میرا بچپن چلا گیا
یقینا وہ ہماری دنیا سے دور ہو کر ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکی ہیں
پروفیسر حسین سحرؔ کا شمار ملک کے نامور ادیبوں، شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے فن کی کئی جہتیں ہیں 30 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ 1965ء میں انھوں نے ایک غزل کہی جس کے دو اشعار زبان زد عام ہوئے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں!
میرے لیے تو سانس بھی لینا محال ہے
یہ کون زندگی کی دعا دے گیا مجھے
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
1980ء کی دہائی میں جب میں نے ملتان کی ادبی زندگی میں قدم رکھا تو حسین سحرؔ کے یہ اشعار ہر دوسرے شخص کو یاد ہوتے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اُن دنوں وہ جس مشاعرے میں بھی جاتے ان سے اس غزل کی فرمائش کی جاتی۔ وقت گزرتا گیا اور حسین سحرؔ کے تخلیقی سفر کی جہتیں مزید کھل کر سامنے آتی گئیں۔
قرآن پاک کا منظوم ترجمہ (آزاد نظم کی صورت) کیا تو معلوم ہوا کہ منظوم ترجمے کی خواہش اُن کی اہلیہ محترمہ نے کی۔ طویل اور مشکل کام کی تکمیل کے ہر مرحلے میں وہ شانہ بشانہ رہیں۔ جب بھی پروفیسر حسین سحرؔ کی کوئی نئی کتاب شایع ہوتی ہے سب سے زیادہ خوشی ان کی اہلیہ کو ہوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کی ہر اُس خواہش کو پورا کرتی تھیں جو اُن کے ذہن میں ہوتی تھی 53 سالہ ازدواجی زندگی میں ہم نے اُن دونوں کو ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے قربانی دیتے دیکھا۔ اگر کبھی حالات کی گرمی ہے تو اُن کی زبان سے کلمہ شکر ادا ہوتا رہا۔ دوسری جانب بہت زیادہ آسودگی ہوئی تو تب بھی خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہے۔
میرے ان دونوں سے کئی رشتے ہیں حسین سحرؔ میرے چچا ہیں جب کہ ان کی اہلیہ میری چچی اور خالہ تھیں اب آپ کو یہ جملہ پڑھ کر احساس ہو گیا ہو گا کہ میری چچی اب دنیا میں نہیں رہیں یہ حادثہ 14 ستمبر 2015ء کو ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو یہ بتاؤں کہ اُن کی موت کی وجہ کیا ہے؟ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ تو اپنے قدموں پہ چل کے اسپتال معمول کے معائنہ کے لیے گئی تھیں۔
سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی معالج نے کہا ایک دن کے لیے داخل ہو جائیں پھر یوں ہوا ''مرض بڑھتا گیا،جوں جوں دوا کی'' وہ ہم سے کہتی رہیں کہ مجھے گھر لے جاؤ۔ لیکن ہم ڈاکٹروں کے مشورے پر چل رہے تھے خیال تھا وہ بہت جلد ٹھیک ہو کر آ جائیں گی۔ جب گھر آتا تو میری ماں مجھ سے پوچھتی کہ میری چھوٹی بہن کا کیا حال ہے؟ میں اُن کو تسلی دیتا کہ سانس کا مسئلہ ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ عجیب کیفیت سے گزر رہا تھا اسپتال جاتا تو وہ کہتیں مجھے گھر لے جاؤ۔
گھر آتا تو ماں جی سوال کرتیں کہ میری بہن کب آئے گی؟ پھر ایک رات برادر عزیز ڈاکٹر بلال احسن قریشی اور ڈاکٹر شکیل احمد ہمیں بتایا کہ اُن کی حالت تشویشناک ہے یہ سنتے ہی ہم نے لاہور میں موجود اپنے چچا ڈاکٹر ذوالفقار سے رابطہ کیا وہ آئے تو انھوں نے ہمیں تسلیاں دیں فکر نہ کریں جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔ دوسری طرف یہ صورتحال تھی کہ اُن کے لیے ہر آنے والا لمحہ اذیت میں اضافہ کر رہا تھا۔ آکسیجن کی کمی واقع ہو رہی تھی سانس بڑی مشکل سے لے رہی تھیں ہم حیران تھے اُن کو تو ساری زندگی کبھی بخار نہیں ہوا اور اب یہ حالت ہو گئی۔
میرے لیے تو سانس بھی لینا محال ہے
وہ اپنے شریک حیات حسین سحرؔ کے اس مصرعے کی تصویر بن کر اپنے بچوں سے کہتی رہیں مجھے گھر لے جاؤ۔ کوئی مجھے زندگی کی دعا دے دے لیکن خدا کا فیصلہ کچھ اور تھا 5 ستمبر 2015ء سے لے کر 14 ستمبر 2015ء دوپہر تک ہم سب اُن کو زندگی کی دعائیں دے رہے تھے لیکن وہ حسین سحرؔ کے اس شعر کی تفسیر بن کر ہم سے جدا ہو گئیں۔
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
گھر میں کہرام برپا ہو گیا میری ماں کے بین تھے ''بڑی تو مَیں تھی یہ کیوں چلی گئی'' بڑے بیٹے کے انتظار میں تدفین اگلے دن صبح کی گئی۔ میں قبرستان میں کھڑا جب اُن کی قبر پر اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈال رہا تھا تو سوچ رہا تھا میرا بچپن چلا گیا۔
میں اُن کا بھانجا تھا لیکن میں نے کبھی اُن کو خالہ نہیں کہا ہمیشہ اُن کو چچی جان کہا لیکن جب وہ اچھے موڈ میں ہوتیں تو مجھ سے کہتیں ''شاکر ! تینوں پتہ اے میرے تیرے نال کنے رشتے نے'' آگے سے میں جواب دیتا ''جی چچی مینوں پتہ اے کہ میرا بچپن تہاڈے ہتھاں وچ گزریا اے'' اگر کسی لمحے میری یا میرے بچوں میں سے کسی کی طبیعت خراب ہو جاتی تو اُن کا فکر دیدنی ہوتا تھا اکثر وہ یہ کہتیں کہ بچپن میں مَیں بہت کمزور ہوتا تھا میری صحت اچھی نہیں ہوتی تھی اور میں اُن کو کہتا یہ سب آپ کی دعائیں ہیں ظاہر ہے ان کو اپنے بھانجوں سے بے لوث پیار تھا جس لمحے اُن کا انتقال ہوا وہ لمحہ بڑا اذیت ناک تھا میں سوچ رہا تھا کہ گھر فون کر کے کیا کہوں کہ دعائیں دینے والی ''ماسی'' ہم سے روٹھ گئی۔
اُن کے بیٹوں شہزاد اور مہزاد کا سامنا کس طریقے سے کروں گا۔ معلوم نہیں گھر میں اُن کی موت کی خبر کیسے پہنچی مجھے تو بس اتنا یاد ہے 14 ستمبر سے لے کر آج تک آنکھوں سے آنسوؤں کی کِن مِن جاری ہے وہ منوں مٹی اوڑھے ملتان کے ایک قدیمی قبرستان حسن پروانہ میں آسودہ خاک ہیں لیکن میری آنکھوں کے سامنے اُن کی موہنی سی صورت اب بھی رہتی ہے اور یہ بار بار کہتی ہے ''پُتر اپنا خیال رکھیا کر'' لیکن جیسے ہی اُن کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو سامنے کچھ نظر نہیں آتا۔ آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں منظر دھندھلا ہو جاتا ہے اور ایسے میں مجھے موت کے بارے میں خلیل جبران کی لکھی ہوئی وہ تحریر یاد آ جاتی ہے جس میں اس نے لکھا تھا
''میں نے بارہا اس موضوع پر غور کیا کہ ''موت ''کیا ہے؟ اس سے زندگی کا کیارشتہ ہے؟ ایک دفعہ میں نے سمندری جہاز دیکھا جب وہ ساحل سے دور ہوا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لوگوں نے کہا ''چلا گیا'' میں نے سوچا دور ایک بندر گاہ ہو گی وہاں یہی جہاز دیکھ کر لوگ کہہ رہے ہوں گے ''آ گیا'' شاید اسی کا نام موت ہے ۔ ایک پرانی زندگی کا خاتمہ اور نئی زندگی کی ابتداء۔''
یقینا وہ ہماری دنیا سے دور ہو کر ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکی ہیں ہم کو یقین ہے وہ اُس زندگی میں بھی اُن کے ساتھ موجود ہیں جن کے ساتھ وہ اپنی زندگی میں محبت و مؤدت رکھتی تھیں اور وہ ہستیاں محمدؐ و آل محمدؐ ہیں جن کے ساتھ انھوں نے ہمیشہ عقیدت اور محبت کا رشتہ رکھا۔
٭٭٭
میرے لیے تو سانس بھی لینا محال ہے
یہ کون زندگی کی دعا دے گیا مجھے
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
1980ء کی دہائی میں جب میں نے ملتان کی ادبی زندگی میں قدم رکھا تو حسین سحرؔ کے یہ اشعار ہر دوسرے شخص کو یاد ہوتے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اُن دنوں وہ جس مشاعرے میں بھی جاتے ان سے اس غزل کی فرمائش کی جاتی۔ وقت گزرتا گیا اور حسین سحرؔ کے تخلیقی سفر کی جہتیں مزید کھل کر سامنے آتی گئیں۔
قرآن پاک کا منظوم ترجمہ (آزاد نظم کی صورت) کیا تو معلوم ہوا کہ منظوم ترجمے کی خواہش اُن کی اہلیہ محترمہ نے کی۔ طویل اور مشکل کام کی تکمیل کے ہر مرحلے میں وہ شانہ بشانہ رہیں۔ جب بھی پروفیسر حسین سحرؔ کی کوئی نئی کتاب شایع ہوتی ہے سب سے زیادہ خوشی ان کی اہلیہ کو ہوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کی ہر اُس خواہش کو پورا کرتی تھیں جو اُن کے ذہن میں ہوتی تھی 53 سالہ ازدواجی زندگی میں ہم نے اُن دونوں کو ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے قربانی دیتے دیکھا۔ اگر کبھی حالات کی گرمی ہے تو اُن کی زبان سے کلمہ شکر ادا ہوتا رہا۔ دوسری جانب بہت زیادہ آسودگی ہوئی تو تب بھی خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہے۔
میرے ان دونوں سے کئی رشتے ہیں حسین سحرؔ میرے چچا ہیں جب کہ ان کی اہلیہ میری چچی اور خالہ تھیں اب آپ کو یہ جملہ پڑھ کر احساس ہو گیا ہو گا کہ میری چچی اب دنیا میں نہیں رہیں یہ حادثہ 14 ستمبر 2015ء کو ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو یہ بتاؤں کہ اُن کی موت کی وجہ کیا ہے؟ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ تو اپنے قدموں پہ چل کے اسپتال معمول کے معائنہ کے لیے گئی تھیں۔
سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی معالج نے کہا ایک دن کے لیے داخل ہو جائیں پھر یوں ہوا ''مرض بڑھتا گیا،جوں جوں دوا کی'' وہ ہم سے کہتی رہیں کہ مجھے گھر لے جاؤ۔ لیکن ہم ڈاکٹروں کے مشورے پر چل رہے تھے خیال تھا وہ بہت جلد ٹھیک ہو کر آ جائیں گی۔ جب گھر آتا تو میری ماں مجھ سے پوچھتی کہ میری چھوٹی بہن کا کیا حال ہے؟ میں اُن کو تسلی دیتا کہ سانس کا مسئلہ ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ عجیب کیفیت سے گزر رہا تھا اسپتال جاتا تو وہ کہتیں مجھے گھر لے جاؤ۔
گھر آتا تو ماں جی سوال کرتیں کہ میری بہن کب آئے گی؟ پھر ایک رات برادر عزیز ڈاکٹر بلال احسن قریشی اور ڈاکٹر شکیل احمد ہمیں بتایا کہ اُن کی حالت تشویشناک ہے یہ سنتے ہی ہم نے لاہور میں موجود اپنے چچا ڈاکٹر ذوالفقار سے رابطہ کیا وہ آئے تو انھوں نے ہمیں تسلیاں دیں فکر نہ کریں جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔ دوسری طرف یہ صورتحال تھی کہ اُن کے لیے ہر آنے والا لمحہ اذیت میں اضافہ کر رہا تھا۔ آکسیجن کی کمی واقع ہو رہی تھی سانس بڑی مشکل سے لے رہی تھیں ہم حیران تھے اُن کو تو ساری زندگی کبھی بخار نہیں ہوا اور اب یہ حالت ہو گئی۔
میرے لیے تو سانس بھی لینا محال ہے
وہ اپنے شریک حیات حسین سحرؔ کے اس مصرعے کی تصویر بن کر اپنے بچوں سے کہتی رہیں مجھے گھر لے جاؤ۔ کوئی مجھے زندگی کی دعا دے دے لیکن خدا کا فیصلہ کچھ اور تھا 5 ستمبر 2015ء سے لے کر 14 ستمبر 2015ء دوپہر تک ہم سب اُن کو زندگی کی دعائیں دے رہے تھے لیکن وہ حسین سحرؔ کے اس شعر کی تفسیر بن کر ہم سے جدا ہو گئیں۔
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
گھر میں کہرام برپا ہو گیا میری ماں کے بین تھے ''بڑی تو مَیں تھی یہ کیوں چلی گئی'' بڑے بیٹے کے انتظار میں تدفین اگلے دن صبح کی گئی۔ میں قبرستان میں کھڑا جب اُن کی قبر پر اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈال رہا تھا تو سوچ رہا تھا میرا بچپن چلا گیا۔
میں اُن کا بھانجا تھا لیکن میں نے کبھی اُن کو خالہ نہیں کہا ہمیشہ اُن کو چچی جان کہا لیکن جب وہ اچھے موڈ میں ہوتیں تو مجھ سے کہتیں ''شاکر ! تینوں پتہ اے میرے تیرے نال کنے رشتے نے'' آگے سے میں جواب دیتا ''جی چچی مینوں پتہ اے کہ میرا بچپن تہاڈے ہتھاں وچ گزریا اے'' اگر کسی لمحے میری یا میرے بچوں میں سے کسی کی طبیعت خراب ہو جاتی تو اُن کا فکر دیدنی ہوتا تھا اکثر وہ یہ کہتیں کہ بچپن میں مَیں بہت کمزور ہوتا تھا میری صحت اچھی نہیں ہوتی تھی اور میں اُن کو کہتا یہ سب آپ کی دعائیں ہیں ظاہر ہے ان کو اپنے بھانجوں سے بے لوث پیار تھا جس لمحے اُن کا انتقال ہوا وہ لمحہ بڑا اذیت ناک تھا میں سوچ رہا تھا کہ گھر فون کر کے کیا کہوں کہ دعائیں دینے والی ''ماسی'' ہم سے روٹھ گئی۔
اُن کے بیٹوں شہزاد اور مہزاد کا سامنا کس طریقے سے کروں گا۔ معلوم نہیں گھر میں اُن کی موت کی خبر کیسے پہنچی مجھے تو بس اتنا یاد ہے 14 ستمبر سے لے کر آج تک آنکھوں سے آنسوؤں کی کِن مِن جاری ہے وہ منوں مٹی اوڑھے ملتان کے ایک قدیمی قبرستان حسن پروانہ میں آسودہ خاک ہیں لیکن میری آنکھوں کے سامنے اُن کی موہنی سی صورت اب بھی رہتی ہے اور یہ بار بار کہتی ہے ''پُتر اپنا خیال رکھیا کر'' لیکن جیسے ہی اُن کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو سامنے کچھ نظر نہیں آتا۔ آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں منظر دھندھلا ہو جاتا ہے اور ایسے میں مجھے موت کے بارے میں خلیل جبران کی لکھی ہوئی وہ تحریر یاد آ جاتی ہے جس میں اس نے لکھا تھا
''میں نے بارہا اس موضوع پر غور کیا کہ ''موت ''کیا ہے؟ اس سے زندگی کا کیارشتہ ہے؟ ایک دفعہ میں نے سمندری جہاز دیکھا جب وہ ساحل سے دور ہوا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لوگوں نے کہا ''چلا گیا'' میں نے سوچا دور ایک بندر گاہ ہو گی وہاں یہی جہاز دیکھ کر لوگ کہہ رہے ہوں گے ''آ گیا'' شاید اسی کا نام موت ہے ۔ ایک پرانی زندگی کا خاتمہ اور نئی زندگی کی ابتداء۔''
یقینا وہ ہماری دنیا سے دور ہو کر ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکی ہیں ہم کو یقین ہے وہ اُس زندگی میں بھی اُن کے ساتھ موجود ہیں جن کے ساتھ وہ اپنی زندگی میں محبت و مؤدت رکھتی تھیں اور وہ ہستیاں محمدؐ و آل محمدؐ ہیں جن کے ساتھ انھوں نے ہمیشہ عقیدت اور محبت کا رشتہ رکھا۔
٭٭٭