عیدین کے فلسفے پر عمل کی ضرورت
عید چھوٹی ہو یا بڑی، ہر عید کی اپنی اہمیت، روایات، سج دھج اور شان ہوتی ہے،
عید چھوٹی ہو یا بڑی، ہر عید کی اپنی اہمیت، روایات، سج دھج اور شان ہوتی ہے، عید الفطر جہاں تکمیل نزول قرآن حکیم جیسی بابرکت ساعتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر بے پایاں رحمتوں سے ہم کنار کرتی ہے، وہاں عیدالاضحی، حج بیت اللہ کے ایمان افروز لمحات کی امین ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں جب فرزندان اسلام قربانی کرتے ہیں تو ہر شخص سنت ابراہیمی کی پیروی میں سرشار نظر آتا ہے۔
عید قربان کو شایان شان طریقے سے منانے کا یہی وہ جذبہ ہے جو عیدالفطر کی گہما گہمی ختم ہوتے ہی ملک بھر کے گلی کوچوں، گھروں اور بازاروں میں سمٹ آتا ہے۔ قربانی کے جانور روز مرہ زندگی میں گفتگو کا موضوع بن جاتے ہیں۔
''اس بار جانوروں کی قیمتیں کہاں جا کر رکیں گی؟ قصائی کا بندوبست کیسے ہو گا؟ بکرا، دنبہ ذبح کیا جائے گا یا گائے میں حصہ ڈالا جائے؟ جانور کی کھال کسے دیں، کسی رفاہی تنظیم کو یا گھریلو ملازمہ کو؟ بکرے کی ران، کس کے گھر یا کس افسر کو بھجوائی جائے؟ پھر گھر میں یہ بحث ہوتی ہے کہ رشتے داروں اور عزیزوں میں کون، کس طرح کی قربانی کر رہا ہے، پھر مخبری کے بعد اپنی حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ ''یہی وہ دن ہوتے ہیں جب کسی شہر میں 20 سے 25 لاکھ کا بیل لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے یا پھر باداموں اور دودھ پر پلنے والے بکروں کی تعریفیں ہو رہی ہوتی ہیں۔
بڑی عید کا یہ منظر برسوں سے ہماری معاشرت کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ تاہم چند برس سے خوشی کے تہواروں پر عام لوگوں کے جذبات و احساسات پچھلے برسوں کی نسبت قدرے مختلف نظر آتے ہیں۔ اور خوشی کے ان تہواروں پر غربت اور امارت کا واضح فرق سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے۔
مہنگائی اور جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے ایک عام آدمی کے لیے قربانی کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے، متوسط و سفید پوش حتیٰ کہ بعض نسبتاً خوش حال طبقے کے افراد بھی موجودہ مہنگائی میں سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ڈانواں ڈول ہیں۔ بالخصوص تنخواہ دار طبقہ تو صرف خواب ہی میں قربانی کر سکتا ہے۔ اصل میں ہماری معاشرتی زندگی کے تمام شعبوں میں طبقاتی فرق اور عدم مساوات کا عنصر خوفناک حد تک بڑھ رہا ہے۔
مثلاً عید قربان پر کئی لوگ تو ایک گائے یا بیل کی خریداری پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن کروڑوں ایسے ہیں جو صرف قیمتیں سن کر ہی لرز اٹھتے ہیں، کئی گھروں میں چھ چھ سات سات قربانیاں ہو رہی ہوتی ہیں تو کئی ایک کا بھی نہیں سوچ سکتے۔ پھر جب جانور ذبح کرنیکا مسئلہ آتا ہے تو عام لوگ اگر بکرے کی ہمت ہی کر لیں تو سارا دن دروازے پر کھڑے قصائی کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور بالآخر اناڑی قصاب کے ہتھے چڑھ کر جانور کی کھال خراب کروا بیٹھتے ہیں۔
جب کہ امیر اور صاحب حیثیت لوگ قربانی کے لیے موبائل فون کے ذریعے قصاب کو شان دار گاڑی پر بلواتے ہیں۔ پھر یہ افراد قربانی کے جانوروں کی رانیں اپنے من پسند افسروں، اعلیٰ عہدیداروں اور سسرالیوں کے گھر بھجوا کر رشتے ناتے مضبوط کرتے ہیں، جب کہ قربانی نہ کرنیوالا ایسے سنہری موقعے سے محروم رہتا ہے، اگر وہ کوئی چھوٹا موٹا بکرا قربان کر بھی لے تو گوشت کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ دوسروں کے گھر بھیجتے ہوئے بھی خفت محسوس ہوتی ہے۔
معاشرے میں بااثر لوگوں، امیروں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں کے فریزر گوشت سے لبالب بھر جاتے ہیں، جب کہ عام افراد کے گھر میں اس روز بھی دال اور آلو کی بھجیا پکتی ہے۔ اصل میں قربانی کا دینی فریضہ بھی ہمارے یہاں اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ ا مارت اور غربت کے اس فرق میں پاکستان روز بہ روز غرق ہو رہا ہے، ایسے مواقعے پر یہ فرق کھل کر سامنے آ جاتا ہے چنانچہ اس سال بھی جہاں بیوپاریوں نے جانوروں کی قیمتیں عام لوگوں کی پہنچ سے باہر کر دی ہیں وہاں ایسے لوگ بھی جا بہ جا دکھائی دیں گے جن کے لیے قیمت اور بھاؤ تاؤ کا کوئی مسئلہ نہیں۔
لوٹ کھسوٹ میں گزرے اڑسٹھ برس اور منزل سے الٹی سمت کا رائیگاں سفر ہمیں یوں گریباں سے پکڑے کھڑے ہیں کہ خوشی کے تہواروں پر بھی غربت و امارت کا واضح فرق ہماری خوشیوں میں بھنگ ڈال دیتا ہے۔ عید قربان آئی ہے اور صد شکر کہ عرصہ دراز سے جاری انسانوں کی قربانی کا سلسلہ رک چکا ہے، گزشتہ برس پر نظر دوڑائے تو قربانی کے جانور اتنے مہنگے اور انسانی خون اتنا ارزاں ہو گیا تھا کہ ثواب کے متلاشیوں نے سنت ابراہیمی چھوڑ کر انسان قربان کرنا شروع کر دیے تھے، خدا کا شکر ہے کہ پاک فوج میدان میں آئی اور ایسے درندوں کو چن چن کر کیفر کردار تک پہنچایا جا رہا ہے۔
ہم نے یہ وطن بے شمار قربانیاں دیکر حاصل کیا ہے۔ بس اسی وقت سے ہمیں قربانیوں کا ایسا چسکا پڑا کہ یہ عادت ہمارے خون میں رچ بس گئی، قیام وطن کے مقاصد سے لے کر آدھے ملک کی قربانی تک، ضمیر سے لے کر نظریات کی قربانی تک، وفاداری سے لے کر اصولوں کی قربانی تک اور چھوٹی چھوٹی خواہشات سے لے کر بنیادی حقوق اور ضروریات زندگی کی قربانی تک، وہ کون سی قربانی ہے جو ہمارے ہاں رائج نہیں؟
ہمارے رہنمائے عظام اکثر تکرار کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، یہ دعویٰ انھوں نے ہمیشہ سچ کر دکھایا ہے، سرکاری اداروں میں کرپشن اور قومی راز بیچ دینے کے محیر العقول اسکینڈلز کے بارے میں سب دلچسپی سے سنتے ہیں لیکن اس جرأت کی کوئی داد نہیں دیتا کہ اتنے بلند کارہائے نمایاں انجام دینے سے پہلے ضمیر کے گلے پر چھری پھیرنا پڑتی ہے۔
انتخابات کے موسم میں مسلسل جھوٹ بولنا، ٹکٹوں کے لیے رشوت لینا اور دینا، جیتنے کے لیے ناجائز ذرایع اختیار کرنا اور پھر منتخب ہو کر لوگوں سے کیے گئے وعدوں کو اپنے ذاتی و گروہی مفادات پر قربان کر دینا بھی تو اسی عظیم جذبہ قربانی کا شاخسانہ ہے۔ یہ قربانی کا حوصلہ ہی تو ہے کہ کتنی مرتبہ جمہوریت اور منتخب پارلیمنٹ کی قربانی آمریت کے حضور خندہ پیشانی سے پیش کی گئی مگر پشیمانی یا ندامت کا شائبہ تک نہیں۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کے دلوں میں بھی قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجزن ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گھسیٹنا اور اپنے حقوق، آزادیوں اور بنیادی ضروریات سے محروم ہو کر جانوروں کی سی زندگی گزارنا، اپنے حصے کے وسائل چند لوگوں کے حوالے کر دینا اور اپنے پیٹ کاٹ کر چند لٹیروں کو پالنا کوئی چھوٹی موٹی قربانیاں نہیں۔ اپنی محبتوں اور خواہشات کی قربانیاں تو خیر کسی قطار میں ہی نہیں آتیں، یہاں تو عید وغیرہ کے موقعے پر اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری نہ کر سکنے پر اپنی جانوں کی قربانی دینا بھی معمول کی بات ہے۔
وطن عزیز کی تاریخ میں ایک سدا بہار حکمیہ جملہ تو ہر حکومت کا موٹو رہا ہے کہ ''عوام کو قربانی دینا ہو گی'' گویا اس نظریاتی مملکت میں طے ہو چکا کہ قربانی ہمیشہ لاغر عوام ہی کی دی جائے گی۔ سبسڈی کی قربانی، بجلی و گیس کی قربانی، جان، مال اور تحفظ کی قربانی، اشیائے خور و نوش کی قربانی، غرض ایسی بے شمار قربانیاں ہیں جن کے ہم اللہ کے فضل سے عادی ہو چکے ہیں۔ قدرتی وسائل رکھنا اور کشکول بدست پھرنا بھی تو قربانی کی اعلیٰ مثال ہے۔
معاشرے کے یہ تلخ حقائق اپنی جگہ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارے اور آپ کے درمیان لاکھوں نامعلوم افراد ایسے ہیں جو مستحق اور نادار افراد کو چپکے چپکے خوشیوں سے ہمکنار کرتے ہیں، اور اگر ان افراد میں بھی خدا خوفی اور خدا ترسی نہ رہے تو عیدین پر تھوڑی بہت نظر آنیوالی گہما گہمی اور رونقیں بھی ہماری مفاد پرستی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھ جائیں۔
دیگر اسلامی تہواروں کی طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی کے تہواروں کے بھی دو پہلو ہیں یعنی دینی اور دنیاوی۔ ان دونوں تہواروں میں کئی قدریں مشترک ہیں، ان کا ایک پہلو ایک دوسرے میں خوشیاں بانٹنے کا ہے اور دوسرا پہلو اپنے اندر خدا ترسی، اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کی دینی کے ساتھ دنیاوی اہمیت بھی ہے۔ اگر عیدین کے فلسفے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو اس کے معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
عید قربان کو شایان شان طریقے سے منانے کا یہی وہ جذبہ ہے جو عیدالفطر کی گہما گہمی ختم ہوتے ہی ملک بھر کے گلی کوچوں، گھروں اور بازاروں میں سمٹ آتا ہے۔ قربانی کے جانور روز مرہ زندگی میں گفتگو کا موضوع بن جاتے ہیں۔
''اس بار جانوروں کی قیمتیں کہاں جا کر رکیں گی؟ قصائی کا بندوبست کیسے ہو گا؟ بکرا، دنبہ ذبح کیا جائے گا یا گائے میں حصہ ڈالا جائے؟ جانور کی کھال کسے دیں، کسی رفاہی تنظیم کو یا گھریلو ملازمہ کو؟ بکرے کی ران، کس کے گھر یا کس افسر کو بھجوائی جائے؟ پھر گھر میں یہ بحث ہوتی ہے کہ رشتے داروں اور عزیزوں میں کون، کس طرح کی قربانی کر رہا ہے، پھر مخبری کے بعد اپنی حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ ''یہی وہ دن ہوتے ہیں جب کسی شہر میں 20 سے 25 لاکھ کا بیل لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے یا پھر باداموں اور دودھ پر پلنے والے بکروں کی تعریفیں ہو رہی ہوتی ہیں۔
بڑی عید کا یہ منظر برسوں سے ہماری معاشرت کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ تاہم چند برس سے خوشی کے تہواروں پر عام لوگوں کے جذبات و احساسات پچھلے برسوں کی نسبت قدرے مختلف نظر آتے ہیں۔ اور خوشی کے ان تہواروں پر غربت اور امارت کا واضح فرق سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے۔
مہنگائی اور جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے ایک عام آدمی کے لیے قربانی کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے، متوسط و سفید پوش حتیٰ کہ بعض نسبتاً خوش حال طبقے کے افراد بھی موجودہ مہنگائی میں سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ڈانواں ڈول ہیں۔ بالخصوص تنخواہ دار طبقہ تو صرف خواب ہی میں قربانی کر سکتا ہے۔ اصل میں ہماری معاشرتی زندگی کے تمام شعبوں میں طبقاتی فرق اور عدم مساوات کا عنصر خوفناک حد تک بڑھ رہا ہے۔
مثلاً عید قربان پر کئی لوگ تو ایک گائے یا بیل کی خریداری پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن کروڑوں ایسے ہیں جو صرف قیمتیں سن کر ہی لرز اٹھتے ہیں، کئی گھروں میں چھ چھ سات سات قربانیاں ہو رہی ہوتی ہیں تو کئی ایک کا بھی نہیں سوچ سکتے۔ پھر جب جانور ذبح کرنیکا مسئلہ آتا ہے تو عام لوگ اگر بکرے کی ہمت ہی کر لیں تو سارا دن دروازے پر کھڑے قصائی کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور بالآخر اناڑی قصاب کے ہتھے چڑھ کر جانور کی کھال خراب کروا بیٹھتے ہیں۔
جب کہ امیر اور صاحب حیثیت لوگ قربانی کے لیے موبائل فون کے ذریعے قصاب کو شان دار گاڑی پر بلواتے ہیں۔ پھر یہ افراد قربانی کے جانوروں کی رانیں اپنے من پسند افسروں، اعلیٰ عہدیداروں اور سسرالیوں کے گھر بھجوا کر رشتے ناتے مضبوط کرتے ہیں، جب کہ قربانی نہ کرنیوالا ایسے سنہری موقعے سے محروم رہتا ہے، اگر وہ کوئی چھوٹا موٹا بکرا قربان کر بھی لے تو گوشت کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ دوسروں کے گھر بھیجتے ہوئے بھی خفت محسوس ہوتی ہے۔
معاشرے میں بااثر لوگوں، امیروں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں کے فریزر گوشت سے لبالب بھر جاتے ہیں، جب کہ عام افراد کے گھر میں اس روز بھی دال اور آلو کی بھجیا پکتی ہے۔ اصل میں قربانی کا دینی فریضہ بھی ہمارے یہاں اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ ا مارت اور غربت کے اس فرق میں پاکستان روز بہ روز غرق ہو رہا ہے، ایسے مواقعے پر یہ فرق کھل کر سامنے آ جاتا ہے چنانچہ اس سال بھی جہاں بیوپاریوں نے جانوروں کی قیمتیں عام لوگوں کی پہنچ سے باہر کر دی ہیں وہاں ایسے لوگ بھی جا بہ جا دکھائی دیں گے جن کے لیے قیمت اور بھاؤ تاؤ کا کوئی مسئلہ نہیں۔
لوٹ کھسوٹ میں گزرے اڑسٹھ برس اور منزل سے الٹی سمت کا رائیگاں سفر ہمیں یوں گریباں سے پکڑے کھڑے ہیں کہ خوشی کے تہواروں پر بھی غربت و امارت کا واضح فرق ہماری خوشیوں میں بھنگ ڈال دیتا ہے۔ عید قربان آئی ہے اور صد شکر کہ عرصہ دراز سے جاری انسانوں کی قربانی کا سلسلہ رک چکا ہے، گزشتہ برس پر نظر دوڑائے تو قربانی کے جانور اتنے مہنگے اور انسانی خون اتنا ارزاں ہو گیا تھا کہ ثواب کے متلاشیوں نے سنت ابراہیمی چھوڑ کر انسان قربان کرنا شروع کر دیے تھے، خدا کا شکر ہے کہ پاک فوج میدان میں آئی اور ایسے درندوں کو چن چن کر کیفر کردار تک پہنچایا جا رہا ہے۔
ہم نے یہ وطن بے شمار قربانیاں دیکر حاصل کیا ہے۔ بس اسی وقت سے ہمیں قربانیوں کا ایسا چسکا پڑا کہ یہ عادت ہمارے خون میں رچ بس گئی، قیام وطن کے مقاصد سے لے کر آدھے ملک کی قربانی تک، ضمیر سے لے کر نظریات کی قربانی تک، وفاداری سے لے کر اصولوں کی قربانی تک اور چھوٹی چھوٹی خواہشات سے لے کر بنیادی حقوق اور ضروریات زندگی کی قربانی تک، وہ کون سی قربانی ہے جو ہمارے ہاں رائج نہیں؟
ہمارے رہنمائے عظام اکثر تکرار کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، یہ دعویٰ انھوں نے ہمیشہ سچ کر دکھایا ہے، سرکاری اداروں میں کرپشن اور قومی راز بیچ دینے کے محیر العقول اسکینڈلز کے بارے میں سب دلچسپی سے سنتے ہیں لیکن اس جرأت کی کوئی داد نہیں دیتا کہ اتنے بلند کارہائے نمایاں انجام دینے سے پہلے ضمیر کے گلے پر چھری پھیرنا پڑتی ہے۔
انتخابات کے موسم میں مسلسل جھوٹ بولنا، ٹکٹوں کے لیے رشوت لینا اور دینا، جیتنے کے لیے ناجائز ذرایع اختیار کرنا اور پھر منتخب ہو کر لوگوں سے کیے گئے وعدوں کو اپنے ذاتی و گروہی مفادات پر قربان کر دینا بھی تو اسی عظیم جذبہ قربانی کا شاخسانہ ہے۔ یہ قربانی کا حوصلہ ہی تو ہے کہ کتنی مرتبہ جمہوریت اور منتخب پارلیمنٹ کی قربانی آمریت کے حضور خندہ پیشانی سے پیش کی گئی مگر پشیمانی یا ندامت کا شائبہ تک نہیں۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کے دلوں میں بھی قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجزن ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گھسیٹنا اور اپنے حقوق، آزادیوں اور بنیادی ضروریات سے محروم ہو کر جانوروں کی سی زندگی گزارنا، اپنے حصے کے وسائل چند لوگوں کے حوالے کر دینا اور اپنے پیٹ کاٹ کر چند لٹیروں کو پالنا کوئی چھوٹی موٹی قربانیاں نہیں۔ اپنی محبتوں اور خواہشات کی قربانیاں تو خیر کسی قطار میں ہی نہیں آتیں، یہاں تو عید وغیرہ کے موقعے پر اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری نہ کر سکنے پر اپنی جانوں کی قربانی دینا بھی معمول کی بات ہے۔
وطن عزیز کی تاریخ میں ایک سدا بہار حکمیہ جملہ تو ہر حکومت کا موٹو رہا ہے کہ ''عوام کو قربانی دینا ہو گی'' گویا اس نظریاتی مملکت میں طے ہو چکا کہ قربانی ہمیشہ لاغر عوام ہی کی دی جائے گی۔ سبسڈی کی قربانی، بجلی و گیس کی قربانی، جان، مال اور تحفظ کی قربانی، اشیائے خور و نوش کی قربانی، غرض ایسی بے شمار قربانیاں ہیں جن کے ہم اللہ کے فضل سے عادی ہو چکے ہیں۔ قدرتی وسائل رکھنا اور کشکول بدست پھرنا بھی تو قربانی کی اعلیٰ مثال ہے۔
معاشرے کے یہ تلخ حقائق اپنی جگہ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارے اور آپ کے درمیان لاکھوں نامعلوم افراد ایسے ہیں جو مستحق اور نادار افراد کو چپکے چپکے خوشیوں سے ہمکنار کرتے ہیں، اور اگر ان افراد میں بھی خدا خوفی اور خدا ترسی نہ رہے تو عیدین پر تھوڑی بہت نظر آنیوالی گہما گہمی اور رونقیں بھی ہماری مفاد پرستی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھ جائیں۔
دیگر اسلامی تہواروں کی طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی کے تہواروں کے بھی دو پہلو ہیں یعنی دینی اور دنیاوی۔ ان دونوں تہواروں میں کئی قدریں مشترک ہیں، ان کا ایک پہلو ایک دوسرے میں خوشیاں بانٹنے کا ہے اور دوسرا پہلو اپنے اندر خدا ترسی، اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کی دینی کے ساتھ دنیاوی اہمیت بھی ہے۔ اگر عیدین کے فلسفے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو اس کے معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔