شہر میں پر تشدد واقعات ایک ہفتے میں60سے زائد افراد قتل

ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کے بعد قتل کرکےلاشیں پھینکنےکے واقعات کےدرج مقدمات کی تفتیش کےبھی خاطر خواہ نتائج سامنےنہ آسکے.

پولیس اہلکار خود جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی کرنے میں ملوث ہیں،شہری،روایتی طریقے اپنا کرپولیس سب کچھ ٹھیک ہے کی بانسری بجا رہی ہے فوٹو: فائل

شہر میںگذشتہ ایک ہفتے کے دوران جاری ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کے بعد قتل کرکے لاشیں پھینکنے کے واقعات کے درج مقدمات کی تفتیش میں کوئی خاطر خواہ تحقیقات سامنے نہیں آسکیں اور قاتل سڑکوں پر بغیرکسی خوف و ڈرکے دندناتے پھر رہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق تجارتی حب کہلانے والے شہر قائد میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران فرقہ ورانہ ، سیاسی ، لسانی ٹارگٹ کلنگ ، اغوا کے بعد قتل کر کے لاشیں پھینکنے اور پرتشدد واقعات میں 60 سے زائد خاندانوں کے چراغ بجھ گئے اورگھروں میں صف ماتم بچھ گئی، اس کے باوجود پولیس صرف سب کچھ ٹھیک ہے کی بانسری بجا رہی ہے ، پولیس نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران قتل ہونے والے درجنوں شہریوں میں سے کسی ایک بھی شہری کے قتل کی تحقیقات صحیح اور درست سمت میں نہیں کی اور قتل میں ملوث ایک بھی ملزم نہیں پکڑا گیا، اگر خدا نخواستہ پولیس قتل میں ملوث کسی شخص کو پکڑ لے تو پولیس اہلکار پھولے نہیں سماتے اور فوری طور پر اعلیٰ پولیس افسران کے کہنے پر پریس کانفرنس کا انعقاد کرلیتے ہیں۔

قاتلوں کو میڈیا کے سامنے حوا بنا کر پیش کرکے واہ واہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ پکڑا جانے والا ملزم عدالت سے چند ہی پیشیوں کے بعد ثبوت نہ ہونے پر ضمانت پر رہا کر دیا جاتا ہے ، اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی علاقے، محلے میں کوئی ٹارگٹ کلنگ ، فائرنگ اور پرتشدد واقعہ رونما ہوجائے تو پولیس صرف مرنے والے شخص کی لاش کو اسپتال منتقل کردیتی ہے اور 174کی کارروائی کر کے مرنے والے شخص کا نام ، پتہ اور ملازمت کا معلوم کرکے لاش ورثا کے حوالے کر دیتی ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ مرنے والے کسی شخص کی سیاسی و مذہبی یا کسی اورگروہ سے کوئی وابستگی ہوتی ہے تو وہ بتا کر ٹی وی چینل پر اپنے نام کی سلائیڈ چلوا کر خوش ہو جاتی ہے اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے معرکہ سرکرلیا ۔


ا س کے علاوہ پولیس قتل کی فوری تحقیقاتی عمل شروع کرنا ا پنا کام سمجھتی ہی نہیں ہے اگر پولیس حکام سے کسی کیس کی تفتیش کے حوالے سے پو چھا جائے تو روایتی جواب ہوتا ہے کہ ورثا کی جانب سے ایف آئی آر تاخیر سے درج کرائی گی ہے اور وہ بھی نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے اور جب ان سے پوچھا جائے کہ جائے وقوع سے پولیس کو کون کون سے شواہد ملے ہیں تو پولیس کا کہنا ہو تا ہے کہ صرف واردات میں استعمال ہونے والے اسلحہ کی گولیوںکے خالی خول ملے ہیں۔

جس کے بعد پولیس نے گولیوں کے خولوں کو لیبا رٹری ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیا ہے اورجائے وقوع کی فوٹو گرافی کرالی گئی ہے اور ورثا کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں،بعض اوقات تو پولیس کو جائے وقوع سے خالی خول بھی نہیں ملتے اورنہ ہی پولیس عینی شاہدین سے مدد طلب کرتی ہے، دورجدید میں جہاں تحقیقات کے نئے نئے طریقے سامنے آ گئے ہیں وہیںکراچی پولیس پرانے طرز پر تحقیقات کررہی ہے جس کا نتیجہ کچھ سامنے نہیں آتا اور قاتل شہرکی سڑکوں پر بغیرکسی خوف و ڈر کے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیںجبکہ تھانوں کی سطح پر تفتیشی افسران کو فارنسک بنیادوں پر تفتیش کا علم ہی نہیں ہے،کراچی پولیس کے روایتی تفتیشی طریقے پرشہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس صرف عام شہروں سے تفتیش کرسکتی ہے اور ڈرا دھمکا کر ان سے رقم بٹور لیتی ہے کیوں کہ عام شہری ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس جرائم پیشہ عناصرکو جان بوجھ کر نہ تو پکڑتی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف تحقیقات کرتی ہے، شہریوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس اہلکار خود جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی کرنے میں ملوث ہوتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ شہر میں رونما ہونے والے ہر نوعیت کے جرائم کی شرح نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں دوسری جانب بعض ایماندار مخلص تحقیقاتی افسران یہ بھی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں مناسب سہولیات دستیاب نہیں ہیں اس کے باوجود وہ ایک چیلنج سمجھ کر کسی کیس کی تفتیش کرتے ہیں اگر انہیں مناسب اور جدید سہولیات دستیاب ہوں تو وہ بھی اچھے نتائج لاسکتے ہیں۔
Load Next Story