انصاف کی سیاست مدینہ کی ریاست

جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف میں انتخابی اتحاد ن لیگ ، پی پی پی اور...

advo786@yahoo.com

تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے منصورہ میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے ساتھ میٹنگ کی ہے جس میں اہم ملکی و سیاسی امور اور آنے والے انتخابات پر غور کیا گیا۔ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف میں انتخابی اتحاد (ن) لیگ اور پی پی پی اور ملکی سیاسی افق پر سنسنی خیز اورحیرت انگیز ہوسکتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے عمران خان کی قیادت میں ابتدائی مرحلے میں باہر ہوجانے والی ٹیم ایک اپ سیٹ اور رن ریٹ کی بنیاد پر ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہوگئی تھی یا آئی جے آئی نے نواز شریف کی جیتی ہوئی بازی پی پی پی کی جھولی میں ڈال کر اقتدار کی ہما بے نظیر کے سر پر بٹھادی تھی۔

جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے موقف اور منشور میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ نصف صدی پر محیط جماعت اسلامی کا سیاسی، سماجی اور مذہبی کردار عملی طور پر سب کے سامنے ہے، البتہ عمران خان کے سیاسی عزائم اور دعوے اس وقت تک تشنہ طلب ہیں جب تک کچھ حکومتی اختیارات میسر نہیں آجاتے۔ گو قابلِ ذکر حکومتی اختیارات تو جماعت اسلامی کے ہاتھ میں بھی کبھی نہیں آئے لیکن پورے ملک میں اسمبلیوں اور سینیٹ میں چند نشستوں، کچھ بلدیاتی اداروں، ٹریڈ اور طلبا یونینز کی صورت میں عوام نے ان پر جتنا اعتماد کیا یا مینڈیٹ دیا، اس اعتبار سے انھوں نے اپنا بھرپورکردار ادا کرکے دِکھا دیا۔

جماعت اور پی ٹی آئی میں یہ فرق ہے کہ جماعت میں پارٹی انتخابات ہوتے ہیں، تمام کام مشاورت سے اور منشور کے مطابق ہوتے ہیں، افراد نظم کے تابع ہوتے ہیں، اس جماعت میں شخصیت پرستی اور خودنمائی کا کوئی گزر نہیں ہے۔ ماسوائے قاضی صاحب کی امارت کے مختصر دورانیہ کے جب ان کے نام کی کیسٹیں ریلیز ہوئیں اور بجیں اور ان کو کاندھوں پر اٹھایا گیا، ان کے اسٹیکرز اور تصاویر کی بہار آگئی تھی، جس کی وجہ سے ایوانوں میں ''ظالمو قاضی آرہا ہے'' کی پھبتیاں کسی گئیں۔

جب کہ جماعت کے برعکس پی ٹی آئی صرف اور صرف ONE MAN SHOW عمران خان کے گرد گھومتی ہے، وہ خود بھی گفتگو کے دوران تحریکِ انصاف، ہم یا ہماری جماعت کی جگہ ''میں'' کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ خود اور ان کے پارٹی عہدیدار کھیل کے میدان کے کارنامے اور شوکت خانم کے حوالے اور کھیلوں کی اصطلاحات استعمال کرکے داد و تحسین اور حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان کے خوش کن دعوے تو سننے میں آتے ہیں مگر کوئی پلاننگ و روڈ میپ دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک طفلان کودک کا جم غفیر حلقہ زن نظر آتا ہے یا پھر سیاسی ہمدردیاں بدلنے اور بیچنے والے سیاسی غاصبوں کا جھرمٹ اور بہت سے بے لوث افراد بھی ان کے حامی اور مداحوں میں شامل ہیں جو دوسری جماعتوں سے بددل اور مایوس ہو کر ان سے امیدیں وابستہ کر بیٹھے ہیں۔

انصاف کی سیاست اور مدینہ کی ریاست کا سلوگن دینے والے عظیم کرکٹر کا ماضی یہ ہے کہ وہ کرکٹ کے 18 آفیشلز میں انصاف و اخلاقیات قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، 18 کروڑ عوام کو کیا انصاف فراہم کریں گے۔ محمد برادران، جاوید میانداد، آصف اقبال اور اقبال قاسم جیسے کئی لازوال کھلاڑی ناحق ان کی انا کی بھینٹ چڑھے۔ قاسم عمر نے تو باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے ان پر کھلاڑیوں سے زبردستی منشیات اسمگل کرانے کے الزامات عاید کیے تھے۔ اسی طرح کرکٹر سرفراز نواز نے بھی پریس کانفرنس میں ان کے اثاثوں اور کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ کرکٹ میں سٹے کی موجودگی اور اس کی آفر کا اعتراف تو وہ خود کرچکے ہیں۔ حال ہی میں بے نامی جائیداد کا اسکینڈل بھی سامنے آگیا ہے جب کہ وہ خود اس میں ملوث ہونے کی صورت میں سیاست چھوڑنے کا دعویٰ کرچکے تھے۔

عمران خان بلاشبہ ایک عظیم کھلاڑی ہیں، لیکن ورلڈکپ جس طرح اتفاقیہ طور پر ہمارے ہاتھ آیا، اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے، انھوں نے ورلڈکپ کی تقریب میں بھی پاکستان اور کرکٹ پر بات کرنے کے بجائے شوکت خانم اسپتال کے لیے چندے کی اپیل کو فوقیت دی۔ نادر ٹائیلز اور قیمتی نوادرات اسمگل کرنے کی کوششیں بھی انھوں نے ہی کی تھی جسے ایف آئی اے حکام نے پکڑلیا تھا۔ کرکٹ کی زندگی میں ان کے زینت امان، پروین بوبی، ریما سارجنٹ جیسی اداکارائوں کے ساتھ اور ٹیرین جیسے اسکینڈلز سامنے آئے۔


یہودی لڑکی سے شادی کے وقت مسلمانوں کا کٹّر دشمن ڈاکٹر ہینری کسنجر ان کا خاص مہمان تھا۔ عمران کا ماضی، حال اور سیاست تمام اپنی ذاتی انا کی تسکین، تشہیر اور خوشامد پسندی اور ہدف کے حصول کا مرتکز ہے جس کے لیے روایتی سیاست دانوں کی طرح اصول، اخلاق، قانون، دوستی اور دشمنی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ انھوں نے نواز شریف کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں طلبا کے پروگرام کو ہائی جیک کرنے کی کوششیں جس پر طلبا نے ان کی بری درگت بنائی اور یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ کہہ کر گرفتار کروادیا کہ وہ نہ یونیورسٹی کا طالب علم ہے نہ مدعو کیا گیا ہے، اس نے طلبا کو یرغمال بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے میں خوش قسمتی سے عمران خان کو جماعت اسلامی کے اکابرین کی کشادہ دلی میسر آگئی جو ان کی جان بخشی ہوئی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے اور انکار پر ان کے ساتھ جو شرم ناک رویہ اور کردار کشی کی مہم چلائی گئی، اس کی روداد ڈاکٹر صاحب خود بیان کرچکے ہیں۔ عطا الحق قاسمی جیسے کہنہ مشق ادیب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اس جماعت نے دہشت گردی کا راستہ اختیار کرلیا ہے، وہ میڈیا کے افراد کو گندی گالیاں دینے کے علاوہ خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ قاسمی صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عمران خان کی ہدایت پر لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں میڈیا کے ایسے افراد کی کردار کشی کے لیے سینٹر قائم کیے ہیں، جو اس کی سیاست سے اختلاف رکھتے ہیں، اسلام آباد میں اس کا دفتر F/7 میں واقع ہے۔

جماعت اسلامی کا شعبہ الخدمت، تعلیم، صحت اور قدرتی آفات کے سلسلے میں محض اپنے وسائل سے بڑے پیمانے پر انسانی خدمات انجام دے رہا ہے جو نظر بھی آتا ہے، اس کی لیبارٹریز کے چارجز دیگر کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد تک کم ہیں۔ ادویات پر بھی 15 فیصد تک رعایت دی جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس عمران کے اسپتال اور لیبارٹریز کے چارجز دیگر پرائیویٹ اداروں سے کہیں زیادہ ہیں جس کے لیے ملک کے چپّے چپّے سے زکوٰۃ، خیرات، فطرہ، قربانی کی کھالیں اور دیگر عطیات حاصل کیے جاتے ہیں۔ ملک اور بیرون ملک سے افراد، ادارے، این جی اوز اور خطیر رقوم فراہم کرتے ہیں، اسکولوں کے ننھے بچّوں سے لے کر ہوٹلوں، بینکوں، ایئرلائنز، شوروم، صنعتی و کمرشل اداروں میں اس کی ڈونیشن کے بکس رکھے ہوتے ہیں۔

چندہ مہم میں ہالی وڈ اور بالی وڈ کی حسینائیں پروگرام کرتی ہیں، رفاہی پلاٹوں سے لے کر ساز و سامان کی درآمدات میں چھوٹ حاصل ہونے کے باوجود اس فائونڈیشن کی خدمات نظر نہیں آتی ہیں۔ شاہانہ اخراجات کا خاتمہ اور مختصر کابینہ پی ٹی آئی کا منشور ہے لیکن خود ان کی زندگی پرتعیش اور شاہانہ ہے۔ اگر کوئی صحافی چیئرمین کے چارٹر طیاروں کے اخراجات کا سوال کردے تو جواب دینے کے بجائے اس کے عہدیدار چراغ پا اور مشتعل ہوجاتے ہیں۔ اس تنظیم کے نائب صدر کی تعداد تین ہے، عہدوں کی متمنّی امیدواروں کی ایک طویل قطار بیٹنگ پیڈ باندھے اپنی باری کا انتظار کررہی ہے جب کہ تحریک میں شامل جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد، معراج محمد خان، اصغر خان، ناہید افضال خان ایڈووکیٹ جیسے بے لوث اور بے داغ شخصیت کے مالک کسی گنتی میں اور فعال نظر نہیں آتے۔

ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر قدیر سے ہمدردی جتانے اور ڈرون حملوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے عمران خان خود اس آمر پرویز مشرف کے حامی تھے جب وہ ملک میں اس سلسلے کی داغ بیل ڈال رہا تھا جس کی پالیسیوں پر وہ آج تنقید کررہے ہیں، اس کے کرتا دھرتا و مربی سردار آصف حیات، خورشید قصوری، میاں اظہر، جہانگیر ترین جیسے لوگوں کی صورت میں ان کے دامن آغوش میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پھر کیسی مذمت اور کونسی تبدیلی؟

عمران خان رائٹ اور لیفٹ کی جنگ نہیں بلکہ رائٹ اور رانگ کی جنگ کی حکمت عملی کے تحت خود کو محب وطن، مذہب پرست، کبھی لبرل، کہیں سیکولر ظاہر کرکے ہر مکتبۂ فکر کی حمایت میں مصروفِ عمل ہیں، ان کے جلسوں میں میوزیکل بینڈ بھی ہوتے ہیں، جن میں ابرار الحق اور شہزاد رائے جیسے فنکار گانوں کے ذریعے نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ ''جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں وہ ایمان دار ہے'' ان کے جلسوں میں اسٹیج پر نماز کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے، جس میں چیئرمین دورانِ نماز چیونگم چباتے نظر آتے ہیں۔

ہم جنس پرستی کی تعلیم بھی ان کی جماعت کی رکن دے رہی ہیں۔ اس کردار کے حامل لوگ کیا ''انصاف کی سیاست اور مدینہ کی ریاست'' کو عملی جامہ پہناسکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے افراد اور ان سادہ لوح شہریوں کو جو عمران خان کے دام میں آگئے، اس نکتے پر غوروخوض کرنا چاہیے اور اپنی اس سوچ پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ سب کو موقع مل چکا ہے اب عمران کو موقع ملنا چاہیے۔
Load Next Story