منیٰ میں ایک اور سانحہ

حج انتظامات کے لیے تمام مسلم ریاستوں کی افرادی قوت اور انتظامی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے

حج انتظامات کے لیے تمام مسلم ریاستوں کی افرادی قوت اور انتظامی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ فوٹو: فائل

مکہ مکرم میں منیٰ کا میدان دوران حج سب سے زیادہ حادثات کا مقام بن چکاہے۔ ہر برس لاکھوں کی تعداد میں حاجی اس میدان میں جمع ہوتے ہیں اور یہاں سے حاجیوں کا ایک پورا سمندر لہر در لہر شیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے روانہ ہوتا ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری ذرائع کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد800کے قریب ہے جبکہ آزاد ذرائع شہادتوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بیان کرتے ہیں۔ گو کہ اس افسوسناک حادثے میں اب تک 18 کے قریب پاکستانیوں کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے لیکن دیگر ذرائع اور شہداء کے رشتہ داروں کے مطابق 27پاکستانیوں کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ برطانوی اخبار گارجین کا دعویٰ ہے کہ اس حادثے میں 336 پاکستانی باشندے شہید ہوئے ہیں۔ سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ یوں پیش آیا کہ حاجیوں کے دو ہجوم مناسک حج کی ادائیگی کے آخری دو مواقع میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے ایسے مقام پر آپس میں ٹکرا گئے جہاں پر دو تنگ راستے آپس میں ملتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مقام حاجیوں کی لاشوں سے اٹ گیا۔ سعودی حکومت کی جانب سے حج کے انتظامات پر غیر معمولی توجہ دینے کے باوجود ہجوم کو کنٹرول کرنے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں حج کے انتظامات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ منی میں1997ء میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد ایسے خیموں کا بندوبست کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا جن کو آگ نہیں لگتی۔



خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان نے اس افسوسناک سانحہ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے حج کے انتظامات کا از سر نو جائزہ لینے اور حادثے کی وجوہات جاننے کے لئے مکمل چھان بین اور تفتیش کے احکامات جاری کر دیئے تھے۔ سعودی حکام نے ابتدائی طور پر جو وجوہات بیان کیں ہیں ان کے مطابق افریقی ممالک سے آئے ہوئے حاجیوں نے ان احکامات کی پیروی نہیں کی جو آمدو رفت کے لئے جابجا رہنمائی کے لئے لگائے گئے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ سانحہ پیش آیا۔ دوسری جانب کئی ممالک میں اس وجہ پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ حادثہ اتنا بڑا تھا کہ ریسکیو کے ہزاروں کا رکن اور سینکڑوں گاڑیاں رات گئے تک کام میں مصروف رہے جبکہ سکیورٹی پر مامور ہزاروں کارندوں کو حادثے کے باوجود مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف حاجیوں کو دیکھ بال اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں۔

سانحہ منیٰ میں بچ جانے والے عینی شاہدین کی زبانی اس افسوسناک حادثے کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہیں۔



منیٰ کے سانحے میں زندہ بج جانے والے مصری شہری عبداللہ الطیفی کے مطابق ''میں نے دیکھا ایک شخص ایک وہیل چیئر (معذوروں کے لئے استعمال ہونے والی کرسی) پر پھسل کر گرا اور پھر بہت سے لوگ اس کے اوپر گرنے لگے۔ صورتحال اتنی بگڑی کہ لوگ سانس لینے کے لئے ایک دوسرے کے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انسان لہروں کی طرح حرکت کر رہے تھے اچانک آپ آگے کی جانب لڑھکنے لگتے تھے اور پھر اچانک ہی واپس پیچھے کی جانب گرتے چلے جاتے تھے۔''

بھگدڑ سے بچ نکلنے والے ایک اور حاجی ڈاکٹر عبدالرحمن کا کہنا ہے ''میں نے دیکھا کہ اچانک لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے ہیں اور کچلے جا رہے ہیں' بزرگ اور خواتین کی چیخ پکار سنی جا رہی تھی'وہ مدد کے لئے پکار رہے تھے۔ میں نے اس جگہ سے نکلنے کی سرتوڑ کوشش کی' اس تگ و دو میں میرے تمام کپڑے غائب ہو چکے تھے' ان کی دھجیاں اڑ گئیں تھیں لیکن میں نے پر وا نہیں کی اور نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ میری کوشش تھی کہ میں خیمہ بستی میں داخل ہو جاؤں لیکن یہاں سکیورٹی اہلکاروں نے راستہ روک لیا' وہ کسی کو بھی خیمہ بستی میں داخل نہیں ہونے دے رہے تھے جس کے باعث بحران اور زیادہ گھمبیر ہو گیا۔ عبدالرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ منیٰ کے راستوں میں ہر 50 میٹر پر دائیں بائیں باہر نکلنے کے ہنگامی راستے بنانا ضروری ہے۔



لندن سے تعلق رکھنے والے بشیر جمیل منیٰ کے سانحے کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:'' میں صبح کی نماز کے بعد وہاں پہنچا تھا۔ ہزاروں لوگ جانے والی سرنگ میں رواں دواں تھے جبکہ واپسی کے راستے پر بھی لوگوں کا ہجوم تھا۔ جب ہم شیطان کو کنکریاں مارنے والی جگہ پر پہنچے تو وہاں بہت ہجوم تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دم گھٹ رہا ہے۔ کنکریاں مارنے سے فارغ ہونے کے بعد سب کی خواہش تھی کہ جلد از جلد وہاں سے نکل جائیں جس کے باعث واپسی کا راستہ بند ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ تھا اور ہم بھگدڑ مچنے سے 20منٹ پہلے وہاں سے نکل آئے تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اہلکاروں نے کچھ دیر بعد واپسی کا راستہ بند کردیا تھا اور لوگ آنے جانے کے لیے ایک ہی راستہ استعمال کررہے تھے۔ ایک ہی راستے سے آنا جانانہایت ہی خطرناک بات تھی۔

بنگلہ دیش کے شاکر قادر کا کہنا ہے: ''میں طلوع آفتاب کے بعد وہاں پہنچا تھا۔ وہاں پہنچ کر میںنے فیصلہ کیا کہ میں پہلی منزل کے بجائے تیسری منزل سے کنکریاں ماروں گا کیونکہ ہر کوئی پہلی منزل کی جانب بھاگا چلا جارہا تھا، وہاں موجود سکیورٹی اہلکار ایسی صورتحال میں کچھ زیادہ نہیں کرپارہے تھے کیونکہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنا ممکن نہیں تھا۔ ایسے سانحات پر سعودی حکومت کو موردِالزام ٹھہرانا بہت آسان ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ حج کی تربیت کا انتظام زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائے۔



پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حج ابوعاکف کے مطابق منیٰ کے سا نحے کے بعد 311پاکستانی حاجی لاپتہ تھے جن میں سے 76کا پتہ چل چکا ہے۔ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بھتیجے مرتضیٰ گیلانی بھی اس واقعے میں شہید ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ باقی پاکستانی حاجیوں کی تلاش جاری ہے۔ اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ سب سے زیادہ ایرانی حاجی اس سانحے میں شہید ہوئے ہیں جن کی تعداد131 ہے۔ مراکو کے 87اور بھارت کے 14حاجیوں کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے۔ برطانیہ میں مقیم حج کے دوروں کے انتظامات کی مشاورت فراہم کرنے والے کارکن مسٹر جعفری نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات کے روز پیش آنے والا سانحہ ایک وی آئی پی کی آمد پر دو راستوں کو بند کرنے کے باعث پیش آیا۔اسی طرح کی اطلاعات سعودی نیوز ایجنسیوں کے حوالے سے بھی سامنے آئی تھیں۔ نیوزایجنسی الدیار کے مطابق نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان السعود کے قافلے کو گزارنے کے لیے راستے بند کئے گئے تھے ۔ سعودی عرب کے سرکاری ذرائع نے ان اطلاعات کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔

جب بھی اس قسم کے سانحات رونما ہوتے ہیں، ان پر کئی قسم کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ ایران کے حکام اس واقعے کو سعودی حکام کی نااہلی قراردے رہے ہیں جبکہ ایرانی ردعمل کو خطے کی سیاست میں ایرا،ن سعودی عرب تعلقات کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ پاکستان کے حاجیوں کے بارے میں بھی صورتحال تاحال پوری طرح سے واضح نہیں ہوسکی۔



آج تک حج کے موقع پر ہونے والے سانحات میں سے غالب اکثریت منیٰ کے میدان اور شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران ہوئی جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کن جگہوں اور کن شعبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی بڑا اہم ہے کہ حج کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں اور مختلف علاقوں سے آنے والے لوگوں کو نظم و ضبط کے یکساں معیار پر کس طرح لایا جائے۔ حج کی ادائیگی کے لیے ایشیاء اور افریقہ کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سے آنے والے عازمین حج کی معلومات اور تربیت معیاری نہیں ہوتی جس کی وجہ بڑی سادہ ہے کہ وہاں مجموعی معیار زندگی ہی بہت پست ہے۔ ہم اپنے ملک کودیکھ لیں تو ملک کے اندر فہم و ادراک کے عمومی معیار میں بہت فرق ہے۔ اگر ہم حج کے دوران ہونے والے سانحات کا تجزیہ کریں تو سب سے اہم بات مسلمانوں میں نظم و ضبط کا فقدان ہے حالانکہ ہمارے دین کا بنیادی نقطہ ہی نظم و ضبط ہے۔ ہماری تمام عبادات انسان کو نظم و ضبط کا پابند بناتی ہیں۔ ہر روز پانچ وقت کی نماز نظم و ضبط کا پابند بنانے کی بے مثال تربیت ہے۔



ایسے افسوسناک واقعات کا وقوع پذیر ہونا مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے کہ ہم عوام الناس میں نظم و ضبط پیدا کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوپارہے۔ اگر ہر انسان خود ہوش مندی کا مظاہرہ نہیں کرے گا تو لاکھوں افراد کے اجتماع میں چھوٹی سی بے قاعدگی کو ایک بڑے سانحے میں بدلنے میں دیر نہیںلگے گی۔ جب حج کے لیے 20لاکھ سے زائد لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں سکیورٹی اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہونے کے باوجود آپ سو فیصد محفوظ حج کی ضمانت نہیں دے سکتے کیونکہ اتنے بڑے ہجوم کو طاقت کے زور پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ سو فیصد محفوظ حج کی ضمانت اسی صورت میں فراہم کی جاسکتی ہے جب پوری مسلمان دنیا مل کر اسے محفوظ بنانے کے اقدامات نہیں کرتی۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ پوری دنیا میںعازمین حج کی تربیت کا یکساں نظام رائج کیا جائے اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حج کرنے والے تمام افراد مناسک حج کی ادائیگی میں پوری طرح سے ماہر ہوں اور اس بات سے بھی آگاہ ہوں کہ کسی خطرے کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حج کے انتظامات اور سکیورٹی ڈیوٹی کے لیے پوری مسلم دنیا سے ماہرین اور اہلکاروں کو حج کی ذمہ داریاں سونپی جائیں۔

ایک اور اہم اقدام یہ کیا جاسکتا ہے کہ حج کے لیے بیرون ملک سے آنے والے عازمین حج کی تعداد طے کرلی جائے اور اس سے زائد افراد کو ہرگز اجازت نہ دی جائے۔ مقامی سطح پر بھی ایک سے زائد حج کرنے کی خواہشمند حضرات کو اجازت نہ دی جائے جو لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں وہ عمرہ کرسکتے ہیں۔ جب تعداد محدود کردی جائے گی تو اسے کنٹرول کرنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔



سب سے زیادہ سانحے منیٰ میں ہوئے

ہر برس دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں جمع ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت کے لئے بیس لاکھ سے زائد افراد کے اس عظیم الشان اجتماع کے لئے ضروری انتظامات بجا طور پر ایک عظیم چیلنج ہوتا ہے جس کا ہر برس بڑی مہارت اور اخلاص کے ساتھ سامنا کیا جاتاہے۔ عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد کے لئے بہترین انتظامات کے باجود ہجوم میں بھگدڑ کااندیشہ لاحق رہتاہے ۔ حج کے دوران اب تک ہونے والے بڑے حادثات منیٰ کے میدان میں وقوع پذیر ہوئے ان سانحات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔



24 ستمبر 2015:

مکہ مکرمہ کے مصافات میں منیٰ کے میدان سے شیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے جانے والے لاکھوں حاجیوں کے ہجوم میں بھگدڑ مچنے سے ایک ہزار سے زائد عازمین حج شہید ہو گئے جبکہ سینکڑوں حجاج زخمی ہوئے۔


11 ستمبر2015:

مناسک حج کے آغاز سے کچھ روز قبل حرم شریف میں نصب کرین خراب موسم اور طوفان بادوباراں کے باعث نیچے آ گری جس کی وجہ سے 107افراد شہید اور 400 سے زائد زخمی ہو گئے۔

12جنوری 2006:

منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران حاجیوں میں بھگدڑ مچ جانے کے باعث 360 حاجی شہید ہو گئے۔ قبل ازیں مناسک حج کے آغاز سے ایک روز قبل حرم شریف کے قریب واقع ایک آٹھ منزلہ ہوٹل گرنے سے 73 افراد شہید ہو گئے جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو حج کے لئے وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔

اسی برس 6جنوری کو شہر کے وسطی علاقے میں ہوٹل کی عمارت گرنے کے باعث 76 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

22جنوری 2005ء:

منی میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ کے باعث 3افراد شہید ہو گئے۔

یکم فروری 2004ء:

منیٰ میں بھگدڑ مچنے سے 250افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔

11فروری 2003ء:

منی میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ مچنے سے چھ خواتین سمیت 14حاجی شہید ہو گئے۔

5مارچ 2001ء:

منیٰ میں ہی بھگدڑ مچنے کے باعث 35 حاجی شہید ہو گئے۔

9اپریل 1998ء:

منیٰ میں بھگدڑ سے 118حاجی شہید 180زخمی ہوئے۔

15اپریل 1997ء:

منی کی خیمہ بستی میں آگ بھڑک اٹھنے کے باعث 343حاجی شہید اور 1500سے زائد زخمی ہو گئے۔

2 جولائی 1990ء

منی میں حاجیوں کے لئے بنائی گئی سرنگ میں ہوا کی آمد روفت کو کنٹرول کرنے والے نظام میں خرابی کے باعث 1426 حاجی دم گھٹنے کے باعث شہید ہو گئے جن میں غالب اکثریت ایشیائی باشندوں کی تھی۔

10 جولائی 1989ء

حرم شریف اور اس کے بیرونی حصے میں دو حملوں کے دوران ایک شخص شہید اور 16 زخمی ہو گئے۔ اس واقع کے ذمہ دار 16 کویتی باشندوں کو گرفتار کر کے چند ہفتوں بعد سزائے موت دے دی گئی۔

31جولائیں1987ء

سعودی عرب کی سکیورٹی فورسز نے ایرانی حاجیوں کی جانب سے غیر قانونی احتجاجی مظاہرے کو فرو کرنے کے لئے کارروائی کی جس کے نتیجے میں275ایرانی باشندوں سمیت 400سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

دسمبر1975ء

گیس سلنڈر کے باعث آگ بھڑک اٹھنے سے حاجیوں کی خیمہ بستی میں 200سے زائد حاجی شہید ہو گئے۔
Load Next Story