیشہ دشمن کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے ۔
ان کے مطالبات اور ان کے مظاہروں کو عوام دشمن کیوں کہا جاتا ہے، اگر اساتذہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر پانی کی توپ کیوں چلا دی جاتی ہے ۔ ہمیشہ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹرزکی ہڑتال کی وجہ سے مریض مرگئے اور اُن ڈاکٹرز کا موقف شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ جس میں حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اسپتال کی ایمرجنسی ٹھیک طور پرکام کر رہی ہوتی ہے ۔ ان کی ہڑتال یا احتجاج صرف اور صرف اُن مریضوں کے لیے ہوتی ہے جہاں ایمرجنسی نہیں ہوتی ہے ۔ نقطہ یہ ہے کہ اصل مسئلے کے حل کی بجائے الزام تراشیاں کر کے ان چھوٹے چھوٹے گروپس کو اپنے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے یہ مثال لاہور کے ڈاکٹرز،اسلام آباد کے اسٹاف اورکراچی میں جناح اسپتال کے ورکرز کے احتجاج سے لی جاسکتی ہے ۔
آئیے پہلے ایک کا مسئلہ سنتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر صوبوں کو حقوق دینے کا دعویٰ کیا اورکہا یہ ہے کہ اٹھاریوں ترمیم کیمطابق اب بہت سارے محکمے صوبوں کے پاس ہوں گے جس میں صحت کا شعبہ بھی تھا ۔کراچی میں قائم سب سے بڑا سرکاری اسپتال جناح اسپتال ہے ۔
جو کہ اس سے پہلے وفاق کے ماتحت تھا ۔ عام طور پر کراچی میں ہونے والی کوئی بڑی ایمرجنسی یعنی دھماکا یا پھرگرمی میں زیادہ تر مریض اسی اسپتال میں لائے جاتے ہیں۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب جناح اسپتال کے معاملات صوبو ں کے حوالے ہونگے ۔ اس بات کو چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے ۔ مگر آپ کو حیرت ہو گی کہ اب تک اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوسکی ۔فائل ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں گھوم رہی ہے ۔
اسی دوران پنجاب میں وہاں کے ورکرز کو صحت کا الاؤنس نہیں مل رہا ہے ۔ اب آپ لطیفہ سُنیے کہ جو لوگ پورے کراچی کے لوگوں کو صحت کی سہولت فراہم کرتے ہیں ان کے پاس خود ہی صحت کا الاؤنس نہیں ہے۔ہمارے بڑے فیصلے کرتے نہیں ہے اور اگر فیصلے کرلیں تو انھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ نیچے عام آدمی کس چکی میں پستا ہے ۔ جب صحت کے محکمے کو صوبے کے حوالے کیا گیا تو یہاں کہ ملازمین کو تین سال کے لیے سندھ حکومت کے سپرد کر دیا گیا اور اس تین سال کو ختم ہوئے بھی ایک سال ہوچکا ہے ۔ جس کے بعد کوئی لیٹر جاری نہیں کیا گیا کہ ان ملازمین پر اب کس کا سکہ چلے گا۔ آخر ان ملازمین کا اسٹیٹس کیا ہے ۔ یہ لوگ سائیں سرکار کے خادم ہیں یا پھر ان پر وفاق کا سکہ چلے گا ۔
اب کہانی کا دوسرا حصہ دیکھیں کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تمام وفاقی ملازمین کو ہیلتھ الاوئنس دینے کا اعلان کیا تھا ۔ یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف آئے اس کے درمیان میں نگراں حکومت آئی اور پھر ڈھائی سال سے نواز شریف ہے ۔ان کا الاؤنس ابھی تک اُسی ڈبے میں ہے جس ڈبے میں گیلانی چھوڑکرگئے تھے ۔
سندھ کے ہیلتھ سیکریٹری چار سال سے انھیں کہہ رہے ہیں کہ بس اب تھوڑے دنوں میں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ وعدے بھی کیے گئے ۔ مگر وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ۔ چھ مہینے سے سمری سائیں قائم علی شاہ کی میز پر پڑی ہوئی ہے ۔مگرکون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ۔
وہاں آپ کسی سے بھی بات کریں وہ کہے گا کہ بس جلد ہی ہوجائے گا ۔ اس سے پہلے جب احتجاج کیا تو کہا گیا کہ لوگ احتجا ج ختم کردیں 15 دن میں آپ کا مسئلہ ہوجائے گا اوراس بات کو چارمہینے گزرگئے ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر صوبائی حکومت نہیں کرسکتی ہے تو وہ صاف طور پرکہہ دے کہ یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہو گا۔
ملازمین اس انتظار میں ہیں کہ شاید کسی طرح اُن کی ملازمت بھی پکی ہوجائے ۔ معاملہ الجھا ہوا ہے سندھ حکومت یہ کہتی ہے کہ ایک طرف یہ معاملہ عدالت میں بھی چل رہا ہے ۔
ہاں ، معاف کیجیے گا ۔اصل بات رہ گئی کہ کیا واقعی میں یہ لوگ اتنے ظالم ہیں کہ انھوں نے مریضوں کو مارنا شروع کردیا ہے ، جب کہ ایمرجنسی میں کام جاری ہے اور تمام مریضوں کو معمول کے مطابق دیکھا جا رہا ہے ، تو پھر یہ جو اطلاع آرہی ہے کہ 9 لوگ ہلاک ہوگئے اُس کی کیا حقیقت ہے ۔ یہ بھی پوری ایک سیاست ہے۔ اُسی طرح جس طرح ہرجگہ ہورہی ہے ۔
میں بھی کہاں سے کہاں نکل گیا ۔بات اتنی سی ہے کہ جو لوگ اپنے حق کے لیے نکلے ہیں وہ بھی ستائے ہوئے لوگ ہیں۔ ان پر جتنے پتھر پھینکیں گے سب لوٹ کر آپ کی طرف ہی آئیں گے۔اس لیے تھوڑا ہولا ہاتھ رکھیں ۔