والدین اے ٹی ایم مشین ہیں
احتجاج کنندہ والدین میں سے بعض نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے
ملک بھر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری بھرکم، مسلسل بڑھتی اور بے جا فیسوں کے کارن بچوں کے والدین کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کے خلاف یہ چیخ و پکار اور احتجاجی آوازیں اقتدار کے ایوانوں میں بھی پہنچی ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی اس واویلے اور سینہ کوبی سے متاثر ہوئے ہیں اور بے مہاروں کو لگام ڈالنے کے احکامات جاری کررہے ہیں لیکن اگر کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی ہے تو وہ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان ہیں۔ یہ اتنے طاقتور، بارسوخ اور سرکش ہوگئے ہیں کہ انھیں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ممکنہ سرکوبی کا ڈر ہے نہ وزیراعظم کی طرف سے کوئی سرزنش انھیں اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہے۔
ان کی زیادتیاں اور استحصال بدستور جاری ہے اور بچوں کے والدین حیرت زدہ ہیں کہ اگر حکومتیں بھی ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے استحصال ہتھکنڈوں کو روک نہیں سکتیں تو وہ اپنے مصائب کا حل تلاش کرنے کے لیے کس در پر جائیں؟ کسے اپنا دکھڑا سنائیں؟ گزشتہ روز میں نے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا۔ جاتی گرمیوں کی دھوپ بھی خاصی تیز تھی لیکن یہ لوگ اپنے پلے کارڈز اٹھائے اور سراپا احتجاج بنے کڑکتی دھوپ اور حبس میں کھڑے تھے۔ ان میں بچے بھی تھے، ان کے والدین بھی اور سول سوسائٹی کے لوگ بھی۔ سب لوگ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کمرشکن فیسوں اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کے بھاری اخراجات کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔
احتجاج کنندہ والدین میں سے بعض نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، ان پر سوالیہ انداز میں لکھا گیا تھا: ''کیا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان نے مجبور اور بے کس والدین کو اے ٹی ایم مشین سمجھ رکھا ہے؟'' جس طرح اے ٹی ایم مشین بے زبان ہوتی ہے اور الیکٹرانک حکم پر بلا چون و چرا پیسے باہر نکالتی رہتی ہے، اسی طرح پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی والدین کو بے زبان مشین سمجھ کر مسلسل ان کی جیبوں سے پیسے نکال رہے ہیں اور اس ظلم و استحصال کو روکنے ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں۔ چند اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے بعض چینلوں پر اس ظلم و زیادتی کے خلاف باز گشت ضرور سنائی دے رہی ہے لیکن اس آواز کو ابھی مزید توانا اور یک جہت کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک بھر میں ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی زیادتیوں اور استحصالی ہتھکنڈوں کے خاتمے کے لیے ایک حل ہمارے ایک دوست سید ضیاء النور نے بھی پیش کیا ہے۔ سید صاحب ''مسلم ہینڈز انٹرنیشنل'' کے پاکستان میں سربراہ ہیں۔ اس کا مرکزی دفتر لندن میں ہے اور اس کے چیئرمین جناب لخت حسنین ہیں۔ مسلم ہینڈز انٹرنیشنل نے مسلم اور غیر مسلم دنیا میں بحران زدہ، جنگوں کے باعث بے گھر اور بھوک و پیاس کا شکار ہونے والوں کی بلا تخصیص مدد و اعانت کرکے نیک نامی اور شہرت کمائی ہے۔
ان کی خدمت کا دائرہ بوسینا اور ہرزیگوینیا سے لے کر افریقہ اور برما کے مصیبت زدہ مسلمانوں سے لے کر صومالیہ کے قحط زدہ انسانوں کی دستگیری تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کو بھی بار بار پہنچے ہیں اور بلوچستان میں بھی ان کی متعدد، متنوع اور مختلف النوع خدمات کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ خصوصاً ڈیرہ بگٹی اور آواران کے علاقوں میں۔ پنجاب میں انھوں نے مسلم ہینڈز انٹرنیشنل کے بینر تلے کئی اسکولوں کا اجرا کیا ہے۔
یہ اسکول اپنی عمارتوں کی شکل میں تو دلکش اور خوبصورت ہیں ہی، معنوی اور باطنی اعتبار سے بھی قابلِ اعتبار گردانے جاتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ طلباء و طالبات سے فیس نہ ہونے کے برابر وصول کی جاتی ہے۔ سید ضیاء النور کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے استحصالی ہتھکنڈوں کے خاتمے کے لیے ابتدائی طور پر دو اقدامات کرنا از بس ضروری ہیں: اول، یہ کہ ملک بھر میں فوری طور پر اور بغیر کسی تاخیر کے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ دوم، یہ کہ ہر صوبائی اور وفاقی وزیر اور ہر چھوٹے بڑے سرکاری افسروں کے بچوں کا سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنا لازمی قرار دے دیا جائے۔
اگر ان دونوں تجاویز پر عمل کر لیا جائے اور اس کی تنفیذ میں سنجیدگی اور قومی محبت و خدمت کے عناصر و جذبات بھی شامل ہوجائیں تو ہمارے دوست سید ضیاء النور کو حق الیقین ہے کہ ملک بھر میں نہ صرف سرکاری اسکولوں و کالجوں کے معیارِ تعلیم میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں کا اعتبار و اعتماد بھی بڑھے گا۔ اس سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی اجارہ داریاں بھی ختم ہوں گی اور انھیں من مانیاں کرنے اور فیسوں میں بے تحاشہ اور من پسند اضافہ کرنے سے بھی روکا جاسکے گا۔ سید ضیاء النور صاحب کی تجاویز خوب ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں سختی سے اور فہمیدگی کے ساتھ ان تجاویز پر عمل کرنے کا آغاز کردے تو نہایت مثبت نتائج و اثرات برآمد ہوں گے۔
ایک نتیجے کا مَیں خود بھی عینی شاہد ہوں۔ عمرہ خان صاحب میرے واقف کار سرکاری افسر ہیں۔ عہدے کے اعتبار سے وہ اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔ ان کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ چند ماہ پہلے ان کا تبادلہ پاکستان کے سب سے دور افتادہ اور پسماندہ ترین علاقے، تحصیل شکرگڑھ میں ہوگیا۔ بطور اے سی وہ شکرگڑھ متعین ہوئے تو دوسرے ہی دن اپنے دونوں بچے شہر کے مندر والے سرکاری پرائمری اسکول میں لے گئے تاکہ انھیں وہاں داخل کرایا جاسکے۔ متعلقہ سرکاری اسکول کے ٹیچرز اور ہیڈ ماسٹر صاحب پہلے تو اے سی صاحب، جو تحصیل کا سب سے بڑا انتظامی افسر ہوتا ہے، کو اپنے روبرو پا کر حیرت زدہ رہ گئے اور پھر اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے اے سی صاحب کو یہ کہتے سنا کہ ان کے دونوں بچے اسی سرکاری پرائمری اسکول کے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھیں گے۔ مبینہ طور پر اے سی صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ وہ شہر کے کسی خوبصورت پرائیویٹ اسکول میں اپنے بچے داخل کرائیں جہاں فرنیچر بھی اچھا ہے اور جنریٹروں کی سہولت بھی ہے لیکن اسسٹنٹ کمشنر عمرہ خان صاحب نے کہا: ''مَیں بھی اسی طرح کے سرکاری اسکولوں کا تعلیم یافتہ ہوں اور میرے بچے بھی سرکاری اسکول ہی میں پڑھیں گے۔'' عینی شاہدین نے مجھے بتایا کہ اے سی صاحب کے بچوں کا سرکاری اسکول میں داخل ہونے کے بڑے فائدے برآمد ہوئے: معیارِ تعلیم بہتر ہونے لگا، اساتذہ کرام میں نظم و ضبط بڑھ گیا، کلاسیں باقاعدہ ہوگئیں اور اسکول میں صفائی ستھرائی کے بہترین انتظامات سامنے آنے لگے۔ اسکول کے منتظمین کو یہی ڈر کھائے رکھتا کہ نجانے اے سی صاحب کب اسکول کا دورہ کرنے نکل آئیں۔ عمرہ خان نے اس درماندہ تحصیل کی شاندار خدمات انجام دیں۔
یہ ایک سنگل اور چھوٹی سی مثال بتاتی ہے کہ سرکار اور سرکار کے اعلیٰ ذمے داران اگر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے بچوں کو بھی ان سے منسلک کریں تو انتہائی مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں اور والدین کو اے ٹی ایم مشین سمجھنے والے استحصالی ہاتھوں سے بھی گلو خلاصی ہوسکتی ہے لیکن یہ رِسک، جو قومی محبت کا عملی ثبوت بھی ہے، کون لے گا؟ ہمارے کتنے بیوروکریٹ اور سرکاری افسران اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ واقعہ یہ ہے کہ تعلیم کے حوالے سے ہمارے ریاستی ادارے بالکل Collapse ہوچکے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کی طرف حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے جو بے پناہ خلاء پیدا ہوا، اسے آگے بڑھ کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے پُر کرنے کی کوشش کی اور خاطر خواہ کامیاب بھی ہوئے۔ اور جب نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے یہ میدان زیادہ صاف اور بے احتساب دیکھا تو ان کی من مانیاں اور سرکشیاں بڑھتی ہی چلی گئیں۔ اب وہ ہر وقت والدین کی کھال ادھیڑنے اور ان کی بوٹیاں نوچنے سے بھی باز نہیں آرہے۔
اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز ایک طالب علم سے چار سال کے دوران تقریباً چالیس لاکھ روپے کی فیس بٹور رہے ہیں۔ ان کے مقابل سرکاری میڈیکل کالجز کی فیسیں اور دیگر چارجز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی منہ زوری اور طاقت کے سامنے PMDC کا سرکاری ادارہ بھی بے بس نظر آرہا ہے اور جب طالب علم کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج سے چالیس پچاس لاکھ روپے خرچ کرکے ڈاکٹر بنے گا، وہ بھلا کیونکر اور کیسے قوم، وطن اور مریض کا دوست ثابت ہوسکے گا؟ یہ ایک بڑے اور مستقل بگاڑ کی بھیانک شکل ہے۔ صرف حکومت کی سنجیدگی، توجہ، سختی اور نگرانی ہی پاکستان اور اس کے عوام کو اس عذات سے محفوظ رکھ سکتی ہے!!
ان کی زیادتیاں اور استحصال بدستور جاری ہے اور بچوں کے والدین حیرت زدہ ہیں کہ اگر حکومتیں بھی ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے استحصال ہتھکنڈوں کو روک نہیں سکتیں تو وہ اپنے مصائب کا حل تلاش کرنے کے لیے کس در پر جائیں؟ کسے اپنا دکھڑا سنائیں؟ گزشتہ روز میں نے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا۔ جاتی گرمیوں کی دھوپ بھی خاصی تیز تھی لیکن یہ لوگ اپنے پلے کارڈز اٹھائے اور سراپا احتجاج بنے کڑکتی دھوپ اور حبس میں کھڑے تھے۔ ان میں بچے بھی تھے، ان کے والدین بھی اور سول سوسائٹی کے لوگ بھی۔ سب لوگ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کمرشکن فیسوں اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کے بھاری اخراجات کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔
احتجاج کنندہ والدین میں سے بعض نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، ان پر سوالیہ انداز میں لکھا گیا تھا: ''کیا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان نے مجبور اور بے کس والدین کو اے ٹی ایم مشین سمجھ رکھا ہے؟'' جس طرح اے ٹی ایم مشین بے زبان ہوتی ہے اور الیکٹرانک حکم پر بلا چون و چرا پیسے باہر نکالتی رہتی ہے، اسی طرح پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی والدین کو بے زبان مشین سمجھ کر مسلسل ان کی جیبوں سے پیسے نکال رہے ہیں اور اس ظلم و استحصال کو روکنے ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں۔ چند اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے بعض چینلوں پر اس ظلم و زیادتی کے خلاف باز گشت ضرور سنائی دے رہی ہے لیکن اس آواز کو ابھی مزید توانا اور یک جہت کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک بھر میں ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی زیادتیوں اور استحصالی ہتھکنڈوں کے خاتمے کے لیے ایک حل ہمارے ایک دوست سید ضیاء النور نے بھی پیش کیا ہے۔ سید صاحب ''مسلم ہینڈز انٹرنیشنل'' کے پاکستان میں سربراہ ہیں۔ اس کا مرکزی دفتر لندن میں ہے اور اس کے چیئرمین جناب لخت حسنین ہیں۔ مسلم ہینڈز انٹرنیشنل نے مسلم اور غیر مسلم دنیا میں بحران زدہ، جنگوں کے باعث بے گھر اور بھوک و پیاس کا شکار ہونے والوں کی بلا تخصیص مدد و اعانت کرکے نیک نامی اور شہرت کمائی ہے۔
ان کی خدمت کا دائرہ بوسینا اور ہرزیگوینیا سے لے کر افریقہ اور برما کے مصیبت زدہ مسلمانوں سے لے کر صومالیہ کے قحط زدہ انسانوں کی دستگیری تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کو بھی بار بار پہنچے ہیں اور بلوچستان میں بھی ان کی متعدد، متنوع اور مختلف النوع خدمات کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ خصوصاً ڈیرہ بگٹی اور آواران کے علاقوں میں۔ پنجاب میں انھوں نے مسلم ہینڈز انٹرنیشنل کے بینر تلے کئی اسکولوں کا اجرا کیا ہے۔
یہ اسکول اپنی عمارتوں کی شکل میں تو دلکش اور خوبصورت ہیں ہی، معنوی اور باطنی اعتبار سے بھی قابلِ اعتبار گردانے جاتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ طلباء و طالبات سے فیس نہ ہونے کے برابر وصول کی جاتی ہے۔ سید ضیاء النور کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے استحصالی ہتھکنڈوں کے خاتمے کے لیے ابتدائی طور پر دو اقدامات کرنا از بس ضروری ہیں: اول، یہ کہ ملک بھر میں فوری طور پر اور بغیر کسی تاخیر کے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ دوم، یہ کہ ہر صوبائی اور وفاقی وزیر اور ہر چھوٹے بڑے سرکاری افسروں کے بچوں کا سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنا لازمی قرار دے دیا جائے۔
اگر ان دونوں تجاویز پر عمل کر لیا جائے اور اس کی تنفیذ میں سنجیدگی اور قومی محبت و خدمت کے عناصر و جذبات بھی شامل ہوجائیں تو ہمارے دوست سید ضیاء النور کو حق الیقین ہے کہ ملک بھر میں نہ صرف سرکاری اسکولوں و کالجوں کے معیارِ تعلیم میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں کا اعتبار و اعتماد بھی بڑھے گا۔ اس سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی اجارہ داریاں بھی ختم ہوں گی اور انھیں من مانیاں کرنے اور فیسوں میں بے تحاشہ اور من پسند اضافہ کرنے سے بھی روکا جاسکے گا۔ سید ضیاء النور صاحب کی تجاویز خوب ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں سختی سے اور فہمیدگی کے ساتھ ان تجاویز پر عمل کرنے کا آغاز کردے تو نہایت مثبت نتائج و اثرات برآمد ہوں گے۔
ایک نتیجے کا مَیں خود بھی عینی شاہد ہوں۔ عمرہ خان صاحب میرے واقف کار سرکاری افسر ہیں۔ عہدے کے اعتبار سے وہ اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔ ان کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ چند ماہ پہلے ان کا تبادلہ پاکستان کے سب سے دور افتادہ اور پسماندہ ترین علاقے، تحصیل شکرگڑھ میں ہوگیا۔ بطور اے سی وہ شکرگڑھ متعین ہوئے تو دوسرے ہی دن اپنے دونوں بچے شہر کے مندر والے سرکاری پرائمری اسکول میں لے گئے تاکہ انھیں وہاں داخل کرایا جاسکے۔ متعلقہ سرکاری اسکول کے ٹیچرز اور ہیڈ ماسٹر صاحب پہلے تو اے سی صاحب، جو تحصیل کا سب سے بڑا انتظامی افسر ہوتا ہے، کو اپنے روبرو پا کر حیرت زدہ رہ گئے اور پھر اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے اے سی صاحب کو یہ کہتے سنا کہ ان کے دونوں بچے اسی سرکاری پرائمری اسکول کے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھیں گے۔ مبینہ طور پر اے سی صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ وہ شہر کے کسی خوبصورت پرائیویٹ اسکول میں اپنے بچے داخل کرائیں جہاں فرنیچر بھی اچھا ہے اور جنریٹروں کی سہولت بھی ہے لیکن اسسٹنٹ کمشنر عمرہ خان صاحب نے کہا: ''مَیں بھی اسی طرح کے سرکاری اسکولوں کا تعلیم یافتہ ہوں اور میرے بچے بھی سرکاری اسکول ہی میں پڑھیں گے۔'' عینی شاہدین نے مجھے بتایا کہ اے سی صاحب کے بچوں کا سرکاری اسکول میں داخل ہونے کے بڑے فائدے برآمد ہوئے: معیارِ تعلیم بہتر ہونے لگا، اساتذہ کرام میں نظم و ضبط بڑھ گیا، کلاسیں باقاعدہ ہوگئیں اور اسکول میں صفائی ستھرائی کے بہترین انتظامات سامنے آنے لگے۔ اسکول کے منتظمین کو یہی ڈر کھائے رکھتا کہ نجانے اے سی صاحب کب اسکول کا دورہ کرنے نکل آئیں۔ عمرہ خان نے اس درماندہ تحصیل کی شاندار خدمات انجام دیں۔
یہ ایک سنگل اور چھوٹی سی مثال بتاتی ہے کہ سرکار اور سرکار کے اعلیٰ ذمے داران اگر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے بچوں کو بھی ان سے منسلک کریں تو انتہائی مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں اور والدین کو اے ٹی ایم مشین سمجھنے والے استحصالی ہاتھوں سے بھی گلو خلاصی ہوسکتی ہے لیکن یہ رِسک، جو قومی محبت کا عملی ثبوت بھی ہے، کون لے گا؟ ہمارے کتنے بیوروکریٹ اور سرکاری افسران اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ واقعہ یہ ہے کہ تعلیم کے حوالے سے ہمارے ریاستی ادارے بالکل Collapse ہوچکے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کی طرف حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے جو بے پناہ خلاء پیدا ہوا، اسے آگے بڑھ کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے پُر کرنے کی کوشش کی اور خاطر خواہ کامیاب بھی ہوئے۔ اور جب نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے یہ میدان زیادہ صاف اور بے احتساب دیکھا تو ان کی من مانیاں اور سرکشیاں بڑھتی ہی چلی گئیں۔ اب وہ ہر وقت والدین کی کھال ادھیڑنے اور ان کی بوٹیاں نوچنے سے بھی باز نہیں آرہے۔
اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز ایک طالب علم سے چار سال کے دوران تقریباً چالیس لاکھ روپے کی فیس بٹور رہے ہیں۔ ان کے مقابل سرکاری میڈیکل کالجز کی فیسیں اور دیگر چارجز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی منہ زوری اور طاقت کے سامنے PMDC کا سرکاری ادارہ بھی بے بس نظر آرہا ہے اور جب طالب علم کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج سے چالیس پچاس لاکھ روپے خرچ کرکے ڈاکٹر بنے گا، وہ بھلا کیونکر اور کیسے قوم، وطن اور مریض کا دوست ثابت ہوسکے گا؟ یہ ایک بڑے اور مستقل بگاڑ کی بھیانک شکل ہے۔ صرف حکومت کی سنجیدگی، توجہ، سختی اور نگرانی ہی پاکستان اور اس کے عوام کو اس عذات سے محفوظ رکھ سکتی ہے!!