ذخیرہ
مشک اور شعر کی خوشبو تہہ خانے کے صندوق میں بھی ہو تو بھی اپنا پتہ دیتی ہے۔
مشک اور شعر کی خوشبو تہہ خانے کے صندوق میں بھی ہو تو بھی اپنا پتہ دیتی ہے۔ مجھے جب محبی جسٹس سید جمشید علی کی کتاب ''تلاش'' ملی اور اس کے نیچے بریکٹ میں تحریر ہے ''ہم قافیہ وہم ردیف اشعار کا مجموعہ'' تو میں حیرت و خجالت میں ڈوب گیا کہ تین دہائیوں کے قرب و تعلق کے باوجود کیوں معلوم نہ ہو سکا کہ شاہ جی شعر بھی کہتے ہیں۔ شعرکی آمد کے بعد شاعر کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب تک وہ اسے کسی کو سنا نہ لے سانس لینا بھی محال ہوتا ہے۔ لیکن میں شاہ جی کو فون کرنے سے پہلے میں نے جسٹس سید جمشید علی سابق جج سپریم کورٹ کی کتاب کا تعارف پڑھا تو بات سمجھ میں آ ئی کہ میں جو انھیں سخن فہم کے طور پر بخوبی جانتا ہوں وہی سچ ہے کیونکہ شاعر یعنی سخن ور ہونے کا تو ان کا کبھی دعویٰ ہی نہیں تھا۔ اس کتاب کا محرک وہ ایک شعر کو بیان کرتے ہیں جو انھوں نے شیخ محمد اکرم سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کو ایک شعری نشست میں پڑھتے سنا۔ شعر یوں ہے
ابھی کچھ اور کڑی دھوپ میں چلنا ہو گا
ربط اتنا نہ بڑھا سایہ دیوار کے ساتھ
شاہ جی نے اتنا خوبصورت شعر سن کر پوری غزل کی بابت شیخ اکرم سے دریافت کیا تو وہ شاعر کا نام نہ کھوج سکے۔ شاعر کی تلاش میں جمشید صاحب نے ہم قافیہ اور ہم ردیف شعروں کا تعاقب شروع کر دیا اور جو بھی اس قبیل کا اچھا شعر نظر سے گزرتا وہ اسے اپنی ڈائری میں درج کرتے چلے گئے۔ ان کی مشکل جسٹس انوار الحق صاحب نے حل کر دی جب انھوں نے ظہیر کاشمیری کا ایک اور شعر سنا دیا ؎
رات بھر بیٹھے رہے دیدہ بیدار کے ساتھ
ظلمتیں کم نہ ہوئیں صبح کے آثار کے ساتھ
اس کتاب کے 220 صفحات میں اگرچہ جمشید صاحب کا اپنا لکھا ہوا صرف دو صفحوں کا ''تعارف'' ہے اور باقی معروف شعرا کے کسی جگہ تین اور کہیں چھ ''ہم قافیہ وہم ردیف'' شعر موجود ہیں لیکن سال ہا سال کی کاوش محنت اور لگن نے ''تلاش'' کو دیدہ و دل کی خوش کن ضیافت اور علمی و ادبی مرقع بنا دیا ہے۔ میں اس ذخیرے میں سے کچھ اشعار اس کالم میں اور کچھ آیندہ درج کروں گا ۔ اب شعر پڑھئے اور سر دھنئے؎
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا (غالب)
ہوائے تند میں ٹہرا نہ آشیاں اپنا
چراغ جل نہ سکا زیر آسماں اپنا (یاس یگانہ چنگیزی)
دل میں کس قدر ہے درد اس کو کیا یقیں آئے
داغ بے نمود اپنا زخم بے نشاں اپنا (داغ)
گھر ہے اب قفس فانی گھر کبھی چمن بھی تھا
ہاں کبھی وطن بھی تھا اب وطن کہاں اپنا (فانی)
وہ چمن جسے ہم نے خون دل سے سینچا تھا
اس پہ حق جتاتی ہیں آج بجلیاں اپنا (جالب)
رنجش ہی سہی دل میں دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ (احمد فراز)
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لیے آ (طالب پانی پتی)
یہ کس نے کہا ہے مری تقدیر بنا دے
آ اپنے ہی ہاتھوں سے مٹانے کے لیے آ (حسرت جے پوری)
جس دن سے دی گئی ہے شکست اپنے آپ کو
اس دن سے کوئی مدمقابل نہیں رہا (تابش)
شمع کے ساتھ تو جلتے ہیں پتنگے دو پل
کون ساتھی ہے مرے عالم تنہائی کا (عدم)
............
محشر میں ہو نا دم وہ خدا یہ نہ دکھائے
آنکھوں کو کبھی اس کی پشیماں نہیں دیکھا (داغ)
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
اس شوخ کی زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا (اصغر گونڈوی)
اللہ رے مجبوری آداب محبت
گلشن میں رہے اور گلستاں نہیں دیکھا (جگر)
............
بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا (غالب)
کلام یاس سے دنیا میں ایک آگ لگی
یہ کون حضرت آتش کا ہم زباں نکلا (یاس یگانہ)
میں نکلتا تری محفل سے اکیلا اے کاش
غم یہ ہے ساتھ مرے غیر کا ارماں نکلا (سالک)
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا (بزم اکبر آبادی)
ابھی کچھ اور کڑی دھوپ میں چلنا ہو گا
ربط اتنا نہ بڑھا سایہ دیوار کے ساتھ
شاہ جی نے اتنا خوبصورت شعر سن کر پوری غزل کی بابت شیخ اکرم سے دریافت کیا تو وہ شاعر کا نام نہ کھوج سکے۔ شاعر کی تلاش میں جمشید صاحب نے ہم قافیہ اور ہم ردیف شعروں کا تعاقب شروع کر دیا اور جو بھی اس قبیل کا اچھا شعر نظر سے گزرتا وہ اسے اپنی ڈائری میں درج کرتے چلے گئے۔ ان کی مشکل جسٹس انوار الحق صاحب نے حل کر دی جب انھوں نے ظہیر کاشمیری کا ایک اور شعر سنا دیا ؎
رات بھر بیٹھے رہے دیدہ بیدار کے ساتھ
ظلمتیں کم نہ ہوئیں صبح کے آثار کے ساتھ
اس کتاب کے 220 صفحات میں اگرچہ جمشید صاحب کا اپنا لکھا ہوا صرف دو صفحوں کا ''تعارف'' ہے اور باقی معروف شعرا کے کسی جگہ تین اور کہیں چھ ''ہم قافیہ وہم ردیف'' شعر موجود ہیں لیکن سال ہا سال کی کاوش محنت اور لگن نے ''تلاش'' کو دیدہ و دل کی خوش کن ضیافت اور علمی و ادبی مرقع بنا دیا ہے۔ میں اس ذخیرے میں سے کچھ اشعار اس کالم میں اور کچھ آیندہ درج کروں گا ۔ اب شعر پڑھئے اور سر دھنئے؎
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا (غالب)
ہوائے تند میں ٹہرا نہ آشیاں اپنا
چراغ جل نہ سکا زیر آسماں اپنا (یاس یگانہ چنگیزی)
دل میں کس قدر ہے درد اس کو کیا یقیں آئے
داغ بے نمود اپنا زخم بے نشاں اپنا (داغ)
گھر ہے اب قفس فانی گھر کبھی چمن بھی تھا
ہاں کبھی وطن بھی تھا اب وطن کہاں اپنا (فانی)
وہ چمن جسے ہم نے خون دل سے سینچا تھا
اس پہ حق جتاتی ہیں آج بجلیاں اپنا (جالب)
رنجش ہی سہی دل میں دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ (احمد فراز)
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لیے آ (طالب پانی پتی)
یہ کس نے کہا ہے مری تقدیر بنا دے
آ اپنے ہی ہاتھوں سے مٹانے کے لیے آ (حسرت جے پوری)
جس دن سے دی گئی ہے شکست اپنے آپ کو
اس دن سے کوئی مدمقابل نہیں رہا (تابش)
شمع کے ساتھ تو جلتے ہیں پتنگے دو پل
کون ساتھی ہے مرے عالم تنہائی کا (عدم)
............
محشر میں ہو نا دم وہ خدا یہ نہ دکھائے
آنکھوں کو کبھی اس کی پشیماں نہیں دیکھا (داغ)
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
اس شوخ کی زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا (اصغر گونڈوی)
اللہ رے مجبوری آداب محبت
گلشن میں رہے اور گلستاں نہیں دیکھا (جگر)
............
بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا (غالب)
کلام یاس سے دنیا میں ایک آگ لگی
یہ کون حضرت آتش کا ہم زباں نکلا (یاس یگانہ)
میں نکلتا تری محفل سے اکیلا اے کاش
غم یہ ہے ساتھ مرے غیر کا ارماں نکلا (سالک)
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا (بزم اکبر آبادی)