آئیے ہم آپ کو قصاب بنائیں
اپنی تعلیم، قابلیت اور ہنر سے عاری ہونے کا غم نہ کھائیں، ہمارے پاس آئیں اور راتوں رات قصاب بن جائیں۔
اگر کسی کو عیدالاضحی کا دُلہا بننے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے تو وہ یقینًا قصابوں کو ہوتا ہے۔ (یہاں پر ہم قصاب سے واضح کردیں کہ قصاب سے مراد سفید کوٹ پہن کر سرکاری و پرائیوٹ اسپتالوں میں پھرنے والے قصاب نہیں ہیں بلکہ یہاں قصاب سے مراد وہ ہیں جو اُن کے برعکس مُردہ جانوروں کی کھال اتارتے ہیں)، ان کی ظاہری شناختی علامت تو ہاتھ میں چھڑی ہوتی ہے مگر ایک چھڑی انہوں نے بغل میں بھی چھپا رکھی ہوتی ہے جو وہ وقتاً فوقتاً استعمال کرتے ہیں۔
ویسے تو ان قصابوں کی اتنی اقسام ہیں کہ اصل اور ''چائنا'' میں شناخت مشکل ہوگئی ہے، مگر پھر بھی کچھ خصائل ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اصل ''قصائی'' کون ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں جو ریت چل رہی ہے اس میں تو عید کے موقع پر سبھی مصلی، تیلی، قصائی بن جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اصل قریشی صاحب کی پہچان محال ہوگئی ہے۔ دو نمبر قصائیوں کی پہچان یہی ہے کہ یہ جانوروں کے ساتھ ایسے کشتی کرتے ہیں جیسے جانوروں کے ساتھ دنگل کے بغیر جانور ذبح نہیں ہوسکتا۔ کئی قصابوں کو ہم نے دیکھا ہے جو عید کے عید کام کرکے اتنے طاق ہوچکے ہیں، کہ 25، 30 جانور خراب کرنا ان کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
ابھی کچھ سال پہلے اپنے الحاج رؤف صاحب کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ عید پر دو قصابوں کو کہیں سے اٹھا لائے، اُن سے پوچھا کہ ہاں بھئی ذبح کر لو گے ناں؟ دونوں بڑے اعتماد سے بولے کہ
مگر جب انہوں نے کام شروع کیا تو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوگیا کہ پچھلی گلی میں یہ دو بکرے چھت سے نیچے اتار کر آئے ہیں۔ کھال ایسے اتاری جیسے پہلے سے ہی طے کر لیا ہو کہ فلاں حصے کے جوتے بننے ہیں اور فلاں حصے کے بیگ بنیں گے، کیونکہ جتنے ''کٹ'' کھال پر لگے تھے اتنے تو شادیوں کے معاملے میں بار بار دھوکے کھا کھا کر اداکارہ میرا کے دل پر بھی نہ لگے ہوں گے۔ خیر یہ پہلی قربانی دیکھی جس میں بکروں کی کھال اتارنے سے قبل ہی گردن اتار لی گئی، مجھے تو شک گزرا کہ ہو نہ ہو ضرور یہ قصاب ''اجمل قصاب'' کے رشتہ دار ہیں۔
پھر ایک قصاب کو ہم نے دیکھا جس نے اونٹ کو ذبح کرنا تھا اور وہ اونٹ کو گرانے کیلئے باقاعدہ دنگل کر رہا تھا، اونٹ کے پاؤں میں رسی باندھ کر اسے جھٹکا دے کر گرایا گیا اور پھر جلدی سے چھڑی پھیر دی۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ اونٹ کو '' نحر'' کیا جاتا ہے، یعنی اس کے کھڑے کھڑے اس کی گردن میں نیزے مارے جاتے ہیں جس سے اس کا سارا خون نکل جاتا ہے اور بعد میں وہ خود ہی بیٹھ جاتا ہے، جس کے بعد اسے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہی اونٹ ذبح کرنے کا مسنون اور صحیح طریقہ ہے مگر جن لوگوں نے سارا سال مرغیاں، گدھے، کتے اور کچھ حد تک بھیڑ، بکریاں اور گائیں، بھینسیں ذبح کرکے اپنے ہاتھ سیدھے کیے ہوں، وہ تو اونٹ کو بھی اسی طرح ذبح کریں گے۔
اگرچہ گذشتہ ایک دو سالوں سے'' ڈیجیٹل قصاب'' کا ٹرینڈ بھی جڑ پکڑ رہا ہے، جن کی انٹرنیٹ پر پہلے ہی بُکنگ کرلی جاتی ہے، مگر یہ ابھی اتنے پاپولر نہیں ہو سکے، اس وجہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں عید الفطر کے فوری بعد سے قصابوں کی کھیپ تیار کرنے کیلئے باقاعدہ کورس کروانے پڑیں گے۔
اگر آپ نے کبھی پڑوسی کی مرغیوں کو چپکے سے پکڑ کر حلال کیا ہے تو آپ بقر عید پر قصاب کا روپ دھارنے کے بنیادی ''کرائی ٹیریا'' کو ''میچ'' کرتے ہیں، لیکن اگر آپ کو گدھے اور کتے سمیت دیگر جانوروں کو حلال کرنے کا تجربہ ہے تو یہ اضافی قابلیت شمار ہوگی۔ آپ کے پاس اپنی چھڑی، اوزار اور بائیک ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ کانوں کے درمیان خلا کا ہونا ضروری ہے تا کہ ایک سے سن کے فوراً دوسرے سے نکال سکیں اور غیر ضروری باتیں سُنی ان سُنی کر سکیں۔
اگر یہ خصوصیات مکمل ہو گئی ہوں تو کچھ مزید تجاویز پر غور کر لیں،
سب سے پہلے تو یہ اصول اپنائیں کہ کچھ بھی ہو، کسی کو انکار نہیں کرنا اور اپنا نمبر بڑھانا ہے کہ عید کے پہلے دن 100 جانور گرائے، دوسرے دن 80 اور تیسرے دن 70، عددی تعداد اس سے نیچے نہیں گرانی چاہئیے۔
نمبر بڑھانے کیلئے سب سے کامیاب اور آزمودہ نسخہ یہی ہے کہ جس بھی گھر میں جائیں، جانور کو ذبح کرکے نکل لیں، بہانہ یہ لگائیں کہ جی میں تو صرف ذبح کرتا ہوں، گوشت بنانے والے ''بس'' آ رہے ہیں۔ (اب اگر اگلے سمجھنے سے قاصر رہیں تو قصور انہی کا ہوگا کہ ''بس'' سے مراد یہ ہے کہ جتنی دیر میں بس آتی ہے، آجائے تو آجائے، نہ آئے تو ۔۔۔۔) یا اگر آپ زیادہ تکنیکی گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو کہہ دیں کہ بس بجلی کی طرح آ رہے، یعنی جس طرح لوڈ شیڈنگ میں گئی ہوئی بجلی آتی ہے۔
سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ یہی ظاہر کریں کہ جیسے آپ کی ٹیم میں بہت کامیاب اور تجربہ کار قصاب ہیں اور آپ سب کے ''گرو'' ہیں۔ اگر آپ کی علاقے کے قصاب سے اچھی سلام دعا ہے تو سمجھیں کہ آپ کا کام بن گیا۔ کوئی خواہ کتنی ہی باتیں کیوں نہ سنا دے، آپ نے گونگے، بہرے شخص کی طرح ''ری ایکٹ'' کرنا ہے، وگر نہ بکرا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ (بکرے سے مراد جانور کا مالک ہے، حقیقی بکرا نہیں)۔
جانور جیسے بھی ذبح کریں، بہترین گوشت ایک دو''دستیوں''، کھال، چربی، اوجڑی، کلیجی یا جو بھی چیز اچھی لگے، اس پر اپنا حق جمالیں بالکل اسی طرح جس طرح کچھ خاندان ہم پر حقِ حکمرانی جما چکے۔ اس حوالے سے سیاستدانوں سے جتنا سیکھ سکیں، سیکھ لیں اور کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ چیزوں پر اپنا حق جتائیں کیونکہ اگر سارا نہیں تو تھوڑا بہت تو ہاتھ آئے گا ہی اور آپ کے 5، 6 ماہ آرام سے گزر جائیں گے۔ ہاں، ایک اہم ٹپ عید سے قبل نیا ڈیپ فریزر خریدنے کی بھی تھی۔
اگر آپ کے پاس کرنے کا کوئی کام نہ بھی ہو تب بھی دیر سے جائیے تا کہ یہ ''ایمپریشن'' دے سکیں کہ بہت کام ہے اور آپ بہت مصروف ہیں۔ (لیکن ایسا صرف اس صورت میں کرنا ہے جب ایڈوانس کی مد میں پیسے پکڑ چکے ہوں)۔ پہلے ہی فون پر منہ اٹھا کر چل دینا قصابوں کے نزدیک بے عزتی تصور ہوتا ہے۔
پھر جاتے ہی ٹھنڈا منگوائیں، چائے کا آرڈر کریں بلکہ اگر ناشتے، کھانے کا ٹائم ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ آپ نے ادھر بالکل ایسے''بی ہیو'' کرنا ہے، جیسے کسی غریب کے گھر میں ''داماد'' آیا ہوتا ہے، یا جیسا سلوک سائلوں سے کوئی اونچے گریڈ کا بیورو کریٹ روا رکھتا ہے، بالکل ویسا سلوک کرنا ہے۔
اپنا تمام تر زور ایڈوانس بکنگ پر رکھیں اور ریٹ مُنہ پھاڑ کر مانگیں۔ بکرا، چھترا کم از کم 5 ہزار، گائے بیل کی قربانی کیلئے10 ہزار روپے جبکہ اونٹ ذبح کرنے کی مزدوری 15 سے 20 ہزار روپے۔ اگر آپ منہ پھاڑ کر نہیں مانگ سکتے تومارکیٹ خراب نہ کریں اور خدارا! یہ کام چھوڑ دیجئے اور جا کر اپنی عزت کی روزی، روٹی کیلئے کچھ اور کام کیجئے۔
اگر آپ اب یہ تصور کر رہے ہیں کہ آپ ایک کامیاب قصاب بن گئے ہیں تو بھی اپنے گھر کا جانور کسی ماہر اور تجربہ کار قصاب سے ذبح کروائیے گا وگرنہ گھر سے باہر رہائش کا پہلے ہی بندوبست کر لیجئے گا، اور ہماری فیس آپ ہمیں عید کے بعد بھی بھجوا سکتے ہیں، اس میں کوئی امر مانع نہیں، لہٰذا اب مزید وقت ضائع نہ کریں اور فوری طور پر باہر نکل کر ''بکرا'' ڈھونڈیں۔
[poll id="677"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ویسے تو ان قصابوں کی اتنی اقسام ہیں کہ اصل اور ''چائنا'' میں شناخت مشکل ہوگئی ہے، مگر پھر بھی کچھ خصائل ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اصل ''قصائی'' کون ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں جو ریت چل رہی ہے اس میں تو عید کے موقع پر سبھی مصلی، تیلی، قصائی بن جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اصل قریشی صاحب کی پہچان محال ہوگئی ہے۔ دو نمبر قصائیوں کی پہچان یہی ہے کہ یہ جانوروں کے ساتھ ایسے کشتی کرتے ہیں جیسے جانوروں کے ساتھ دنگل کے بغیر جانور ذبح نہیں ہوسکتا۔ کئی قصابوں کو ہم نے دیکھا ہے جو عید کے عید کام کرکے اتنے طاق ہوچکے ہیں، کہ 25، 30 جانور خراب کرنا ان کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
ابھی کچھ سال پہلے اپنے الحاج رؤف صاحب کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ عید پر دو قصابوں کو کہیں سے اٹھا لائے، اُن سے پوچھا کہ ہاں بھئی ذبح کر لو گے ناں؟ دونوں بڑے اعتماد سے بولے کہ
''یہ ابھی پچھلی گلی میں دو بکرے اتار کر آئے ہیں''
مگر جب انہوں نے کام شروع کیا تو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوگیا کہ پچھلی گلی میں یہ دو بکرے چھت سے نیچے اتار کر آئے ہیں۔ کھال ایسے اتاری جیسے پہلے سے ہی طے کر لیا ہو کہ فلاں حصے کے جوتے بننے ہیں اور فلاں حصے کے بیگ بنیں گے، کیونکہ جتنے ''کٹ'' کھال پر لگے تھے اتنے تو شادیوں کے معاملے میں بار بار دھوکے کھا کھا کر اداکارہ میرا کے دل پر بھی نہ لگے ہوں گے۔ خیر یہ پہلی قربانی دیکھی جس میں بکروں کی کھال اتارنے سے قبل ہی گردن اتار لی گئی، مجھے تو شک گزرا کہ ہو نہ ہو ضرور یہ قصاب ''اجمل قصاب'' کے رشتہ دار ہیں۔
پھر ایک قصاب کو ہم نے دیکھا جس نے اونٹ کو ذبح کرنا تھا اور وہ اونٹ کو گرانے کیلئے باقاعدہ دنگل کر رہا تھا، اونٹ کے پاؤں میں رسی باندھ کر اسے جھٹکا دے کر گرایا گیا اور پھر جلدی سے چھڑی پھیر دی۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ اونٹ کو '' نحر'' کیا جاتا ہے، یعنی اس کے کھڑے کھڑے اس کی گردن میں نیزے مارے جاتے ہیں جس سے اس کا سارا خون نکل جاتا ہے اور بعد میں وہ خود ہی بیٹھ جاتا ہے، جس کے بعد اسے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہی اونٹ ذبح کرنے کا مسنون اور صحیح طریقہ ہے مگر جن لوگوں نے سارا سال مرغیاں، گدھے، کتے اور کچھ حد تک بھیڑ، بکریاں اور گائیں، بھینسیں ذبح کرکے اپنے ہاتھ سیدھے کیے ہوں، وہ تو اونٹ کو بھی اسی طرح ذبح کریں گے۔
اگرچہ گذشتہ ایک دو سالوں سے'' ڈیجیٹل قصاب'' کا ٹرینڈ بھی جڑ پکڑ رہا ہے، جن کی انٹرنیٹ پر پہلے ہی بُکنگ کرلی جاتی ہے، مگر یہ ابھی اتنے پاپولر نہیں ہو سکے، اس وجہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں عید الفطر کے فوری بعد سے قصابوں کی کھیپ تیار کرنے کیلئے باقاعدہ کورس کروانے پڑیں گے۔
''اپنی تعلیم، قابلیت اور ہنر سے عاری ہونے کا غم نہ کھائیں ہمارے پاس آئیں اور راتوں رات قصاب بن جائیں''
اگر آپ نے کبھی پڑوسی کی مرغیوں کو چپکے سے پکڑ کر حلال کیا ہے تو آپ بقر عید پر قصاب کا روپ دھارنے کے بنیادی ''کرائی ٹیریا'' کو ''میچ'' کرتے ہیں، لیکن اگر آپ کو گدھے اور کتے سمیت دیگر جانوروں کو حلال کرنے کا تجربہ ہے تو یہ اضافی قابلیت شمار ہوگی۔ آپ کے پاس اپنی چھڑی، اوزار اور بائیک ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ کانوں کے درمیان خلا کا ہونا ضروری ہے تا کہ ایک سے سن کے فوراً دوسرے سے نکال سکیں اور غیر ضروری باتیں سُنی ان سُنی کر سکیں۔
اگر یہ خصوصیات مکمل ہو گئی ہوں تو کچھ مزید تجاویز پر غور کر لیں،
سب سے پہلے تو یہ اصول اپنائیں کہ کچھ بھی ہو، کسی کو انکار نہیں کرنا اور اپنا نمبر بڑھانا ہے کہ عید کے پہلے دن 100 جانور گرائے، دوسرے دن 80 اور تیسرے دن 70، عددی تعداد اس سے نیچے نہیں گرانی چاہئیے۔
نمبر بڑھانے کیلئے سب سے کامیاب اور آزمودہ نسخہ یہی ہے کہ جس بھی گھر میں جائیں، جانور کو ذبح کرکے نکل لیں، بہانہ یہ لگائیں کہ جی میں تو صرف ذبح کرتا ہوں، گوشت بنانے والے ''بس'' آ رہے ہیں۔ (اب اگر اگلے سمجھنے سے قاصر رہیں تو قصور انہی کا ہوگا کہ ''بس'' سے مراد یہ ہے کہ جتنی دیر میں بس آتی ہے، آجائے تو آجائے، نہ آئے تو ۔۔۔۔) یا اگر آپ زیادہ تکنیکی گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو کہہ دیں کہ بس بجلی کی طرح آ رہے، یعنی جس طرح لوڈ شیڈنگ میں گئی ہوئی بجلی آتی ہے۔
سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ یہی ظاہر کریں کہ جیسے آپ کی ٹیم میں بہت کامیاب اور تجربہ کار قصاب ہیں اور آپ سب کے ''گرو'' ہیں۔ اگر آپ کی علاقے کے قصاب سے اچھی سلام دعا ہے تو سمجھیں کہ آپ کا کام بن گیا۔ کوئی خواہ کتنی ہی باتیں کیوں نہ سنا دے، آپ نے گونگے، بہرے شخص کی طرح ''ری ایکٹ'' کرنا ہے، وگر نہ بکرا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ (بکرے سے مراد جانور کا مالک ہے، حقیقی بکرا نہیں)۔
جانور جیسے بھی ذبح کریں، بہترین گوشت ایک دو''دستیوں''، کھال، چربی، اوجڑی، کلیجی یا جو بھی چیز اچھی لگے، اس پر اپنا حق جمالیں بالکل اسی طرح جس طرح کچھ خاندان ہم پر حقِ حکمرانی جما چکے۔ اس حوالے سے سیاستدانوں سے جتنا سیکھ سکیں، سیکھ لیں اور کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ چیزوں پر اپنا حق جتائیں کیونکہ اگر سارا نہیں تو تھوڑا بہت تو ہاتھ آئے گا ہی اور آپ کے 5، 6 ماہ آرام سے گزر جائیں گے۔ ہاں، ایک اہم ٹپ عید سے قبل نیا ڈیپ فریزر خریدنے کی بھی تھی۔
اگر آپ کے پاس کرنے کا کوئی کام نہ بھی ہو تب بھی دیر سے جائیے تا کہ یہ ''ایمپریشن'' دے سکیں کہ بہت کام ہے اور آپ بہت مصروف ہیں۔ (لیکن ایسا صرف اس صورت میں کرنا ہے جب ایڈوانس کی مد میں پیسے پکڑ چکے ہوں)۔ پہلے ہی فون پر منہ اٹھا کر چل دینا قصابوں کے نزدیک بے عزتی تصور ہوتا ہے۔
پھر جاتے ہی ٹھنڈا منگوائیں، چائے کا آرڈر کریں بلکہ اگر ناشتے، کھانے کا ٹائم ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ آپ نے ادھر بالکل ایسے''بی ہیو'' کرنا ہے، جیسے کسی غریب کے گھر میں ''داماد'' آیا ہوتا ہے، یا جیسا سلوک سائلوں سے کوئی اونچے گریڈ کا بیورو کریٹ روا رکھتا ہے، بالکل ویسا سلوک کرنا ہے۔
اپنا تمام تر زور ایڈوانس بکنگ پر رکھیں اور ریٹ مُنہ پھاڑ کر مانگیں۔ بکرا، چھترا کم از کم 5 ہزار، گائے بیل کی قربانی کیلئے10 ہزار روپے جبکہ اونٹ ذبح کرنے کی مزدوری 15 سے 20 ہزار روپے۔ اگر آپ منہ پھاڑ کر نہیں مانگ سکتے تومارکیٹ خراب نہ کریں اور خدارا! یہ کام چھوڑ دیجئے اور جا کر اپنی عزت کی روزی، روٹی کیلئے کچھ اور کام کیجئے۔
اگر آپ اب یہ تصور کر رہے ہیں کہ آپ ایک کامیاب قصاب بن گئے ہیں تو بھی اپنے گھر کا جانور کسی ماہر اور تجربہ کار قصاب سے ذبح کروائیے گا وگرنہ گھر سے باہر رہائش کا پہلے ہی بندوبست کر لیجئے گا، اور ہماری فیس آپ ہمیں عید کے بعد بھی بھجوا سکتے ہیں، اس میں کوئی امر مانع نہیں، لہٰذا اب مزید وقت ضائع نہ کریں اور فوری طور پر باہر نکل کر ''بکرا'' ڈھونڈیں۔
[poll id="677"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس