یورو بانڈآئی ایم ایف پروگرام کے تحت جاری کیے گئے
بانڈزرمبادلہ ذخائروکیش فلوبرقراررکھنے میں معاون،تاخیر سے لاگت بڑھ جاتی
لاہور:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 500ملین ڈالر کے یورو بانڈز کی کامیاب نیلامی پر مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے خدشات کی نفی کرتے ہوئے اسے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت متعین کردہ کارکردگی کے معیارات کو پورا کرنے میں معاون قرار دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے میکرو حالات میں نمایاں بہتری کے باوجود پاکستان یورو بانڈ کم لاگت پر فروخت کرنے کے قابل کیوں نہ ہوا، بانڈ کے اجرا کے وقت پر بھی تنقید کی جا رہی ہے اور وقت کا یہ چناؤ ہی بلند لاگت کا سبب سمجھا جا رہا ہے۔
موقع یا وقت کی دشواریوں کے باوجود یورو بانڈ کا اجرا بہت سی وجوہ سے اہم ہے، اگرچہ اسے ماضی کے اجرا کے مقابلے میں مہنگا سمجھا جا سکتا ہے تاہم بہت سے فوائد بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں، سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ اجرا رواں سال کے بجٹ کی نقد رقوم (cash flows) کو برقرار رکھنے اورآئی ایم ایف پروگرام کے تحت متعین کیے گئے کارکردگی کے بہت سے معیاروں کو پورا کرنے میں مددگار ہے۔
بانڈ کے اجرا کا ایک اور اہم پہلو ملکی زرمبادلہ ذخائر کو برقرار رکھنے میں مدد دینا ہے، فی الحال اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر کم از کم حد یعنی3ماہ کی درآمدات سے خاصے اوپر ہیں جو بیرونی شعبے کے استحکام کے نقطہ نظر سے کافی تصور کیا جاتا ہے، اس رجحان کو برقرار رکھنا ضروری ہے، فی الحال پاکستان کا بیرونی قرضہ بہ نسبت جی ڈی پی اپنے ہمسر ملکوں سے خاصا کم ہے۔
بانڈ کو8.25 فیصد کی قیمت پر فروخت کرنے کوبھی منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے تاہم معاشی صورتحال میں بہتری سے قطع نظر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار دیگر عالمی عوامل پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں مزید براں مجموعی طور پر مارکیٹ کے حالات ویسے نہیں جیسے چند برس قبل تھے۔ بانڈ کے وقت کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ تاخیر زیادہ مناسب ہوتی کیونکہ سرمایہ کارعالمی اقتصادی صورتحال کے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں مگر اسٹیٹ بینک کے خیال میں تاخیر سے بانڈ کے اجراکی لاگت بڑھ سکتی تھی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 500ملین ڈالر کے یورو بانڈز کی کامیاب نیلامی پر مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے خدشات کی نفی کرتے ہوئے اسے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت متعین کردہ کارکردگی کے معیارات کو پورا کرنے میں معاون قرار دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے میکرو حالات میں نمایاں بہتری کے باوجود پاکستان یورو بانڈ کم لاگت پر فروخت کرنے کے قابل کیوں نہ ہوا، بانڈ کے اجرا کے وقت پر بھی تنقید کی جا رہی ہے اور وقت کا یہ چناؤ ہی بلند لاگت کا سبب سمجھا جا رہا ہے۔
موقع یا وقت کی دشواریوں کے باوجود یورو بانڈ کا اجرا بہت سی وجوہ سے اہم ہے، اگرچہ اسے ماضی کے اجرا کے مقابلے میں مہنگا سمجھا جا سکتا ہے تاہم بہت سے فوائد بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں، سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ اجرا رواں سال کے بجٹ کی نقد رقوم (cash flows) کو برقرار رکھنے اورآئی ایم ایف پروگرام کے تحت متعین کیے گئے کارکردگی کے بہت سے معیاروں کو پورا کرنے میں مددگار ہے۔
بانڈ کے اجرا کا ایک اور اہم پہلو ملکی زرمبادلہ ذخائر کو برقرار رکھنے میں مدد دینا ہے، فی الحال اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر کم از کم حد یعنی3ماہ کی درآمدات سے خاصے اوپر ہیں جو بیرونی شعبے کے استحکام کے نقطہ نظر سے کافی تصور کیا جاتا ہے، اس رجحان کو برقرار رکھنا ضروری ہے، فی الحال پاکستان کا بیرونی قرضہ بہ نسبت جی ڈی پی اپنے ہمسر ملکوں سے خاصا کم ہے۔
بانڈ کو8.25 فیصد کی قیمت پر فروخت کرنے کوبھی منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے تاہم معاشی صورتحال میں بہتری سے قطع نظر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار دیگر عالمی عوامل پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں مزید براں مجموعی طور پر مارکیٹ کے حالات ویسے نہیں جیسے چند برس قبل تھے۔ بانڈ کے وقت کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ تاخیر زیادہ مناسب ہوتی کیونکہ سرمایہ کارعالمی اقتصادی صورتحال کے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں مگر اسٹیٹ بینک کے خیال میں تاخیر سے بانڈ کے اجراکی لاگت بڑھ سکتی تھی۔