شناختی کارڈ کا حصول ایک ڈراؤنا خواب

شناختی کارڈ بنوانا نہایت مشکل عمل ہے کیونکہ نادرا کے ملازمین کی نااہلیاں کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

نااہل ملازمین کے خلاف سخت کاروائی بھی ضروری ہے، جن کی وجہ سے شہری ذہنی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ فوٹو :فائل

دروازے کی کھٹ پٹ سے اچانک آنکھ کھل گئی۔ گھڑی پر نظر پڑی تو دیکھا کہ رات کے 3 بج رہے تھے، سوچا رات کے اس پہر کون ہوسکتا ہے؟ اسی کشمکش کے ساتھ دروازے پر پہنچا تو دیکھا کہ چھوٹا بھائی ہے، میں نے حیرانی سے پوچھا کہ رات کے اس پہر کہاں جا رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ نادرا کے دفتر جارہا ہوں، رات کے اس وقت کونسا دفتر کھلتا ہے؟ تو اس کے جواب نے مجھے مزید حیران و پریشان کردیا، موصوف کہنے لگے کہ دفتر تو اپنے مقررہ وقت پر ہی کُھلے گا، مگر نئے شناختی کارڈ کے حُصول کے لئے ایک طویل لمبی قطار ہوگی کیونکہ میں کل صبح فجر کے وقت گیا تھا مگر 4 گھنٹے طویل تک انتظار کرنے کے باوجود ٹوکن نہیں مل سکا کیونکہ ٹوکن ٹائم ختم ہوگیا تھا، اسی لئے آج رات کے آخری پہر جارہا ہوں تاکہ نمبر جلدی آئے اور ٹوکن باآسانی مل سکے، خیر مجھے خدا حافظ کہہ کر وہ نادرا کے دفتر چل دیا۔

رات کے وقت ہی قطار میں لگ جانا کتنا تکلیف دہ عمل ہے یہ آپ بخوبی جان گئے ہونگے۔ اتنا دشوار گذار مرحلہ ۔۔۔۔۔اس طویل مرحلہ سے نمٹنے کے لئے عوام بھی سر بکف ہو کر آتے ہیں۔ پانی کی بوتل اور کھانا لوگ اپنے ساتھ لاتے ہیں اور اگر کوئی بیچارہ شخص قطار سے نکل کر باہر کوئی چیز لینے چلا جائے تو واپس آنے تک اپنے نمبر کھو جانے کا ڈر اسے کھائے جاتا ہے، اور اسی سبب معمولی باتوں پر نوک جھونک سے ہوتے ہوئے نوبت گالم گلوچ سے نکل کر ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ البتہ اس دوران چائے فروش اپنی روزی میں برکت کے واسطے ہاتھ میں کیتلی لئے نادرا کے ستائے لوگوں کو چائے فروخت کرنے آجاتا ہے۔



اوسطاً 5 سو افراد روزانہ شناختی کارڈ بنوانے آتے ہیں لیکن صرف پچاس لوگ ہی ٹوکن حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ ٹوکن آپ کو دفتر کے اندر رسائی کے لئے دیا جاتا ہے۔ قطار کا طویل انتظار ایک تکلیف دہ عمل ہے جس میں بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ رہی سہی کسر پارکنگ مافیا بھی پوری کر دیتا ہے، اگر کوئی شخص اپنی گاڑی لے کر کوئی چیز لینے روانہ ہوتا ہے تو لوٹنے پر دوبارہ پارکنگ فیس دینا ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹوکن بھی آپ کی کامیابی کی ضمانت نہیں، ویسے تو ٹوکن حاصل کرنے والے شخص بھی سکون کا سانس نہیں لے پاتے کیونکہ اکثر و بیشتر یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ، کیمرا چارج نہیں ہے انتظار کریں ابھی سسٹم فیلئیر ہے، لائیٹ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔




آپ سب لوگ جانتے ہی ہیں کہ شناختی کارڈ بنوانا کتنا مشکل عمل ہے کیونکہ نادرا کے ملازمین کی نااہلیاں کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایک اہم بات کی نشاندہی قارئین کے لئے کرتا چلوں کہ، وہ پاکستانی شہری جن کی عمر اٹھارہ سال ہوگئی ہے وہ نیا شناختی کارڈ نادرا کے نئے آن لائن طریقے کے مطابق نہیں بنوا سکتے کیوں کہ نادرا نے جو شناختی کارڈ کے حصول کے لئے آن لائن طریقہ متعارف کرایا ہے، وہ صرف ان افراد کے لئے جو پہلے شناختی کارڈ کی مدت پوری ہوجانے کے بعد دوبارہ شناختی کارڈ بنواتے ہیں ۔

بہرحال دو دن برباد کرنے کہ باوجود بھی میرے بھائی کا شناختی کارڈ نہیں بن سکا تھا اور وہ ان 2 دنوں میں کتنا پریشان رہا ہوگا اس بات کا انداذہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ قصہ المختصر یہ کہ ہمیں مجبوری میں کسی ایجنٹ کی مدد لینا پڑی اور فیس کے علاوہ 2 ہزار روپے چائے پانی کا خرچہ دیا، تا کہ ایک پاکستانی کو اس کے قانونی طور پر پاکستان کا شہری ہونے کی دستاویز مل جائے۔

میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ کورنگی سمیت جہاں جہاں شہریوں کو مشکلات ہیں وہاں نیا نادرا مرکز قائم کیا جائے اور ساتھ ہی نااہل ملازمین کے خلاف سخت کاروائی بھی کی جائے جن کی وجہ سے شہری ذہنی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔

[poll id="690"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story