آلہ
بلوچستان میں چار سال قیام کے دوران ہم نے اختر مینگل سے لے کر سردار بگٹی تک کی ’’سردارانہ تقسیم‘‘ دیکھی ہے
ہماری پیشانی پرناک کے دونوں سمت ایک آلہ لگا ہوا ہے یہ ان قدرتی نشانیوں میں سے ایک ہے جو قدرت نے انسانی جسم پر قائم کی ہوئی ہیں۔ کیونکہ انسانی جسم ہی قدرت کا ایک ایسا شاہکار ہے کہ اب تک انسان اپنے جسم پر بھی تجربات کیے جا رہا ہے۔ وہ جو مشاہدات روح کے عہد وپیماں درمیان خالق ومخلوق تھے وہ انسان نے فراموش کردیے ہیں۔ مقصود فطرت تو یہ تھا کہ انسان اپنی بھلائی کے کاموں میں ''خودکفیل'' ہوجائے، ہوئے بھی ہیں مغربی ممالک دین اسلام کے اصولوں پر عمل کرکے اور ہم مسلمان Barbarian بن گئے ہر اعتبار سے (تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ خود چیک کرسکتے ہیں حلیے سے لے کر سر قلم کرنے کے عمل تک) انسان محض لباس یا اپنے رسم و رواج سے وہ نہیں ہوسکتا جو بھی وہ کہلاتا بلکہ اس کا سو فی صد تعلق عمل اور کردار سے ہے اور اس میں ایک فی صد کی کمی بھی اسے متاثر کرتی ہے اب آپ اس اصول پر دنیا بھر کی اقوام کو پرکھ لیجیے بشمول خود اپنی قوم کے۔ نہ جانے ہم کہاں سے کہاں چلے گئے ہم تو بات کر رہے تھے انسانی پیشانی کی کہ جہاں ناک کے اوپر دونوں سمتوں میں ایک لکیر آپ کو نظر آتی ہے دونوں جانب یہ دو لکیریں دراصل آپ کی فطرت کی عکاس بھی ہیں اور یہ ایک ایسا میٹر بھی جو اصلاح احوال کا کام بھی کرتا ہے۔
یعنی ان دو لکیروں کو اصل میں تو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان دو لکیروں کا مقصد مثبت بہت کم ہے۔آپ کسی بھی سخت گیر اور ظالم انسان کو دیکھیں تو آپ کو یہ دو لکیریں بہت گہری نظر آئیں گی، ان کے علاوہ یہ لکیریں گہری آپ کو غور و فکر کرنے والوں میں نظر آئیں گی۔ لیکن کیونکہ ہم دونوں کو الگ الگ جانتے ہیں لہٰذا ہمیں معلوم ہے کہ مفکر، محقق کا انداز کچھ اور ہے مقصد کچھ اور ہے جب کہ دوسرے لوگ جو ہم نے بیان کیے پہلے ان کے مقاصد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہیں، اب اس کی اور تشریح کریں گے تو بات کہیں سے کہیں جا پہنچے گی اور ہمارا مقصد فوت ہوجائے گا۔ دراصل ان لکیروں کو تو جسم کی نشانیوں سے کردار کی تشریح کرنے والے ماہرین زیادہ اچھا بیان کرسکتے ہیں ہم نے خود اپنے آپ پر اس کا فرق دیکھ کر کچھ محسوس کیا تو سوچا کہ آپ کو بھی اس میں شریک کرلیں ہیں، کم زیادہ کے موضوع کی تفصیل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔کیونکہ رواج ہی ''ردعمل'' یعنی Response کا کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے، وجہ یہ ہے کہ پڑھنے کا رواج دم توڑ رہا ہے۔ عام طور پر Net کی آمد کو لوگ اس کا سبب قرار دیتے ہیں مگر اس سے پہلے کون سا لوگ پڑھنے لکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ہر دور میں ''کاپی کلچر'' تھا کہیں ہم ''ادبی کاپی کلچر'' کا ذکر کرچکے ہیں جو آج سے چوتھائی صدی سے بھی پہلے کی بات ہے۔ اب صرف اس کے باقاعدہ ''عوامی ادارے'' قائم ہوچکے ہیں ۔ آپ نے اس بڑے پیمانے پر اسے پروموٹ کیا ہے کہ وزرائے۔۔۔۔۔ جانے دیں کیا فائدہ! نقارخانہ ہے ۔۔۔۔ سنتا کون ہے۔
کراچی بورڈ میں کیا ہوا۔ ایک دن تو بھانڈا پھوٹنا ہی تھا۔ عرصہ دراز سے یہ کام ہو رہا ہوگا اب زیادہ ہوگیا۔ کہاں نہیں ہو رہا۔ تو مسئلہ وہی چہرے کی دو لکیریں جو ناک کے دونوں طرف پیشانی پر ہیں۔ انھوں نے لاہور کے ایک بڑے کالج اسکول کے پرنسپل کا ملازمت سے خاتمہ کردیا کیسے ہمت کی انھوں نے ''سچ بولنے اور کرنے کی''۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جو سب سے بلند چہرے ہیں ملک میں ان پر بھی دو لکیریں ہیں ہر چہرے پر یہ غور و فکر کی لکیریں نہیں ہیں۔ یہ دوسری لکیریں ہیں جو ہم اسی کالم میں لکھ چکے ہیں اوپر۔ یہ وہی دو لکیریں ہیں جنھیں آپ نے کنٹینر پر بھی دیکھا تھا، سعد رفیق کے چہرے پر بھی دیکھا تھا اور دونوں چہروں کو وقت پر شکست کھاتے ہوئے دیکھا ہے اپنے اپنے وقت پر۔ خصوصاً کنٹینر والا چہرہ تو اب مکمل شکست سے دوچار ہے۔ کیونکہ آپ کو بنیادیں ٹھیک کرنی چاہئیں دیوار تب ہی سلامت رہتی ہے۔ اگر دیوار میں ہر قسم کی اینٹ لگا دی جائے تو پھر دیوار کا خدا ہی خیال رکھے تو رکھے بندے کے بس کی بات تو نہیں رہتی یہ حالیہ اور اس سے پہلے کے سیلابوں نے بھی ثابت کیا ہے اب سیلاب بھی سیاست کا ایک Show بن گیا ہے۔ شاید (اللہ معاف کرے)سیاستدان یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ سیلاب آئے تو پچھلے دکھڑے ختم ہوجائیں گے (سیاستدانوں کے) سب کچھ سیلاب فنڈ سے حل ہوجائے گا آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں عوام کے حوالے سے سیاستدانوں کے کردار پر تبصرہ کر رہا ہوں اور تعریف کر رہا ہوں۔
سیاستدانوں کی تعریف صرف Definitionمیں کی جاسکتی ہے کہ ''یہ ایک ایسا۔۔۔۔ ہے(یہاں جو چاہے لکھ لیں اپنے ذاتی یا معلوماتی تجربے کی بنیاد پر) جو عوام میں سے پیدا ہوتا ہے، عوام میں سے نظر آتا ہے، اور عوام کو ہی ختم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ بات کہاں سے چلی کہاں تک جا پہنچی۔ ہم تو گفتگو کر رہے تھے پیشانی پر ناک کے دونوں طرف کی لکیروں کی اب وہ لکیریں ''بگٹی'' کی بھی ہوسکتی ہیں اور ''مشرقی'' بھی، یہ ابھی حال ہی کا تو ماضی ہے۔ مشرف نے کہا کہ لیویز کی تنخواہ لیویز کو دی جائے گی بگٹی نے کہا ہمیشہ تنخواہ ہمارے ذریعے تقسیم ہوتی ہے ہم ہی تقسیم کریں گے۔ اب ''سردارانہ'' تقسیم کیسی ہوگی یہ تو آپ جانتے ہی ہیں ہم مذہب کو درمیان میں نہیں لانا چاہتے۔
بلوچستان میں چار سال قیام کے دوران ہم نے اختر مینگل سے لے کر سردار بگٹی تک کی ''سردارانہ تقسیم'' دیکھی ہے۔''حق کو بھیک کی طرح'' ادھورا ملتے دیکھا ہے (برا ماننے کا کوئی فائدہ نہیں اب قدرت کی لاٹھی کا وقت ہے تو برداشت تو کرنا پڑے گا) اور سردار بگٹی اپنے ہاتھ سے اس اختیار کو کیسے جاتے دیکھ سکتے تھے لہٰذا پرانا وطیرہ پہاڑوں پر رہنا اور ظاہر ہے کہ وہی طور طریق اختیار کرنا۔ آگے کیا ہوا تاریخ اب تک فیصلہ نہیں کرسکی۔ یہاں بھی مسئلہ صرف چار لکیروں کا تھا دو مشرف کے چہرے پر اور دو سردار صاحب کے چہرے پر، روایت یہی ہے جو ہم نے عرض کی ہے حقائق ہمیشہ مسخ شدہ ہی میسر آتے ہیں۔ ہمارے ''بکے ہوئے'' تاریخ داں ہیں شہنشاہوں کے درباروں کی طرح جو ''سب اچھا'' لکھتے ہیں اور اس کی شکایت ہر قوم کو ہے، کراچی سے خیبر تک قوم کو مایوس کرنا مقصود نہیں ہے مگر ''جھوٹے خواب'' آئی ایم ایف کا قرضہ ہوتے ہیں ،ہر چند ماہ خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ قرض کی اگلی قسط مل جائے گی۔
حکومت نے اس جملے ''قرض کی اگلی قسط'' کو دو حصوں میں دو لکیروں کی طرح تقسیم کردیا ہے۔ ''قرض'' ۔۔۔۔عوام کو ادا کرنا ہوگا۔۔۔۔ قسط۔۔۔۔ حکومت کو ملے گی جس سے وہ ''اپنے'' ترقیاتی منصوبے مکمل کرے گی۔ عوام کی حالت کس قدر اچھی ہوچکی ہے۔ شدید گرمی ہونے کے بعد کفن ایدھی کا نصیب ہوا اور ملکی ترقی کے منصوبوں کا رخ اور Site کہاں ہے۔ سب کچھ آپ کے علم میں ہے۔ گھوٹکی میں آپ نے یہ دو لکیریں واضح دیکھی ہوں گی کچھ دیر A/cسے باہر رہنا پڑا ''عوام کے ساتھ'' تو یہ حال ہوگیا ''صاحب'' کا۔ یہی تو ہیں وہ بدبخت بے چارے جو ہر پانچ سال بعد آپ کو (جو بھی جس طرح جیتے) کاندھوں پر چڑھا کر اسلام آباد کے ''سنگھاسن'' پر بٹھاتے ہیں جس کی آرزو میں عمران بھی بے چین ہیں۔ شوگر ملوں، کارخانوں، فیکٹریوں، پولٹری،پولٹری فیڈ، گندم کے کاروبار سے لے کر سونے کے کاروبار تک کے کرنے والے اپنے آپ کو عوام کا ''ہم درد'' کہتے ہیں یہاں بھی ہم اور درد الگ الگ ہیں۔ ''درد'' عوام کا حصہ ہے، ''ہم'' کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اب اگر یہ حالات ہوں جو نہ بدلنے والے ہوں کیونکہ عوام بدلیں تو حالات بدلیں، جو ہر ''مداری'' کے پیچھے تماشا دیکھنے لگ جائیں جس کے ''بندر'' بھی وہ خود ہوں تو آپ بتائیں میرے چہرے پر ناک کے اوپر پیشانی پر دونوں طرف لکیریں گہری نہ ہوں۔ اور یہ ہرگز غور و فکر سے گہری نہیں ہیں شدید دکھ اور غصے سے گہری ہیں، آپ کا حال بھی مجھ سے مختلف نہ ہوگا اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں۔
یعنی ان دو لکیروں کو اصل میں تو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان دو لکیروں کا مقصد مثبت بہت کم ہے۔آپ کسی بھی سخت گیر اور ظالم انسان کو دیکھیں تو آپ کو یہ دو لکیریں بہت گہری نظر آئیں گی، ان کے علاوہ یہ لکیریں گہری آپ کو غور و فکر کرنے والوں میں نظر آئیں گی۔ لیکن کیونکہ ہم دونوں کو الگ الگ جانتے ہیں لہٰذا ہمیں معلوم ہے کہ مفکر، محقق کا انداز کچھ اور ہے مقصد کچھ اور ہے جب کہ دوسرے لوگ جو ہم نے بیان کیے پہلے ان کے مقاصد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہیں، اب اس کی اور تشریح کریں گے تو بات کہیں سے کہیں جا پہنچے گی اور ہمارا مقصد فوت ہوجائے گا۔ دراصل ان لکیروں کو تو جسم کی نشانیوں سے کردار کی تشریح کرنے والے ماہرین زیادہ اچھا بیان کرسکتے ہیں ہم نے خود اپنے آپ پر اس کا فرق دیکھ کر کچھ محسوس کیا تو سوچا کہ آپ کو بھی اس میں شریک کرلیں ہیں، کم زیادہ کے موضوع کی تفصیل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔کیونکہ رواج ہی ''ردعمل'' یعنی Response کا کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے، وجہ یہ ہے کہ پڑھنے کا رواج دم توڑ رہا ہے۔ عام طور پر Net کی آمد کو لوگ اس کا سبب قرار دیتے ہیں مگر اس سے پہلے کون سا لوگ پڑھنے لکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ہر دور میں ''کاپی کلچر'' تھا کہیں ہم ''ادبی کاپی کلچر'' کا ذکر کرچکے ہیں جو آج سے چوتھائی صدی سے بھی پہلے کی بات ہے۔ اب صرف اس کے باقاعدہ ''عوامی ادارے'' قائم ہوچکے ہیں ۔ آپ نے اس بڑے پیمانے پر اسے پروموٹ کیا ہے کہ وزرائے۔۔۔۔۔ جانے دیں کیا فائدہ! نقارخانہ ہے ۔۔۔۔ سنتا کون ہے۔
کراچی بورڈ میں کیا ہوا۔ ایک دن تو بھانڈا پھوٹنا ہی تھا۔ عرصہ دراز سے یہ کام ہو رہا ہوگا اب زیادہ ہوگیا۔ کہاں نہیں ہو رہا۔ تو مسئلہ وہی چہرے کی دو لکیریں جو ناک کے دونوں طرف پیشانی پر ہیں۔ انھوں نے لاہور کے ایک بڑے کالج اسکول کے پرنسپل کا ملازمت سے خاتمہ کردیا کیسے ہمت کی انھوں نے ''سچ بولنے اور کرنے کی''۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جو سب سے بلند چہرے ہیں ملک میں ان پر بھی دو لکیریں ہیں ہر چہرے پر یہ غور و فکر کی لکیریں نہیں ہیں۔ یہ دوسری لکیریں ہیں جو ہم اسی کالم میں لکھ چکے ہیں اوپر۔ یہ وہی دو لکیریں ہیں جنھیں آپ نے کنٹینر پر بھی دیکھا تھا، سعد رفیق کے چہرے پر بھی دیکھا تھا اور دونوں چہروں کو وقت پر شکست کھاتے ہوئے دیکھا ہے اپنے اپنے وقت پر۔ خصوصاً کنٹینر والا چہرہ تو اب مکمل شکست سے دوچار ہے۔ کیونکہ آپ کو بنیادیں ٹھیک کرنی چاہئیں دیوار تب ہی سلامت رہتی ہے۔ اگر دیوار میں ہر قسم کی اینٹ لگا دی جائے تو پھر دیوار کا خدا ہی خیال رکھے تو رکھے بندے کے بس کی بات تو نہیں رہتی یہ حالیہ اور اس سے پہلے کے سیلابوں نے بھی ثابت کیا ہے اب سیلاب بھی سیاست کا ایک Show بن گیا ہے۔ شاید (اللہ معاف کرے)سیاستدان یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ سیلاب آئے تو پچھلے دکھڑے ختم ہوجائیں گے (سیاستدانوں کے) سب کچھ سیلاب فنڈ سے حل ہوجائے گا آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں عوام کے حوالے سے سیاستدانوں کے کردار پر تبصرہ کر رہا ہوں اور تعریف کر رہا ہوں۔
سیاستدانوں کی تعریف صرف Definitionمیں کی جاسکتی ہے کہ ''یہ ایک ایسا۔۔۔۔ ہے(یہاں جو چاہے لکھ لیں اپنے ذاتی یا معلوماتی تجربے کی بنیاد پر) جو عوام میں سے پیدا ہوتا ہے، عوام میں سے نظر آتا ہے، اور عوام کو ہی ختم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ بات کہاں سے چلی کہاں تک جا پہنچی۔ ہم تو گفتگو کر رہے تھے پیشانی پر ناک کے دونوں طرف کی لکیروں کی اب وہ لکیریں ''بگٹی'' کی بھی ہوسکتی ہیں اور ''مشرقی'' بھی، یہ ابھی حال ہی کا تو ماضی ہے۔ مشرف نے کہا کہ لیویز کی تنخواہ لیویز کو دی جائے گی بگٹی نے کہا ہمیشہ تنخواہ ہمارے ذریعے تقسیم ہوتی ہے ہم ہی تقسیم کریں گے۔ اب ''سردارانہ'' تقسیم کیسی ہوگی یہ تو آپ جانتے ہی ہیں ہم مذہب کو درمیان میں نہیں لانا چاہتے۔
بلوچستان میں چار سال قیام کے دوران ہم نے اختر مینگل سے لے کر سردار بگٹی تک کی ''سردارانہ تقسیم'' دیکھی ہے۔''حق کو بھیک کی طرح'' ادھورا ملتے دیکھا ہے (برا ماننے کا کوئی فائدہ نہیں اب قدرت کی لاٹھی کا وقت ہے تو برداشت تو کرنا پڑے گا) اور سردار بگٹی اپنے ہاتھ سے اس اختیار کو کیسے جاتے دیکھ سکتے تھے لہٰذا پرانا وطیرہ پہاڑوں پر رہنا اور ظاہر ہے کہ وہی طور طریق اختیار کرنا۔ آگے کیا ہوا تاریخ اب تک فیصلہ نہیں کرسکی۔ یہاں بھی مسئلہ صرف چار لکیروں کا تھا دو مشرف کے چہرے پر اور دو سردار صاحب کے چہرے پر، روایت یہی ہے جو ہم نے عرض کی ہے حقائق ہمیشہ مسخ شدہ ہی میسر آتے ہیں۔ ہمارے ''بکے ہوئے'' تاریخ داں ہیں شہنشاہوں کے درباروں کی طرح جو ''سب اچھا'' لکھتے ہیں اور اس کی شکایت ہر قوم کو ہے، کراچی سے خیبر تک قوم کو مایوس کرنا مقصود نہیں ہے مگر ''جھوٹے خواب'' آئی ایم ایف کا قرضہ ہوتے ہیں ،ہر چند ماہ خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ قرض کی اگلی قسط مل جائے گی۔
حکومت نے اس جملے ''قرض کی اگلی قسط'' کو دو حصوں میں دو لکیروں کی طرح تقسیم کردیا ہے۔ ''قرض'' ۔۔۔۔عوام کو ادا کرنا ہوگا۔۔۔۔ قسط۔۔۔۔ حکومت کو ملے گی جس سے وہ ''اپنے'' ترقیاتی منصوبے مکمل کرے گی۔ عوام کی حالت کس قدر اچھی ہوچکی ہے۔ شدید گرمی ہونے کے بعد کفن ایدھی کا نصیب ہوا اور ملکی ترقی کے منصوبوں کا رخ اور Site کہاں ہے۔ سب کچھ آپ کے علم میں ہے۔ گھوٹکی میں آپ نے یہ دو لکیریں واضح دیکھی ہوں گی کچھ دیر A/cسے باہر رہنا پڑا ''عوام کے ساتھ'' تو یہ حال ہوگیا ''صاحب'' کا۔ یہی تو ہیں وہ بدبخت بے چارے جو ہر پانچ سال بعد آپ کو (جو بھی جس طرح جیتے) کاندھوں پر چڑھا کر اسلام آباد کے ''سنگھاسن'' پر بٹھاتے ہیں جس کی آرزو میں عمران بھی بے چین ہیں۔ شوگر ملوں، کارخانوں، فیکٹریوں، پولٹری،پولٹری فیڈ، گندم کے کاروبار سے لے کر سونے کے کاروبار تک کے کرنے والے اپنے آپ کو عوام کا ''ہم درد'' کہتے ہیں یہاں بھی ہم اور درد الگ الگ ہیں۔ ''درد'' عوام کا حصہ ہے، ''ہم'' کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اب اگر یہ حالات ہوں جو نہ بدلنے والے ہوں کیونکہ عوام بدلیں تو حالات بدلیں، جو ہر ''مداری'' کے پیچھے تماشا دیکھنے لگ جائیں جس کے ''بندر'' بھی وہ خود ہوں تو آپ بتائیں میرے چہرے پر ناک کے اوپر پیشانی پر دونوں طرف لکیریں گہری نہ ہوں۔ اور یہ ہرگز غور و فکر سے گہری نہیں ہیں شدید دکھ اور غصے سے گہری ہیں، آپ کا حال بھی مجھ سے مختلف نہ ہوگا اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں۔