عید قرباں کے جانوروں کی خرید و فروخت
ملک بھر کی ضلعی انتظامیہ نے عید الاضحی کے موقعے پر غیر قانونی یا جبراً کھالیں اکھٹی کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے
ملک بھر کی ضلعی انتظامیہ نے عید الاضحی کے موقعے پر غیر قانونی یا جبراً کھالیں اکھٹی کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور غیر قانونی طریقے سے کھالیں اکھٹے کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔
ادھر شہریوں کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں کہ انتظامیہ کی طرف سے عید الاضحی کے موقعے پر قربانی کے جانوروں کی منڈیوں تک رسائی مشکل ہوگئی ہے جب کہ بارش ، گندگی اور ٹریفک جام نے جانوروں کے سودوں میں دشواریاں پیدا کی ہیں، کراچی سمیت اسلام آباد ،لاہور، کوئٹہ اور پشاور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مہنگے ہونے کے باوجود قربانی کے جانوروں کی خریداری میں تیزی آرہی ہے، اورملک کے مختلف علاقوں سے قربانی کے جانور شہر قائد اور دیگر شہروں کے بکر منڈیوں تک پہنچائے گئے ہیں، تاہم جگہ جگہ منڈیوں کے قیام سے ٹریفک کی روانی میںخلل پڑنے کی شکایت عام ہے۔
اگرچہ بڑے شہروں میں کئی مقامات مخصوص کیے گئے ہیں مگر اصل مصیبت ان بیوپاریوں کی ہے جو ملک کے دور دراز علاقوں سے سفر کرتے ہوئے ٹرکوں،پک اپس اور ٹرالروں اور کنٹینروں کے ذریعے جانوروں کی ترسیل کو ممکن بناتے ہیں لیکن مقامی پولیس کی مبینہ سرپرستی کے باعث ان بیوپاریوں کو قدم قدم پر سماج دشمن عناصر، قانون نافذ کرنے اداروں کے دباؤ، دھونس، حکومتی ٹیکسز اور جگہ کا کرایہ دینا پڑتا ہے۔
بعض شاہراہوں پر پولیس چوکیوں کے اہلکار جانور روک لیتے ہیں اور مٹھی گرم ہونے کے بعد ہی جانوروں کو لے جانے کی اجازت ملتی ہے جس کے بعد جانوروں کی مد میں ہونے والا نقصان خریداروں سے ہی پورا کیا جاتا ہے اور پھر شور مچتا ہے کہ جانور مہنگے فروخت کیے جارہے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کو عید قرباں میں جانوروں کے بیوپاریوں کی تکالیف اور ان کے سفر و قیام کو آسان بنانے کے لیے بھی سوچنا چاہیے ۔
سب سے بڑی منڈی کراچی کے مختلف مقامات پر لگتی ہے جہاں ملک بھر سے خوبصورت اور تندرست جانور آتے ہیں۔ ان کی آرائش الگ سے ہوتی ہے تاکہ لاکھوں کے دام لگ جائیں۔ یہ بیوپاری گروپ سال بھر اسی انتظار میں جانوروں کی پرورش اور دیکھ بھال کرتے ہیں کہ عید قرباں پر انھیں اپنے جانوروں کی اچھی قیمتیں مل جائیں۔ ان میں کئی غریب کارکن مڈل مین کے طور پر کام کرتے ہیں، انھیں بھی ان کا حق دیا جائے۔
اسی طرح چارے اور علاج کے عارضی مراکز کے قیام اور خریداروں کے لیے سہولتوں کی فراہمی میں بھی انتظامات کو مزید شفاف رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ منڈیوں میں غلاطت اور گندگی کا کوئی امکان نہ رہے اور جانوروں کی صاف ستھرے میدان ، پنڈال یا سستی اشیا کے لیے قائم بازاروں میں خریدوفروخت جاری رہے۔
ادھر شہریوں کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں کہ انتظامیہ کی طرف سے عید الاضحی کے موقعے پر قربانی کے جانوروں کی منڈیوں تک رسائی مشکل ہوگئی ہے جب کہ بارش ، گندگی اور ٹریفک جام نے جانوروں کے سودوں میں دشواریاں پیدا کی ہیں، کراچی سمیت اسلام آباد ،لاہور، کوئٹہ اور پشاور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مہنگے ہونے کے باوجود قربانی کے جانوروں کی خریداری میں تیزی آرہی ہے، اورملک کے مختلف علاقوں سے قربانی کے جانور شہر قائد اور دیگر شہروں کے بکر منڈیوں تک پہنچائے گئے ہیں، تاہم جگہ جگہ منڈیوں کے قیام سے ٹریفک کی روانی میںخلل پڑنے کی شکایت عام ہے۔
اگرچہ بڑے شہروں میں کئی مقامات مخصوص کیے گئے ہیں مگر اصل مصیبت ان بیوپاریوں کی ہے جو ملک کے دور دراز علاقوں سے سفر کرتے ہوئے ٹرکوں،پک اپس اور ٹرالروں اور کنٹینروں کے ذریعے جانوروں کی ترسیل کو ممکن بناتے ہیں لیکن مقامی پولیس کی مبینہ سرپرستی کے باعث ان بیوپاریوں کو قدم قدم پر سماج دشمن عناصر، قانون نافذ کرنے اداروں کے دباؤ، دھونس، حکومتی ٹیکسز اور جگہ کا کرایہ دینا پڑتا ہے۔
بعض شاہراہوں پر پولیس چوکیوں کے اہلکار جانور روک لیتے ہیں اور مٹھی گرم ہونے کے بعد ہی جانوروں کو لے جانے کی اجازت ملتی ہے جس کے بعد جانوروں کی مد میں ہونے والا نقصان خریداروں سے ہی پورا کیا جاتا ہے اور پھر شور مچتا ہے کہ جانور مہنگے فروخت کیے جارہے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کو عید قرباں میں جانوروں کے بیوپاریوں کی تکالیف اور ان کے سفر و قیام کو آسان بنانے کے لیے بھی سوچنا چاہیے ۔
سب سے بڑی منڈی کراچی کے مختلف مقامات پر لگتی ہے جہاں ملک بھر سے خوبصورت اور تندرست جانور آتے ہیں۔ ان کی آرائش الگ سے ہوتی ہے تاکہ لاکھوں کے دام لگ جائیں۔ یہ بیوپاری گروپ سال بھر اسی انتظار میں جانوروں کی پرورش اور دیکھ بھال کرتے ہیں کہ عید قرباں پر انھیں اپنے جانوروں کی اچھی قیمتیں مل جائیں۔ ان میں کئی غریب کارکن مڈل مین کے طور پر کام کرتے ہیں، انھیں بھی ان کا حق دیا جائے۔
اسی طرح چارے اور علاج کے عارضی مراکز کے قیام اور خریداروں کے لیے سہولتوں کی فراہمی میں بھی انتظامات کو مزید شفاف رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ منڈیوں میں غلاطت اور گندگی کا کوئی امکان نہ رہے اور جانوروں کی صاف ستھرے میدان ، پنڈال یا سستی اشیا کے لیے قائم بازاروں میں خریدوفروخت جاری رہے۔