سانحہ پشاور ستمبر کی ستم گری

فوج تو دہشتگردی کے خلاف اپنے فرائض پوری جانفشانی سے ادا کررہی ہے

اس صبح کی روشنی عام دن کی طرح اختتام پذیر ہونے کو نہیں آئی تھی، آج تو اس کی روشنی میں یہ جوان اپنے لہوکی روشنائی سے اس صبح کو دائمی حیات دینا چاہتے تھے، انھیں اپنے وطن سے شدید محبت تھی اور ان کالے ناگوں سے بے انتہا نفرت جو بے وجہ کھدائی کے دوران دھرتی ماں کا سینہ پھاڑ کے پھنکارتے ہوئے نکل آئے تھے اور اب بقائے انسانیت کے نظریے پرکنڈلی مارے بیٹھے تھے۔

بظاہر سب کی طرح وہ بھی ان سانپوں سے بچنا چاہتے تھے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ انھیں بچنے سے زیادہ بچانے کی لگن ہے۔ یہ بھیانک اژدھے تو دہشت کی بین پر بربادی کا رقص کرکے خوب جھومتے تھے مگر ان سرفروشوں کی تو ایک ہی دھن تھی کہ مادر وطن جب بھی تقاضا کرے اپنی جانیں اس پر نچھاور کردیں۔

پاک افواج کے شہداء تم ہی ہمارے ہیرو ہو، تمہاری ماؤں کو سلام، جنہوں نے تم جیسے سپوتوں کو جنا، تمہارے والدین کو سلام کہ بے شک جنھیں بہادر بیٹوں کا باپ کہلائے جانے کا حق حاصل ہے، تمہارے خاندانوں کے ایک ایک فرد کو سلام عقیدت، جنہوں نے تمہیں دیکھا، چھوا اور تمہارے بوسے لیے۔ ہمارے پاس تمہارے لیے لفظوں کے پھول، اشکوں کے موتی اور جذبات کے ستاروں کے سوا کچھ اور نہیں۔ اب تو تم خود ستاروں کے ہم سفر ہو، اللہ نے تمہیں پروازکا اعجاز عطا فرما دیا ہے۔ تم نے دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان دہشتگردوں کی چراگاہ نہیں بلکہ بہادروں کی پناہ گاہ ہے جہاں انسانیت کے دشمنوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔اے راہ حق کے شہیدوں تمہیں سلام۔

پشاور میں بڈھ بیر کے علاقے میں پاکستان ایئر فورس بیس پر حملہ کرکے دہشتگردوں نے قوم کو ایک اور زخم دیدیا ہے۔ دل خراش واقعے سے فضاء ایک بار پھر سوگوار ہے۔ خود کو اسلام کا نام نہاد سپاہی کہلانے والوں نے نمازیوں کو بھی نہیں بخشا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہلاکو خان اور اس کے ہرکارے ان نفیس اور ذہین لوگوں کا پیچھا کرتے آرہے ہیں۔ تاریخ کی خونی گلیوں سے، ساتویں اور تیرہویں صدیوں سے لے کر آج تک۔ لیکن غیر جانبدار مورخوں نے ان لوگوں کو ایک ایسے پرندے کی مانند سے تعبیرکیا جس کا زندہ وجاوید ہونا ایک معمے سے کم نہیں۔ داناؤں نے ہمیشہ یہی چاہا کہ ظلمت کو پھیلنے نہ دیا جائے، عقل مندوں نے اسی ادھیڑ بن میں اپنی زندگیاں تیاگ دیں کہ وعدے کے باوجود اجالے کیوں نہیں دکھائی دیتے اور ہوش مندوں کو بس یہی فکر لاحق رہی کہ چراغ تلے اندھیرے کو کیسے ختم کیا جائے۔

لیکن جاہلوں نے ہمیشہ تاریکیوں کی پرورش کی تاکہ چھپ کر اور پشت پر وار کرنے کی غلیظ عادت کبھی بھول نہ جائیں بلاشبہ تاریکی جہالت کی اولین استاد ہے۔یہ دہشتگرد معصوم جانوں کے طالب، خوشیاں نوچنے کے طالب، مسرتیں چھیننے کے طالب، سانسیں گھوٹنے کے طالب، یہ انسانی لہوکی مہک پر خون پینے آتے ہیں۔

مگر اب ان کے دن گنے جاچکے ہیں، پاک فوج نے ضرب عضب آپریشن کے ذریعے دہشتگردوں کی کمر توڑکے رکھ دی ہے۔ سانپ کی کمر ٹوٹ جائے تو اس کے لیے چلنا محال ہوجاتا ہے، یہی حال دہشتگردوں کا ہے۔ ایک وقت تھا جب وطن عزیز اضطراب، انتشار، افراتفری، لاقانونیت، عدم اطمینان اور بے چینی کی آگ میں سلگتے سلگتے جھلس گیا تھا۔ آگ و خون کے اس خوف ناک کھیل سے امن پسند انسانوں کی ہڈیوں تک میں خوف سرایت کرگیا تھا۔ ظلم اور نفرت کی کیاریوں سے پھوٹنے والے کانٹے دار پودے رگ و پے میں پیوست ہوکر چبھن پیدا کررہے تھے۔

فضاؤں میں وحشت کا بگل بج رہا تھا۔ دہشتگرد ببابنگ دہل اعلان کررہے تھے کہ دیکھو اہل زمین ہم ندرتوں اور جدتوں کے امین ہیں۔ ہم دہشتگرد کتنے جری ہیں کہ نہ مرنے سے ڈرتے ہیں اور نہ مارنے سے۔ شہر کو خون میں نہلاکر ہم بھی نہاتے ہیں تاکہ تازہ دم ہوکر پھر تازہ خون سے کھیلیں۔


سانحہ پشاور کے بعد بالکل درست فیصلے ہوئے، جس کے بعد خود کو بہادر سمجھنے والے چھپ کے بیٹھ گئے، سرپرستوں کی نئی ہدایات کے منتظر، نئی ہدایات، ڈالروں کی مہکتی خوشبو میں۔ افغانستان میں چھپ کر بیٹھے ہوئے ہمارے ازلی دشمن نے جب ہدایت دی تو رات کی تاریکی میں یہ لوگ حملہ آور ہوئے۔ پشاور ائیر بیس حملے میں بھارتی ہاتھ کے ملوث ہونے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بھارت علی الاعلان خیبرپختونخواہ، بلوچستان، کراچی اور فاٹا کے علاقوں میں مداخلت کرکے دہشتگردی کی وارداتیں کرارہا ہے۔ اب جب دہشتگردی کی جنگ میں ہم فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔

پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی کامیابی کی سمت میں گامزن ہے تو اس ساری صورتحال میں دشمن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھے گا نا؟ دس سال سے افغانستان میں سرمایہ کاری کرنیوالا بھارت افغانستان کے محاذ پر اپنے پارٹنروں کے ساتھ ملکر اپنے کردار کو بڑھانے اور پاکستان کو زک پہنچانے کے لیے نئے جال بچھارہا ہے، جس کے واضح ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔

پاک فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب میں پاک فضائیہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس نے شدت پسندوں کی درجنوں پناہ گاہوں اور اڈوں کو تباہ کیا، اب بھی پاک فضائیہ دہشتگردوں کے خلاف مکمل طور پر سرگرم عمل ہے۔ شاید اسی لیے وہ فضائیہ کے اڈوں اور اداروں کو نشانہ بناکر کمزور کرنا چاہتے ہیں۔پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب میں دہشتگردوں کے اہم ٹھکانوں، ان کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ کرکے بڑے علاقے کو ان سے پاک کردیا ہے۔

ملک کو دہشتگردی سے پاک کرنے کے لیے شروع کی گئی اس جنگ میں پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے بڑے پیمانے پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔مگر یہ ایک طویل اور صبر آزما جنگ ہے۔ ملک کو دہشتگردی کے ناسور سے پاک کرنے کے لیے نہ جانے ابھی کتنی قربانیاں دینا پڑیں گی، لیکن دہشتگردوں کے کسی بھی حملے کے بعد پاک فوج نے بھرپور عزم اور جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا اور اس کے قدم کسی بھی مرحلے پر نہیں ڈگمگائے۔

شکر الحمدللہ، پاکستان اس راہ پر آگیا ہے جس پر اس کا آنا اور مسلسل چلنا شدت سے مطلوب تھا، لیکن ہم اس شدت سے نظریں چرائے طرح طرح کی غیر مطلوب شدت میں مبتلا ہوتے گئے تھے۔ ہم سمجھ چکے ہیں کہ ہم کتنی گمراہی میں رہے اور ہم نے اس سے کیسے نکلنا ہے۔ قوم نے 14برس میں 75 ہزار شہری دہشتگردی کے ناسور سے نجات کے لیے قربان کیے اور اب یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، اس جنگ میں فتح ہی ہماری بقاء کی ضامن ہے، یہ جنگ ہمیں ہر حال میں جیتنی ہے۔ یقینا ہم نے ایک طویل جنگ جس میں مشکلات بھی پیش آئیں گی خون بھی بہے گا اور ہلاکتیں بھی ہوں گی، لڑنی ہے، اس میں پشاور جیسے اندوہناک سانحات بھی پیش آسکتے ہیں۔ جب تک ہم آخری زہریلے ناگ کا سر نہیں کچل دیتے ہمیں یہ جنگ لڑنا ہوگی۔

بند باندھے بنا سمندر کے کنارے رہائش اختیار کرنا دانشمندی نہیں خود کشی ہے، تدبر اختیار کرنے والے طوفان کا شور سن کر مسافروں سے بھری کشتی سے اپنی جان بچانے کے لیے چھلانگیں نہیں لگاتے بلکہ ناخدا بن کر موجوں کے تلاطم کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ سینوں میں دھڑکتے ہوئے دل وقت کے گہرے زخموں سے نڈھال تو ضرور ہیں مگر ان میں ابھی زندگی اور امید کی رمق باقی ہے۔

انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن دور نہیں جب وقت کے دریچوں سے ہوا کا تازہ جھونکا فضا کو معطر کرجائے گا۔ اس کے بعد نہ تو دکھ کے بادل ہونگے نہ رخساروں پر بہنے والے لرزتے آنسو۔ جب کسی ذہن میں بے نام خوف اور اندیشوں کے تاریک ہیولے نہیں منڈلائیں گے، جب زمین ناگہاں، مردہ اور لہولہان جسموں کا بوجھ نہ اٹھائیگی، جب مائیں اپنے بچوں کو تلاش کرنے نہیں نکلیں گی، جب جھرنے کے شفاف پانی میں انسانی خون کی آمیزش نہ ہوگی اور ہر شب ایسے گزرے گی کہ جب اندھیری سنسان گلیوں میں بھی زندگی رواں دواں ہوگی۔

فوج تو دہشتگردی کے خلاف اپنے فرائض پوری جانفشانی سے ادا کررہی ہے مگر افسوس ہے کہ سول انتظامیہ اس سلسلے میں غیر متحرک ثابت ہورہی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنا صرف فوج کا ہی فرض نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں اور سول انتظامیہ پر بھی یہ بھاری ذمے دارے عائد ہوتی ہے کہ وہ پاک فوج کے جوانوں کی طرح پوری تندہی اورجانفشانی سے کام کریں تاکہ مستقبل میں کسی متوقع دہشتگردی کے واقعے کو روکا جاسکے۔
Load Next Story