اردو کے خلاف سازش
اللہ اللہ کر کے پاکستان میں اردو زبان کو سپریم کورٹ نے قومی زبان کا درجہ دے دیا،
KARACHI:
اللہ اللہ کر کے پاکستان میں اردو زبان کو سپریم کورٹ نے قومی زبان کا درجہ دے دیا، مگر اس کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں کون نافذ کرے گا۔ابھی وزیر اعظم نواز شریف کے امتحان کی گھڑی آنے کو ہے۔ اکتوبر کے ابتدائی دنوں میں اقوام متحدہ میں تقریرکی گھڑی آنے کو ہے جہاں پاکستان کو اپنی شناخت کرانی ہے کہ اس ملک کی زبان کیا ہے۔ کون سی بولی یہاں رائج ہے۔ دیکھیں وزیراعظم کس زبان میں تقریر فرماتے ہیں، اس سے ملک کی نئی سمت کا اندازہ ہوجائے گا۔
ایک اور اہم بات جو ان دنوں دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ امریکا کی بیشتر ریاستوں میں یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکا کی وسکانسن ریاست میں میڈیسن یونیورسٹی میں بھی باقاعدہ اردوکا شعبہ ہے،اکثر ہوائی اڈوں پر ایسے لوگ ملازم ہیں جو اردو سمجھ سکتے ہیں۔خصوصاً فوج کوجہاں اور تعلیم دی جاتی ہے اردو بھی سکھائی جاتی ہے۔
روس کے شہر ماسکو میں اردو زبان کے لیے خصوصی کام کیے گئے ہیں۔ روس کے قومی انٹرنیٹ اسپوٹنک پر اردو کی خبریں تصویروں میں تفصیلات نہایت ہی شستہ زبان میں ہیں اور ایک چینل جو جلد لانچ کیا جا رہا ہے اس کا نام ہے ''ہم کہیں ان کہی۔ نیویارک شہرسے اردوکے چھ اخبار اورجرائد نکلتے ہیں۔ کئی ادبی انجمنیں ہیں جو باقاعدگی سے مشاعرے کراتی ہیں، ابھی حال میں معروف ادیب سحر انصاری امریکا گئے تو بوسٹن شہر میں مشاعرہ کیا گیا۔ دنیا میں جہاں مختلف شعبوں کی مانگ ہے وہاں اردو کے قلمکاروں کی بھی مانگ بڑھ رہی ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی اردو قلمکار، شاعر و ادیب خستہ حالی سے باہر آگئے کیونکہ ہر صوبے کا کروڑوں روپے کا بجٹ ہے۔ خصوصاً یوپی، سی پی، دکن، تلنگانہ، کشمیر، جرائد اورخصوصاً سری نگر میں بھارتی حکومت لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اردو کی خصوصی سرپرستی میں مصروف ہے۔ ایسی صورت حال میں جب ایک مضبوط زبان کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ مل گیا ہے تو اس کے خلاف سازشوں کا ایک جال بچھایا جا رہا ہے۔ آئیے ہم اس مسئلے کو دیکھتے چلیں کہ اس جال کی ہر گرہ کس کس نے باندھی ہے اور اس کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں۔ پہلا مسئلہ آج سے نہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد اور اس کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک مختصر فوج سے کس طرح اپنے ہمنوا پیدا کیے۔
جب برصغیر تقسیم ہوا تو قائد اعظم نے اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ اس لیے اردو کا سیاسی طور سے بھارت سے دیس نکالا ہوگیا اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو اردو اور فارسی پر عبور رکھتے تھے وہ بھی اردو کی سیاسی پوزیشن بحال نہ کرسکے۔ پاکستان کا حال تو اس سے برا تھا۔ یہاں انگریز کی لابی انگلستان سے اپنے چہیتوں کو ٹریننگ دے کر پاکستان کی وزارت خارجہ اور دفاع کے شعبوں پر براجمان کراتی رہی اور کمیونسٹ مار مہم پر حکمرانوں کو لگاتی رہی۔ ملک دوست دانشوروں کو تہہ تیغ یا در بدر کرتی رہی۔ عزیز سلام بخاری، نازش امروہوی، حسن ناصر، حبیب جالب، فیض احمد فیض اس کی واضح مثال ہیں۔
اردو دانشوروں کی ایک فوج تھی جو آگے نہ بڑھ سکی جن کو انگریزی پر یکساں دسترس تھی، سید سبط حسن، سید محمد تقی، پروفیسر مجتبیٰ حسین، پروفیسرممتاز حسین اور پروفیسر یحییٰ سلام اللہ جو اردو زبان کی حکومتی سرپرستی کے لیے لڑتے رہے۔ مگر یہ زبان تمام ترخوبیوں کے باوجود عنان حکومت کو لگام نہ دے سکی کیونکہ وہ لابی آج بھی موجود ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ سیاست میں نابالغ ہی سہی، کمزور ترین طالب علم کیوں نہ ہو اگر انگریز کا بہی خواہ ہو، ماضی میں پشت در پشت انگریز کا حامی ہو اور انگلینڈ پلٹ ہو تو حکمرانی کے لیے یہ کافی ہے۔
ظاہر ہے یہ طوق گردن میں پڑا ہے جو سیاست کا مضبوط طوق ہے۔ جس کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کاٹ دیا تو یہ کیونکر روا ہو جو آسانی سے اپنی پوزیشن بناسکتے ہوں اور عنان بادشاہت غریب غریب کے جھوٹے نعروں سے لوگوں کو گمراہ کرسکتے ہوں۔ یہی حال پروفیشنل ڈگریوں کا ہے پاکستان اور بھارت کے مقامی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے لوگ امریکا اور انگلینڈ کے ممتاز عہدوں پر فائز ہیں اور وہاں کے مقامی امتحانات میں سرفہرست رہتے ہیں مگر وہ جعلی تعلیم یافتہ جو کسی گھریلو یونیورسٹی جو کاغذ پر ہوتی ہے۔
ان کے سرٹیفکیٹ لے کر آتے ہیں، وہ یہاں واپس آکر ہیڈ آف دی انسٹی ٹیوشن بن جاتے ہیں، یہ تو اچھا ہوا کہ سندھ نے بھی ملک میں متبادل ہائر ایجوکیشن سرٹیفکیٹ کا شعبہ چلایا اور جعلی یونیورسٹیوں اور ڈگریوں کے لیے زمین ہموار کی۔ مگر خدا نے ان کو بے اثر کردیا جو اردو کی ترقی کے لیے تو کسی طرح بھی تیار نہ تھے البتہ وہ اردو دشمنی میں طاق تھے۔ یہ تو رہی سیاسی کڑیاں جن پر گفتگو ہوئی اب غیر سیاسی اردو دشمن قوتوں کو ذرا غور سے دیکھیے۔ پاکستان میں اردو چینل اردو زبان کی خدمت کے لیے آئے ہیں ایسا ہرگز نہیں کیونکہ یہ اردو زبان کی تحقیر پر آمادہ ہیں۔
کیونکہ ان چینلوں کے پاس اردو کے 5 منٹ نہیں ہیں، البتہ کھانا پکانے کے نسخہ جات، ہلہ گلہ اور بدنام زمانہ سیاست دانوں کے لیے دن دن بھر اور بار بار دہرائی جانے والی گفتگو ہوتی ہے۔ یہ چینل اردو کی خدمت پر مامور نہیں بلکہ یہ زرگری میں مصروف ہیں ۔ انگریزی کے کئی چینل آئے مگر وہ فضا میں تحلیل ہوگئے کیوں کہ وہ روپیہ کما کر نہیں دیتے تھے اور نہ اب کوئی انگریزی کے چینل لانے کی جرأت کرے گا۔
کیونکہ اس کی حقیقت نمایاں ہوچکی ہے چونکہ انگریزی چینل پاکستان میں اپنا بوریا بستر لپیٹ چکے ہیں اس لیے اردو کے خلاف مضامین کا ایک سلسلہ انگریزی کے پرنٹ میڈیا کی طرف سے ہے، آخر انگریزی کا پرنٹ میڈیا کیوں پریشان ہے؟ اس کا یہ عمل کیوں ہے آئے چند جملے اس کے لیے بھی اردو کو سرکاری زبان ہونے کا ہرگز مطلب نہیں کہ انگریزی کا دیس نکالا۔ انگریزی ایک الگ میڈیم ہے اس کی اپنی خوبصورتی ہے مگر وہ مقامی مسائل اور خصوصاً مباحثوں میں نت نئے موضوعات پر کوئی اثر نہیں رکھتی۔ اس لیے پاکستان کے انگریزی اخبارات میں اردو زبان کی کتابوں اور اس کی تہذیب پر الگ سپلیمنٹ ہر ہفتے تواتر سے آتا ہے یہ انگریزی زبان کی کمزوری ہے کہ اس کو اردو کا سہارا ہر دم چاہیے۔
سکندر کی خاطر بھی ہے سدباب
جو دارا بھی ہو تو مداوا نہیں
(میر انیس)
ظاہر ہے انگریز کی بٹھائی ہوئی لابی اتنی آسانی سے ہار نہیں مان لے گی، یہ اردو زبان کے پروفیسروں اور دانش وروں، اساتذہ کا کام ہے کہ وہ ایک تحریک کے طور پر نفاذ اردو کو عملی جامہ پہنانے کے لیے منظم منصوبہ بندی کریں تاکہ کارواں اردو
شام و مال ہے قریب' صبح کمال ہے قریب
پھر نہ رہیں گے سرگراں' شام بخیر، شب بخیر
(جون ایلیا)
اللہ اللہ کر کے پاکستان میں اردو زبان کو سپریم کورٹ نے قومی زبان کا درجہ دے دیا، مگر اس کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں کون نافذ کرے گا۔ابھی وزیر اعظم نواز شریف کے امتحان کی گھڑی آنے کو ہے۔ اکتوبر کے ابتدائی دنوں میں اقوام متحدہ میں تقریرکی گھڑی آنے کو ہے جہاں پاکستان کو اپنی شناخت کرانی ہے کہ اس ملک کی زبان کیا ہے۔ کون سی بولی یہاں رائج ہے۔ دیکھیں وزیراعظم کس زبان میں تقریر فرماتے ہیں، اس سے ملک کی نئی سمت کا اندازہ ہوجائے گا۔
ایک اور اہم بات جو ان دنوں دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ امریکا کی بیشتر ریاستوں میں یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکا کی وسکانسن ریاست میں میڈیسن یونیورسٹی میں بھی باقاعدہ اردوکا شعبہ ہے،اکثر ہوائی اڈوں پر ایسے لوگ ملازم ہیں جو اردو سمجھ سکتے ہیں۔خصوصاً فوج کوجہاں اور تعلیم دی جاتی ہے اردو بھی سکھائی جاتی ہے۔
روس کے شہر ماسکو میں اردو زبان کے لیے خصوصی کام کیے گئے ہیں۔ روس کے قومی انٹرنیٹ اسپوٹنک پر اردو کی خبریں تصویروں میں تفصیلات نہایت ہی شستہ زبان میں ہیں اور ایک چینل جو جلد لانچ کیا جا رہا ہے اس کا نام ہے ''ہم کہیں ان کہی۔ نیویارک شہرسے اردوکے چھ اخبار اورجرائد نکلتے ہیں۔ کئی ادبی انجمنیں ہیں جو باقاعدگی سے مشاعرے کراتی ہیں، ابھی حال میں معروف ادیب سحر انصاری امریکا گئے تو بوسٹن شہر میں مشاعرہ کیا گیا۔ دنیا میں جہاں مختلف شعبوں کی مانگ ہے وہاں اردو کے قلمکاروں کی بھی مانگ بڑھ رہی ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی اردو قلمکار، شاعر و ادیب خستہ حالی سے باہر آگئے کیونکہ ہر صوبے کا کروڑوں روپے کا بجٹ ہے۔ خصوصاً یوپی، سی پی، دکن، تلنگانہ، کشمیر، جرائد اورخصوصاً سری نگر میں بھارتی حکومت لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اردو کی خصوصی سرپرستی میں مصروف ہے۔ ایسی صورت حال میں جب ایک مضبوط زبان کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ مل گیا ہے تو اس کے خلاف سازشوں کا ایک جال بچھایا جا رہا ہے۔ آئیے ہم اس مسئلے کو دیکھتے چلیں کہ اس جال کی ہر گرہ کس کس نے باندھی ہے اور اس کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں۔ پہلا مسئلہ آج سے نہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد اور اس کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک مختصر فوج سے کس طرح اپنے ہمنوا پیدا کیے۔
جب برصغیر تقسیم ہوا تو قائد اعظم نے اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ اس لیے اردو کا سیاسی طور سے بھارت سے دیس نکالا ہوگیا اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو اردو اور فارسی پر عبور رکھتے تھے وہ بھی اردو کی سیاسی پوزیشن بحال نہ کرسکے۔ پاکستان کا حال تو اس سے برا تھا۔ یہاں انگریز کی لابی انگلستان سے اپنے چہیتوں کو ٹریننگ دے کر پاکستان کی وزارت خارجہ اور دفاع کے شعبوں پر براجمان کراتی رہی اور کمیونسٹ مار مہم پر حکمرانوں کو لگاتی رہی۔ ملک دوست دانشوروں کو تہہ تیغ یا در بدر کرتی رہی۔ عزیز سلام بخاری، نازش امروہوی، حسن ناصر، حبیب جالب، فیض احمد فیض اس کی واضح مثال ہیں۔
اردو دانشوروں کی ایک فوج تھی جو آگے نہ بڑھ سکی جن کو انگریزی پر یکساں دسترس تھی، سید سبط حسن، سید محمد تقی، پروفیسر مجتبیٰ حسین، پروفیسرممتاز حسین اور پروفیسر یحییٰ سلام اللہ جو اردو زبان کی حکومتی سرپرستی کے لیے لڑتے رہے۔ مگر یہ زبان تمام ترخوبیوں کے باوجود عنان حکومت کو لگام نہ دے سکی کیونکہ وہ لابی آج بھی موجود ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ سیاست میں نابالغ ہی سہی، کمزور ترین طالب علم کیوں نہ ہو اگر انگریز کا بہی خواہ ہو، ماضی میں پشت در پشت انگریز کا حامی ہو اور انگلینڈ پلٹ ہو تو حکمرانی کے لیے یہ کافی ہے۔
ظاہر ہے یہ طوق گردن میں پڑا ہے جو سیاست کا مضبوط طوق ہے۔ جس کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کاٹ دیا تو یہ کیونکر روا ہو جو آسانی سے اپنی پوزیشن بناسکتے ہوں اور عنان بادشاہت غریب غریب کے جھوٹے نعروں سے لوگوں کو گمراہ کرسکتے ہوں۔ یہی حال پروفیشنل ڈگریوں کا ہے پاکستان اور بھارت کے مقامی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے لوگ امریکا اور انگلینڈ کے ممتاز عہدوں پر فائز ہیں اور وہاں کے مقامی امتحانات میں سرفہرست رہتے ہیں مگر وہ جعلی تعلیم یافتہ جو کسی گھریلو یونیورسٹی جو کاغذ پر ہوتی ہے۔
ان کے سرٹیفکیٹ لے کر آتے ہیں، وہ یہاں واپس آکر ہیڈ آف دی انسٹی ٹیوشن بن جاتے ہیں، یہ تو اچھا ہوا کہ سندھ نے بھی ملک میں متبادل ہائر ایجوکیشن سرٹیفکیٹ کا شعبہ چلایا اور جعلی یونیورسٹیوں اور ڈگریوں کے لیے زمین ہموار کی۔ مگر خدا نے ان کو بے اثر کردیا جو اردو کی ترقی کے لیے تو کسی طرح بھی تیار نہ تھے البتہ وہ اردو دشمنی میں طاق تھے۔ یہ تو رہی سیاسی کڑیاں جن پر گفتگو ہوئی اب غیر سیاسی اردو دشمن قوتوں کو ذرا غور سے دیکھیے۔ پاکستان میں اردو چینل اردو زبان کی خدمت کے لیے آئے ہیں ایسا ہرگز نہیں کیونکہ یہ اردو زبان کی تحقیر پر آمادہ ہیں۔
کیونکہ ان چینلوں کے پاس اردو کے 5 منٹ نہیں ہیں، البتہ کھانا پکانے کے نسخہ جات، ہلہ گلہ اور بدنام زمانہ سیاست دانوں کے لیے دن دن بھر اور بار بار دہرائی جانے والی گفتگو ہوتی ہے۔ یہ چینل اردو کی خدمت پر مامور نہیں بلکہ یہ زرگری میں مصروف ہیں ۔ انگریزی کے کئی چینل آئے مگر وہ فضا میں تحلیل ہوگئے کیوں کہ وہ روپیہ کما کر نہیں دیتے تھے اور نہ اب کوئی انگریزی کے چینل لانے کی جرأت کرے گا۔
کیونکہ اس کی حقیقت نمایاں ہوچکی ہے چونکہ انگریزی چینل پاکستان میں اپنا بوریا بستر لپیٹ چکے ہیں اس لیے اردو کے خلاف مضامین کا ایک سلسلہ انگریزی کے پرنٹ میڈیا کی طرف سے ہے، آخر انگریزی کا پرنٹ میڈیا کیوں پریشان ہے؟ اس کا یہ عمل کیوں ہے آئے چند جملے اس کے لیے بھی اردو کو سرکاری زبان ہونے کا ہرگز مطلب نہیں کہ انگریزی کا دیس نکالا۔ انگریزی ایک الگ میڈیم ہے اس کی اپنی خوبصورتی ہے مگر وہ مقامی مسائل اور خصوصاً مباحثوں میں نت نئے موضوعات پر کوئی اثر نہیں رکھتی۔ اس لیے پاکستان کے انگریزی اخبارات میں اردو زبان کی کتابوں اور اس کی تہذیب پر الگ سپلیمنٹ ہر ہفتے تواتر سے آتا ہے یہ انگریزی زبان کی کمزوری ہے کہ اس کو اردو کا سہارا ہر دم چاہیے۔
سکندر کی خاطر بھی ہے سدباب
جو دارا بھی ہو تو مداوا نہیں
(میر انیس)
ظاہر ہے انگریز کی بٹھائی ہوئی لابی اتنی آسانی سے ہار نہیں مان لے گی، یہ اردو زبان کے پروفیسروں اور دانش وروں، اساتذہ کا کام ہے کہ وہ ایک تحریک کے طور پر نفاذ اردو کو عملی جامہ پہنانے کے لیے منظم منصوبہ بندی کریں تاکہ کارواں اردو
شام و مال ہے قریب' صبح کمال ہے قریب
پھر نہ رہیں گے سرگراں' شام بخیر، شب بخیر
(جون ایلیا)