ماہی کا آخری سفر

ہماری ماہی امان پا گئی اس کو اب زندگی بھر کسی کی نظر نہیں لگے گی، وہ اس پاک رب کی امان میں چلی گئی۔

7 برس کی عمر میں حج کی سعادت حاصل کرنا نصیب سے ہی نصیب ہوتا ہے۔

امی کتنی گرمی ہے، 7 سالہ ماہی نے رخسانہ کا دامن تھامتے ہوئے کہا، رخسانہ نے ایک نظر ماہی کے معصوم اور شدتِ دھوپ سے سرخ ہوجانے والے چہرے پر ڈالی اور فوراً ہٹالیں مباداً کہیں نظر نہ لگ جائے، سفید احرام میں اس کا گلابی اور معصوم چہرہ، پاکیزگی نے اسے اتنا حُسن دیدیا تھا کہ گلاب کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جائے۔ 7 برس کی عمر میں حج کی سعادت حاصل کرنا نصیب سے ہی نصیب ہوتا ہے۔ اس نے ماہی کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا، جی میری بیٹی بس کچھ دیر میں ہم یہاں سے نکل جائیں گے، پھر بابا سے آپ کی بات کراؤں گی، آپ نے ان کو اپنی تصویر بھیجی تھی ناں رات احرام والی، وہ دیکھنے کے بعد سے وہ بے چین ہیں اپنی لاڈو سے ملنے کو، بات کرنے کو، جی امی مجھے بھی بابا یاد آرہے ہیں، ماہی نے گلوگیر لہجے میں کہا! بس یہ جمرات العقبہ ہے یہاں شیطان کو کنکریاں مار لیں ذرا تو یہاں سے جانے کے بعد بابا سے دل بھر کے بات کرنا، رخسانہ نے بے پناہ رش کے باعث ماہی کو سمجھو دبوچتے ہوئے کہا۔

ہجومِ بیکراں کے باعث رخسانہ کو یہ گھبراہٹ ہورہی تھی کہ، کہیں خدا نخواستہ ماہی کا ہاتھ نہ چھوٹ جائے۔ وہ تو ماہی کو ساتھ لانے کے حق میں ہی نہیں تھی کہ اکیلی کس طرح سنبھالے گی لیکن شعیب نے سمجھایا کہ وہ نہیں جا سکتا تو، ماہی اور وہ لازمی جائیں، یہ بلاوے کی سعادت سب کے لئے نہیں ہوتی، وہ جب نصیب میں ہوا حج ادا کر آئے گا۔ ویسے بھی شاید ابھی اس کے مقدر میں اس فریضے کی ادائیگی نہیں تھی، ورنہ جانے سے محض دو روز پہلے ایکسیڈینٹ کے باعث ٹانگ میں فریکچر نہ ہوتا۔ رخسانہ لاکھ منع کرتی رہ گئی کہ اسے نہیں جانا اس حال میں چھوڑ کر، لیکن شعیب نے اسے بھیج کر ہی دم لیا کہ اس کے ساتھ بابا تو ہیں۔ وہ پورا خیال رکھیں گے ماہی اور رخسانہ کا، اور رہا فریکچر تو یہ تو معمولی بات ہے، ٹھیک ہو جائے گا، اور یوں وہ اور ماہی شعیب کے والد کے ہمراہ حجاِز مقدس تک آ پہنچیں اور اب جمرات کے مقام پر شیطان کو کنکر مارنے کا مرحلہ در پیش تھا۔

امی یہ شیطان کیسا ہوتا ہے؟ ماہی نے سوال کیا، کیا بہت خوفناک ہوتا ہے؟ میں نہیں جاؤں گی اگر مجھے پکڑ لیا تو؟ بابا بھی نہیں جو مجھے بچالیں، ماہی نے سہم کر رخسانہ کے ہاتھ پر دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا، اور رخسانہ تو یہ بات سُن کر ہی لرز گئی لیکن ایک نبی اللہ کی ماں کی سعی اور آزمائش میں استقلال اور ثابت قدمی کا خیال آتے ہی پرسکون ہوگئی، نہیں بیٹا وہ بند ہے، اس مقدس زمین پر سب کو امان ہے اگر تم وہ کلمات بھول گئی ہو جو سکھلائے تھے، تو درود بھیجتی رہو، اور خاموش رہنا اب اور دیکھو ہاتھ نہیں چُھڑانا، جی امی میں دردو بھیجتی ہوں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم پر، ہاتھ نہیں چھڑاؤؤؤ۔۔۔۔ابھی ماہی کی زبان پر یہ الفاظ ہی تھے کہ انسانی ہجوم کا ایسا ریلہ آیا کہ الامان الحفیظ، انسانوں کا اژدھام، ایک ہنگام، شور، اور اسی شور میں ماہی کا ہاتھ رخسانہ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہی میری بچی، رخسانہ کی آواز اس شور و فُغاں میں دب گئی، اچانک پیچھے سے آنے والے ایک اور ریلہ نے اسے دھکا دیا تو وہ دور جا گری اور ناسمجھی کی کیفیت میں اس ہجوم کو دیکھتی رہی، نعرہِ تکبیر کے ساتھ کرب ناک آوازوں کاغُل، کچھ دیر میں ایمبولینسوں کے بجتے سائرن، سیکیورٹی اہلکاروں کی بھا گ دوڑ اور اپنے پیاروں کو تلاش کرتے روتے ہوئے انسانوں کی صداؤں نے رخسانہ کو جھنجھوڑا تو وہ دیوانہ وار ماہی کو پکارتی اسی مقام کی جانب دوڑی۔ ماہی میری بیٹی، کہاں ہے، اس کو گرمی لگ رہی تھی، پیاس بھی، میری بچی بہت چھوٹی ہے، وہ ڈر جاتی ہے، مجھے تلاش کر رہی ہوگی، کہاں ہو ماہی ، امی کو جواب دو، بہتی آنکھوں سے وہ بلند آواز میں ماہی کو آوازیں دے رہی تھی۔

رخسانہ کی خستہ حالت دیکھ کر ایک خاتون نے اسے پکڑ کر پانی کی بوتل اس کے منہ سے لگائی وہ شاید کچھ سمجھا رہی تھیں، لیکن کیا سمجھ نہیں آرہا تھا، شاید وہ عربی میں کچھ کہہ رہی ہیں یا فارسی میں یا پھر اردو، رخسانہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اس کے ذہن میں ماہی کی شکل ہی سمائی ہوئی تھی، اچانک اس کی نگاہ میتوں پر پڑی، رخسانہ کے دل جیسے مسل دیا کسی نے، میری ماہی وہ تو پھولوں جیسی ہے، ابھی کتنی پیاری لگ رہی تھی، شاید میری نظر لگ گئی، کہاں گئیں ماہی مجھے پکارو ناں۔۔۔۔۔

سیکیورٹی اہلکار حاجیوں کو اب سفید کپڑے سے ڈھانک کر اٹھا رہے تھے ایک کے بعد ایک ایمبیولینسیں بھرتی جارہی تھیں۔ کوئی کہہ رہا تھا 7 سو زیادہ افراد شہید ہوگئے، اچانک ایک اسٹریچر سے لٹکتے ننھے ہاتھوں کو دیکھ کر رخسانہ کو کچھ یاد آیا، کلائی پر سیاہ دھبہ، شعیب کہتے ہیں ہماری ماہی کو نظر نہ لگے اس کی خوبصورتی پر یہ نظر کا ٹیکہ قدرت کی طرف سے ہے تاکہ ماہی ہمیشہ ہر نظرِ بد سے محفوظ رہے۔


ہماری ماہی امان پا گئی اس کو اب زندگی بھر کسی کی نظر نہیں لگے گی، وہ اس پاک رب کی امان میں چلی گئی۔ اچانک موبائل میں شعیب کالنگ کے حروف اسکرین پر ابھرے تو رخسانہ نے کال ریسیو کی، شعیب کی بے تاب آوازوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پر سکون انداز میں رخسانہ نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا،
''ہماری ماہی کو اللہ نے امان دیدی، میری بچی کی سعی کو رب نے قبول کیا، تم ماہی کے استقبال کی تیاری کرو، میں لے کر آرہی ہوں اپنی شہزادی کو''

رخسانہ نے فون بیگ میں ڈالا اور ایمبولینس کی جانب بڑھ گئی تا کہ اپنی لاڈلی کو پہچان کر لے جائے، اس کے بابا منتظر ہیں گھر میں، وہ تیاری کر رہے ہیں ماہی گھر آئے تو کوئی شکایت، کوئی کمی نہ رہ جائے بابا کی جانب سے، ہمارے گھر سے رخصت ہو جائے گی اب ماہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

25 ستمبر 2015 سر زمینِ مقدس پر 700 سے زائد حاجی جمرات کے مقام پر بھگدڑ مچ جانے سے شہید ہوگئے۔ دل میں شوق ِعقیدت لئے اپنے پیارے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جو یہاں سے فلاح پا گیا تو وہی حقیقی راہ پا گیا۔ کچھ تو ایسے کہ زندگی بھر کا سرمایہ، جمع پونجی سمیٹی تو قصد کیا اور کچھ ایسے کہ اپنے رب کے حضور توبہ کرنے، نعمتوں کا شکر ادا کرنے اس مذہبی فرض کو ادا کرنے پہنچے۔

لیکن نہ جانے کس ناخوشگوار ساعت یہ حادثہ پیش آیا، اور سیکڑوں اللہ کے پیارے اس بھگڈر کی نذر ہوگئے، کسی نے کہا حاجیوں کی جلد بازی، تو کسی نے کہا کہ انتظامی امور کی ناقص صورتحال نے اس حادثے کو جنم دیا، لیکن کوئی یہ بتائے کہ جو اپنی جان سے گذر گئے کیا ان کی جان سے زیادہ قیمتی کچھ تھا؟ ان کی اس قربانی نے کس نکتہ کی طرف توجہ دلائی؟ انتظامی نقائص یا شوق ِعبادت کے جذبہ کی شدت؟ وجہ جو بھی ہو اس کا سامنے آنا اور اس سانحے کی شفاف تحقیقات کے ساتھ ہی اس کے پس پردہ محرکات کو بھی منظر ِعام پر لایا جائے کہ زندگی کی پونجی لگا کر آنے والوں کا سفر، سفر ِ آخرت میں کیوں تبدیل ہوا؟ کیا وجوہات رہیں؟ انتظامی امور کے نقائص ہیں تو کس طرح حل ہوں گے، کس طرح ان پر قابو پایا جائے؟ ذمہ داران سے جواب طلبی، کیونکہ لاکھوں حاجیوں کا انتطام اور سہولیات کی فراہمی یقیناً آسان نہیں لیکن بہتری اور سُدھار کی گنجائش تو بہر صورت ممکن ہوتی ہے، اور مزید انسانی المیوں سے بچنے اور لاکھوں حاجیوں کی حفاظت ہر صورت میں یقینی بنانا اربابِ اختیار کی ذمہ داری ہے۔

[poll id="685"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story