کسان کی محنت کوئی اور لے جاتا ہے
پاکستان کی معیشت میں زراعت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے آپ اسے ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی قرار دے سکتے ہیں
پاکستان کی معیشت میں زراعت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے آپ اسے ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی قرار دے سکتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی کل قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 22 فیصد ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصلیں بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہیں اور وطن عزیز کو ان فصلوں کے باعث قیمتی زرِ مبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے، اس حقیقت کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی رفتار سست روی کا شکار ہے۔ ہمارے کسانوں کو بیشمار مسائل کو سامنا ہے غالباً یہی وہ دردمندانہ احساس تھا کہ اسلام آباد میں ہونیوالے کسان کنوینشن میں وزیر اعظم محمد نوازشریف نے ایک یادگار اور تاریخی کسان پیکیج کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے بتایا کہ کھاد ڈی ای پی کی فی بوری قیمت میں 500 روپے کی کمی کردی ہے۔ ساڑھے 12 ایکڑ سے کم زمین رکھنے والے کسانوں کو بلاسود قرضے دیے جائینگے۔ گندم، چاول اور دیگر اجناس کی امدادی قیمتیں بڑھیں گی۔ فصلوں کی انشورنس کا پریمیئم حکومت ادا کریگی۔
ٹیوب ویلوں کی بجلی کے لیے 7 ارب روپے کی رعایت دی جائے گی۔ زرعی مشینری کی درآمد پر عائد تمام محصولات کم کر کے 9 فیصد کردیے گئے ہیں۔ یوں تو حکومت نے کاشتکاروں کی مشکلات دور کرنے کے لیے 341 ارب روپے کا ریلیف پیکیج دیا ہے جس کے تحت کسان ریلیف پیکیج کا پہلا حصہ براہِ راست مالی تعاون سے متعلق ہے جب کہ دوسرا حصہ پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے ہے، تیسرا حصہ زرعی قرضوں کی فراہمی اور آخری حصہ قرضوں کے حصول کو آسان بنانے سے متعلق ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ براہ راست ریلیف پیکیج کے لیے چاول اور کپاس کے کاشتکاروں کو 5ہزار روپے فی ایکڑ نقد رقم دی جائے گی لیکن یہ رقم صرف ان کسانوں کو دی جائے گی جو ساڑھے 12 ایکڑ رقبے پر فصل کاشت کرینگے۔کھاد کی قیمتیں کم کرنے کے لیے 20 ارب روپے سے فنڈ قائم کیاجارہا ہے۔ گیس کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدرتی گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ سال 2015-14 میں رائس ملرز کو ٹرن اوور ٹیکس میں مکمل چھوٹ دی جائے گی۔
زرعی اجناس پھلوں، سبزیوں اور مچھلی کی تجارت میں گولڈ چین کی صنعت اور سہولت کی حوصلہ افزائی کے لیے انکم ٹیکس پر 3 سال کی چھوٹ دی جائے گی۔ حلال گوشت کا پیداواری یونٹ لگانے والوں کو 4 سال کے لیے انکم ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔ بلاشبہ اس کسان پیکیج کو ملک کی ترقی وخوشحالی کا پیکیج قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ جب کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔ اور اس کسان پیکیج کا سہرا بھی موجودہ حکومت کے سر جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے وطن عزیز کو ہمیشہ بڑے عوامی منصوبے دیے ہیں۔ پچھلی حکومت میں ایٹمی دھماکا کرنے کا جرأتمندانہ فیصلہ بھی محمد نوازشریف نے کیا تھا۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کا کشکول بھی انھوں نے اپنی پچھلی حکومت میں توڑ دیا تھا لیکن بعدازاں پھر دوسری حکومتوں نے قرضے لے لیے اور ملک ایک بار پھر آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس گیا۔
ملکی دفاع مضبوط کرنے کے علاوہ میگا 15 پروجیکٹس بھی ن لیگ نے دیے توقع ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت کے خاتمے سے پہلے ہی پاک چین راہداری منصوبہ اور دیامر بھاشا ڈیم جیسے عظیم منصوبے بھی پایۂ تکمیل تک پہنچ جائینگے۔ موٹر وے اور غازی بروتھا ڈیم کی تعمیر کا کریڈٹ بھی محمد نوازشریف کوجاتا ہے۔ مئی 2013 میں جب ن لیگ واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی تو اسے دہشتگردی اور توانائی سمیت تباہ حال معیشت ورثے میں ملی تھی، قوم مایوس تھی، امن و امان اور معیشت کی بہتری نوازحکومت کے لیے بڑے چیلنج تھے جس کا سامنا محمد نوازشریف نے خندہ پیشانی سے کیا اس لیے اب دنیا بھرکی ایجنسیاں پاکستان پر اعتبارکررہی ہیں اور معاشی اعتبار سے حالات مسلسل بہتر ہورہے ہیں۔ دوسری جانب امن و امان کی صورتحال بھی خاصی بہتر ہوگئی ہے۔ بلاشبہ اس میں پاک فوج اور رینجرز کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ اس ضمن میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اہم کردار ادا کیا۔ اب پاکستان ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے۔ اس لیے حکومت کو یہ موقع بھی مل گیا ہے کہ وہ مختلف شعبوں میں اصلاحات کرے اور ان کی بحالی کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے۔
کسان پیکیج اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کیونکہ ہمارا کسان مسائل کا شکار ہے اور ان مسائل کو حل کیے بغیر خوشحالی کا دوردورہ نہیں ہوسکتا، ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے جسے ماضی کی حکومتیں مسلسل نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو فصل کاشت کرنے سے پہلے بیج، کھاد اور پانی کا انتظام کرنا ہوتا ہے اور عموماً اس ضمن میں اسے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ وہ اگر فصلیں کاشت بھی کرلیتا ہے تو قرضوں کے چکر سے نہیں نکل پاتا۔ اس کی محنت کوئی اور لے جاتا ہے پھر جو کچھ وہ قرض لیتا ہے وہ بھی اسے زائد قیمت پر ملتا ہے سب سے زیادہ مسائل کا شکار چھوٹا کسان ہے اگر وہ فصل کاشت کرنے کا انتظام بھی کرلیتا ہے تو یاد رہے کہ آج کل فی ایکڑ پیداواری اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے اس کی خون پسینے کی کمائی اسے نصیب نہیں ہوتی اگر پیداوار اچھی ہوجائے تو وہ سرکاری اہلکاروں کے ظلم و ستم اور آڑھتی کی لوٹ مارکا شکار ہوجاتا ہے یعنی ایک جانب سے سستی بجلی، کھاد، مفت بیج، پانی، زرعی ادویات و آلات نہیں ملتے دوسری جانب سودی قرضے، سرکاری اہلکار اور آڑھتی مل کر اس کی محنت کی کمائی لوٹ لیتے ہیں۔
چھوٹے کسانوں اور ان کی فصلوں کے تحفظ کے لیے خصوصی پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ چھوٹے کسانوں کو بڑے زمینداروں کے استحصال اور مڈل مین سے بچانے کے لیے تدابیر کی جانی چاہئیں۔ ماضی میں کسانوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں فصلیں کاشت کرنیوالے کسانوں نے اپنا پیشہ ترک کرکے کراچی، حیدرآباد، اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں کا رخ کرلیا اور چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی روزی کمانے لگے۔ اس طرح شہروں میں آبادی میں اضافے کا رجحان بڑھا جس سے ان شہروں میں بھی نئے نئے مسائل جنم لینے لگے۔ اگر ان کسانوں کو اپنے ہی علاقوں میں تمام ضروری سہولتیں حاصل ہوں تو یہی زمینیں سونا اگلنے لگیں۔ ماضی کی حکومتوں نے کسانوں کو مسلسل نظر انداز کیا اور انھیں بے یارو مددگار چھوڑدیا۔ اس مایوس کن صورتحال میں وزیر اعظم محمد نوازشریف کی جانب سے چھوٹے کسانوں کے لیے ایسی بڑی مراعات کا اعلان کرنا نہایت خوش آیند امر ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
بعض حلقوں کی جانب سے وزیر اعظم محمد نوازشریف پر صنعتکار ہونے اورکسانوں کو نظر انداز کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں لیکن اب یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ حکومت کسی ایک طبقے یا شعبے کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک اور تمام طبقات کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کررہی ہے۔ ان کی حکومت نے 2 سال میں پاکستان کا امیج بدل کر رکھ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ زرداری حکومت نے زراعت، صنعت یا عوامی و ملکی بھلائی کے کسی بڑے منصوبے پر کام نہیں کیا۔ یہ محمد نواز شریف حکومت ہی ہے جو عوامی بھلائی کے لیے کوشاں ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے ضروری ہے لیکن اختلاف برائے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ سابق صدر زرداری نے اس کسان پیکیج کو مسترد کردیا ہے وہ 5 سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے انھوں نے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیوں نہیں کیے؟ اب اگر موجودہ حکومت کسی سمت میں پیشرفت کررہی ہے تو اسے بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔
پیپلز پارٹی تو سندھ کے کسانوں سے بھی غفلت برت رہی ہے۔ آج سندھ کی حالت زار پر ایک عام شہری خون کے آنسو بہا رہا ہے۔ مفاد پرست طبقہ صرف اپنے مفادات کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے ہاتھ پاؤںماررہا ہے۔ اسے عوام کے دکھ اور مسائل کی کوئی پرواہ نہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے بھی کسان پیکیج پر نکتہ چینی کی ہے۔ جب حکومت عوامی بھلائی کا کوئی کام کرے تو اس کا خیر مقدم کیاجاناچاہیے۔ اگر وہ مسائل کو نظر انداز کرے تو نکتہ چینی کرنی چاہیے۔ اس پس منظر کا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کو کسان پیکیج نہیں دینا چاہیے تھا؟ میرا خیال ہے ضرور دینا چاہیے۔ اس سے کسانوں نے اطمینان کا سانس لیا ہے۔ اس سے حقیقی منصوبوں میں خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد ملے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ یقینا حکومت آیندہ برسوں میں چھوٹے کسانوں سے متعلق مزید اہم پالیسیاں تشکیل دے گی۔
ٹیوب ویلوں کی بجلی کے لیے 7 ارب روپے کی رعایت دی جائے گی۔ زرعی مشینری کی درآمد پر عائد تمام محصولات کم کر کے 9 فیصد کردیے گئے ہیں۔ یوں تو حکومت نے کاشتکاروں کی مشکلات دور کرنے کے لیے 341 ارب روپے کا ریلیف پیکیج دیا ہے جس کے تحت کسان ریلیف پیکیج کا پہلا حصہ براہِ راست مالی تعاون سے متعلق ہے جب کہ دوسرا حصہ پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے ہے، تیسرا حصہ زرعی قرضوں کی فراہمی اور آخری حصہ قرضوں کے حصول کو آسان بنانے سے متعلق ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ براہ راست ریلیف پیکیج کے لیے چاول اور کپاس کے کاشتکاروں کو 5ہزار روپے فی ایکڑ نقد رقم دی جائے گی لیکن یہ رقم صرف ان کسانوں کو دی جائے گی جو ساڑھے 12 ایکڑ رقبے پر فصل کاشت کرینگے۔کھاد کی قیمتیں کم کرنے کے لیے 20 ارب روپے سے فنڈ قائم کیاجارہا ہے۔ گیس کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدرتی گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ سال 2015-14 میں رائس ملرز کو ٹرن اوور ٹیکس میں مکمل چھوٹ دی جائے گی۔
زرعی اجناس پھلوں، سبزیوں اور مچھلی کی تجارت میں گولڈ چین کی صنعت اور سہولت کی حوصلہ افزائی کے لیے انکم ٹیکس پر 3 سال کی چھوٹ دی جائے گی۔ حلال گوشت کا پیداواری یونٹ لگانے والوں کو 4 سال کے لیے انکم ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔ بلاشبہ اس کسان پیکیج کو ملک کی ترقی وخوشحالی کا پیکیج قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ جب کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔ اور اس کسان پیکیج کا سہرا بھی موجودہ حکومت کے سر جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے وطن عزیز کو ہمیشہ بڑے عوامی منصوبے دیے ہیں۔ پچھلی حکومت میں ایٹمی دھماکا کرنے کا جرأتمندانہ فیصلہ بھی محمد نوازشریف نے کیا تھا۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کا کشکول بھی انھوں نے اپنی پچھلی حکومت میں توڑ دیا تھا لیکن بعدازاں پھر دوسری حکومتوں نے قرضے لے لیے اور ملک ایک بار پھر آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس گیا۔
ملکی دفاع مضبوط کرنے کے علاوہ میگا 15 پروجیکٹس بھی ن لیگ نے دیے توقع ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت کے خاتمے سے پہلے ہی پاک چین راہداری منصوبہ اور دیامر بھاشا ڈیم جیسے عظیم منصوبے بھی پایۂ تکمیل تک پہنچ جائینگے۔ موٹر وے اور غازی بروتھا ڈیم کی تعمیر کا کریڈٹ بھی محمد نوازشریف کوجاتا ہے۔ مئی 2013 میں جب ن لیگ واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی تو اسے دہشتگردی اور توانائی سمیت تباہ حال معیشت ورثے میں ملی تھی، قوم مایوس تھی، امن و امان اور معیشت کی بہتری نوازحکومت کے لیے بڑے چیلنج تھے جس کا سامنا محمد نوازشریف نے خندہ پیشانی سے کیا اس لیے اب دنیا بھرکی ایجنسیاں پاکستان پر اعتبارکررہی ہیں اور معاشی اعتبار سے حالات مسلسل بہتر ہورہے ہیں۔ دوسری جانب امن و امان کی صورتحال بھی خاصی بہتر ہوگئی ہے۔ بلاشبہ اس میں پاک فوج اور رینجرز کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ اس ضمن میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اہم کردار ادا کیا۔ اب پاکستان ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے۔ اس لیے حکومت کو یہ موقع بھی مل گیا ہے کہ وہ مختلف شعبوں میں اصلاحات کرے اور ان کی بحالی کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے۔
کسان پیکیج اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کیونکہ ہمارا کسان مسائل کا شکار ہے اور ان مسائل کو حل کیے بغیر خوشحالی کا دوردورہ نہیں ہوسکتا، ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے جسے ماضی کی حکومتیں مسلسل نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو فصل کاشت کرنے سے پہلے بیج، کھاد اور پانی کا انتظام کرنا ہوتا ہے اور عموماً اس ضمن میں اسے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ وہ اگر فصلیں کاشت بھی کرلیتا ہے تو قرضوں کے چکر سے نہیں نکل پاتا۔ اس کی محنت کوئی اور لے جاتا ہے پھر جو کچھ وہ قرض لیتا ہے وہ بھی اسے زائد قیمت پر ملتا ہے سب سے زیادہ مسائل کا شکار چھوٹا کسان ہے اگر وہ فصل کاشت کرنے کا انتظام بھی کرلیتا ہے تو یاد رہے کہ آج کل فی ایکڑ پیداواری اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے اس کی خون پسینے کی کمائی اسے نصیب نہیں ہوتی اگر پیداوار اچھی ہوجائے تو وہ سرکاری اہلکاروں کے ظلم و ستم اور آڑھتی کی لوٹ مارکا شکار ہوجاتا ہے یعنی ایک جانب سے سستی بجلی، کھاد، مفت بیج، پانی، زرعی ادویات و آلات نہیں ملتے دوسری جانب سودی قرضے، سرکاری اہلکار اور آڑھتی مل کر اس کی محنت کی کمائی لوٹ لیتے ہیں۔
چھوٹے کسانوں اور ان کی فصلوں کے تحفظ کے لیے خصوصی پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ چھوٹے کسانوں کو بڑے زمینداروں کے استحصال اور مڈل مین سے بچانے کے لیے تدابیر کی جانی چاہئیں۔ ماضی میں کسانوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں فصلیں کاشت کرنیوالے کسانوں نے اپنا پیشہ ترک کرکے کراچی، حیدرآباد، اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں کا رخ کرلیا اور چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی روزی کمانے لگے۔ اس طرح شہروں میں آبادی میں اضافے کا رجحان بڑھا جس سے ان شہروں میں بھی نئے نئے مسائل جنم لینے لگے۔ اگر ان کسانوں کو اپنے ہی علاقوں میں تمام ضروری سہولتیں حاصل ہوں تو یہی زمینیں سونا اگلنے لگیں۔ ماضی کی حکومتوں نے کسانوں کو مسلسل نظر انداز کیا اور انھیں بے یارو مددگار چھوڑدیا۔ اس مایوس کن صورتحال میں وزیر اعظم محمد نوازشریف کی جانب سے چھوٹے کسانوں کے لیے ایسی بڑی مراعات کا اعلان کرنا نہایت خوش آیند امر ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
بعض حلقوں کی جانب سے وزیر اعظم محمد نوازشریف پر صنعتکار ہونے اورکسانوں کو نظر انداز کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں لیکن اب یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ حکومت کسی ایک طبقے یا شعبے کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک اور تمام طبقات کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کررہی ہے۔ ان کی حکومت نے 2 سال میں پاکستان کا امیج بدل کر رکھ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ زرداری حکومت نے زراعت، صنعت یا عوامی و ملکی بھلائی کے کسی بڑے منصوبے پر کام نہیں کیا۔ یہ محمد نواز شریف حکومت ہی ہے جو عوامی بھلائی کے لیے کوشاں ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے ضروری ہے لیکن اختلاف برائے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ سابق صدر زرداری نے اس کسان پیکیج کو مسترد کردیا ہے وہ 5 سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے انھوں نے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیوں نہیں کیے؟ اب اگر موجودہ حکومت کسی سمت میں پیشرفت کررہی ہے تو اسے بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔
پیپلز پارٹی تو سندھ کے کسانوں سے بھی غفلت برت رہی ہے۔ آج سندھ کی حالت زار پر ایک عام شہری خون کے آنسو بہا رہا ہے۔ مفاد پرست طبقہ صرف اپنے مفادات کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے ہاتھ پاؤںماررہا ہے۔ اسے عوام کے دکھ اور مسائل کی کوئی پرواہ نہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے بھی کسان پیکیج پر نکتہ چینی کی ہے۔ جب حکومت عوامی بھلائی کا کوئی کام کرے تو اس کا خیر مقدم کیاجاناچاہیے۔ اگر وہ مسائل کو نظر انداز کرے تو نکتہ چینی کرنی چاہیے۔ اس پس منظر کا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کو کسان پیکیج نہیں دینا چاہیے تھا؟ میرا خیال ہے ضرور دینا چاہیے۔ اس سے کسانوں نے اطمینان کا سانس لیا ہے۔ اس سے حقیقی منصوبوں میں خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد ملے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ یقینا حکومت آیندہ برسوں میں چھوٹے کسانوں سے متعلق مزید اہم پالیسیاں تشکیل دے گی۔