’’جوانی پھر نہیں آنی ‘‘چربہ ہونے کے باوجود تفریح سے بھر پور
فلم کی ہدایات ندیم بیگ نے دی ہیں جب کہ اس کی کہانی واسع چوہدری نے لکھی ہے
KARACHI:
فلم ''جوانی پھر نہیں آنی'' بھارتی اور انگریزی فلموں کی مکس چارٹ ہے جس میں مکالموں کے لیے مصالحہ صرف اور صرف خالص پاکستانی استعمال کیے گئے، فلم کا پلاٹ بھارتی فلم ''مستی'' ، ''میں تیرا ہیرو'' اور انگریزی فلم''ہینگ اوور'' کا چربہ ہے لیکن ان سب کے باوجود فلم تفریح سے بھرپور ہے۔
فلم کی ہدایات ندیم بیگ نے دی ہیں جب کہ اس کی کہانی واسع چوہدری نے لکھی۔ فلم کی کہانی چار دوستوں کی ہے جس میں سے تین دوست حمزہ علی عباسی(سیف)، احمد بٹ(پرویز)، واسع چوہدری(شیخ)شادی شدہ ہیں اور بیویوں کے آمرانہ رویہ سے تنگ ہیں، اسی دوران ان کا پرانا دوست ہمایوں سعید(شیری) ملنے آتا ہے، انہیں کوستا ہے کہ وہ جورو کے غلام بن گئے ہیں اوربیماری کابہانہ بنا کر ان کی بیویوں سے جھوٹ بول کرعیاشی کیلیے بنکاک لے جاتا ہے۔
فلم میں انٹرمیشن سے پہلے یوں معلوم ہوا کہ بھارتی فلم ''مستی'' کے پلاٹ پر پاکستانی چہرے دیکھ رہے ہوں۔ فلم میں عائشہ خان کو رول کچھ زیادہ نہیں دیا گیا لیکن جتنی بار بھی وہ اسکرین پر آئیں باقی ہیروئن پراپنی با کمال شخصیت سے سبقت لے گئیں، فلم میں ثروت گیلانی نے بہترین اداکاری کی جب کہ عظمیٰ خان بھی مناسب لگیں لیکن فلم میں مہوش حیات نے سب سے زیادہ مایوس کن اداکاری کی انہیں گلیمرس کردار دیا گیا لیکن وہ اس سے انصاف نہ کرسکیں جب کہ ان کے نسبت عائشہ خان زیادہ گلیمرس لگیں۔
سوہائے علی ابڑوانٹرمیشن کے بعد فلم میں جلوہ گر ہوئیں جب تین دوستوں کو چوتھے دوست کی شادی کی خبر ملتی ہے لیکن سوہائی کسی مختلف کردار میں نظر نہیں آئیں انہوں نے ہمیشہ کی طرح چلبلی لڑکی کا کردار ادا کیا لیکن اس فلم میں تھوڑا مناسب ادا کیا۔ بشریٰ انصاری کی اداکاری ہمیشہ کی طرح باکمال تھی لیکن ان کا کردار ان کے شہر آفاق ڈرامہ''ڈولی کی آئے گی بارات'' کی صائمہ چوہدری سے مماثلت رکھتا تھا،جاوید چوہدری اور اسماعیل تارہ نے اچھی اداکاری کی، ہمایوں سعید ہمیشہ کی طرح ہی مناسب اداکاری کرتے نظر آئے،حمزہ علی عباسی اور احمد علی بٹ نے بہترین اداکاری کی۔ فلم میں مکالموں کا استعمال قابل تعریف ہے جو بے ساختہ طور پر قہقہ لگانے پر مجبور کردیتے ہیں۔
فلم ''جوانی پھر نہیں آنی'' بھارتی اور انگریزی فلموں کی مکس چارٹ ہے جس میں مکالموں کے لیے مصالحہ صرف اور صرف خالص پاکستانی استعمال کیے گئے، فلم کا پلاٹ بھارتی فلم ''مستی'' ، ''میں تیرا ہیرو'' اور انگریزی فلم''ہینگ اوور'' کا چربہ ہے لیکن ان سب کے باوجود فلم تفریح سے بھرپور ہے۔
فلم کی ہدایات ندیم بیگ نے دی ہیں جب کہ اس کی کہانی واسع چوہدری نے لکھی۔ فلم کی کہانی چار دوستوں کی ہے جس میں سے تین دوست حمزہ علی عباسی(سیف)، احمد بٹ(پرویز)، واسع چوہدری(شیخ)شادی شدہ ہیں اور بیویوں کے آمرانہ رویہ سے تنگ ہیں، اسی دوران ان کا پرانا دوست ہمایوں سعید(شیری) ملنے آتا ہے، انہیں کوستا ہے کہ وہ جورو کے غلام بن گئے ہیں اوربیماری کابہانہ بنا کر ان کی بیویوں سے جھوٹ بول کرعیاشی کیلیے بنکاک لے جاتا ہے۔
فلم میں انٹرمیشن سے پہلے یوں معلوم ہوا کہ بھارتی فلم ''مستی'' کے پلاٹ پر پاکستانی چہرے دیکھ رہے ہوں۔ فلم میں عائشہ خان کو رول کچھ زیادہ نہیں دیا گیا لیکن جتنی بار بھی وہ اسکرین پر آئیں باقی ہیروئن پراپنی با کمال شخصیت سے سبقت لے گئیں، فلم میں ثروت گیلانی نے بہترین اداکاری کی جب کہ عظمیٰ خان بھی مناسب لگیں لیکن فلم میں مہوش حیات نے سب سے زیادہ مایوس کن اداکاری کی انہیں گلیمرس کردار دیا گیا لیکن وہ اس سے انصاف نہ کرسکیں جب کہ ان کے نسبت عائشہ خان زیادہ گلیمرس لگیں۔
سوہائے علی ابڑوانٹرمیشن کے بعد فلم میں جلوہ گر ہوئیں جب تین دوستوں کو چوتھے دوست کی شادی کی خبر ملتی ہے لیکن سوہائی کسی مختلف کردار میں نظر نہیں آئیں انہوں نے ہمیشہ کی طرح چلبلی لڑکی کا کردار ادا کیا لیکن اس فلم میں تھوڑا مناسب ادا کیا۔ بشریٰ انصاری کی اداکاری ہمیشہ کی طرح باکمال تھی لیکن ان کا کردار ان کے شہر آفاق ڈرامہ''ڈولی کی آئے گی بارات'' کی صائمہ چوہدری سے مماثلت رکھتا تھا،جاوید چوہدری اور اسماعیل تارہ نے اچھی اداکاری کی، ہمایوں سعید ہمیشہ کی طرح ہی مناسب اداکاری کرتے نظر آئے،حمزہ علی عباسی اور احمد علی بٹ نے بہترین اداکاری کی۔ فلم میں مکالموں کا استعمال قابل تعریف ہے جو بے ساختہ طور پر قہقہ لگانے پر مجبور کردیتے ہیں۔