جنگ نہیں ہمارے بچوں کو پیار دو امن دو خوشبو دو

جنگ عظیم دوم میں ایٹمی تباہ کاری کے واقعات نے پوری دنیا پر لرزہ طاری کردیا

ناگاساکی اور ہیروشیما کی دل دہلاتی تصویریں ابن آدم نے اتنی جلدی بُھلادیں ۔ فوٹو : فائل

زمین کی آنکھوں سے اب تک آنسو جاری ہیں۔ ہوائیں اب تک سوگوار ہیں۔ لیکن آدم زاد کی کج روی میں فرق نہیں آیا۔ وہ بہت جلد بھول گیا اور پھر سے اپنی قبر کھودنے لگا۔

کل ہی کا واقعہ ہے۔ یہ ہیروشیما اور ناگاساکی کا ذکر ہے۔ جنگ عظیم دوم میں ایٹمی تباہ کاری کے واقعات نے پوری دنیا پر لرزہ طاری کردیا۔ ہر طرف سے فریاد اُٹھی، ہمیں امن کی ضرورت ہے، ہمیں محبت کی ضرورت ہے۔ ہم اب موت کے راستے پر نہیں چلیں گے۔ فوری طور پر سب کا رد عمل یہی تھا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی راستہ، وہی گورکن۔

لوگوں کا خیال تھا، اب ہوش مندی غالب آئے گی۔ طاقت کی مدہوشی راکھ ہو جائے گی۔ لیکن جنگ آزمائی کا شوق غارت نہیں ہوا۔ خوف ناک ہتھیاروں کی تیاری کا قابل نفرت عمل عروج پر پہنچ گیا۔ گویا، اب مسئلے کا حل مکالمے سے نہیں، حریف کو ملیامیٹ کرنے سے ہوگا۔



دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی دنیا کے تمام براعظموں میں کسی نہ کسی طور جنگیں ہوتی رہیں، خون بہتا رہا۔ اور دوسری طرف پس ماندہ ملکوں کے لوگ روٹی، کپڑا، مکان، صاف پانی، تعلیم اور طبی سہولتوں کے لیے ترستے رہے۔ کیا یہی تہذیب انسانی کا ثمر ہے؟ خون کی بارش میں نہاتا ہوا، آگ میں جلتا ہوا، سب سرسبز خوابوں کو خاک کرتا ہوا ابن آدم کس منزل پر آ نکلا ہے؟

آج جن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، کل وہ کہاں ہوں گے۔ ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟

جو اب تک دل میں بستا ہے۔۔۔۔۔۔ ساحر لدھیانوی۔۔۔۔ اس نے بہت پہلے جنگ پسندوں کو، غفلت کی سرزمین کے مکینوں کو، خود پسندی کے نشے میں ڈوبے حکم رانوں کو بڑے پیار سے سمجھایا تھا۔ یہ اس کی مشہور نظم ''پرچھائیاں'' کا ذکر ہے۔



کچھ دیر تک درد چھلکاتی اس نظم کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔

جنگ عظیم کی غارت گری کے مناظر ہیں، جنھیں ایک کہانی کی صورت میں بیان کیا گیا۔ دو پیار کرنے والے اپنے خوابوں سے کیسے محروم ہوئے۔ میٹھی سرگوشیاں نوحوں میں کیسے تبدیل ہوئیں۔ مغربی جلادوں نے کیمپ لگائے، سپاہیوں کی بھرتی کا سلسلہ شروع ہوا۔ گاؤں کے گاؤں خالی ہوگئے، پیچھے رہ جانے والوں کے خالی ہاتھوں میں بیتی یادوں کی راکھ سمٹ آئی۔ ویران آنکھوں میں اندھیروں نے ڈیرا ڈال دیا۔ زندگی ویران راہوں میں بھٹکنے لگی۔

بستی کی ہر اک شاداب گلی خوابوں کا جزیرہ تھی گویا
ہر موج نفس، ہر موج صبا، نغموں کا ذخیرہ تھی گویا

ناگاہ لہکتے کھیتوں سے ٹاپوں کی صدائیں آنے لگیں
بارُود کی بوجھل بُو لے کر پچھم سے ہوائیں آنے لگیں
تعمیر کے روشن چہرے پر تخریب کا بادل پھیل گیا
ہر گاؤں میں وحشت ناچ اٹھی، ہر شہر میں جنگل پھیل گیا
خاموش زمیں کے سینے میں خیموں کی طنابیں گَڑنے لگیں
مکھن سی ملائم راہوں پر، بوٹوں کی خراشیں پڑنے لگیں
فوجوں کے بھیانک بینڈ تلے، چرخوں کی صدائیں ڈوب گئیں
جیپوں کی سُلگتی دھول تلے پھولوں کی قبائیں ڈوب گئیں
انسان کی قیمت گرنے لگی، اجناس کے بھاؤ چڑھنے لگے
چوپال کی رونق گھٹنے لگی، بھرتی کے دفاتر بڑھنے لگے
بستی کے سجیلے شوخ جواں بن بن کے سپاہی جانے لگے
جس راہ سے کم ہی لوٹ سکے اس راہ پہ راہی جانے لگے



خوشیاں بچھڑ گئیں۔ آموں کی لچکتی شاخوں سے جھولوں کی قطاریں ختم ہوئیں، میلوں کی بہاریں ختم ہوئیں۔ کھلیانوں میں بُھوک اُگنے لگی، بازاروں میں دُھول اڑنے لگی۔ پیار سستے داموں فروخت ہوا۔

سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے
اُس شام مجھے معلوم ہوا، جب باپ کی کھیتی چِھن جائے
ممتا کے سنہرے خوابوں کی اَن مول نشانی بکتی ہے
اُس شام مجھے معلوم ہوا، جب بھائی جنگ میں کام آئیں
سرمائے کے قحبہ خانے میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے

ایک جنگ اپنی ساری سیاہیوں اور غلاظتوں کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔ اب پُھول مسکرائیں گے، بچوں کے رُوکھے ہونٹوں پر شادابی رقص کرے گی، ماؤں کے آنچلوں پر نئے خواب سرسرائیں گے۔ زندگی کو سر اٹھانا ہے۔ آگ میں جُھلسے کھیتوں میں نئے پودے اگیں گے، ہوا کی لہریں خوشیاں نچھاور کریں گی۔ سب نے یہی سوچا تھا۔ لیکن زمین کا سینہ پھر لرزنے لگا۔ پھر موت کی آندھی اُٹھی ہے، پھر جنگ کے بادل چھائے ہیں، پھر دو دل ملنے آئے ہیں۔

میں سوچ رہا ہوں ان کا بھی اپنی ہی طرح انجام نہ ہو
ان کا بھی جُنوں ناکام نہ ہو
اُن کے بھی مقدّر میں لکھی اک خُون میں لتھڑی شام نہ ہو

جنگ بد صورت ہوتی ہے، زندگی کی رگ رگ میں زہر اتار دیتی ہے۔ سب خاک ہوجاتا ہے، سارے ارمان، سارے خواب، سارے قہقہے، سارے گیت، سارے تماشے ہمیشہ کے لیے گُم ہو جاتے ہیں۔ صرف آنسو رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔آنسوؤں کی جھلملاتی چادر۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر نہ آنسو باقی بچتے ہیں، نہ آنسو بہانے والے۔ سب کچھ فنا ہوجاتا ہے۔ موت ذرے ذرے پر اپنے دانت گاڑ دیتی ہے۔


تاریخ نے کتنا سکھایا۔ آدمی سیکھتا ہے، بُھول جاتا ہے، پھر آگ اور خُون کی پرورش کرنے والے راستے پر چل پڑتا ہے۔ نئے نئے ہتھیار ایجاد کرتا ہے، اور اس ''کام یابی'' پر فخر اور غرور کی مہر ثبت کرتا ہے۔ ایٹم بم، ہائیڈروجن بم۔ لمحے بھر میں زندگی کو بَھک سے اُڑادینے والی بازی گری۔

دنیا نے کہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ شاید پہلے پہل لکڑی اور پتھر کے ہتھیار بنائے گئے۔ اب زمین کے ہر خطے میں سینہ تان کر ایٹم بموں کی فصلیں اگائی جارہی ہیں۔ ایک دوسرے کو دھمکایا جارہا ہے۔ ''چَکّو ہے میرے پاس'' ، پہلے یہ دھمکی دی جاتی تھی۔ اب مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ایٹم بم جیسے خوف ناک، مُہلک ترین اور بدصُورت ہتھیار کی ملکیت پر فخر کیا جاتا ہے۔ ''ایٹم بم ہے ہمارے پاس!!''

ناگاساکی اور ہیروشیما کی دل دہلاتی تصویریں ابن آدم نے اتنی جلدی بُھلادیں، یہ ہے تہذیب انسانی کے طویل سفر کا ثمر؟

پیار کی خوشبو بانٹنے والے، امن کے گیت گانے والے اپنے پرچم لہراتے ہیں، سب کو چھاؤں کی طرف بلاتے ہیں۔ لیکن دھوپ پھیلانے والے، آگ لگانے والے اپنی پُرشور آوازوں میں سب کو گنگ کردیتے ہیں۔ وہ جُنون کے سیلاب میں بہنے والی اپنی کاغذ کی کشتی کو منزل تک پہنچانے کی آرزو کرتے ہیں۔



ہزاروں سال سے یہی ہوتا آیا ہے، صدیوں کی تعمیر، پل بھر میں غارت۔ لیکن یہ نیا زمانہ ہے۔ آج ایٹم بم کی طاقت سے چاہت نوع انسانی کی آخری تباہی کا اعلان کر رہی ہے۔ ابھی وقت ہے دنیا بھر میں درد کی دولت سے مہکتے تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ اُٹھیں، اپنے اپنے ملک کے حکم رانوں کو آواز دیں، ہمیں جنگ نہیں، امن کی ضرورت ہے، نفرت نہیں پیار کی ضرورت ہے، اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے۔ ہمیں بارُود کی بُو سے اُبکائی آتی ہے، ہم اپنے بچوں کے ہونٹوں پر پھول سجانا چاہتے ہیں۔ خون کا دریا ہمیں قبول نہیں، موت کی کالی تصویروں کو ہمارے سامنے سے ہٹادو۔ ہمیں پیار دو، امن دو، خوشبو دو۔ ہمارے لیے، ہمارے بچوں کے لیے زندگی کے سینے کو درد کی دولت سے محروم نہ کرو۔

درد کی دولت سے مہکتے لوگوں کی آوازوں کو غالب آنا چاہیے، خیر کا آخری پیغام یہی ہے۔ ساحر بدصورت منظروں سے نفرت کرتا تھا۔ اُس نے ''پرچھائیاں'' کا اختتام ان سطروں پر کیا تھا:
اُٹھو کہ آج ہر اک جنگ جُو سے یہ کہہ دیں
کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے
ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے

کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے

تو اس دمکتے ہوئے خاک داں کی خیر نہیں
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں
گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
٭٭٭
جنگ سے نفرت کرو۔۔۔چند اقوال
٭ طا قت غلبہ پا سکتی ہے، لیکن اس کے جشن کی زندگی مختصر ہوتی ہے، ابراہام لنکن
٭ جنگ میں پہلی مقتول سچائی ہوتی ہے،اکییلیس
٭ اب آدمی کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ جنگ کوئی مسئلہ حل نہیں کرتی، اور جنگ میں فتح بھی اتنی ہی تباہ کن ہوتی ہے، جتنی کہ شکست،اگا تھاکرسٹی
٭ ہم سوچا کرتے تھے کہ جنگ کہاں بسیرا کرتی ہے، اسے اتنا گھناؤنا کس نے بنایا۔ اور اب ہم جان چکے ہیں کہ یہ کہاں رہتی ہے، خود ہمارے اندرون میں،البرٹ کامیو
٭ یہ میرا ایمان ہے کہ جنگ کے نام پر ہلاکت قتل کے سوا کچھ نہیں،البرٹ کامیو
٭ میں نے جنگ دیکھی ہے، میں نے زمین پر اور پانیوں پر ہونے والی جنگ دیکھی ہے۔ میں نے زخمیوں کے جسموں سے خون بہتے دیکھا ہے۔ میں نے گیس سے بھرے پھیپھڑوں والے لوگوں کو پھڑپھڑاتے دیکھا ہے۔ میں نے کیچڑ میں دھنسے مردہ لوگوں کو دیکھا ہے۔ میں نے شہروں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے ایک ہزار کی رجمینٹ سے بچ کر آنے والے 200 تھکے ماندے لوگوں کو لنگڑاتے ہوئے آتے دیکھا ہے۔ میں نے فاقے سے نڈھال بچوں کو دیکھا ہے۔ میں نے ماؤں اور بیویوں کو بلبلاتے دیکھا ہے۔ اسی لیے میں جنگ سے نفرت کرتا ہوں،فرینکلن ڈی روز ویلٹ
٭ میں جنگ سے نفرت کرتا ہوں، ایک ایسے سپاہی کی حیثیت سے جس نے جنگ دیکھی ہے اور اس کی درندگی، اس کی بے معنویت، اس کا کھوکھلا پن دیکھا ہے،آئزن ہاور
٭ جنگ اس بات کا تعین نہیں کرتی کہ کون حق بہ جانب ہے، صرف یہ طے کرتی ہے کہ کون زندہ بچا ہے،برٹرینڈرسل
٭ جس طرح ایک بحری جہاز کے کپتان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ جہاز کو چٹان سے ٹکرانے سے بچائے اسی طرح ہر حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جنگ کو قریب نہ آنے دے،موپساں
٭ میں جنگ سے اس لیے نفرت کرتا ہوں کہ وہ بھیانک نتائج برآمد کرتی ہے، جُھوٹ اور پروپیگنڈے کے سہارے زندہ رہتی ہے اور اَن مٹ نفرتیں اُبھارتی ہے،ایمرسن
٭ تم جنگ کو ناگزیر کہتے ہو۔ بہت خوب۔ تم جیسے تمام لوگوں کو ایسی خصوصی رجمینٹ میں بھرتی ہوجانا چاہیے، جو سب سے آگے پہنچ کر (غنیم پر) حملہ کرے،لیوٹالسٹائی
٭ دنیا میں صرف دو طاقتیں ہیں، تلوار اور دماغ۔ آخر کار تلوار ہمیشہ دماغ سے ہار جاتی ہے،نپولین بوناپارٹ
٭ تہذیب کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک ناراض آدمی نے پتھر کے بجائے لفظ استعمال کیا،سگمنڈ فرائڈ

دونوں شہر کھنڈر بن گئے
جنگ عظیم کے دوران امریکا نے 6 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور 9 اگست 1945 کو دوسرے شہر ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا۔ امریکا اور اس کے اتحادی فاتح رہے۔ صرف ایک ایٹم بم سے ہیروشیما میں 20ہزار سے زیادہ فوجی اور 70 ہزار تا ایک لاکھ 46 ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ ناگا ساکی میں ہلاکتوں کی تعداد 39000 سے 80000 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ اس حساب سے دونوں شہروں میں ایک لاکھ 29 ہزار تا دو لاکھ 46 ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔
جنگوں کی تاریخ میں یہ اب تک کا پہلا اور آخری واقعہ ہے جب جنگ میں نیوکلیائی ہتھیار استعمال کیا گیا۔ دونوں شہروں میں آدھی سے زیادہ ہلاکتیں پہلے دن ہوئیں۔ باقی لوگ کچھ دنوں کے بعد آتش زدگی، ریڈی ایشن کے اثرات اور دوسرے زخموں کے باعث سسک سسک کر ہلاک ہوئے۔ نو دن بعد 15 اگست کو جاپان نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا۔ امریکا کی رعونت آج تک قہقہے برسا رہی ہے۔ دوسروں پر جنگ مسلط کرنا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔
جاپانی افسروں کے سروے کے مطابق ہیروشیما کی 69 فی صد عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں اور باقی عمارتوں کو سات فی صد نقصان پہنچا۔ ہیروشیما کے 90 فی صد ڈاکٹر اور 93 فی صد نرسیں مرنے والوں میں شامل تھیں۔ تقریباً سارے اسپتال تباہ ہوگئے یا انھیں شدید نقصان پہنچا۔
ناگاساکی جب ایٹم بم کا نشانہ بنا تو وہاں تقریباً دو لاکھ 63ہزار نفوس موجود تھے۔ ان میں2لاکھ چالیس ہزار جاپانی شہری، دس ہزار کورین تارکین وطن، بیگار میں پکڑے گئے ڈھائی ہزار کورین مزدور،9ہزار جاپانی فوجی،600 بیگار میں پکڑے گئے چینی مزدور اور اتحادی فوجوں سے تعلق رکھنے والے چار سو قیدی موجود تھے۔ ان میں سے بیش تر مارے گئے۔

ہیروشیما پیس میموریل پارک
یہ میموریل پارک ہیروشیما کے وسط میں واقع ہے۔ انسانی تاریخ کے پہلے ایٹمی حملے سے جنم لینے والے المیے کی کتنی ہی کرب ناک نشانیاں اِس احاطے میں ملتی ہیں۔ ہر سال لاکھوں لوگ اس پارک کا دورہ کرتے ہیں۔
یہ اسی میدان پر تعمیر کیا گیا، جو مکروہ دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ اسے جاپانی ماہر تعمیرات Kenzo Tange نے ڈیزائن کیا تھا۔
جاپان میں سیکڑوں میموریل اور مونومنٹ کے علاوہ ایک بڑا میوزیم اور لیکچر ہال بھی موجود ہے۔ جاپان حکومت کے مطابق اس کا مقصد فقط مرنے والوں کی یادگار بنانا نہیں، بلکہ ایٹمی ہتھیاروں اور جنگی جنونیت کے خلاف تحریک کو جنم دینا ہے۔
ہیروشیما کے پارک میں ہیروشیما پیس میموریل نمایاں ہے۔ اپنے زمانے کی معروف تجارتی عمارت کا تباہ حال ڈھانچا، جسے یونیسکو عالمی ورثہ قرار دے چکا ہے۔ یہاں آپ کو ایک ریسٹ ہاؤس ملے گا۔ یہ 1929 میں تعمیر ہونے والا ایک فیول اسٹیشن ہے، جو حملے میں تباہ ہوگیا تھا۔ میوزیم کے علاوہ Children's Peace Monument بھی اس سانحے کی کرب ناک یادیں بیان کرتا ہے۔
اسی شہر میں Honkawa ایلیمنٹری اسکول پیس میوزیم ہے۔ یہ گراؤنڈ زیرو کا سب سے نزدیکی اسکول تھا۔ حملے کے دوران یہ اپنے 400 طلبا اور دس اساتذہ سے محروم ہوگیا۔ عمارت بری طرح متاثر ہوئی۔ ہیروشیما ہی میں دی Fukuromachi ایلیمینڑی اسکول پیس میوزیم موجود ہے۔ یہ بھی ایٹمی حملے کا نشانہ بننے والے علاقے کے بے حد نزدیک تھا۔ اس واقعے میں 160 طلبا کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

ناگاساکی اٹامک بم میوزیم
یہ میوزیم اس قیامت کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو ہیروشیما کی تباہی کے تین دن بعد، 9اگست 1945 کی صبح اس شہر پر ٹوٹ پڑی تھی۔ اس میوزیم کے نزدیک ہی ناگاساکی پیس میموریل ہال واقع ہے، جسے 2003 میں تعمیر کیا گیا۔ یہ میوزیم 1996 میں مکمل ہوا۔ یہ نہ صرف اس سانحے کی، بلکہ ایٹمی ہتھیار کی تیاری کی مکروہ کہانی بھی بیان کرتا تھا۔



ہیروشیما، ناگاساکی
٭ ایٹمی حملے پر بننے والی چند نمایاں فلمیں
The Beginning or the End (1947)
Above and Beyond(1952)
Children of Hiroshima (1952)
Hiroshima mon amour (1959)
Barefoot Gen (1976)
Black Rain (1989)
Fat Man and Little Boy (1989)
Rhapsody in August (1991)
Hiroshima (1995)
The Face of Jizo (2004)
Hibakusha (2012)
٭ تذکرہ چند ڈاکومینٹری فلموں کا
No More Hiroshima (1984)
Hiroshima Witness (1986)
Hellfire: A Journey from Hiroshima (1986)
Day One (1989)
Original Child Bomb (2004)
Hiroshima: BBC History of World War II (2005)
The Mushroom Club (2005)
White Light/Black Rain (2007)
Atomic Mom (2010)
Als die Sonne vom Himmel fiel (2015)



٭ سانحہ کا کرب بیان کرتی چند معروف کتابیں
First Into Nagasaki (1945)
Hiroshima (1946)
The Bells of Nagasaki (1949)
The Day of the Bomb (1961)
Hiroshima: In Memoriam and Today (1969)
A Blank in the Weather Map (1975)
Sadako and the Thousand Paper Cranes (1977)
Town of Evening Calm, Country of Cherry Blossoms (2003)
The Last Train from Hiroshima (2010)
Load Next Story