بے حسی کے شہر میں یہ چشمِ ترکچھ بھی نہیں…پہلاحصہ
حقوق کے حصول کی خواہش نے فرائض کو کوئی بھولی ہوئی داستان بنا دیا،
ISLAMABAD:
برطانیہ میں اپنے تمام تر حقوق سے لیس ایک پندرہ سالہ لڑکی جس کی ماں گزشتہ برس کینسر کی بیماری کی وجہ سے انتقال کرگئی اور اس کے باپ نے اپنی گرل فرینڈ کو خوش کرنے کے لیے اس کو اور اس کی بہن کو گھر سے نکال باہرکیا، بڑی بہن بھی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی اور یہ لڑکی اس وقت دربدری کے عذاب موسموں کی لپیٹ میں ہر روز اپنی ماں کو یاد کرکے اشک بہاتی ہے ۔
خوبصورت نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والی یہ گڑیا جس کی آنکھوں میں اشک، بیگانگی اور تنہائی کے سرد موسموں میں برف کی طرح جمے رہتے ہیں، بہت کم کسی سے بات کرتی ہے مگر کل شام اس کو جب اپنائیت کی ذرا سی نرم گرم دھوپ کا احساس مجھ سے ملا تو اس کی آنکھوں میں جمی برف پگھل کر بے اختیار اشکوں میں ڈھلنے لگی۔
اس نے اپنی مری ہوئی ماں کے نام ایک خط لکھ رکھا تھا اور مجھے اپنے غم میں شریک کیا، بہت ضبط کے باوجود باغی اشک اس کی پلکوں کی دہلیز تک آ آ کے رک رہے تھے، اس کے پاس ایک بھی رشتہ ایسا نہیں تھا جو اس کی پلکوں پر اترنیوالے ستاروں کو ہاتھ بڑھا کر اپنی مٹھی میں قید کر لے۔کل شام سے ان اشکوں کی برسات میرے اندر ہو رہی ہے۔کل شام سے مجھے اپنے وطن کی ہر ماں ہرباپ، دادا، دادی، نانا،نانی عظیم تر دکھائی دے رہے ہیں،ہر رشتے کی مہک شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ ہرمعاشرے کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں،خوبیوں کی موجودگی کے ادراک کے لیے خامیوں کی موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے۔
اس لڑکی کو دیکھ کر مجھے خیال آرہا تھا کہ پاکستان میں عورت کے آنچل میں رشتوں کے کتنے پھول بندھے ہوتے ہیں جن کی مہکار میں بسی زندگی کسی بھی خاندان کے افراد کے لیے کچھ نہ کچھ سہل ہو جاتی ہے، جب کہ برطانیہ میں سب افراد بستے ہیں گھروں میں بازاروں میں دفتروں میں ہر جگہ آپ کو آزاد منڈی کی معیشت کے نتیجے میں منڈی کی دوسری اجناس ہی کی طرح افراد بھی بطورِ جنس دکھائی دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں 1945 سے ہونے والی ساختیاتی تبدیلی نے اس سماج کی بظاہر ترقی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے عام افراد کے لیے روزگارکے مواقعے بہت زیادہ بڑھ گئے اورعام افراد کے لیے اپنے حقوق کا حصول زیادہ سہل ہوگیا، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساختوں کی اس تبدیلی نے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا۔آزاد منڈی کی معیشت نے جب اجناس کی قدرتبدیل کی تو انسانوں کو بھی جو کسی نہ کسی رشتے کی ساخت میں تھے افراد کی ساخت میں ڈھال کر ان کو منڈی کا حصہ بنادیا اور ان کی قدر بھی وہی متعین ہوئی جو منڈی میں دوسری اجناس کی ہوتی ہے۔
حقوق کے حصول کی خواہش نے فرائض کو کوئی بھولی ہوئی داستان بنا دیا، مگر یہ افراد بھول گئے کہ حقوق کے حصول کی خوشی بھی اسی وقت ممکن ہے جب فرائض کی ادائیگی بھی ہو،کیونکہ کوئی بھی حق فرض کے بنا نہیں ہوتا اورکوئی خوشی دیرپا نہیں ہوتی جو صرف ایک فردکی ذات تک محدود رہے۔ خوشی کی درازی عمر ایک انسان سے نہیں بلکہ انسانیت سے وابستہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں صرف حقوق کی جنگ لڑنیوالے اپنے حقوق حاصل کرکے بھی خوشی کو ترستے ہیں،کیونکہ دیرپا خوشی فرض کی ادائیگی سے وابستہ ہوتی ہے جسے آزاد منڈی کی معیشت نے بھلا دیا۔
خاندان ٹوٹ کر افراد کی ساخت میں ڈھل گئے اور آج بظاہر ترقی یافتہ سماج کا انسان جو فقط ایک فرد میں ڈھل چکا ہے، اپنے حق حاصل کرنے کے بعد بے چین و بے قرار پھرتا ہے یہاں انفرادی ترقی کے بہت سے مواقعے بھی ہیں مگر انفرادی زندگی کے لیے بہت سے مسائل بھی ہیں۔ برطانیہ میں خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے سے جہاں خواتین کو آزادی کے نام پر سرمایہ کاروں نے سستے مزدورکے طور پرمزدوروں کی مجموعی جدوجہد کا زور توڑنے کے لیے لگایا وہیں بہت سی زندگیاں تباہی کے دہانے تک بھی پہنچا دی گئیں۔ بظاہر ترقی یافتہ یہ سماج بہت سے حوالوں سے پسماندگی کی طرف بھی بڑھتا گیا۔
مائیں بچوں کو چھوڑ کر ملازمت پر جانے لگیںاور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دوسری ملازم خواتین ملازمت پر آنے لگیں۔ عجیب منطق ہے اس سرمایہ داری سماج کی کہ خواتین اپنے گھروں سے نکل کر ملازمت کے نام پر دوسرے لوگوں کے بچوں کی دیکھ بھال توکرنے جائیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے یے دوسرے بچوں کی مائیں بطورِ ملازم رکھی جائیں۔ یعنی عورت کو ماں جیسے باوقار رتبے سے اتارکر ایک ایسا مزدور بنادیا گیا جو اپنے ہی خاندان کو توڑنے کے لیے اجرت وصول کرتا ہے۔ اسی لیے تو برطانیہ میں ایک خاندان جب تک ٹکڑوں میں بٹ نہیں جاتا، زندگی کی آسائشوں سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ ان کے اس نظام کو دیکھتی ہوں تو مجھے اپنے سماج کی خاندانی روایات اور زندگی اور بھی بھلی لگنے لگتی ہے ۔
جہاں پر ہماری مائیں ، دادیاں، نانیاں گھرکی بہوؤں اور بیٹیوں کے لیے کتنا بڑا سہارا ہوتی ہیں ، بنا کسی غرض کے صرف پیارکے احساس سے لبریز غیر محسوس طریقے سے اپنے خاندان کے لیے ہر روزکام کر رہی ہوتی ہیں۔ کہیں بھی جانا ہوگھر سے باہرکسی خوشی کی تقریب میں یا کسی کی غمگساری میں شریک ہونا ہو،ہماری خواتین کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ بچوں کی حفاظت کے لیے ان کو کس کے حوالے کر کے جائیں ،ہمارے معاشرے میں خاندانی روایات ، سماج کے رسم و رواج کی وجہ سے ہرگھر کے آنگن میں داد، دادی یا نانا، نانی کے پیار کے گھنے شجرِسایہ دارکی چھاؤں کاحصار ہی ان کی حفاظت کے لیے کافی ہوتا ہے۔
مگر افسوس کہ بہت سی خواتین اور بہوئیں یہ بات سمجھنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ ان کو یہ سہولتیں ہمارے معاشرے کے خاندانی نظام کے تحت بنا کسی تگ و دو کے میسر ہیں ۔اس لیے ان کو ان کی اہمیت اور خوبصورتی کا اندازا بھی نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین اپنی ساس اور بزرگوں کی شکر گزار ہونے کی بجائے ان سے نالاں دکھائی دیتی ہیں۔
(جاری ہے)
برطانیہ میں اپنے تمام تر حقوق سے لیس ایک پندرہ سالہ لڑکی جس کی ماں گزشتہ برس کینسر کی بیماری کی وجہ سے انتقال کرگئی اور اس کے باپ نے اپنی گرل فرینڈ کو خوش کرنے کے لیے اس کو اور اس کی بہن کو گھر سے نکال باہرکیا، بڑی بہن بھی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی اور یہ لڑکی اس وقت دربدری کے عذاب موسموں کی لپیٹ میں ہر روز اپنی ماں کو یاد کرکے اشک بہاتی ہے ۔
خوبصورت نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والی یہ گڑیا جس کی آنکھوں میں اشک، بیگانگی اور تنہائی کے سرد موسموں میں برف کی طرح جمے رہتے ہیں، بہت کم کسی سے بات کرتی ہے مگر کل شام اس کو جب اپنائیت کی ذرا سی نرم گرم دھوپ کا احساس مجھ سے ملا تو اس کی آنکھوں میں جمی برف پگھل کر بے اختیار اشکوں میں ڈھلنے لگی۔
اس نے اپنی مری ہوئی ماں کے نام ایک خط لکھ رکھا تھا اور مجھے اپنے غم میں شریک کیا، بہت ضبط کے باوجود باغی اشک اس کی پلکوں کی دہلیز تک آ آ کے رک رہے تھے، اس کے پاس ایک بھی رشتہ ایسا نہیں تھا جو اس کی پلکوں پر اترنیوالے ستاروں کو ہاتھ بڑھا کر اپنی مٹھی میں قید کر لے۔کل شام سے ان اشکوں کی برسات میرے اندر ہو رہی ہے۔کل شام سے مجھے اپنے وطن کی ہر ماں ہرباپ، دادا، دادی، نانا،نانی عظیم تر دکھائی دے رہے ہیں،ہر رشتے کی مہک شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ ہرمعاشرے کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں،خوبیوں کی موجودگی کے ادراک کے لیے خامیوں کی موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے۔
اس لڑکی کو دیکھ کر مجھے خیال آرہا تھا کہ پاکستان میں عورت کے آنچل میں رشتوں کے کتنے پھول بندھے ہوتے ہیں جن کی مہکار میں بسی زندگی کسی بھی خاندان کے افراد کے لیے کچھ نہ کچھ سہل ہو جاتی ہے، جب کہ برطانیہ میں سب افراد بستے ہیں گھروں میں بازاروں میں دفتروں میں ہر جگہ آپ کو آزاد منڈی کی معیشت کے نتیجے میں منڈی کی دوسری اجناس ہی کی طرح افراد بھی بطورِ جنس دکھائی دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں 1945 سے ہونے والی ساختیاتی تبدیلی نے اس سماج کی بظاہر ترقی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے عام افراد کے لیے روزگارکے مواقعے بہت زیادہ بڑھ گئے اورعام افراد کے لیے اپنے حقوق کا حصول زیادہ سہل ہوگیا، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساختوں کی اس تبدیلی نے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا۔آزاد منڈی کی معیشت نے جب اجناس کی قدرتبدیل کی تو انسانوں کو بھی جو کسی نہ کسی رشتے کی ساخت میں تھے افراد کی ساخت میں ڈھال کر ان کو منڈی کا حصہ بنادیا اور ان کی قدر بھی وہی متعین ہوئی جو منڈی میں دوسری اجناس کی ہوتی ہے۔
حقوق کے حصول کی خواہش نے فرائض کو کوئی بھولی ہوئی داستان بنا دیا، مگر یہ افراد بھول گئے کہ حقوق کے حصول کی خوشی بھی اسی وقت ممکن ہے جب فرائض کی ادائیگی بھی ہو،کیونکہ کوئی بھی حق فرض کے بنا نہیں ہوتا اورکوئی خوشی دیرپا نہیں ہوتی جو صرف ایک فردکی ذات تک محدود رہے۔ خوشی کی درازی عمر ایک انسان سے نہیں بلکہ انسانیت سے وابستہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں صرف حقوق کی جنگ لڑنیوالے اپنے حقوق حاصل کرکے بھی خوشی کو ترستے ہیں،کیونکہ دیرپا خوشی فرض کی ادائیگی سے وابستہ ہوتی ہے جسے آزاد منڈی کی معیشت نے بھلا دیا۔
خاندان ٹوٹ کر افراد کی ساخت میں ڈھل گئے اور آج بظاہر ترقی یافتہ سماج کا انسان جو فقط ایک فرد میں ڈھل چکا ہے، اپنے حق حاصل کرنے کے بعد بے چین و بے قرار پھرتا ہے یہاں انفرادی ترقی کے بہت سے مواقعے بھی ہیں مگر انفرادی زندگی کے لیے بہت سے مسائل بھی ہیں۔ برطانیہ میں خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے سے جہاں خواتین کو آزادی کے نام پر سرمایہ کاروں نے سستے مزدورکے طور پرمزدوروں کی مجموعی جدوجہد کا زور توڑنے کے لیے لگایا وہیں بہت سی زندگیاں تباہی کے دہانے تک بھی پہنچا دی گئیں۔ بظاہر ترقی یافتہ یہ سماج بہت سے حوالوں سے پسماندگی کی طرف بھی بڑھتا گیا۔
مائیں بچوں کو چھوڑ کر ملازمت پر جانے لگیںاور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دوسری ملازم خواتین ملازمت پر آنے لگیں۔ عجیب منطق ہے اس سرمایہ داری سماج کی کہ خواتین اپنے گھروں سے نکل کر ملازمت کے نام پر دوسرے لوگوں کے بچوں کی دیکھ بھال توکرنے جائیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے یے دوسرے بچوں کی مائیں بطورِ ملازم رکھی جائیں۔ یعنی عورت کو ماں جیسے باوقار رتبے سے اتارکر ایک ایسا مزدور بنادیا گیا جو اپنے ہی خاندان کو توڑنے کے لیے اجرت وصول کرتا ہے۔ اسی لیے تو برطانیہ میں ایک خاندان جب تک ٹکڑوں میں بٹ نہیں جاتا، زندگی کی آسائشوں سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ ان کے اس نظام کو دیکھتی ہوں تو مجھے اپنے سماج کی خاندانی روایات اور زندگی اور بھی بھلی لگنے لگتی ہے ۔
جہاں پر ہماری مائیں ، دادیاں، نانیاں گھرکی بہوؤں اور بیٹیوں کے لیے کتنا بڑا سہارا ہوتی ہیں ، بنا کسی غرض کے صرف پیارکے احساس سے لبریز غیر محسوس طریقے سے اپنے خاندان کے لیے ہر روزکام کر رہی ہوتی ہیں۔ کہیں بھی جانا ہوگھر سے باہرکسی خوشی کی تقریب میں یا کسی کی غمگساری میں شریک ہونا ہو،ہماری خواتین کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ بچوں کی حفاظت کے لیے ان کو کس کے حوالے کر کے جائیں ،ہمارے معاشرے میں خاندانی روایات ، سماج کے رسم و رواج کی وجہ سے ہرگھر کے آنگن میں داد، دادی یا نانا، نانی کے پیار کے گھنے شجرِسایہ دارکی چھاؤں کاحصار ہی ان کی حفاظت کے لیے کافی ہوتا ہے۔
مگر افسوس کہ بہت سی خواتین اور بہوئیں یہ بات سمجھنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ ان کو یہ سہولتیں ہمارے معاشرے کے خاندانی نظام کے تحت بنا کسی تگ و دو کے میسر ہیں ۔اس لیے ان کو ان کی اہمیت اور خوبصورتی کا اندازا بھی نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین اپنی ساس اور بزرگوں کی شکر گزار ہونے کی بجائے ان سے نالاں دکھائی دیتی ہیں۔
(جاری ہے)