گھوسٹ
’’نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں‘‘ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی شے کو بلاوجہ تخلیق نہیں کیا۔
''نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں'' مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی شے کو بلاوجہ تخلیق نہیں کیا۔ یہ تو ہماری عقل کا قصور ہے کہ ہم کسی کو اتنی اہمیت دیں کہ آسمان پر چڑھا دیں اور کسی کے پیچھے بلاوجہ ہاتھ دھو کر پڑ جائیں کہ یہی سارے فساد کی جڑ ہے، اس کو تو ہونا ہی نہیں چاہیے تھا مثلاً ہم ناقص العقل ہمیشہ اپنے تقریباً ہر اشاریے میں جاگیرداروں، وڈیروں وغیرہ کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے رہتے تھے کہ تمام ملکی مسائل و بدحالی کی جڑ جاگیردارانہ نظام ہے، یہ ختم ہو جائے تو گویا ملک میں کوئی مسئلہ ہی نہ رہے۔ مگر اب ہمیں آہستہ آہستہ احساس ہو رہا ہے کہ بالکل صحیح نہیں تو کافی غلط سوچ رہے تھے۔
آخر یہ جاگیردار اور وڈیرے بھی تو کسی نہ کسی کے کام آتے ہی ہوں گے اول تو ملک کا سارا سیاسی نظام ان ہی کے دم قدم سے قائم و دائم ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو کار سیاست تو بالکل چوپٹ ہو کر رہ جائے کیونکہ یہ تو ان کا جدی پشتی فرض ہے جو یہ ہمیشہ سے پوری ذمے داری سے ادا کر رہے ہیں۔ مگر جب ہم نے گھوسٹ اساتذہ کی اصطلاح سنی اور پڑھی اور وہ بھی بہت منفی انداز میں کہ ملک بھر میں ایسے بے شمار اساتذہ ہیں جو کسی تعلیمی ادارے میں پڑھاتے نہیں کسی اسکول میں جاتے نہیں بعض کا تو کوئی وجود ہی نہیں مگر باقاعدہ مشاہرہ وصول کر رہے ہیں کیونکہ یہ کاغذات کی حد تک موجود ہیں۔
کچھ ہیں مگر پڑھانا ان کے فرائض میں شامل نہیں بس ماہ بہ ماہ تنخواہ وصول کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تھے بھی تو کب کے ریٹائرڈ ہونے کی عمر سے گزر چکے ہیں مگر کاغذات میں انھیں ابھی تک فارغ نہیں کیا گیا۔ بلکہ کچھ واقعات تو ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ ان کو باقاعدہ فارغ کر دیا گیا اور ریٹائرمنٹ پر ادا ہونے والے تمام واجبات حاصل کرنے کے بعد بھی ابھی تک جوں کے توں موجود ہیں اور ماہانہ مشاہرہ تعلیم خود دستخطوں سے وصول کر رہے ہیں۔
دیہی علاقوں اور قصبوں میں جو حکومت نے زر کثیر خرچ کر کے (جو سارا خرچ تو نہیں ہوا تھا کچھ کسی کسی کی جیب میں بھی گیا تھا) ملک میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے پرائمری اور کہیں کہیں سیکنڈری اسکولوں کی عمارات تعمیر کرائی تھیں وہ موجود ہیں مگر دیہاتوں میں بچے گلیوں میں کھیلنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ یہ وڈیرے صاحب ان عمارتوں کو اپنے گھوڑے، گائے، بھینسوں کے باڑے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ آخر یہ جاگیردار اور وڈیرے سائیں بھی انسان ہیں اور دل میں درد انسانیت بھی رکھتے ہیں تب ہی تو گائے، بھینسوں کو علاقے بھر میں یوں ہی گھومنے پھرنے نہیں دیتے کہ بلاوجہ کسی کو ٹکریں مارتی پھریں یا چھوٹے بچوں کو کچل دیں۔
وڈیرہ خود ایک پھل باغ سے توڑنے پر بچے پر تشدد کر کے اس کو جان سے مار سکتا ہے مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ انسان کے بچوں کو جانور نقصان پہنچائیں۔ اسی نیک خیال کے تحت جب انھیں اچھی بھلی جگہ میسر ہے تو کیوں نہ اسی کو استعمال کیا جائے، تمام جانور بھی محفوظ اور بچے بھی محفوظ۔ رہ گئے گاؤں کے بچے تو وہ پرائمری یا سیکنڈری تک وہ بھی علاقائی زبان میں اور مڈل پاس اساتذہ سے تعلیم حاصل کر کے کون سے بقراط یا افلاطون بن جائیں گے۔
ہنسنے کھیلنے کے دن بلاوجہ ضایع کرنے کا کیا فائدہ؟ کیوں نہ وڈیرہ سائیں کے چھوٹے موٹے کام کر کے کچھ بچا کچھا کھا کر نہیں تو سائیں کی ٹھوکریں اور مکے کھا کر ہی زندگی بسر کریں۔ ذرا بڑے ہوں گے تو یوں بھی سائیں جی کے کھیت کھلیانوں کے ساتھ ساتھ ان کے جانوروں کی دیکھ بھال کے علاوہ مزید سو کام کرنے کو ہیں۔
اب یہ بھی انسانیت کی اعلیٰ مثال ہی ہے کہ وڈیرہ سائیں اپنی طرف سے اپنے کمی کمینوں کو کچھ نہ کچھ دیتے دلاتے رہتے ہی ہیں اور پھر ان کو بغور استاد بھی کچھ نہ کچھ حکومت سے دلواتے رہتے ہیں۔
لہٰذا گھوسٹ اساتذہ اتنے بھی گھوسٹ نہیں ہوتے کہ وہ کچھ کرتے ہی نہیں، اگر پڑھاتے نہیں تو سائیں کے پاؤں تو دباتے ہیں، ان کی اوطاقوں کی صفائی کرتے ہیں ان کے مہمانوں کی دوڑ دوڑ کر خاطر مدارات کرتے ہیں پھر سب سے بڑھ کر انتخابات میں سائیں کو اپنا قیمتی ووٹ دیتے ہیں۔ تو جب اتنا کچھ کرتے ہیں تو سرکاری تنخواہ کے حقدار تو ہوئے ہی ناں۔ یہ سب کچھ کیونکہ سائیں کی دریا دلی اور مہربانی سے ہوتا ہے تو اب آدھی رقم پر سائیں کا بھی حق بنتا ہے بلکہ جب یہ دستخط کر کے رقم لے آئیں تو ساری کی ساری ساری سائیں کے قدموں میں لا کر رکھ دیں۔ اب یہ سائیں کا بڑا پن ہے کہ اس میں سے کچھ ان کو بھی دے دیں۔
''گھوسٹ اساتذہ'' کی اصطلاح سے جو منفی تصور ہمارے ذہن میں ابھرا تھا جب تمام حقائق کا علم ہوا تو ہمیں یہ اصطلاح بے حد مثبت نظر آنے لگی اور جاگیرداروں کے خلاف جو ہمارا پیدائشی نظریہ تھا وہ بھی تبدیل ہونے لگا کہ بلا وجہ ہم انھیں خونخوار اور خوفناک مخلوق سمجھتے رہے، وہ تو بے حد انسان دوست ہستیاں ہیں۔
پھر تو بھئی! یہ گھوسٹ کی اصطلاح ایسی چلی کہ کوئی شعبہ ہی نہ بچا، گھوسٹ پولیس اہلکار، گھوسٹ اسپتال، گھوسٹ رفاہی و فلاحی ادارے، گھوسٹ کھلاڑی۔ اس اصطلاح کا مطلب جو ہمیں بتایا گیا وہ کچھ یوں ہے کہ بلا کچھ کیے رقم یا فوائد حاصل کرنا۔ جب ہم نے سوچا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلا فرائض ادا کیے حقوق حاصل کرتے رہنا تو ہم نے سوچا کہ پھر اتنے شعبوں، اداروں یا افراد کا الگ الگ ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟ سیدھی سی بات ہے کہ کہہ دیا جائے ''گھوسٹ قوم۔''
آخر یہ جاگیردار اور وڈیرے بھی تو کسی نہ کسی کے کام آتے ہی ہوں گے اول تو ملک کا سارا سیاسی نظام ان ہی کے دم قدم سے قائم و دائم ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو کار سیاست تو بالکل چوپٹ ہو کر رہ جائے کیونکہ یہ تو ان کا جدی پشتی فرض ہے جو یہ ہمیشہ سے پوری ذمے داری سے ادا کر رہے ہیں۔ مگر جب ہم نے گھوسٹ اساتذہ کی اصطلاح سنی اور پڑھی اور وہ بھی بہت منفی انداز میں کہ ملک بھر میں ایسے بے شمار اساتذہ ہیں جو کسی تعلیمی ادارے میں پڑھاتے نہیں کسی اسکول میں جاتے نہیں بعض کا تو کوئی وجود ہی نہیں مگر باقاعدہ مشاہرہ وصول کر رہے ہیں کیونکہ یہ کاغذات کی حد تک موجود ہیں۔
کچھ ہیں مگر پڑھانا ان کے فرائض میں شامل نہیں بس ماہ بہ ماہ تنخواہ وصول کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تھے بھی تو کب کے ریٹائرڈ ہونے کی عمر سے گزر چکے ہیں مگر کاغذات میں انھیں ابھی تک فارغ نہیں کیا گیا۔ بلکہ کچھ واقعات تو ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ ان کو باقاعدہ فارغ کر دیا گیا اور ریٹائرمنٹ پر ادا ہونے والے تمام واجبات حاصل کرنے کے بعد بھی ابھی تک جوں کے توں موجود ہیں اور ماہانہ مشاہرہ تعلیم خود دستخطوں سے وصول کر رہے ہیں۔
دیہی علاقوں اور قصبوں میں جو حکومت نے زر کثیر خرچ کر کے (جو سارا خرچ تو نہیں ہوا تھا کچھ کسی کسی کی جیب میں بھی گیا تھا) ملک میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے پرائمری اور کہیں کہیں سیکنڈری اسکولوں کی عمارات تعمیر کرائی تھیں وہ موجود ہیں مگر دیہاتوں میں بچے گلیوں میں کھیلنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ یہ وڈیرے صاحب ان عمارتوں کو اپنے گھوڑے، گائے، بھینسوں کے باڑے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ آخر یہ جاگیردار اور وڈیرے سائیں بھی انسان ہیں اور دل میں درد انسانیت بھی رکھتے ہیں تب ہی تو گائے، بھینسوں کو علاقے بھر میں یوں ہی گھومنے پھرنے نہیں دیتے کہ بلاوجہ کسی کو ٹکریں مارتی پھریں یا چھوٹے بچوں کو کچل دیں۔
وڈیرہ خود ایک پھل باغ سے توڑنے پر بچے پر تشدد کر کے اس کو جان سے مار سکتا ہے مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ انسان کے بچوں کو جانور نقصان پہنچائیں۔ اسی نیک خیال کے تحت جب انھیں اچھی بھلی جگہ میسر ہے تو کیوں نہ اسی کو استعمال کیا جائے، تمام جانور بھی محفوظ اور بچے بھی محفوظ۔ رہ گئے گاؤں کے بچے تو وہ پرائمری یا سیکنڈری تک وہ بھی علاقائی زبان میں اور مڈل پاس اساتذہ سے تعلیم حاصل کر کے کون سے بقراط یا افلاطون بن جائیں گے۔
ہنسنے کھیلنے کے دن بلاوجہ ضایع کرنے کا کیا فائدہ؟ کیوں نہ وڈیرہ سائیں کے چھوٹے موٹے کام کر کے کچھ بچا کچھا کھا کر نہیں تو سائیں کی ٹھوکریں اور مکے کھا کر ہی زندگی بسر کریں۔ ذرا بڑے ہوں گے تو یوں بھی سائیں جی کے کھیت کھلیانوں کے ساتھ ساتھ ان کے جانوروں کی دیکھ بھال کے علاوہ مزید سو کام کرنے کو ہیں۔
اب یہ بھی انسانیت کی اعلیٰ مثال ہی ہے کہ وڈیرہ سائیں اپنی طرف سے اپنے کمی کمینوں کو کچھ نہ کچھ دیتے دلاتے رہتے ہی ہیں اور پھر ان کو بغور استاد بھی کچھ نہ کچھ حکومت سے دلواتے رہتے ہیں۔
لہٰذا گھوسٹ اساتذہ اتنے بھی گھوسٹ نہیں ہوتے کہ وہ کچھ کرتے ہی نہیں، اگر پڑھاتے نہیں تو سائیں کے پاؤں تو دباتے ہیں، ان کی اوطاقوں کی صفائی کرتے ہیں ان کے مہمانوں کی دوڑ دوڑ کر خاطر مدارات کرتے ہیں پھر سب سے بڑھ کر انتخابات میں سائیں کو اپنا قیمتی ووٹ دیتے ہیں۔ تو جب اتنا کچھ کرتے ہیں تو سرکاری تنخواہ کے حقدار تو ہوئے ہی ناں۔ یہ سب کچھ کیونکہ سائیں کی دریا دلی اور مہربانی سے ہوتا ہے تو اب آدھی رقم پر سائیں کا بھی حق بنتا ہے بلکہ جب یہ دستخط کر کے رقم لے آئیں تو ساری کی ساری ساری سائیں کے قدموں میں لا کر رکھ دیں۔ اب یہ سائیں کا بڑا پن ہے کہ اس میں سے کچھ ان کو بھی دے دیں۔
''گھوسٹ اساتذہ'' کی اصطلاح سے جو منفی تصور ہمارے ذہن میں ابھرا تھا جب تمام حقائق کا علم ہوا تو ہمیں یہ اصطلاح بے حد مثبت نظر آنے لگی اور جاگیرداروں کے خلاف جو ہمارا پیدائشی نظریہ تھا وہ بھی تبدیل ہونے لگا کہ بلا وجہ ہم انھیں خونخوار اور خوفناک مخلوق سمجھتے رہے، وہ تو بے حد انسان دوست ہستیاں ہیں۔
پھر تو بھئی! یہ گھوسٹ کی اصطلاح ایسی چلی کہ کوئی شعبہ ہی نہ بچا، گھوسٹ پولیس اہلکار، گھوسٹ اسپتال، گھوسٹ رفاہی و فلاحی ادارے، گھوسٹ کھلاڑی۔ اس اصطلاح کا مطلب جو ہمیں بتایا گیا وہ کچھ یوں ہے کہ بلا کچھ کیے رقم یا فوائد حاصل کرنا۔ جب ہم نے سوچا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلا فرائض ادا کیے حقوق حاصل کرتے رہنا تو ہم نے سوچا کہ پھر اتنے شعبوں، اداروں یا افراد کا الگ الگ ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟ سیدھی سی بات ہے کہ کہہ دیا جائے ''گھوسٹ قوم۔''