دنیا یونی پولر نہ رہی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس نے ایک طویل عرصے کے بعد یہ ثابت کر دیا کہ دنیا بدل چکی ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

ISLAMABAD:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس نے ایک طویل عرصے کے بعد یہ ثابت کر دیا کہ دنیا بدل چکی ہے۔ اب یہ یونی پولر (یک قطبی) نہ رہی۔ اس کے آثار تو گزشتہ 5-4 برس سے نمایاں تھے خصوصاً شام کے مسئلے پر نیٹو اور رشین فیڈریشن کے صدر ولادی میر پیوتن کے متوازی خیالات۔ بڑا تعجب ہے پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کا ماسکو کا دورہ ایک بڑی خلیج کو پاٹنے کی کوشش اور بدلتے حالات میں پاکستان کا موقف پیش کرنے کے مترادف ہے۔

گو کہ یہ کام پاکستان کی وزارت خارجہ کا تھا کہ جہاں جہاں بھی سفارتی دراڑیں ہیں ان میں پلاسٹر آف پیرس لگائیں اور ہم رنگ بنائیں۔ مگر یہ کام فوجی قیادت کر رہی ہے۔ یہ دراڑیں آج کی نہیں اس وقت کی ہیں جب بڈھ بیر ایئربیس سے امریکی یوٹو اڑا اور وہ مار گرایا گیا۔ پھر نور محمد ترہ کئی کی حکومت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے زمانے سے مخالف موقف، مگر پاکستان کی چین کی دوستی نے روسی قیادت کو قریب لانے میں بھی ایک مضبوط سیڑھی کا کام کیا ہے۔

روس اور چین کا عالمی سیاست میں ایک ہی کردار ہے یا یوں کہیے کہ روس کے موقف کی چین تائید کرتا ہے گو کہ روس میں کمیونسٹ حکومت قائم نہیں البتہ ولادی میر پیوتن سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی ''کے جی بی'' کے سربراہ رہ چکے ہیں اور سیاسی وقت پڑنے پر وہ ان قوتوں کو استعمال کرتے ہیں۔

جیسا کہ انھوں نے یوکرین میں تصادم کے وقت ہتھوڑا اور درانتی والے جھنڈے اٹھائے ہوئے لوگوں کو یوکرین کے خلاف کھڑا ہونے میں مدد دی اور بالآخر پورے یوکرین پر نیٹو کا تسلط برقرار نہ رہا ہے اور یوکرین لخت لخت ہو گیا، آزاد ریاست بن گئی اور یہ رشین فیڈریشن کا حصہ بن گئی یہ پہلا موقع تھا کہ 23 سال میں رشین فیڈریشن نے نیٹو کے خلاف سر اٹھایا۔

امریکا نے بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس لمحے کو غنیمت جانا اور یوکرین کے صدر سے تقریر کروا ڈالی جو پیوتن کے خلاف ایک ہتھوڑے کی آواز تھی۔ بقول یوکرین کے صدر پروشنکو (Proshenko) کے پیوتن داعش کی سفاکی کی کیونکر مذمت کرتے ہیں جب کہ وہ خود ریاستوں کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتے۔ باغیوں کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ ان کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔

وہ داعش کے خلاف عالمی اتحاد کیسے قائم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں جب کہ انھوں نے یوکرین میں خود مداخلت کی۔ جب کہ وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ یوکرین کے منتخب صدر کو تو خود انھوں نے دھرنے کی سیاست اور قومی اسمبلی کا گھیراؤ کر کے بھگا دیا ہے اور امریکا کی تائید میں وہ یہاں براجمان ہیں۔ بہرحال عالمی سوال و جواب کا یہ فورم دلچسپ معلومات کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔

کیوبا کے موجودہ صدر راہول کاسترو اور صدر اوباما کے مابین جنرل اسمبلی میں روبرو گفتگو کے مواقعے ملے۔ دونوں لیڈروں نے مستقبل کے تعلقات دو طرفہ تجارت اور ثقافتی امور پر گفتگو کی جو دونوں ملکوں کے مابین پہلی مثبت گفتگو تھی۔ دو مختلف نظریات کے ممالک ایک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دوسرا امریکا سرمایہ داروں کی جنت، بغلگیر نظر آئے ابتدائے عشق کے تقاضے پورے کیے جا رہے تھے بقول میرؔ:

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا


ابھی کیوبا میں پہلا گرجا گھر تعمیر ہوا اور دعائیں ہوئی ہیں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی جاری ہے۔ ایک بڑی بات جو ایک افریقی ملک زمبابوے جو کرکٹ میں اپنا مقام رکھتا ہے اس کے صدر رابرٹ موگابے نے مغربی دنیا کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ مغربی دنیا کس طرح ہم کو جرأت دکھاتی ہے اور کردار سنوارنے کی باتیں کرتی ہے۔ رابرٹ موگابے نے اپنی تقریر میں زور دے کر کہا کہ ہم گیز (Gays) نہیں اور نہ ان کی توصیف کرتے ہیں۔ ہم لوگ ہم جنس پرست قوم نہیں اور نہ ہی ہم ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ انسانی حقوق کی باتیں ہمیں نہ سکھائیں تو بہتر ہو گا۔

ہر ملک میں انسانی حقوق کی آڑ میں مداخلت کی جاتی ہے عام طور پر افریقی ممالک میں خانہ جنگی کی کیفیت جاری ہے۔ خاص طور سے مسلم اور کرسچن مشترکہ آبادی والے ممالک تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزر رہے ہیں یا یہ کشمکش جاری ہے۔ انتہا پسند قوتیں سرگرم ہیں خصوصاً افریقہ میں بوکو حرام نامی تنظیم۔ درحقیقت انتہا پسندی کا بیج وہیں نمو پاتا ہے جہاں عدل غائب ہے، غریب تیسرے درجے کے شہری ہیں اور انسانی حقوق ان سے روا نہیں رکھے جاتے۔ لہٰذا وہ معاشی مساوات اور عدل کے نعرے ان کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور وہ جدوجہد اور سفاکی کا فرق نہیں جانتے۔ ایک زمانے میں دنیا میں سوشلزم کی تحریک چل رہی تھی جس سے نوجوان متاثر ہو کر انقلاب لانے کی کوشش میں مصروف تھے۔

مگر جب سے یہ تحریکیں کمزور پڑ گئیں اور زر کی پوجائی تحریک چل پڑی دنیا دو قسم کے لوگوں کا مسکن بن گئی۔ ایک وہ جو سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کا حصہ بن گئے اور کرپٹ لیڈروں کی پشت پناہی میں مصروف عمل ہو گئے۔ نسل پرستی، اقربا پروری، فرقہ پرستی کے عفریت سے چمٹ گئے۔ بادشاہت اور ان کی پیروی کرنے والے اپنی کرسی مضبوط کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیتے رہے اور اس طرح کرپٹ دھن والوں کی پوجا کرنا ایک سیاسی چال بن گیا۔

لوگوں کو ان کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے فرقہ پرستی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا پہلا شکار وہ ممالک ہوئے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے فرقہ پرست تحریکوں کو نیتن یاہو کی پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ ان تنظیموں نے ہر مسلم ملک میں خوں ریزی روا رکھی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی ہے۔

یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ انسان کا دماغ خیالات کا سرچشمہ ہے ایک گھر میں ایک مسئلے پر کئی آرا ہوتی ہیں تو ظاہر ہے نئے افکار کی ترویج سے لوگ نئے خیالات کے اسیر تو ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب منطق و دلائل سے دماغ کو مسخر کرنا ہوتا ہے نہ کہ مخالفین کی گردن کو کاٹ کر ان کے کلیجے کو چبا لیا جائے ان مسلم تنظیموں نے ایک گولی بھی اسرائیل کے خلاف نہیں چلائی اور اپنے ہی بھائیوں کی سرزمین کو اسلحوں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ نیتن یاہو نے ان تنظیموں کی سرپرستی کا کھلے عام اعتراف کیا مگر ان اسلامی تنظیموں کے دعویداروں کے نعروں میں کشش ہے۔ ایک تو ان کا پرچم جس پر مہر نبوت درج ہے، ان کے مساوات کے نعرے نوجوانوں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔

گزشتہ 5-4 برسوں کی خوں ریزی نے ان کی پوزیشن متنازع کر دی ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا بھی ان کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کے خاتمے میں امریکا نے فوجی بغاوت کی سرپرستی کی اور کسی قسم کی قدغن نہ لگائی۔ جنرل ابوالفتح السیسی جو مصر کی حکومت کے صدر ہیں گزشتہ ہفتے انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں داعش کو اپنے ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیا اور رفتہ رفتہ وہ بھی دبے دبے الفاظ میں روس کی حمایت کرنے لگے کیونکہ انھوں نے شام کی موجودہ حکومت کو باغیوں کے مقابلے میں زیادہ معتبر قرار دیا۔

اس طرح مشرق وسطیٰ میں جو حکمت عملی ڈیمو کریٹس نے بنائی تھی وہ غیر موثر ہو گئی اور نیٹو نے اپنے کیے کی سزا پائی موج در موج مہاجرین نے جو مغرب کا رخ کیا اس سے وہ اور زخم خوردہ ہو گئی اور مغرب لاکھوں مہاجرین کو اپنے ملک میں بسانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لہٰذا مغربی حکومتیں جو ایک زمانے میں شام کی حکومت کا تختہ الٹنے میں باغیوں کے ساتھ تھیں وہ سب خاموش ہیں اور زیر لب یہ روسی صدر کے موقف کی تائید کر رہے ہیں۔ کیونکہ روسی صدر نے مغربی ممالک کے عوام کے دل موہ لیے ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ آ گیا ہے کہ جب تک شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جنگ اور خلفشار جاری ہے مغرب میں مہاجرین آتے رہیں گے۔

اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ولادی میر پیوتن مغرب کے خلا کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور شام کی حمایت میں وہ رشین فیڈریشن سے اجازت لیں گے اور امریکا خاموش تماشائی رہے گا۔ رہ گیا فلسطینی ریاست کا تو اس کا جھنڈا اقوام متحدہ میں لہرا رہا تھا اور جھنڈے کی تعریف ہر ملک نے کی۔ پاکستان اور بھارت جن کو ایک دوسرے کا حلیف ہونا چاہیے تھا وہ کشمیر کی وجہ سے کشیدگی کی دہلیز پر ہیں اور دونوں ملکوں کی سیاسی لیڈر شپ کسی حل پر نہیں ٹھہر رہی ہیں۔ پاکستان کے قائد نے اپنی انگریزی تقریر سے اقوام متحدہ میں جادو جگانے کی کوشش کی جس سے ملک کو خاطر خواہ فائدہ نہ ہو گا کیونکہ اردو زبان میں پاکستان اپنا مقدمہ بہتر طریقے سے پیش کر سکتا تھا۔

زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
Load Next Story