انقلاب کب آئے گا
انقلاب لفظ ’’قلب‘‘ سے نکلا ہے اور یہ جسم کا وہ حصہ ہے جو کبھی رُکتا نہیں اور جب یہ رک جائے تو جسم بے جان ہو جاتا ہے
انقلاب لفظ ''قلب'' سے نکلا ہے اور یہ جسم کا وہ حصہ ہے جو کبھی رُکتا نہیں اور جب یہ رک جائے تو جسم بے جان ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح وہ معاشرہ جن میں انقلاب نہیں آتا بے جان معاشرہ ہوتا ہے۔
اکثر لوگ مُجھ سے پُوچھتے ہیں وکیل صاحب ہمارے ملک میں انقلاب کب آئے گا جس سے مراد اِن کی یہ ہوتی ہے کہ پاکستان کے عام آدمی کے حالات کب تبدیل ہونگے جب اِس کی زندگی میں بھی خوشحالی آئی گی اور پاکستان بنانے کے خواب کو حقیقت ملے گی، میرا سادہ سا جواب ہے جب معاشرے میں ''انصاف'' ہو گا حالانکہ ''انقلاب'' اور ''انصاف'' بظاہر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
مختلف معاشروں میں انقلاب اِس وقت آئے جب انصاف ناپید ہو گیا جس میں انقلابِ فرانس کی مثال پہلے نمبر پر دی جاتی ہے جہاں عام انسان پر انصاف کے دروازے بند کیے گئے تو وہاں کے حکمرانوں کو ان کے محلات سے نکال کر گلیوں میں گھسیٹا گیا اور خون بہایا گیا اور فرانس میں انقلاب آ گیا۔ اِس کے بعد فرانس دنیا کے ترقی یافتہ خوشحال ممالک میں شامل ہو گیا لیکن پاکستان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور دنیا میں صرف دو ممالک ہی مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں جس میں ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل ہے تاریخ گواہ ہے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب ''فتح مکہ'' ہے جو ''انصاف'' کی بنیاد پر ہوا ۔
اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اِس تاریخی انقلاب میں ایک بھی انسانی جان کا ضیاع نہیں ہوا کیونکہ اسلام کا بنیادی فلسفہ ہے کہ جس نے ایک انسان کا قتل کیا، گویا اِس نے پوری انسانیت کا قتل کیا، لیکن یورپی دنیا کا متعصب تاریخ دان اور اسلامی دنیا کا شرمیلا تاریخ دان اِس تاریخی حقیقت کو کیوں اجاگر نہیں کرتے اِس کا فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔
آج پاکستان سے محبت کرنے والے بہت سے لوگ انقلاب کو پاکستان کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جس کا ایک ثبوت موجودہ فوجی قیادت اور عدلیہ کا خود اپنے اندر سے انصاف اور احتساب کے عمل کا شروع کرنا ہے۔ حال ہی میں فوجی قیادت نے اپنے حاضر سروس جنرل کی تمام مراعات اور اعزازات واپس لے کر اِس کا عملی ثبوت دیا ہے۔
جس کی تمام تفصیلات سے عوام بخوبی واقف ہیں کیونکہ آج تک اتنے بڑے حاضر سروس جنرل کے خلاف کارروائی پاکستانی تاریخ میں نہیں ہوئی یعنی موجودہ فوجی قیادت نے بے ایمانی کو اِس کی جڑ سے پکڑنا شروع کر دیا ہے کیونکہ کرپشن وہ واحد پودا ہے جس کی جڑیں زمین کے بجائے آسمان میں ہوتی ہیں۔
اِس طرح کچھ سیاسی شخصیات کے احتساب کا عمل بھی بلا امتیاز شروع کیا ہے جس پر حقیقی اور ایماندار سیاستدان تو اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں لیکن وہ جنہوں نے یہاں کرپشن کا بازار گرم کیا تھا وہ کافی پریشان ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا وہ خُود اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو جن پر الزام ہے احتساب کے لیے پیش کرتے وہ اِس کے برخلاف کر رہے ہیں اور یہ اِن کی آخری نادانی اور غلطی ہے کیونکہ ''نادان'' کو اُلٹا پڑھا جائے تو وہ ''نادان'' ہی پڑھا جاتا ہے۔
اسی طرح نئے چیف جسٹس نے بھی اپنا عہدہ سنبھالتے ہی احتساب اور انصاف کی بات کی ہے اور اِس سے قبل سندھ کے موجودہ چیف جسٹس نے اِس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ کرپٹ ججز کو اِن کی نوکری سے فارغ کر دیا ہے اور باقی بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے، جسے عام آدمی نہایت قدر کی نِگاہ سے دیکھ رہا ہے وہ پُراُمید اور بہت خوش ہے اور چاہتا ہے کہ یہ احتساب اور انصاف کا عمل جلد مکمل ہو کیونکہ قاضی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اُس وقت تک گھر نہیں جانا چاہیے جب تک سائل کو انصاف اس کی دہلیز پر نہیں مل جاتا کیونکہ ہماری سیاسی قیادت جس نے لوگوں کے خواب چکنا چور کیے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں انصاف ہو وہ ہر معاملے میں N.R.O کر لیتے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں ہر بدکار انصاف اور احتساب سے بالاتر تھا جو اُس کے اقتدار کو دوام دے نیب کی آنکھ اِن پر بند ہو جاتی تھی پھر نام نہاد جمہوری صدر اور وزیر اعظم اپنے پُورے دور حکومت میں قوم کو یہ بات بتاتے رہے کہ ہم نے بالترتیب 10 سال اور 5 سال بغیر کسی قصور کے جیل کاٹی ہے لیکن انھوں نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا کہ آیندہ انصاف کا ایسا نظام بنایا جائے ۔
جہاں کسی بھی شخص کو سالوں عدالتی نظام کی چکی میں بلاوجہ نہیں پسنا پڑے بلکہ اسی طرح موجودہ حکمران ہر وقت اپنے اُوپر ہونے والے مظالم کا ذِکر کرتے ہیں لیکن کوئی ایسا نظام دینا تو دُور کی بات کوشش تک نہیں کر رہے کہ آیندہ کوئی ظالم کسی بھی قسم کا ظلم نہ کرے۔ بس ہماری بدقسمتی کہ عوام ہر دفعہ اُن لوگوں کے سر پر دستار رکھتے ہیں جو سر ہی نہیں رکھتے۔ یہ حقیقت ہے کہ حالات حکمران بدلنے سے نہیں اعمال بدلنے سے اچھے ہوتے ہیں۔
وقت اور سمجھ ایک ساتھ خُوش قسمت لوگوں کو ملتے ہیں کیونکہ اکثر وقت پر سمجھ نہیں آتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا عوام کو ایسی نام نہاد سیاسی قیادت سے نجات حاصل کرنی ہو گی جس نے فوج اور عدلیہ کو بُرا کہنا فیشن بنا لیا ہے جب کہ اب یہ دونوں ادارے انصاف کی علامت ہیں لٰہذا یہ نام نہاد سیاستدان پُوری قوت سے اِن کے خلاف سینہ سپر ہو کر آ گئے ہیں اِن کی زبان میں اور دشمن کی زبان میں صرف تلفظ کا فرق ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اگر مُلک میں انصاف عام ہو گیا تو انقلاب بپا ہو جائے گا اور وہ لوگوں کو ذہنی طور پر غلام ہی رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو خُود ساختہ انقلابی رہنما کے طور پر پیش کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مقدس شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُن کی حرکتیں معکوس ہیں کیونکہ یہ People Politics کے بجائے Power Politics کے قائل ہیں جو صرف اُن کی ذات کو تحفظ اور فائدہ دے۔
کراچی میں امن ہونا اور تاریخی کاروبار ہونا اِس کی تازہ مثال ہے ورنہ سندھ اور کراچی کے ٹھیکیداروں نے اِس کا کیا حال کیا تھا وہ ناقابل بیان ہے اور اِن کی پھر خواہش ہے کہ انھیں دوبارہ موقع دیا جائے اِس کے لیے وہ فوج اور عدلیہ سے ناراض ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ مظلوم عوام کی آواز بنتے اور ہر میدان میں انقلابی تبدیلیاں لاتے تعلیمی میدان میں جس دن وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کا بیٹا پیلے اسکولوں میں پڑھے گا اِسی طرح سرکاری اسپتال میں صحت کے محکمے کے وزیر اور سیکریٹری کی بیوی کا آپریشن ہو گا اور وہ اِس کے جنرل وارڈ میں 2 دن داخل رہے گی، کچی آبادی میں بلدیات کے وزیر اور سیکریٹری کی رہائش ہو گی۔
سیاسی پارٹیوں کے سربراہ، رائے ونڈ کے محلات، بلاول ہاؤس، بنی گالہ وغیرہ وغیرہ سے نکل کر عام کارکن کی طرح زندگی گزاریں گے تو حقیقی جمہوری انقلاب آئے گا، ورنہ بچوں کو پاکستان کی اُمید قرار دینا ظلم ہے، اﷲ کی مخلوق اندھی نہیں ہے اب پاکستان کے عوام خُود انصاف کرینگے اپنے ساتھ بھی اور ان نام نہاد انقلابی قیادت کے ساتھ بھی اور اب پاکستان میں انقلاب کی آمد ہے چاہے اِس کی قسم جو بھی ہو کیونکہ اب حکمرانوں کا کیس بریف کیس کی وجہ سے نہیں دب سکے گا اور اِن کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے آئین میں کہیں سیاست کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
سورج نکل چکا ہے آنکھ موندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے مردہ گھڑی میں بھی دو دفعہ وقت صحیح ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنھیں اقتدار کے ساتھ عزت ملتی ہے، شاہ ایران کے بینکوں میں اربوں روپے تھے لیکن آخری زندگی کسمپرسی میں گزری۔ روم کے جولیس سیزر، مقدونیہ کے سکندراعظم، ایران کا دارا، ہندوستان کے اشوک، منگولیا کے چنگیزخان کی نہ آج کسی کو حکومتیں یاد ہیں نہ ہی قبریں زمانے کے انقلاب نے سب ختم کر دیا اور انصاف ہو گیا پاکستان کے عوام کی اب سب سے بڑی خواہش اور جدوجہد صرف انصاف کے لیے ہے اور یہ انقلاب کے دروازے پر پہلی دستک ہے اور مسلسل دستک سے دروازہ ضرور کھلتا ہے۔
قاضی شہر نے کیا حکم سُنایا لوگو
شاہ مجرم ہے اسے پابند سلاسل کر دو
اکثر لوگ مُجھ سے پُوچھتے ہیں وکیل صاحب ہمارے ملک میں انقلاب کب آئے گا جس سے مراد اِن کی یہ ہوتی ہے کہ پاکستان کے عام آدمی کے حالات کب تبدیل ہونگے جب اِس کی زندگی میں بھی خوشحالی آئی گی اور پاکستان بنانے کے خواب کو حقیقت ملے گی، میرا سادہ سا جواب ہے جب معاشرے میں ''انصاف'' ہو گا حالانکہ ''انقلاب'' اور ''انصاف'' بظاہر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
مختلف معاشروں میں انقلاب اِس وقت آئے جب انصاف ناپید ہو گیا جس میں انقلابِ فرانس کی مثال پہلے نمبر پر دی جاتی ہے جہاں عام انسان پر انصاف کے دروازے بند کیے گئے تو وہاں کے حکمرانوں کو ان کے محلات سے نکال کر گلیوں میں گھسیٹا گیا اور خون بہایا گیا اور فرانس میں انقلاب آ گیا۔ اِس کے بعد فرانس دنیا کے ترقی یافتہ خوشحال ممالک میں شامل ہو گیا لیکن پاکستان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور دنیا میں صرف دو ممالک ہی مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں جس میں ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل ہے تاریخ گواہ ہے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب ''فتح مکہ'' ہے جو ''انصاف'' کی بنیاد پر ہوا ۔
اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اِس تاریخی انقلاب میں ایک بھی انسانی جان کا ضیاع نہیں ہوا کیونکہ اسلام کا بنیادی فلسفہ ہے کہ جس نے ایک انسان کا قتل کیا، گویا اِس نے پوری انسانیت کا قتل کیا، لیکن یورپی دنیا کا متعصب تاریخ دان اور اسلامی دنیا کا شرمیلا تاریخ دان اِس تاریخی حقیقت کو کیوں اجاگر نہیں کرتے اِس کا فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔
آج پاکستان سے محبت کرنے والے بہت سے لوگ انقلاب کو پاکستان کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جس کا ایک ثبوت موجودہ فوجی قیادت اور عدلیہ کا خود اپنے اندر سے انصاف اور احتساب کے عمل کا شروع کرنا ہے۔ حال ہی میں فوجی قیادت نے اپنے حاضر سروس جنرل کی تمام مراعات اور اعزازات واپس لے کر اِس کا عملی ثبوت دیا ہے۔
جس کی تمام تفصیلات سے عوام بخوبی واقف ہیں کیونکہ آج تک اتنے بڑے حاضر سروس جنرل کے خلاف کارروائی پاکستانی تاریخ میں نہیں ہوئی یعنی موجودہ فوجی قیادت نے بے ایمانی کو اِس کی جڑ سے پکڑنا شروع کر دیا ہے کیونکہ کرپشن وہ واحد پودا ہے جس کی جڑیں زمین کے بجائے آسمان میں ہوتی ہیں۔
اِس طرح کچھ سیاسی شخصیات کے احتساب کا عمل بھی بلا امتیاز شروع کیا ہے جس پر حقیقی اور ایماندار سیاستدان تو اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں لیکن وہ جنہوں نے یہاں کرپشن کا بازار گرم کیا تھا وہ کافی پریشان ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا وہ خُود اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو جن پر الزام ہے احتساب کے لیے پیش کرتے وہ اِس کے برخلاف کر رہے ہیں اور یہ اِن کی آخری نادانی اور غلطی ہے کیونکہ ''نادان'' کو اُلٹا پڑھا جائے تو وہ ''نادان'' ہی پڑھا جاتا ہے۔
اسی طرح نئے چیف جسٹس نے بھی اپنا عہدہ سنبھالتے ہی احتساب اور انصاف کی بات کی ہے اور اِس سے قبل سندھ کے موجودہ چیف جسٹس نے اِس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ کرپٹ ججز کو اِن کی نوکری سے فارغ کر دیا ہے اور باقی بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے، جسے عام آدمی نہایت قدر کی نِگاہ سے دیکھ رہا ہے وہ پُراُمید اور بہت خوش ہے اور چاہتا ہے کہ یہ احتساب اور انصاف کا عمل جلد مکمل ہو کیونکہ قاضی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اُس وقت تک گھر نہیں جانا چاہیے جب تک سائل کو انصاف اس کی دہلیز پر نہیں مل جاتا کیونکہ ہماری سیاسی قیادت جس نے لوگوں کے خواب چکنا چور کیے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں انصاف ہو وہ ہر معاملے میں N.R.O کر لیتے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں ہر بدکار انصاف اور احتساب سے بالاتر تھا جو اُس کے اقتدار کو دوام دے نیب کی آنکھ اِن پر بند ہو جاتی تھی پھر نام نہاد جمہوری صدر اور وزیر اعظم اپنے پُورے دور حکومت میں قوم کو یہ بات بتاتے رہے کہ ہم نے بالترتیب 10 سال اور 5 سال بغیر کسی قصور کے جیل کاٹی ہے لیکن انھوں نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا کہ آیندہ انصاف کا ایسا نظام بنایا جائے ۔
جہاں کسی بھی شخص کو سالوں عدالتی نظام کی چکی میں بلاوجہ نہیں پسنا پڑے بلکہ اسی طرح موجودہ حکمران ہر وقت اپنے اُوپر ہونے والے مظالم کا ذِکر کرتے ہیں لیکن کوئی ایسا نظام دینا تو دُور کی بات کوشش تک نہیں کر رہے کہ آیندہ کوئی ظالم کسی بھی قسم کا ظلم نہ کرے۔ بس ہماری بدقسمتی کہ عوام ہر دفعہ اُن لوگوں کے سر پر دستار رکھتے ہیں جو سر ہی نہیں رکھتے۔ یہ حقیقت ہے کہ حالات حکمران بدلنے سے نہیں اعمال بدلنے سے اچھے ہوتے ہیں۔
وقت اور سمجھ ایک ساتھ خُوش قسمت لوگوں کو ملتے ہیں کیونکہ اکثر وقت پر سمجھ نہیں آتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا عوام کو ایسی نام نہاد سیاسی قیادت سے نجات حاصل کرنی ہو گی جس نے فوج اور عدلیہ کو بُرا کہنا فیشن بنا لیا ہے جب کہ اب یہ دونوں ادارے انصاف کی علامت ہیں لٰہذا یہ نام نہاد سیاستدان پُوری قوت سے اِن کے خلاف سینہ سپر ہو کر آ گئے ہیں اِن کی زبان میں اور دشمن کی زبان میں صرف تلفظ کا فرق ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اگر مُلک میں انصاف عام ہو گیا تو انقلاب بپا ہو جائے گا اور وہ لوگوں کو ذہنی طور پر غلام ہی رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو خُود ساختہ انقلابی رہنما کے طور پر پیش کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مقدس شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُن کی حرکتیں معکوس ہیں کیونکہ یہ People Politics کے بجائے Power Politics کے قائل ہیں جو صرف اُن کی ذات کو تحفظ اور فائدہ دے۔
کراچی میں امن ہونا اور تاریخی کاروبار ہونا اِس کی تازہ مثال ہے ورنہ سندھ اور کراچی کے ٹھیکیداروں نے اِس کا کیا حال کیا تھا وہ ناقابل بیان ہے اور اِن کی پھر خواہش ہے کہ انھیں دوبارہ موقع دیا جائے اِس کے لیے وہ فوج اور عدلیہ سے ناراض ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ مظلوم عوام کی آواز بنتے اور ہر میدان میں انقلابی تبدیلیاں لاتے تعلیمی میدان میں جس دن وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کا بیٹا پیلے اسکولوں میں پڑھے گا اِسی طرح سرکاری اسپتال میں صحت کے محکمے کے وزیر اور سیکریٹری کی بیوی کا آپریشن ہو گا اور وہ اِس کے جنرل وارڈ میں 2 دن داخل رہے گی، کچی آبادی میں بلدیات کے وزیر اور سیکریٹری کی رہائش ہو گی۔
سیاسی پارٹیوں کے سربراہ، رائے ونڈ کے محلات، بلاول ہاؤس، بنی گالہ وغیرہ وغیرہ سے نکل کر عام کارکن کی طرح زندگی گزاریں گے تو حقیقی جمہوری انقلاب آئے گا، ورنہ بچوں کو پاکستان کی اُمید قرار دینا ظلم ہے، اﷲ کی مخلوق اندھی نہیں ہے اب پاکستان کے عوام خُود انصاف کرینگے اپنے ساتھ بھی اور ان نام نہاد انقلابی قیادت کے ساتھ بھی اور اب پاکستان میں انقلاب کی آمد ہے چاہے اِس کی قسم جو بھی ہو کیونکہ اب حکمرانوں کا کیس بریف کیس کی وجہ سے نہیں دب سکے گا اور اِن کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے آئین میں کہیں سیاست کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
سورج نکل چکا ہے آنکھ موندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے مردہ گھڑی میں بھی دو دفعہ وقت صحیح ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنھیں اقتدار کے ساتھ عزت ملتی ہے، شاہ ایران کے بینکوں میں اربوں روپے تھے لیکن آخری زندگی کسمپرسی میں گزری۔ روم کے جولیس سیزر، مقدونیہ کے سکندراعظم، ایران کا دارا، ہندوستان کے اشوک، منگولیا کے چنگیزخان کی نہ آج کسی کو حکومتیں یاد ہیں نہ ہی قبریں زمانے کے انقلاب نے سب ختم کر دیا اور انصاف ہو گیا پاکستان کے عوام کی اب سب سے بڑی خواہش اور جدوجہد صرف انصاف کے لیے ہے اور یہ انقلاب کے دروازے پر پہلی دستک ہے اور مسلسل دستک سے دروازہ ضرور کھلتا ہے۔
قاضی شہر نے کیا حکم سُنایا لوگو
شاہ مجرم ہے اسے پابند سلاسل کر دو