برکینا فاسو میںفوجی بغاوت اور تھامس سنکارا
تھامس سنکارا کو دنیاکا امیر ترین انقلابی ( نظریات کے حوالے سے)اور غریب ترین صدر بھی کہا جاتا تھا
16ستمبر کو مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو ( جو کبھی بالائی والٹا ۔Upper Voltaکہلاتا تھا)میں فوج نے خفیہ ادارے کے سربراہ جنرل گلبرٹ دیندرے کی قیادت میں عبوری حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ عبوری صدر مائیکل کفاندو اورعبوری وزیر اعظم اسحاق ضدا کو گرفتارکرلیا ہے ۔ ملک میں کرفیو ناٖفذکردیا گیا ہے، سڑکوں پر فوجی گشت کررہے ہیں اور اب تک ان کے ہاتھوں تین مظاہرین قتل ہو چکے ہیں ۔ملک بھر میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوںکا سلسلہ جاری ہے، ٹی وی چینلزاور ریڈیو بند کردیے گئے ہیں۔ جب کہ ایک نام نہاد '' نیشنل کونسل آف ڈیمو کریسی '' کی تشکیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
برکینا فاسو میں فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب 11اکتوبر کو وہاں انتخابات ہونے والے تھے ۔ فوجی بغاوت کے ایک دن بعد جنرل دیندرے نے بغاوت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ'' ملک کا سیاسی نظام جانبداری سے چلائے جانے کے باعث یہ مداخلت کی گئی ہے ۔'' لیکن بات اتنی سادہ ہے نہیں۔ جنرل دیندرے دراصل برکینا فاسو پر27سال تک بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والے سابق آمر بلیز کامپورے کا چیف آف اسٹاف رہا ہے اور اس کی ہمدردیاں اب بھی سابقہ آمر اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ ہیں جنھیں انتخابات میں اپنی شکست اور بائیں بازو کی کامیابی صاف نظر آ رہی تھی۔
کامپورے آمریت کا محل عوامی طاقت کے سامنے گزشتہ سال اس وقت ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا ،جب اس نے اپنے اقتدار کو مزید طول دینے کے لیے آئین میں ترمیم کے ذریعے 31اکتوبر2014 کوایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔ برکینابی عوام نے محض دو دن میں کامپورے کو استعفیٰ دے کر پڑوسی اور سابق شریکِ جرم ملک آئیوری کوسٹ فرار ہونے پر مجبورکر دیا تھا۔کامپورے کے فرار کے بعد فوج میں اقتدارکی کشمکش کم از کم 24گھنٹے تک چلتی رہی ہے۔
اس وقت فوج کے سربراہ جنرل اونورے ٹرورے نے اپنے آپ کو ریاست کا سربراہ قرار دیا تھا جس کے بعد فوج کی طرف سے لیفٹیننٹ کرنل یعقوب اسحاق ضدا کو ریاست کا عبوری حکمران منتخب کرنے کا بیان سامنے آیا۔یعنی برکینابی فوج عوامی جدوجہد کا ثمر خود اقتدار کی شکل میں حاصل کرنے کے لیے بے چین تھی۔حزبِ اختلاف کے گروہوں نے جوکامپورے کے 27 سالہ جبر اور سیاسی منظر نامے پر حاوی رہنے کے بعد منظر عام پر آئی تھیں اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''عوام کی جانب سے مقبول بغاوت کی فتح عوام کی ہے اور عبوری نظام کا انتظام بھی عوام کا حق ہے جسے فوج کسی بھی طرح قبضے میں نہیں لے سکتی۔'' انھوں نے فوج کے خلاف9نومبر سے دوبارہ احتجاج شروع کیاجس کے نتیجے میں عبوری حکومت قائم ہوئی اور 11اکتوبر2015کو انتخابات ہونا قرار پائے۔
اس سارے عرصے میں فوج حالات کا پانسہ اپنے حق میں پلٹنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔اس دوران برکینا فاسو میں ایسے حلقے بھی سامنے آ ئے جو ''فوجی سرمایہ دار مردہ باد '' کا نعرہ لگا کر ''اصل فوج'' سے عوام کے ساتھ مل کر حقیقی دشمنوں کے خلاف لڑنے کی اپیل کر تے رہے ۔ مگر برکینابی فوج ایک سامراج نواز اور عوام دشمن فوج ہے جو اپنا حقیقی دشمن محنت کش عوام اور سامراج مخالف بائیں بازو کی جماعتوں اور راہنماؤں کو ہی سمجھتی ہے۔جب کہ فرانسیسی اور امریکی سفارت کار بھی برکینا فاسو پر اپنے کسی کٹھ پتلی حکمران کو مسلط کرنے کے لیے سرگرم رہے کیونکہ برکینا فاسو افریقی خطے میں سامراج کے ایک اڈے کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف اپنی ہی تخلیق کردہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں اس کا اتحادی ہے بلکہ یہاں ڈرون اور فوجی اڈے بھی تعمیر کیے گئے ہیں ۔برکینا فاسو سے ہی اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ برکینا فاسوکے موجودہ عوامی انقلابی ابھار میں دو چیزیں بڑی نمایاں رہی ہیں ۔ ایک سوشلزم اور دوسرا تھامس سنکارا کا نام ۔تھامس سنکارا نہ صرف برکینا فاسو کو افریقہ کا ''کیوبا'' بننے کے لیے پر عزم تھا بلکہ اس سلسلے میں زبردست پیش رفت بھی کر رہا تھا ۔کامریڈ تھامس سنکارا ایک 33سالہ پرعزم سپاہی تھا جو تن پر عسکری وردی اور سر پر چے گویرا جیسی سرخ ستارے والی ٹوپی سجائے سامراجی لٹیروں کے خلاف سینہ سپرتھا۔ اس زمانے کی تصاویر میں وہ ہمہ وقت آستینیں چڑھائے،سامراج اور خطے میں موجود اس کے گماشتوں کو دعوتِ مبارزات دیتا نظر آتا ہے۔
تھامس سنکارا برکینابی فوج میں کیپٹن تھا جو اشتراکی خیالات کا حامل اور مارکس، اینگلز،لینن اوراسٹالن کی تعلیمات سے متاثر تھا ۔ اس نے 1976میں فوج کے اندر ایک خفیہ ''کمیونسٹ افسرگروپ'' تشکیل دیا تھا اور 4اگست1983کومحنت کش عوام کی مدد سے زیربو سایے کی فوجی آمریت کا تختہ اُلٹا تھا ۔
انقلاب کے بعد تھامس سنکارا نے فرانسیسی اثرات کا قلع قمع کیا،IMF اور ورلڈ بینک سے ناتا توڑتے ہوئے سامراجی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کیا ، صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا اور زرعی اصلاحات کرتے ہوئے زمینیں بے زمین کسانوں میں تقسیم کیں ،قبائلی سرداروں کی مراعات اور فرسودہ رسم ورواج کا خاتمہ کیا ۔اس کی پالیسیوں کی نتیجے میں ملک زرعی پیداور میں خود کفیل ہوگیا ۔
اس کے دور میں 2.5ملین بچوں کی ویکسین کا پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچا ،ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایک کروڑ درخت لگائے گئے ،انفراسٹرکچر کا جدید نظام تشکیل دیا گیا ،کرپشن کے خاتمے اور فوری انصاف کے حصول کے لیے خصوصی انقلابی عدالتیں قائم کی گئیں ۔اس نے مغربی تجارت اور مالیاتی اداروںکے ذریعے افریقہ کو جدید نوآبادیات بنانے کے خلاف افریقی اتحاد کی تنظیم کو فعال کرنے اور سامراج مخالف افریقی ممالک کا متحدہ محاذ بنانے کے اقدامات کیے۔
اس نے عورتوں کے خلاف رجعتی قوانین کا خاتمہ کیا،انھیں پہلی بار تعلق کا حق دیا زبردستی شادیوں پر پابندی لگائی ۔وہ پہلے افریقی رہنما تھے جنھوں نے عورتوں کو گھر کے کام کاج سے نجات دلانے کے لیے مردوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ گھر کا کام کریں ۔انھوں نے عورتوں کی کثیر تعداد کو کابینہ ،فوج اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز کیا ۔
تھامس سنکارا کو دنیاکا امیر ترین انقلابی ( نظریات کے حوالے سے)اور غریب ترین صدر بھی کہا جاتا تھا ۔ اس نے سرکاری اہلکاروں کی بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات کا خاتمہ کیا۔وہ خود بھی بطورِ صدر صرف 450ڈالر تنخواہ لیتا تھا ۔ اس کا کُل اثاثہ 4موٹرسائیکلیں، تین گٹار،ایک ٹوٹا ہوا پرانا فریزر اورکتابیں تھیں۔اس نے اپنے دفتر میں ائیرکنڈیشن لگانے سے انکارکردیا تھا اور فرسٹ کلاس ائیر ٹکٹ بھی ممنوع قرار دیا تھا ۔
اس نے دیگر افریقی رہنماؤں کے برعکس عوامی مقامات پر اپنی تصاویر لگانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ '' برکینا فاسو میں 7ملین ( اس زمانے میں برکینا فاسوکی آبادی) تھامس سنکارا ہیں تم کس کس کی تصویر لگاؤ گے۔'' آج برکینا فاسو کی فضاؤں میںاگر سوشلزم اور تھامس سنکاراکی بازگشت سنائی دیتی ہے تو یہ محض کوئی اتفاق یا چند سرپھرے ''اشتراکی کوچہ گردوں''کی خواہشات کا مظہر نہیں بلکہ اس کے پیچھے سرد جنگ کی آخری دہائی میں افریقہ کے اس غریب ترین ملک کے انقلابی سپوتوں کی قابل فخر تاریخ ہے۔ کامپورے کے خلاف عوامی بغاوت بھی اسی انقلابی تاریخ کا تسلسل تھا جو برکینا فاسو کے موجودہ قابض فوجی ٹولے اوراس کے آقاؤں کو خس وخاشاک کی مانند بہا لے جانے کا یقین رکھتا ہے۔
برکینا فاسو میں فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب 11اکتوبر کو وہاں انتخابات ہونے والے تھے ۔ فوجی بغاوت کے ایک دن بعد جنرل دیندرے نے بغاوت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ'' ملک کا سیاسی نظام جانبداری سے چلائے جانے کے باعث یہ مداخلت کی گئی ہے ۔'' لیکن بات اتنی سادہ ہے نہیں۔ جنرل دیندرے دراصل برکینا فاسو پر27سال تک بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والے سابق آمر بلیز کامپورے کا چیف آف اسٹاف رہا ہے اور اس کی ہمدردیاں اب بھی سابقہ آمر اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ ہیں جنھیں انتخابات میں اپنی شکست اور بائیں بازو کی کامیابی صاف نظر آ رہی تھی۔
کامپورے آمریت کا محل عوامی طاقت کے سامنے گزشتہ سال اس وقت ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا ،جب اس نے اپنے اقتدار کو مزید طول دینے کے لیے آئین میں ترمیم کے ذریعے 31اکتوبر2014 کوایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔ برکینابی عوام نے محض دو دن میں کامپورے کو استعفیٰ دے کر پڑوسی اور سابق شریکِ جرم ملک آئیوری کوسٹ فرار ہونے پر مجبورکر دیا تھا۔کامپورے کے فرار کے بعد فوج میں اقتدارکی کشمکش کم از کم 24گھنٹے تک چلتی رہی ہے۔
اس وقت فوج کے سربراہ جنرل اونورے ٹرورے نے اپنے آپ کو ریاست کا سربراہ قرار دیا تھا جس کے بعد فوج کی طرف سے لیفٹیننٹ کرنل یعقوب اسحاق ضدا کو ریاست کا عبوری حکمران منتخب کرنے کا بیان سامنے آیا۔یعنی برکینابی فوج عوامی جدوجہد کا ثمر خود اقتدار کی شکل میں حاصل کرنے کے لیے بے چین تھی۔حزبِ اختلاف کے گروہوں نے جوکامپورے کے 27 سالہ جبر اور سیاسی منظر نامے پر حاوی رہنے کے بعد منظر عام پر آئی تھیں اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''عوام کی جانب سے مقبول بغاوت کی فتح عوام کی ہے اور عبوری نظام کا انتظام بھی عوام کا حق ہے جسے فوج کسی بھی طرح قبضے میں نہیں لے سکتی۔'' انھوں نے فوج کے خلاف9نومبر سے دوبارہ احتجاج شروع کیاجس کے نتیجے میں عبوری حکومت قائم ہوئی اور 11اکتوبر2015کو انتخابات ہونا قرار پائے۔
اس سارے عرصے میں فوج حالات کا پانسہ اپنے حق میں پلٹنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔اس دوران برکینا فاسو میں ایسے حلقے بھی سامنے آ ئے جو ''فوجی سرمایہ دار مردہ باد '' کا نعرہ لگا کر ''اصل فوج'' سے عوام کے ساتھ مل کر حقیقی دشمنوں کے خلاف لڑنے کی اپیل کر تے رہے ۔ مگر برکینابی فوج ایک سامراج نواز اور عوام دشمن فوج ہے جو اپنا حقیقی دشمن محنت کش عوام اور سامراج مخالف بائیں بازو کی جماعتوں اور راہنماؤں کو ہی سمجھتی ہے۔جب کہ فرانسیسی اور امریکی سفارت کار بھی برکینا فاسو پر اپنے کسی کٹھ پتلی حکمران کو مسلط کرنے کے لیے سرگرم رہے کیونکہ برکینا فاسو افریقی خطے میں سامراج کے ایک اڈے کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف اپنی ہی تخلیق کردہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں اس کا اتحادی ہے بلکہ یہاں ڈرون اور فوجی اڈے بھی تعمیر کیے گئے ہیں ۔برکینا فاسو سے ہی اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ برکینا فاسوکے موجودہ عوامی انقلابی ابھار میں دو چیزیں بڑی نمایاں رہی ہیں ۔ ایک سوشلزم اور دوسرا تھامس سنکارا کا نام ۔تھامس سنکارا نہ صرف برکینا فاسو کو افریقہ کا ''کیوبا'' بننے کے لیے پر عزم تھا بلکہ اس سلسلے میں زبردست پیش رفت بھی کر رہا تھا ۔کامریڈ تھامس سنکارا ایک 33سالہ پرعزم سپاہی تھا جو تن پر عسکری وردی اور سر پر چے گویرا جیسی سرخ ستارے والی ٹوپی سجائے سامراجی لٹیروں کے خلاف سینہ سپرتھا۔ اس زمانے کی تصاویر میں وہ ہمہ وقت آستینیں چڑھائے،سامراج اور خطے میں موجود اس کے گماشتوں کو دعوتِ مبارزات دیتا نظر آتا ہے۔
تھامس سنکارا برکینابی فوج میں کیپٹن تھا جو اشتراکی خیالات کا حامل اور مارکس، اینگلز،لینن اوراسٹالن کی تعلیمات سے متاثر تھا ۔ اس نے 1976میں فوج کے اندر ایک خفیہ ''کمیونسٹ افسرگروپ'' تشکیل دیا تھا اور 4اگست1983کومحنت کش عوام کی مدد سے زیربو سایے کی فوجی آمریت کا تختہ اُلٹا تھا ۔
انقلاب کے بعد تھامس سنکارا نے فرانسیسی اثرات کا قلع قمع کیا،IMF اور ورلڈ بینک سے ناتا توڑتے ہوئے سامراجی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کیا ، صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا اور زرعی اصلاحات کرتے ہوئے زمینیں بے زمین کسانوں میں تقسیم کیں ،قبائلی سرداروں کی مراعات اور فرسودہ رسم ورواج کا خاتمہ کیا ۔اس کی پالیسیوں کی نتیجے میں ملک زرعی پیداور میں خود کفیل ہوگیا ۔
اس کے دور میں 2.5ملین بچوں کی ویکسین کا پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچا ،ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایک کروڑ درخت لگائے گئے ،انفراسٹرکچر کا جدید نظام تشکیل دیا گیا ،کرپشن کے خاتمے اور فوری انصاف کے حصول کے لیے خصوصی انقلابی عدالتیں قائم کی گئیں ۔اس نے مغربی تجارت اور مالیاتی اداروںکے ذریعے افریقہ کو جدید نوآبادیات بنانے کے خلاف افریقی اتحاد کی تنظیم کو فعال کرنے اور سامراج مخالف افریقی ممالک کا متحدہ محاذ بنانے کے اقدامات کیے۔
اس نے عورتوں کے خلاف رجعتی قوانین کا خاتمہ کیا،انھیں پہلی بار تعلق کا حق دیا زبردستی شادیوں پر پابندی لگائی ۔وہ پہلے افریقی رہنما تھے جنھوں نے عورتوں کو گھر کے کام کاج سے نجات دلانے کے لیے مردوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ گھر کا کام کریں ۔انھوں نے عورتوں کی کثیر تعداد کو کابینہ ،فوج اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز کیا ۔
تھامس سنکارا کو دنیاکا امیر ترین انقلابی ( نظریات کے حوالے سے)اور غریب ترین صدر بھی کہا جاتا تھا ۔ اس نے سرکاری اہلکاروں کی بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات کا خاتمہ کیا۔وہ خود بھی بطورِ صدر صرف 450ڈالر تنخواہ لیتا تھا ۔ اس کا کُل اثاثہ 4موٹرسائیکلیں، تین گٹار،ایک ٹوٹا ہوا پرانا فریزر اورکتابیں تھیں۔اس نے اپنے دفتر میں ائیرکنڈیشن لگانے سے انکارکردیا تھا اور فرسٹ کلاس ائیر ٹکٹ بھی ممنوع قرار دیا تھا ۔
اس نے دیگر افریقی رہنماؤں کے برعکس عوامی مقامات پر اپنی تصاویر لگانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ '' برکینا فاسو میں 7ملین ( اس زمانے میں برکینا فاسوکی آبادی) تھامس سنکارا ہیں تم کس کس کی تصویر لگاؤ گے۔'' آج برکینا فاسو کی فضاؤں میںاگر سوشلزم اور تھامس سنکاراکی بازگشت سنائی دیتی ہے تو یہ محض کوئی اتفاق یا چند سرپھرے ''اشتراکی کوچہ گردوں''کی خواہشات کا مظہر نہیں بلکہ اس کے پیچھے سرد جنگ کی آخری دہائی میں افریقہ کے اس غریب ترین ملک کے انقلابی سپوتوں کی قابل فخر تاریخ ہے۔ کامپورے کے خلاف عوامی بغاوت بھی اسی انقلابی تاریخ کا تسلسل تھا جو برکینا فاسو کے موجودہ قابض فوجی ٹولے اوراس کے آقاؤں کو خس وخاشاک کی مانند بہا لے جانے کا یقین رکھتا ہے۔