ایک گم شدہ بڑا آدمی
باہر بارش اپنا جوبن دکھا رہی تھی اور سڑکیں جھیلوں کا منظر پیش کر رہی تھیں
باہر بارش اپنا جوبن دکھا رہی تھی اور سڑکیں جھیلوں کا منظر پیش کر رہی تھیں لیکن اس کے باوجود گورنر ہاؤس پنجاب کے اندر اپنی تاریخ اور تہذیب سے محبت کرنے والے احباب کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی تھی کہ آج وہاں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کی طرف سے تیار کی گئی مولانا کی زندگی اور کارناموں پر مشتمل ایک ڈاکیومینٹری فلم کا افتتاح کیا جا رہا تھا۔
بارش کی وجہ سے جو کچھ تاخیر ہوئی اس کے دوران ایک بات بار بار دہرائی گئی کہ ہمارے نصابات تعلیم' میڈیا اور متعلقہ سرکاری اور ثقافتی اداروں کی غفلت کی وجہ سے آج یہ وقت آ گیا ہے کہ ہمارے بچے دو چار مشاہیر کو چھوڑ کر تحریک آزادی وطن کے بیشتر عظیم اور قابل فخر رہنماؤں کے کام تو کیا ان کے ناموں تک سے آشنا نہیں، قومی خزانے سے پلنے والے کلچرل اداروں کی آرکائیوز میں بھی ان لوگوں کی یادگاریں نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ انھیں محفوظ کرنا اور اگلی نسلوں تک پہنچانا ان کا فرض منصبی ہے۔
چند برس قبل جب مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے چیئرمین خالد محمود نے (جو ان دنوں پنجاب کے محتسب اعلیٰ تھے) اپنے ساتھی اور عہد ساز صحافی برادرم مجیب الرحمن شامی کے ساتھ مل کر مولانا کے بارے میں ایک ڈاکیومینٹری فلم بنانے کا پروگرام بنایا اور اس ضمن میں مجھ سے رابطہ کیا تو تحقیق پر معلوم ہوا کہ جنگ آزادی کے اس عظیم رہنما' تاریخ ساز صحافی صاحب طرز شاعر' بے مثال مقرر اور قائداعظم اور علامہ اقبال کے قریبی ساتھی کی چند مطبوعہ اور غیرمطبوعہ کتابوں سے قطع نظر نہ ان کی آڈیو کہیں محفوظ ہے اور نہ ویڈیو' صرف تین چار سیکنڈ کا ایک ویڈیو کلپ موجود ہے۔
جس میں وہ آخری دنوں میں اپنے شہرہ آفاق اخبار ''زمیندار'' کے دفتر سے باہر نکل رہے ہیں جب کہ مووی کیمرہ اور ریکارڈنگ کی سہولت دونوں ان کی زندگی کے آخری تیس برسوں میں موجود اور مہیا تھیں مزید تحقیق پر کھلا کہ برطانوی حکومت کا مخالف ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ سرکار کے معتوب رہے چنانچہ انھیں ریڈیو پر آنے کا موقع نہ دیا گیا اور نہ ہی ان کی سیاسی تقریروں کی فلم بندی ہو سکی کہ ان کی بیشتر تقریریں ایسے علاقوں میں کی گئیں۔
جہاں مائیکروفون تک موجود نہ ہوتا تھا اور ہزاروں کے مجمعے سے چاروں طرف گھوم گھوم کر پھیپھڑوں کے زور پر خطاب کرنا پڑتا تھا آزادی کے بعد وہ تقریباً آٹھ برس تک زندہ رہے لیکن اس دوران میں بھی ان کی آواز اور متحرک تقاریر محفوظ نہ کی جا سکیں کہ 1946ء کے بعد سے ان کی صحت اس قدر بگڑ گئی تھی کہ وہ بہت کم کہیں آتے جاتے تھے اور ان کی آواز اور یادداشت بھی بہت حد تک ساتھ چھوڑ چکی تھی سوائے ان کی کتابوں، اخبار کی فائل اور ساکت کیمرہ سے لی ہوئی تصویروں کے اور کچھ بھی ایسا نہیں تھا جسے ڈاکیومینٹری میں استعمال کیا جا سکے۔
ہم نے کئی مہینے لگا کر ایک اسکرپٹ تو بنا لیا جس میں تقریباً تمام مطلوبہ تفصیلات آ گئیں مگر دل مطمئن نہیں تھا اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ریڈیو پاکستان' بی بی سی' ڈائریکٹوریٹ آف فلمز اینڈ پبلی کیشنز انڈین آرکائیوز' علی گڑھ یونیورسٹی اور سابقہ ریاست حیدر آباد دکن سمیت جہاں جہاں ان کی زندگی کا کچھ وقت گزرا اور جہاں سے کسی مواد کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے ۔
وہاں وہاں تلاش کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جائے اس کام میں تقریباً ایک برس لگا کچھ Visual تک رسائی بھی ہو گئی مگر اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہا کہ ان کی شعلہ فشاں آواز اور ویڈیو ریکارڈنگ کہیں سے ہاتھ نہ آئی جن کے بغیر ڈاکیومینٹری میں معلومات تو جمع ہو سکتی تھیں مگر ناظرین بالخصوص نئی نسل کے لیے مولانا کی ذات اور خدمات سے محبت اور تعلق خاطر پیدا کرنا نا ممکن کی حد تک مشکل رہتا، اس مشکل سے مجھے میرے بیٹے اور اس ڈاکیومینٹری کے ڈائریکٹر علی ذی شان نے نکالا اور باتوں باتوں میں ایک دن علامہ کے مشہور مصرعے ''جوانوں کو پیروں کا استاد کر'' کی زندہ مثال بن گیا۔
اس نے کہا کہ کیوں نہ اس ڈاکیومینٹری میں مولانا کو دیکھا اور دکھایا ہی آج کی نوجوان نسل کے حوالے سے جائے کہ اس طرح نہ صرف ہم واقعات کی تاریخی ترتیب کی پابندی سے بچ جائیں گے بلکہ ماضی حال اور مستقبل تینوں کو ایک ساتھ لے کر چل سکیں گے، یہ آئیڈیا خالد محمود' شامی صاحب اور ٹرسٹ کے سیکریٹری راجہ اسد سے شیئر کیا گیا تو انھیں بھی پسند آیا اور یوں اس ڈاکیومینٹری کی فلم بندی کا کام طے اور شروع ہوا جو تقریباً 41 منٹ کے دورانیے پر محیط ہے۔
تقریب کے آغاز میں چیئرمین ظفر علی خاں ٹرسٹ خالد محمود صاحب، مشیر اور خازن مجیب الرحمن شامی اور مجھے بطور مصنف گفتگو کا موقع دیا گیا، میزبانی کے فرائض راجہ اسد نے انجام دیے جب کہ مہمان خاص یعنی گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے اپنی مختصر مگر موثر تقریر میں ڈاکیومینٹری کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ہم تینوں کی طرف سے پیش کیے گئے اس متفقہ خیال کی بھی بھرپور تائید کی کہ ہمیں اپنے ان عظیم قائدین اور محسنوں کی زندگی اور کارناموں کو اسی طرح سے اپنی آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنا چاہیے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ان کے آثار اور مطلوبہ مواد کمیاب ہوتے چلے جائیں گے۔
41 منٹ کی اس دستاویزی فلم میں روایتی اور غیر روایتی تکنیکس کے ساتھ مولانا ظفر علی خان کی پوری زندگی کو ان سے متعلق اہم شخصیات کے انٹرویوز کے ساتھ پیش کیا گیا کہ ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا اور گورنر ہاؤس کے تاریخی دربار ہال میں ناظرین نے مولانا کی معرفت اپنی قومی تاریخ کے ایک اہم ترین حصے کو نہ صرف کھلی آنکھوں سے دیکھا بلکہ اسے اپنے خون میں گردش کرتے ہوئے بھی محسوس کیا کہ یہ ایک ایسے گمشدہ بڑے آدمی کی بازیافت کا عمل تھا جس میں ہمارے قومی وجود سے متعلق بہت سے سوالات کا جواب بھی موجود تھا۔
بدقسمتی سے ہماری نصابی کتابوں سے یا تو ان مشاہیر کے ذکر کو خارج کر دیا گیا ہے یا ان کی ایسی تصویریں دکھائی گئی ہیں جو انھیں مافوق الانسان بنا دیتی ہیں اور یوں نوجوان نسل ان سے مرعوب تو ہوجاتی ہے مگر اپنے اندر ان کی تقلید کا جذبہ بیدار نہیں کر پاتی۔ مختلف احباب کے گفتگو کے دوران مولانا حسرت موہانی' محمد علی جوہر' نواب بہادر یار جنگ' حسین شہید سہروردی' عطاء اللہ شاہ بخاری' عبدالرب نشتر' آغا شورش کاشمیری سمیت کئی ایسے نام لیے جن پر اس طرح کی ڈاکیومینٹریز بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری آیندہ نسلیں ان گم ہوتے ہوئے بڑے لوگوں کی عظمت سے واقف بھی ہو سکیں اور فیض یاب بھی۔
بارش کی وجہ سے جو کچھ تاخیر ہوئی اس کے دوران ایک بات بار بار دہرائی گئی کہ ہمارے نصابات تعلیم' میڈیا اور متعلقہ سرکاری اور ثقافتی اداروں کی غفلت کی وجہ سے آج یہ وقت آ گیا ہے کہ ہمارے بچے دو چار مشاہیر کو چھوڑ کر تحریک آزادی وطن کے بیشتر عظیم اور قابل فخر رہنماؤں کے کام تو کیا ان کے ناموں تک سے آشنا نہیں، قومی خزانے سے پلنے والے کلچرل اداروں کی آرکائیوز میں بھی ان لوگوں کی یادگاریں نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ انھیں محفوظ کرنا اور اگلی نسلوں تک پہنچانا ان کا فرض منصبی ہے۔
چند برس قبل جب مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے چیئرمین خالد محمود نے (جو ان دنوں پنجاب کے محتسب اعلیٰ تھے) اپنے ساتھی اور عہد ساز صحافی برادرم مجیب الرحمن شامی کے ساتھ مل کر مولانا کے بارے میں ایک ڈاکیومینٹری فلم بنانے کا پروگرام بنایا اور اس ضمن میں مجھ سے رابطہ کیا تو تحقیق پر معلوم ہوا کہ جنگ آزادی کے اس عظیم رہنما' تاریخ ساز صحافی صاحب طرز شاعر' بے مثال مقرر اور قائداعظم اور علامہ اقبال کے قریبی ساتھی کی چند مطبوعہ اور غیرمطبوعہ کتابوں سے قطع نظر نہ ان کی آڈیو کہیں محفوظ ہے اور نہ ویڈیو' صرف تین چار سیکنڈ کا ایک ویڈیو کلپ موجود ہے۔
جس میں وہ آخری دنوں میں اپنے شہرہ آفاق اخبار ''زمیندار'' کے دفتر سے باہر نکل رہے ہیں جب کہ مووی کیمرہ اور ریکارڈنگ کی سہولت دونوں ان کی زندگی کے آخری تیس برسوں میں موجود اور مہیا تھیں مزید تحقیق پر کھلا کہ برطانوی حکومت کا مخالف ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ سرکار کے معتوب رہے چنانچہ انھیں ریڈیو پر آنے کا موقع نہ دیا گیا اور نہ ہی ان کی سیاسی تقریروں کی فلم بندی ہو سکی کہ ان کی بیشتر تقریریں ایسے علاقوں میں کی گئیں۔
جہاں مائیکروفون تک موجود نہ ہوتا تھا اور ہزاروں کے مجمعے سے چاروں طرف گھوم گھوم کر پھیپھڑوں کے زور پر خطاب کرنا پڑتا تھا آزادی کے بعد وہ تقریباً آٹھ برس تک زندہ رہے لیکن اس دوران میں بھی ان کی آواز اور متحرک تقاریر محفوظ نہ کی جا سکیں کہ 1946ء کے بعد سے ان کی صحت اس قدر بگڑ گئی تھی کہ وہ بہت کم کہیں آتے جاتے تھے اور ان کی آواز اور یادداشت بھی بہت حد تک ساتھ چھوڑ چکی تھی سوائے ان کی کتابوں، اخبار کی فائل اور ساکت کیمرہ سے لی ہوئی تصویروں کے اور کچھ بھی ایسا نہیں تھا جسے ڈاکیومینٹری میں استعمال کیا جا سکے۔
ہم نے کئی مہینے لگا کر ایک اسکرپٹ تو بنا لیا جس میں تقریباً تمام مطلوبہ تفصیلات آ گئیں مگر دل مطمئن نہیں تھا اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ریڈیو پاکستان' بی بی سی' ڈائریکٹوریٹ آف فلمز اینڈ پبلی کیشنز انڈین آرکائیوز' علی گڑھ یونیورسٹی اور سابقہ ریاست حیدر آباد دکن سمیت جہاں جہاں ان کی زندگی کا کچھ وقت گزرا اور جہاں سے کسی مواد کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے ۔
وہاں وہاں تلاش کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جائے اس کام میں تقریباً ایک برس لگا کچھ Visual تک رسائی بھی ہو گئی مگر اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہا کہ ان کی شعلہ فشاں آواز اور ویڈیو ریکارڈنگ کہیں سے ہاتھ نہ آئی جن کے بغیر ڈاکیومینٹری میں معلومات تو جمع ہو سکتی تھیں مگر ناظرین بالخصوص نئی نسل کے لیے مولانا کی ذات اور خدمات سے محبت اور تعلق خاطر پیدا کرنا نا ممکن کی حد تک مشکل رہتا، اس مشکل سے مجھے میرے بیٹے اور اس ڈاکیومینٹری کے ڈائریکٹر علی ذی شان نے نکالا اور باتوں باتوں میں ایک دن علامہ کے مشہور مصرعے ''جوانوں کو پیروں کا استاد کر'' کی زندہ مثال بن گیا۔
اس نے کہا کہ کیوں نہ اس ڈاکیومینٹری میں مولانا کو دیکھا اور دکھایا ہی آج کی نوجوان نسل کے حوالے سے جائے کہ اس طرح نہ صرف ہم واقعات کی تاریخی ترتیب کی پابندی سے بچ جائیں گے بلکہ ماضی حال اور مستقبل تینوں کو ایک ساتھ لے کر چل سکیں گے، یہ آئیڈیا خالد محمود' شامی صاحب اور ٹرسٹ کے سیکریٹری راجہ اسد سے شیئر کیا گیا تو انھیں بھی پسند آیا اور یوں اس ڈاکیومینٹری کی فلم بندی کا کام طے اور شروع ہوا جو تقریباً 41 منٹ کے دورانیے پر محیط ہے۔
تقریب کے آغاز میں چیئرمین ظفر علی خاں ٹرسٹ خالد محمود صاحب، مشیر اور خازن مجیب الرحمن شامی اور مجھے بطور مصنف گفتگو کا موقع دیا گیا، میزبانی کے فرائض راجہ اسد نے انجام دیے جب کہ مہمان خاص یعنی گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے اپنی مختصر مگر موثر تقریر میں ڈاکیومینٹری کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ہم تینوں کی طرف سے پیش کیے گئے اس متفقہ خیال کی بھی بھرپور تائید کی کہ ہمیں اپنے ان عظیم قائدین اور محسنوں کی زندگی اور کارناموں کو اسی طرح سے اپنی آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنا چاہیے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ان کے آثار اور مطلوبہ مواد کمیاب ہوتے چلے جائیں گے۔
41 منٹ کی اس دستاویزی فلم میں روایتی اور غیر روایتی تکنیکس کے ساتھ مولانا ظفر علی خان کی پوری زندگی کو ان سے متعلق اہم شخصیات کے انٹرویوز کے ساتھ پیش کیا گیا کہ ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا اور گورنر ہاؤس کے تاریخی دربار ہال میں ناظرین نے مولانا کی معرفت اپنی قومی تاریخ کے ایک اہم ترین حصے کو نہ صرف کھلی آنکھوں سے دیکھا بلکہ اسے اپنے خون میں گردش کرتے ہوئے بھی محسوس کیا کہ یہ ایک ایسے گمشدہ بڑے آدمی کی بازیافت کا عمل تھا جس میں ہمارے قومی وجود سے متعلق بہت سے سوالات کا جواب بھی موجود تھا۔
بدقسمتی سے ہماری نصابی کتابوں سے یا تو ان مشاہیر کے ذکر کو خارج کر دیا گیا ہے یا ان کی ایسی تصویریں دکھائی گئی ہیں جو انھیں مافوق الانسان بنا دیتی ہیں اور یوں نوجوان نسل ان سے مرعوب تو ہوجاتی ہے مگر اپنے اندر ان کی تقلید کا جذبہ بیدار نہیں کر پاتی۔ مختلف احباب کے گفتگو کے دوران مولانا حسرت موہانی' محمد علی جوہر' نواب بہادر یار جنگ' حسین شہید سہروردی' عطاء اللہ شاہ بخاری' عبدالرب نشتر' آغا شورش کاشمیری سمیت کئی ایسے نام لیے جن پر اس طرح کی ڈاکیومینٹریز بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری آیندہ نسلیں ان گم ہوتے ہوئے بڑے لوگوں کی عظمت سے واقف بھی ہو سکیں اور فیض یاب بھی۔