ایک مسلمان وزیر اعظم
حقیقت پسند پاکستانی سقوط ڈھاکا کو ایک انتقام سمجھ سکتے ہیں
NEW DELHI:
ایک شریف باعزت جرات مند اور بہادر لیڈر کو دنیا کے سامنے جو کچھ اور جس طرح کہنا تھا وہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے وطن عزیز کے بارے میں کہہ دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی سربراہ نے پاکستان اور اس کے نام کی لاج رکھ لی۔
مشکل یہ تھی کہ اس کے مقابلے میں جو ملک کھڑا تھا اور جس کا مرتبہ اور آبادی دونوں اس ملک سے زیادہ تھی علاوہ ازیں دنیا میں اسے طاقت ور ملکوں کی طرف سے تھپکی بھی مل رہی تھی جو اس کی اندر کی بزدلی اور خوف پر کسی حد تک قابو پانے میں مدد گار تھی۔
بظاہر یوں دکھائی دیتا تھا کہ پاکستان کا مخالف ملک پاکستان پر ایک غالب ملک ہے لیکن ہزار برس سے زیادہ عرصہ تک کا سیاسی اور سماجی تعلق بتاتا تھا کہ بات یوں نہیں کوئی ہزار برس کی غلامی کے تعلق کا طوق ابھی پوری طرح اترا نہیں ہے اور اس کے باوجود حالات بدل گئے اور بھارت کو ایک عارضی فتح بھی مل گئی لیکن جب بھی اس کے اندر کا خوف کچھ کم ہوا اور زبان کھل سکی تو ہزار برس کی اس غلامی کا انتقام زبان پر آ گیا۔
حقیقت پسند پاکستانی سقوط ڈھاکا کو ایک انتقام سمجھ سکتے ہیں لیکن فوجی طاقت کی بات کریں تو میں ایک پاکستانی یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ ان انتقامی کمزور لمحات کے باوجود پاکستان کسی بیرونی طاقت کی تھپکی اور حوصلہ افزائی کے بغیر اپنے کم آبادی اور کم رقبے کے باوجود ڈٹ کر کھڑا ہے اور آج اس کا وزیر اعظم جو کہہ رہا ہے دشمنوں کو بھی اسے سننا پڑتا ہے کیونکہ اس کے پاس آج اپنی بات سنانے کی طاقت موجود ہے۔
وہ دنیا میں امن کی بات کر رہا ہے اور انسانیت کی فلاح کا ذکر کرتا ہے اور اپنی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک جاندار باعزت اور بہادر قوم کا نمایندہ ہے کسی کی تھپکی اور سہارے کا محتاج نہیں ہے وہ آزاد ہے اور کشمیر کے طویل تنازعے کو بھی بظاہر طاقت ور کسی ملک کے سامنے زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ کشمیر کو دشمن کے گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑی بنا کر اسے عاجز کر رکھا ہے۔ پاکستان کی فوج کے برابر برابر فوج اس نے کشمیریوں کو قابو کرنے کے لیے کشمیر میں لگا رکھی ہے اور دعویٰ کسی امن کا ہے۔ اس کے آقا امریکا کے صدر نے کہا ہے کہ امن طاقت کے ذریعے قائم نہیں ہو سکتا۔
عراق میں اس طرح امن قائم کر کے اس نے دیکھ لیا ہے مگر اندر سے بزدل لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ طاقت کا استعمال بدامنی کو ختم کر سکتا ہے لیکن دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوا اور نہ ہی ہو گا۔ بھارت کشمیر میں اس سے زیادہ فوج لے آئے ایک بوڑھے لیڈر کو قابو نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے اندر جو ایمان کی طاقت ہے وہ کسی فوج سے نہیں ڈرتی۔ علی گیلانی صرف خدا سے ڈرتا ہے۔
میں یہاں ایک بار پھر مسلمان اور ہندو قوم کی اندرونی طاقت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں فوجی کلچر ایک مسلمان قوم کا کلچر ہے جس کے ہیرو فوج کے سپہ سالار رہے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کی طاقت کے بل پر فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ مسلمانوں کی فوجی طاقت اور فتوحات کی ایک تاریخ ہے جو تاریخی عمارتوں کی صورت میں بھی موجود ہے اور حال ہی میں بغداد دمشق اور دوسرے مسلمان ملکوں پر بمباری کر کے ان کے آثار کو مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان تاریخی کھنڈروں نے کسی امریکا کا کیا بگاڑا تھا لیکن ان کا وجود کچھ یاد دلاتا تھا۔
وہی بات کہ ایک فرانسیسی کرنل نے دمشق میں صلاح الدین ایوبی کی قبر کو ٹھوکر مار کر کہا تھا کہ اٹھو صلاح الدین ہم آ گئے ہیں۔ ایک واقعہ سن لیجیے کہ عکّہ کے میدان جنگ میں پورے یورپ کے پادری اور بہادر جمع ہو گئے تعداد لاکھوں تک جا پہنچی۔ یہ فوجی ہجوم دیکھ کر سلطان صلاح الدین کے چند جرنیل ان کے خیمے میں داخل ہوئے اور عرض کیا کہ دشمن بہت زیادہ ہے اور ہم اس کے مقابلے میں بہت کم ہیں کیا خیال ہے اگر ہم جنگ ملتوی کر دیں کسی مناسب وقت تک۔ سلطان نے یہ بات سنی اور کہا کہ خیمے کا پردہ ہٹائیں کہ میں بھی یہ بھاری فوجی طاقت دیکھ لوں۔
انھوں نے دیکھا اور کہا کہ دشمن نے اپنی آخری حد کر دی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر ہم اس بھاری فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارا دشمن ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ بات یوں ہے کہ مسلمان سپاہی کی سوچ بعض اوقات مختلف ہوتی ہے۔ ابتدائے اسلام کی بات ہے جب کسی نے کہا ہم تو جنگ نہیں کرتے جہاد کرتے ہیں۔ بھارتیوں کو میں خس خاشاک سمجھتا ہوں بشرطیکہ میں خود اپنی ایمانی قوت کے ساتھ تلوار اٹھاؤں جو آج کی ضرب عضب بھی ہو سکتی ہے۔
ایک شریف باعزت جرات مند اور بہادر لیڈر کو دنیا کے سامنے جو کچھ اور جس طرح کہنا تھا وہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے وطن عزیز کے بارے میں کہہ دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی سربراہ نے پاکستان اور اس کے نام کی لاج رکھ لی۔
مشکل یہ تھی کہ اس کے مقابلے میں جو ملک کھڑا تھا اور جس کا مرتبہ اور آبادی دونوں اس ملک سے زیادہ تھی علاوہ ازیں دنیا میں اسے طاقت ور ملکوں کی طرف سے تھپکی بھی مل رہی تھی جو اس کی اندر کی بزدلی اور خوف پر کسی حد تک قابو پانے میں مدد گار تھی۔
بظاہر یوں دکھائی دیتا تھا کہ پاکستان کا مخالف ملک پاکستان پر ایک غالب ملک ہے لیکن ہزار برس سے زیادہ عرصہ تک کا سیاسی اور سماجی تعلق بتاتا تھا کہ بات یوں نہیں کوئی ہزار برس کی غلامی کے تعلق کا طوق ابھی پوری طرح اترا نہیں ہے اور اس کے باوجود حالات بدل گئے اور بھارت کو ایک عارضی فتح بھی مل گئی لیکن جب بھی اس کے اندر کا خوف کچھ کم ہوا اور زبان کھل سکی تو ہزار برس کی اس غلامی کا انتقام زبان پر آ گیا۔
حقیقت پسند پاکستانی سقوط ڈھاکا کو ایک انتقام سمجھ سکتے ہیں لیکن فوجی طاقت کی بات کریں تو میں ایک پاکستانی یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ ان انتقامی کمزور لمحات کے باوجود پاکستان کسی بیرونی طاقت کی تھپکی اور حوصلہ افزائی کے بغیر اپنے کم آبادی اور کم رقبے کے باوجود ڈٹ کر کھڑا ہے اور آج اس کا وزیر اعظم جو کہہ رہا ہے دشمنوں کو بھی اسے سننا پڑتا ہے کیونکہ اس کے پاس آج اپنی بات سنانے کی طاقت موجود ہے۔
وہ دنیا میں امن کی بات کر رہا ہے اور انسانیت کی فلاح کا ذکر کرتا ہے اور اپنی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک جاندار باعزت اور بہادر قوم کا نمایندہ ہے کسی کی تھپکی اور سہارے کا محتاج نہیں ہے وہ آزاد ہے اور کشمیر کے طویل تنازعے کو بھی بظاہر طاقت ور کسی ملک کے سامنے زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ کشمیر کو دشمن کے گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑی بنا کر اسے عاجز کر رکھا ہے۔ پاکستان کی فوج کے برابر برابر فوج اس نے کشمیریوں کو قابو کرنے کے لیے کشمیر میں لگا رکھی ہے اور دعویٰ کسی امن کا ہے۔ اس کے آقا امریکا کے صدر نے کہا ہے کہ امن طاقت کے ذریعے قائم نہیں ہو سکتا۔
عراق میں اس طرح امن قائم کر کے اس نے دیکھ لیا ہے مگر اندر سے بزدل لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ طاقت کا استعمال بدامنی کو ختم کر سکتا ہے لیکن دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوا اور نہ ہی ہو گا۔ بھارت کشمیر میں اس سے زیادہ فوج لے آئے ایک بوڑھے لیڈر کو قابو نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے اندر جو ایمان کی طاقت ہے وہ کسی فوج سے نہیں ڈرتی۔ علی گیلانی صرف خدا سے ڈرتا ہے۔
میں یہاں ایک بار پھر مسلمان اور ہندو قوم کی اندرونی طاقت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں فوجی کلچر ایک مسلمان قوم کا کلچر ہے جس کے ہیرو فوج کے سپہ سالار رہے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کی طاقت کے بل پر فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ مسلمانوں کی فوجی طاقت اور فتوحات کی ایک تاریخ ہے جو تاریخی عمارتوں کی صورت میں بھی موجود ہے اور حال ہی میں بغداد دمشق اور دوسرے مسلمان ملکوں پر بمباری کر کے ان کے آثار کو مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان تاریخی کھنڈروں نے کسی امریکا کا کیا بگاڑا تھا لیکن ان کا وجود کچھ یاد دلاتا تھا۔
وہی بات کہ ایک فرانسیسی کرنل نے دمشق میں صلاح الدین ایوبی کی قبر کو ٹھوکر مار کر کہا تھا کہ اٹھو صلاح الدین ہم آ گئے ہیں۔ ایک واقعہ سن لیجیے کہ عکّہ کے میدان جنگ میں پورے یورپ کے پادری اور بہادر جمع ہو گئے تعداد لاکھوں تک جا پہنچی۔ یہ فوجی ہجوم دیکھ کر سلطان صلاح الدین کے چند جرنیل ان کے خیمے میں داخل ہوئے اور عرض کیا کہ دشمن بہت زیادہ ہے اور ہم اس کے مقابلے میں بہت کم ہیں کیا خیال ہے اگر ہم جنگ ملتوی کر دیں کسی مناسب وقت تک۔ سلطان نے یہ بات سنی اور کہا کہ خیمے کا پردہ ہٹائیں کہ میں بھی یہ بھاری فوجی طاقت دیکھ لوں۔
انھوں نے دیکھا اور کہا کہ دشمن نے اپنی آخری حد کر دی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر ہم اس بھاری فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارا دشمن ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ بات یوں ہے کہ مسلمان سپاہی کی سوچ بعض اوقات مختلف ہوتی ہے۔ ابتدائے اسلام کی بات ہے جب کسی نے کہا ہم تو جنگ نہیں کرتے جہاد کرتے ہیں۔ بھارتیوں کو میں خس خاشاک سمجھتا ہوں بشرطیکہ میں خود اپنی ایمانی قوت کے ساتھ تلوار اٹھاؤں جو آج کی ضرب عضب بھی ہو سکتی ہے۔