خبر وآگہی کا وسیلہ… زاہدہ جاوید پہلا حصہ
ایک بستی تھی جہاں خوشحالی کا راج تھا۔ مزاجوں میں سادگی تھی اس لیے طرزِ زندگی بھی سادہ تھا
ایک بستی تھی جہاں خوشحالی کا راج تھا۔ مزاجوں میں سادگی تھی اس لیے طرزِ زندگی بھی سادہ تھا۔ چونکہ فطرت کا اصول ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ اور معاملے کے کم ازکم دو پہلو ضرور ہوتے ہیں، اسی قانون کے تحت خیر اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ یہاں بھی نفس پرستی کا شر موجود تھا لیکن چونکہ روشن عنصر غالب تھا لہٰذا اخلاقی اقدار کی زبردست موجودگی سے اس کا وجود محض فطرت کے قانون کی تکمیل کی حد تک تھا۔ کسی بھی قسم کے اخلاقی جرم کے خلاف بستی کے باسیوں کے دلوں میں شدید قسم کی نفرت آمیز کراہیت کی قوت تھی جو جرم کے فروغ میں مزاحمت کا ایک طاقتور عامل تھی۔
یہاں کے لوگوں کے نزدیک اپنی فطری پاکیزگی کے تحت برائی کا تجزیہ کرنا بھی معیوب گردانا جاتا تھا۔ سو تبصروں میں برائی کے جواز و اسباب کے منطق گھڑ کر اس کے تاثر کو ہلکا کرنے کے بجائے اس پر جرم کے نکتہ نظر سے ہی گفتگو کی جاتی تھی۔ وہاں شعور اور آگہی کے نام پر خبر کا دور دورہ نہیں تھا بلکہ باخبر اور واقف لوگ اس قسم کی برائیوں کو خاموشی کے قبرستان میں دفن کردیتے تھے۔ اس خصلت کی بنا پر ان کے دل بے خوف اور نفسیاتی ابتری سے بھی مبرا تھے۔
تشویش، جھنجلاہٹ، بے چینی اور غم و غصّے جیسے عوامل نے انھیں اضطراب اور انتشار کے امراض میں نہیں جکڑا تھا۔ حسنِ ظن ان کا شعار تھا اور خلوص ان کا وطیرہ! اسی سبب سے بچوں کے ذہنوں کی تازگی بھی ماند نہیں پڑتی تھی اور ان کی معصومیت پر کسی طور کی قبل از وقت سمجھداری کے کلنک کا ٹیکہ نہیں لگتا تھا، ان کے تخّیل کی پرواز مثبت رہتی اور ان کی اٹھان میں پستی کا رحجان رونما نہیں ہوتا تھا۔ اصولِ فطرت کے مطابق جب آپ فطرت کے قریب ہوتے ہیں تو فطرت بھی آپ کے قریب ہوتی ہے اور جب سب کچھ فطرت کے مطابق ہو تو قانونِ فطرت کے مطابق انسانی فطرت، فطری سکون و تمکنت سے ہمکنار ہوجاتی ہے اور یہ بستی اس کا عکس تھی۔
جب ایک طویل عرصے تک خوشگواری کا دور رہے تو یہ خوبی بھی کچھ خامیوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہے جیسا کہ اس بستی میں ہوا۔ سادگی کے ساتھ تغّیر یا جسے آپ اور ہم ارتقا کا نام بھی دیتے ہیں، کائنات کا اہم اصول ہے۔ متعیّن اصولوں میں بھی لچک کی خاصیت سے مراد یہی ہے کہ قدرت نے شرفِ خلائق کے امتیاز کی حامل اس مخلوق کے لیے کائنات کے اس طلسم کدے کو متعّفن جوہڑ قرار دینے کے بجائے اس میں نیرنگی اور تنوع کی جاذبیت رکھی ہے تاکہ مخلوقِ خدا اپنے اپنے ظرف کے مطابق معرفتِ حق کے نت نئے ذوق تراشے اور عرفانِ اِلہی کے گوہر مقصود کو چھو کر کامیابی سے ہمکنار ہو۔
تو! بتانا یہ مطلوب ہوا کہ مذکورہ بستی میں جب خوشحالی کا دورانیہ طویل ہوگیا اور بستی کے لوگوں کے دلوں پر یہ اسرار منکشف ہوگیا کہ ان کے فلاں فلاں وصائف ان کی کامیابی کی بنیاد ہیں تو انھوں نے اطمینان کے ابدی حصول کی خاطر ان اوصاف کے گھروندوں میں منہ چھپالیا ۔ان کی مثالی دنیا میں تبدیلی کا تصور ہی عنقا ہو گیا۔ اسی کوتاہی نے ان کی سادگی کو جرم بنا دیا۔ چالاکی اور عیاری کو تو دماغ کے شاطرانہ طرزِ استعمال کی وجہ سے ڈھیل مل جاتی ہے لیکن قانونِ قدرت کی رو سے عقل جیسی امتیازی نعمت کی طرف سے غفلت ناقابل معافی ہے، سو بستی والے بھی معتوب ٹھہرے اب ان کے عتاب کی روداد سنیے۔
بیوپار کا عفریت دنیا کی منڈی میں اپنی کھپت کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس کی نظر اس بستی پر پڑی اور اس کے کاروباری دماغ میں منصوبے کلبلانے لگے۔ اس نے بستی والوں کا عمیق مشاہدہ کیا اور اپنے ہدف کے حصول کے لیے کاروبار کے اہم ترین اصول ' صارف کی ذہن سازی ' کے تحت اس نے اِس نو دریافت شدہ منڈی میں تشہیر کا ہتھکنڈہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے جو آلہ اس بستی میں متعارف کروایا وہ ایک جادوئی ڈبّہ تھا۔ اس جادوئی ڈبّے کی خاصیت یہ تھی کہ اس میں بستی والوںکے مزاج کے غالب پہلوئوں کا دوسرا رخ پیش کیا گیا تھا مثلاً ان کے مزاج میں سادگی تھی تو اس میں ذوق اور جدّت کے نام پر آرائش کا تصّور دیا گیا۔
ان میں صبر اور قناعت تھی تو تگ ودو اور کوشش کو ہمّت اور کامیابی کا راز بتایا گیا۔ حیا کا توڑ تخلیق اور فن کو لامحدود قرار دے کر کیا گیا۔ سب سے زیادہ جس چیز نے بستی میں ناس مچائی وہ انفرادی آزادی اور اظہارِ رائے کے نام پر باہمی احترام اور لحاظ و پاسداری کے پرخچے اڑانا تھا۔
برائی کے احساسِ کمتری کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنا جواز تراشتی ہے۔ اس ڈبّے کے تعارف میں جو انتہائی مؤثر تصورات پیش کیے گئے، ان میں تخلیق، تبلیغ، تفریح اور تشہیر کو بنیادی عناصر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے سب نے اس نئی چیز کو خوشدلی اور مثبت انسانی پیش رفت کے طور پر قبول کرلیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جادوئی ڈبّہ مذکورہ بالا تصّورات کے ابلاغ کا حقیقی معنوں میں مؤثر ترین ذریعہ ثابت ہوسکتا تھا لیکن جس ایجاد و اختراع کی سرشت میں اثبات کا دخل نہ ہو وہاں مثبت کے نام پر بھی منفی اقدار ہی جڑیں پکڑتی اور نمو پاتی ہیں اور بالآخر مشترکہ تمّدن کا روپ دھار لیتی ہیں، جیسا کہ اس بستی میں ہورہا تھا۔ ابتدا میں اس ڈبّے کو خوش آئند تبدیلی کے طور پر قبول کیا گیا رفتہ رفتہ اس ڈبّے کی تاثیر بستی والوں پر اس طرح مرّتب ہونا شروع ہوئی کہ پہلے پہل وہ اسے بے ضرر تفریح کا ذریعہ سمجھتے رہے، اسے خبر و آگہی کا ایک مؤثر اور تیز ترین آلہ گردانا گیا۔
فن اور فنکار کی شرکت نے اس کی رومانویت کو مزید جِلا بخشی۔ تخلیق کے نام پر زندگی کو ایسے ایسے زاویوں سے پیش کیا گیا کہ بے چارے سادہ مزاج بستی والے ہکّا بکّا رہ گئے۔ زندگی کو سہل اور انسانی شخصیت کو خوب صورتی بخشنے والی اشیا دل لبھانے والے تعارف کے بعد باآسانی دستیاب ہونے لگیں۔ جب یہ ڈبّہ بستی والوں کی روزمرّہ زندگی میں بنیادی ضرورت کے طور پر شامل ہوگیا تو اس ڈبّے کی تاثیر ان کے مزاجوں میں بھی سرائیت کرتی چلی گئی۔ اس ڈبّے نے فرد کی زندگی کے ساتھ اس کی ذات پر بھی اپنا تسّلط جمالیا تھا۔
(جاری ہے)
یہاں کے لوگوں کے نزدیک اپنی فطری پاکیزگی کے تحت برائی کا تجزیہ کرنا بھی معیوب گردانا جاتا تھا۔ سو تبصروں میں برائی کے جواز و اسباب کے منطق گھڑ کر اس کے تاثر کو ہلکا کرنے کے بجائے اس پر جرم کے نکتہ نظر سے ہی گفتگو کی جاتی تھی۔ وہاں شعور اور آگہی کے نام پر خبر کا دور دورہ نہیں تھا بلکہ باخبر اور واقف لوگ اس قسم کی برائیوں کو خاموشی کے قبرستان میں دفن کردیتے تھے۔ اس خصلت کی بنا پر ان کے دل بے خوف اور نفسیاتی ابتری سے بھی مبرا تھے۔
تشویش، جھنجلاہٹ، بے چینی اور غم و غصّے جیسے عوامل نے انھیں اضطراب اور انتشار کے امراض میں نہیں جکڑا تھا۔ حسنِ ظن ان کا شعار تھا اور خلوص ان کا وطیرہ! اسی سبب سے بچوں کے ذہنوں کی تازگی بھی ماند نہیں پڑتی تھی اور ان کی معصومیت پر کسی طور کی قبل از وقت سمجھداری کے کلنک کا ٹیکہ نہیں لگتا تھا، ان کے تخّیل کی پرواز مثبت رہتی اور ان کی اٹھان میں پستی کا رحجان رونما نہیں ہوتا تھا۔ اصولِ فطرت کے مطابق جب آپ فطرت کے قریب ہوتے ہیں تو فطرت بھی آپ کے قریب ہوتی ہے اور جب سب کچھ فطرت کے مطابق ہو تو قانونِ فطرت کے مطابق انسانی فطرت، فطری سکون و تمکنت سے ہمکنار ہوجاتی ہے اور یہ بستی اس کا عکس تھی۔
جب ایک طویل عرصے تک خوشگواری کا دور رہے تو یہ خوبی بھی کچھ خامیوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہے جیسا کہ اس بستی میں ہوا۔ سادگی کے ساتھ تغّیر یا جسے آپ اور ہم ارتقا کا نام بھی دیتے ہیں، کائنات کا اہم اصول ہے۔ متعیّن اصولوں میں بھی لچک کی خاصیت سے مراد یہی ہے کہ قدرت نے شرفِ خلائق کے امتیاز کی حامل اس مخلوق کے لیے کائنات کے اس طلسم کدے کو متعّفن جوہڑ قرار دینے کے بجائے اس میں نیرنگی اور تنوع کی جاذبیت رکھی ہے تاکہ مخلوقِ خدا اپنے اپنے ظرف کے مطابق معرفتِ حق کے نت نئے ذوق تراشے اور عرفانِ اِلہی کے گوہر مقصود کو چھو کر کامیابی سے ہمکنار ہو۔
تو! بتانا یہ مطلوب ہوا کہ مذکورہ بستی میں جب خوشحالی کا دورانیہ طویل ہوگیا اور بستی کے لوگوں کے دلوں پر یہ اسرار منکشف ہوگیا کہ ان کے فلاں فلاں وصائف ان کی کامیابی کی بنیاد ہیں تو انھوں نے اطمینان کے ابدی حصول کی خاطر ان اوصاف کے گھروندوں میں منہ چھپالیا ۔ان کی مثالی دنیا میں تبدیلی کا تصور ہی عنقا ہو گیا۔ اسی کوتاہی نے ان کی سادگی کو جرم بنا دیا۔ چالاکی اور عیاری کو تو دماغ کے شاطرانہ طرزِ استعمال کی وجہ سے ڈھیل مل جاتی ہے لیکن قانونِ قدرت کی رو سے عقل جیسی امتیازی نعمت کی طرف سے غفلت ناقابل معافی ہے، سو بستی والے بھی معتوب ٹھہرے اب ان کے عتاب کی روداد سنیے۔
بیوپار کا عفریت دنیا کی منڈی میں اپنی کھپت کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس کی نظر اس بستی پر پڑی اور اس کے کاروباری دماغ میں منصوبے کلبلانے لگے۔ اس نے بستی والوں کا عمیق مشاہدہ کیا اور اپنے ہدف کے حصول کے لیے کاروبار کے اہم ترین اصول ' صارف کی ذہن سازی ' کے تحت اس نے اِس نو دریافت شدہ منڈی میں تشہیر کا ہتھکنڈہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے جو آلہ اس بستی میں متعارف کروایا وہ ایک جادوئی ڈبّہ تھا۔ اس جادوئی ڈبّے کی خاصیت یہ تھی کہ اس میں بستی والوںکے مزاج کے غالب پہلوئوں کا دوسرا رخ پیش کیا گیا تھا مثلاً ان کے مزاج میں سادگی تھی تو اس میں ذوق اور جدّت کے نام پر آرائش کا تصّور دیا گیا۔
ان میں صبر اور قناعت تھی تو تگ ودو اور کوشش کو ہمّت اور کامیابی کا راز بتایا گیا۔ حیا کا توڑ تخلیق اور فن کو لامحدود قرار دے کر کیا گیا۔ سب سے زیادہ جس چیز نے بستی میں ناس مچائی وہ انفرادی آزادی اور اظہارِ رائے کے نام پر باہمی احترام اور لحاظ و پاسداری کے پرخچے اڑانا تھا۔
برائی کے احساسِ کمتری کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنا جواز تراشتی ہے۔ اس ڈبّے کے تعارف میں جو انتہائی مؤثر تصورات پیش کیے گئے، ان میں تخلیق، تبلیغ، تفریح اور تشہیر کو بنیادی عناصر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے سب نے اس نئی چیز کو خوشدلی اور مثبت انسانی پیش رفت کے طور پر قبول کرلیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جادوئی ڈبّہ مذکورہ بالا تصّورات کے ابلاغ کا حقیقی معنوں میں مؤثر ترین ذریعہ ثابت ہوسکتا تھا لیکن جس ایجاد و اختراع کی سرشت میں اثبات کا دخل نہ ہو وہاں مثبت کے نام پر بھی منفی اقدار ہی جڑیں پکڑتی اور نمو پاتی ہیں اور بالآخر مشترکہ تمّدن کا روپ دھار لیتی ہیں، جیسا کہ اس بستی میں ہورہا تھا۔ ابتدا میں اس ڈبّے کو خوش آئند تبدیلی کے طور پر قبول کیا گیا رفتہ رفتہ اس ڈبّے کی تاثیر بستی والوں پر اس طرح مرّتب ہونا شروع ہوئی کہ پہلے پہل وہ اسے بے ضرر تفریح کا ذریعہ سمجھتے رہے، اسے خبر و آگہی کا ایک مؤثر اور تیز ترین آلہ گردانا گیا۔
فن اور فنکار کی شرکت نے اس کی رومانویت کو مزید جِلا بخشی۔ تخلیق کے نام پر زندگی کو ایسے ایسے زاویوں سے پیش کیا گیا کہ بے چارے سادہ مزاج بستی والے ہکّا بکّا رہ گئے۔ زندگی کو سہل اور انسانی شخصیت کو خوب صورتی بخشنے والی اشیا دل لبھانے والے تعارف کے بعد باآسانی دستیاب ہونے لگیں۔ جب یہ ڈبّہ بستی والوں کی روزمرّہ زندگی میں بنیادی ضرورت کے طور پر شامل ہوگیا تو اس ڈبّے کی تاثیر ان کے مزاجوں میں بھی سرائیت کرتی چلی گئی۔ اس ڈبّے نے فرد کی زندگی کے ساتھ اس کی ذات پر بھی اپنا تسّلط جمالیا تھا۔
(جاری ہے)