مسئلہ کشمیر نواز شریف کے خطاب کا محور
مسئلہ کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کےدرمیان مسائل کی بنیادی وجہ ہے،اس مسئلےکو جنرل اسمبلی سمیت تمام فورم پر اٹھانا چاہیے
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات ہوگی کیونکہ کشمیر ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنا بہت ضروری ہے اور مسئلہ کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کی بنیادی وجہ ہے، اس مسئلے کو جنرل اسمبلی سمیت تمام فورم پر اٹھانا چاہیے۔
وزیراعظم 30 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرینگے۔ لندن میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے اور دانشمندی سے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف امریکا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے جاتے ہوئے مختصر دورے پر لندن پہنچ گئے۔ خاتون اول کلثوم نواز، قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز اور وزیر مملکت انوشہ رحمن بھی ہمراہ ہیں۔
وزیراعظم کا وفد 35 ارکان پر مشتمل ہے جس میں سیکیورٹی کے 7 اہلکار، آفیشل میڈیا ٹیم کے 7 ارکان اور ایئر فورس عملہ کے 5 ارکان بھی شامل ہیں۔مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70 ویں اجلاس میں اٹھانے کے عزم کا اظہار کرکے درحقیقت وزیراعظم نے قومی امنگوں کی ترجمانی کی اور اہل کشمیر سمیت پوری عالمی برادری کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان خطے کے اس کور ایشو کو منصفانہ اور پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کا خواہاں ہے۔ تاریخی حوالوں سے پاک بھارت مذاکرات وزرائے اعظم ، وزرائے خارجہ ، خارجہ سیکریٹریز اور بیک ڈور چینلز کے ذریعے یا دیگر اعلیٰ سطح پر ہوتے رہے۔
دو طرفہ بات چیت کا اگر کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو اس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں، اس کا الزام بھارت اور اس کے حکمرانوں کے سر جائے گا جنہوں نے کشمیر میں استصواب رائے کا حق دینے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم کرنے کے باوجود ان پر عمل نہیں کیا۔
جواہر لال نہرو کی تقاریر اس امر کی گواہی دیتی ہیں مگر بھارت کی تاریخ ساز کہہ مکرنیوں سے برصغیر کی پوری سیاست تاریخ کے طالب علم کے سامنے بکھری پڑی ہے، عالمی برادری اور یورپی یونین سمیت دنیا بھر کے سنجیدہ مدبرین ، مبصرین اور مورخوں کا یہی کہنا ہے کہ بھارت نے کشمیر مسئلہ پر ٹال مٹول سے کام لیا ۔ مگر اب ضرورت بھارت کے مصلحت آمیز طرز عمل یا مبہم انداز عمل کو رد کرکے پاکستان کے دو ٹوک عملی موقف اور عالمی فورم پر جرات کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پیش کرنے سے عبارت ہے، چاہے بھارت کو اچھا لگے یا نہ لگے، یہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں کا دورانیہ ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جھگڑے کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جسے ہر حال میں حل کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے حل سے نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ دنیا میں امن قائم ہو گا بلکہ دونوں جانب تیزی سے ترقی بھی ہوگی۔
کوئی بھارتی دانشور ، سیاسی رہنما اور اس کی اپوزیشن یہ بتائے کہ میاں نواز شریف کے اس پیغام میں کون سی غلط بات شامل ہے، ان کی امن پسندی اور خیرسگالی کیا ان الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتی کہ پاکستان کی خواہش ہے بھارت سے مسئلہ کشمیر سمیت ہر مسئلے پر بات ہو۔ بھارت مذاکرات کرتا رہا ہے، برس ہا برس سے پاک بھارت مذاکرات کا بنیادی محور مسئلہ کشمیر ہی رہا ہے جس نے کئی مراحل اور نشیب وفراز دیکھے، پاکستان نے ہمیشہ اصولی موقف کے تحت اس بات پر زور دیا کہ کشمیر کا حل سیاسی بات چیت میں ہے۔ تاہم بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جاری رکھا اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے بجائے ظلم و ستم اور ریاستی جبر کا وہ بہیمانہ مظاہرہ کیا کہ دنیا ششدر رہ گئی۔
آج بھی کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے منتظر ہیں، پاکستان اور بھارت کو اچھے پڑوسیوں کی طرح سے رہنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کر نے کا عہد کیا ہے۔ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ہم خطے میں کسی قسم کی بدامنی نہیں چاہتے۔
خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائے ہیں جس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے آیندہ ہونے والے اجلاس کے حوالہ سے نیویارک کے والڈروف اسٹوریا ہوٹل کے بڑے چرچے ہیں، وزیراعظم نواز شریف، مودی ،اوباما اور چینی صدر سمیت دیگر رہنماؤں کے قیام اور ان کے درمیان ملاقاتوں کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
بھارت کے موقر اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے سابق نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ایم کے نارائن کے حوالہ سے امکان ظاہر کیا ہے کہ نریندر مودی جنرل اسمبلی سے خطاب نہیں کریں گے، کیونکہ حروف تہجی کے اعتبار سے نوازشریف کی تقریر ان سے پہلے رکھی گئی ہے۔ یہاں وہ مشاعرہ کلچر کی یاد دلائیں گے جب کوئی معروف شاعر کسی مخصوص شاعر کے بعد کلام پیش کرنے کی دعوت ٹھکرا دیتا ہے۔
بلاشبہ نواز شریف کے لیے اپنے دور حکومت کی یہ تیسری تقریر ہوگی جس میں وہ کشمیر تنازع کو خطے میں امن کی کلیدی ضرورت کے طور پر نہ صرف منوانے کی کوشش کریں گے بلکہ عالمی برادری کو قائل کریں گے کہ مسئلہ کشمیرکے حل کا صحیح وقت آگیا ہے ۔دنیا میں کشمیر فلیش پوائنٹ ہے ۔اس حقیقت کو کئی بار دنیا کے سامنے پیش کرنے کی پاکستان نے حتی المقدور کوشش کی ہے مگر اس بار شاید یہ فیصلہ کن راؤنڈ ہے۔
وزیراعظم 30 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرینگے۔ لندن میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے اور دانشمندی سے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف امریکا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے جاتے ہوئے مختصر دورے پر لندن پہنچ گئے۔ خاتون اول کلثوم نواز، قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز اور وزیر مملکت انوشہ رحمن بھی ہمراہ ہیں۔
وزیراعظم کا وفد 35 ارکان پر مشتمل ہے جس میں سیکیورٹی کے 7 اہلکار، آفیشل میڈیا ٹیم کے 7 ارکان اور ایئر فورس عملہ کے 5 ارکان بھی شامل ہیں۔مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70 ویں اجلاس میں اٹھانے کے عزم کا اظہار کرکے درحقیقت وزیراعظم نے قومی امنگوں کی ترجمانی کی اور اہل کشمیر سمیت پوری عالمی برادری کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان خطے کے اس کور ایشو کو منصفانہ اور پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کا خواہاں ہے۔ تاریخی حوالوں سے پاک بھارت مذاکرات وزرائے اعظم ، وزرائے خارجہ ، خارجہ سیکریٹریز اور بیک ڈور چینلز کے ذریعے یا دیگر اعلیٰ سطح پر ہوتے رہے۔
دو طرفہ بات چیت کا اگر کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو اس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں، اس کا الزام بھارت اور اس کے حکمرانوں کے سر جائے گا جنہوں نے کشمیر میں استصواب رائے کا حق دینے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم کرنے کے باوجود ان پر عمل نہیں کیا۔
جواہر لال نہرو کی تقاریر اس امر کی گواہی دیتی ہیں مگر بھارت کی تاریخ ساز کہہ مکرنیوں سے برصغیر کی پوری سیاست تاریخ کے طالب علم کے سامنے بکھری پڑی ہے، عالمی برادری اور یورپی یونین سمیت دنیا بھر کے سنجیدہ مدبرین ، مبصرین اور مورخوں کا یہی کہنا ہے کہ بھارت نے کشمیر مسئلہ پر ٹال مٹول سے کام لیا ۔ مگر اب ضرورت بھارت کے مصلحت آمیز طرز عمل یا مبہم انداز عمل کو رد کرکے پاکستان کے دو ٹوک عملی موقف اور عالمی فورم پر جرات کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پیش کرنے سے عبارت ہے، چاہے بھارت کو اچھا لگے یا نہ لگے، یہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں کا دورانیہ ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جھگڑے کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جسے ہر حال میں حل کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے حل سے نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ دنیا میں امن قائم ہو گا بلکہ دونوں جانب تیزی سے ترقی بھی ہوگی۔
کوئی بھارتی دانشور ، سیاسی رہنما اور اس کی اپوزیشن یہ بتائے کہ میاں نواز شریف کے اس پیغام میں کون سی غلط بات شامل ہے، ان کی امن پسندی اور خیرسگالی کیا ان الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتی کہ پاکستان کی خواہش ہے بھارت سے مسئلہ کشمیر سمیت ہر مسئلے پر بات ہو۔ بھارت مذاکرات کرتا رہا ہے، برس ہا برس سے پاک بھارت مذاکرات کا بنیادی محور مسئلہ کشمیر ہی رہا ہے جس نے کئی مراحل اور نشیب وفراز دیکھے، پاکستان نے ہمیشہ اصولی موقف کے تحت اس بات پر زور دیا کہ کشمیر کا حل سیاسی بات چیت میں ہے۔ تاہم بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جاری رکھا اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے بجائے ظلم و ستم اور ریاستی جبر کا وہ بہیمانہ مظاہرہ کیا کہ دنیا ششدر رہ گئی۔
آج بھی کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے منتظر ہیں، پاکستان اور بھارت کو اچھے پڑوسیوں کی طرح سے رہنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کر نے کا عہد کیا ہے۔ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ہم خطے میں کسی قسم کی بدامنی نہیں چاہتے۔
خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائے ہیں جس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے آیندہ ہونے والے اجلاس کے حوالہ سے نیویارک کے والڈروف اسٹوریا ہوٹل کے بڑے چرچے ہیں، وزیراعظم نواز شریف، مودی ،اوباما اور چینی صدر سمیت دیگر رہنماؤں کے قیام اور ان کے درمیان ملاقاتوں کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
بھارت کے موقر اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے سابق نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ایم کے نارائن کے حوالہ سے امکان ظاہر کیا ہے کہ نریندر مودی جنرل اسمبلی سے خطاب نہیں کریں گے، کیونکہ حروف تہجی کے اعتبار سے نوازشریف کی تقریر ان سے پہلے رکھی گئی ہے۔ یہاں وہ مشاعرہ کلچر کی یاد دلائیں گے جب کوئی معروف شاعر کسی مخصوص شاعر کے بعد کلام پیش کرنے کی دعوت ٹھکرا دیتا ہے۔
بلاشبہ نواز شریف کے لیے اپنے دور حکومت کی یہ تیسری تقریر ہوگی جس میں وہ کشمیر تنازع کو خطے میں امن کی کلیدی ضرورت کے طور پر نہ صرف منوانے کی کوشش کریں گے بلکہ عالمی برادری کو قائل کریں گے کہ مسئلہ کشمیرکے حل کا صحیح وقت آگیا ہے ۔دنیا میں کشمیر فلیش پوائنٹ ہے ۔اس حقیقت کو کئی بار دنیا کے سامنے پیش کرنے کی پاکستان نے حتی المقدور کوشش کی ہے مگر اس بار شاید یہ فیصلہ کن راؤنڈ ہے۔