پاکستان اسٹیل کی نجکاری پھر تنازعات کی زد میں آگئی

نجکاری کمیشن کاوفدمشترکہ مفادات کونسل سے منظوری لیے بغیرہی روڈ شوزکیلیے چین چلاگیا،اپوزیشن جماعتیں مخالف ہیں

صوبائی حکومت کی اجازت کا آئینی تقاضابھی پورانہیں کیاگیا،اسٹیل ملزکی نجکاری کاعمل آسان نہیں ہوگا،ماہرین فوٹو: فائل

پاکستان اسٹیل کی نجکاری کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی ایک بار پھر تنازعات کا شکار ہوگیا ہے، نجکاری کمیشن کا وفد مشترکہ مفادات کی کونسل سے منظوری لیے بغیر ہی نجکاری کے سلسلے میں روڈ شوز کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔

نجکاری کمیشن کے سربراہ محمد زبیر، پاکستان اسٹیل کے سی ای او میجر جنرل (ریٹائرڈ ) ظہیر احمد خان اور دیگر متعلقہ افراد پر مشتمل وفد چین روانہ ہوگیا ہے جہاں پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے لیے روڈ شوز منعقد کیے جائیں گے۔واضح رہے کہ وفد کواتوارکوروانہ ہونا تھاتاہم پروازمنسوخ ہونے کے باعث وفدپیرکی شام کوچین کیلیے روانہ ہوا۔

اس سے قبل چینی سرمایہ کاروں کا وفد بھی پاکستان اسٹیل کا دورہ کرکے پلانٹ کی موجودہ حالت کا جائزہ لے چکا ہے، وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کو رواں سال کے آخر تک پاکستان اسٹیل کی نجکاری کی یقین دہانی کرائی ہے جسے پورا کرنے کے لیے چین اور روس میں روڈ شوز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مفاہمتی پالیسی کے تحت منافع بخش ادارے سے بوجھ میں تبدیل کیے جانے والے اس اہم ترین ادارے کی موجودہ صورتحال اور آئینی رکاوٹوں کی وجہ سے نجکاری کا عمل اتنا آسان نہیں ہوگا۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد اسٹریٹجک اہمیت کے حامل اداروں میں صوبوں کی بھی ملکیت ہے بالخصوص پاکستان اسٹیل جیسے اہم ترین ادارے جس کی اربوںروپے مالیت کی اراضی سندھ حکومت کی ملکیت ہے تاہم پاکستان اسٹیل کی نجکاری کا عمل شروع کرنے سے قبل آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے جن میں مشترکہ مفادات کی کونسل سے منظوری اور سندھ حکومت سے اراضی کی نجکاری کی رضامندی کا حصول سرفہرست ہیں۔


ادھر اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کے نجکاری پروگرام پر تنقید کرتے ہوئے آئینی اعتراضات اٹھارہی ہیں، پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکمراں جماعت نے ہی پاکستان اسٹیل کی نجکاری کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے 1997 میں صوبوں سے پاکستان اسٹیل کی نجکاری کی باضابطہ اجازت لی تھی تاہم حکومت تبدیل ہونے کے بعد پاکستان اسٹیل کی نجکاری کا منصوبہ ختم کر کے اسے بحال کرنے اور منافع بخش ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس حوالے سے 2006 میں وطن پارٹی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی پٹیشن بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے نجکاری کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل سے منظوری کی ہدایت کی تھی، پاکستان اسٹیل کی موجودہ مالی صورتحال کے پیش نظر نجکاری کا منصوبہ کسی بڑی ترغیب کے بغیر مکمل ہونا مشکل ہے، پاکستان اسٹیل کی اربوں روپے مالیت کی زمین ہی نجکاری کے لیے ترغیب کا سبب بن سکتی ہے۔

تاہم اس کی راہ میں بہت سی آئینی اور قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ نجکاری کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ فنانشل ایڈوائزر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2008-09سے مسلسل خسارے کا شکار پاکستان اسٹیل کے مجموعی نقصانات 135ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جو مجموعی اثاثوں کا 87.6فیصد ہیں۔ ذرائع کے مطابق نجکاری کمیشن کا وفد چین میں اپنے قیام کے دوران چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان اسٹیل کی نجکاری میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرے گا جس کے لیے نجکاری کمیشن کا مقررکردہ فنانشل ایڈوائزر پہلے ہی اپنی سفارشات مرتب کرکے نجکاری کمیشن کو پیش کرچکا ہے۔

فنانشل ایڈوائزر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیل کے مجموعی اثاثوں کی مالیت 154.2 ارب روپے ہے جس میں 120.7ارب روپے کی اراضی شامل ہے جو پاکستان اسٹیل کے مجموعی اثاثوں کا 78.3فیصد ہے، اس طرح پاکستان اسٹیل کے پلانٹ ایکویپمنٹ (فکسڈ ایسسٹ) کی مالیت مجموعی اثاثوں کا حصہ 27.1 فیصد ہے۔

فنانشل ایڈوائزر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیل کے بنیادی ایکویپمنٹ ناقابل مرمت ہیں، کنٹرول سسٹم، سینٹر مشین، بلاسٹ فرنس، کنٹینیوس کاسٹنگ اپنی عمر پوری کرنے کے قریب ہیں اور انہیں دوبارہ قابل استعمال نہیں بنایا جاسکتا۔ رپورٹ میں پاکستان اسٹیل کو اس حالت تک پہنچانے میں انتظامیہ کی نااہلی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے تاہم انتظامی غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے اور اہل انتظامیہ کے ذریعے ادارے کو ڈوبنے سے بچانے کی ٹھوس عملی کوششوں کے بجائے نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
Load Next Story