بُک شیلف

ایک قابل احترام صحافی کی یادداشتوں اور تجزیوں پر مشتمل، جو سقوط ڈھاکا کو سمجھنے کے لیے ایک مدلل نقطۂ نظر پیش کرتی ہے

نہ صرف ابتدائی باب بلکہ پوری کتاب میں مصنف بھی بنی اسرائیل کے مذکورہ بالا آدمی کی طرح اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کااظہار کرتے ہیں:فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ کے رنگ
مصنف:عظمت شیخ
قیمت:300 روپے
ناشر: ہائی پوٹینشل بکس، رحمٰن مارکیٹ اردو بازار ،لاہور



''میں کبھی(یہ کتاب) لکھنے کی ہمت نہ کرتامگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ نظر سے نہ گزراہوتا،اس نے بڑا حوصلہ دیا۔ایک مرتبہ حضرت موسیٰ جنگل سے گزر رہے تھے۔

دیکھا ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے اپنے آپ سے باتیں کر رہاہے ''اے اللہ تعالیٰ ! اگرتومجھے مل جائے توتیرے سر میں کنگھی کروں۔اے اللہ تعالیٰ ! اگر تومجھے مل جائے تو تیرے سر میں مالش کروں، اے اللہ تعالیٰ ! اگر تومجھے مل جائے تو تیرے سر میں سے جوئیں نکالوں''حضرت موسیٰ نے یہ سن کراسے سختی سے ڈانٹا کہ تو کیا اول فول بول رہا ہے کیا اللہ تعالیٰ کوبھی کنگھے کی ضرورت پڑتی ہے، کیااللہ تعالیٰ کے بھی جوئیںپڑتی ہیں۔''

وہ ڈر کر خاموش ہوگیا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کے ذریعے پیغام بھیجا کہ موسیٰ اسے نہ ڈانٹ۔میرا بندہ اپنی عقل و فہم کے مطابق جس طرح مجھ سے باتیں کرتا ہے، کرنے دے۔یہ اس کی محبت اور اس کا فطری اظہار ہے اور مجھے پسند ہے۔ اس واقعے نے مجھے بہت حوصلہ دیا''۔ مصنف کے یہ الفاظ کتاب کے ابتدائی باب سے لئے گئے ہیں۔

یہ باب جناب عظمت شیخ کی آپ بیتی بھی قراردی جاسکتی ہے۔ نہ صرف ابتدائی باب بلکہ پوری کتاب میں مصنف بھی بنی اسرائیل کے مذکورہ بالا آدمی کی طرح اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کااظہار کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا فرزند محض محبت الٰہی سے سرشارتھا جبکہ زیرنظر کتاب کے مصنف معرفت الٰہی سے بھی آگاہ ہیں۔ محبت اور معرفت کا یہ سیل رواں پوری کتاب میں نظرآتا ہے۔ مجلدکتاب کی طباعت، کاغذ اور ٹائٹل بہت شاندار ہے۔

٭٭٭

ایک پاکستانی کا سفر اسرائیل
مصنف:محمد اظہرعلی
قیمت:400 روپے
ناشر:آتش فشاں، 78، ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور



کتاب کا عنوان دیکھتے ہی اچنبھا ہوتا ہے کہ ایک پاکستانی اسرائیل کا سفر کیسے کرسکتا ہے بھلا ، جب کسی بھی پاکستانی پر اسرائیل کا سفر ممنوع ہے۔ پاکستان اسرائیل کو مملکت تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین سمجھتا ہے ، دوسری طرف اسرائیل بھی پاکستانیوں کودشمن سمجھتا ہے۔

اس حیرت کو خود مصنف نے پیش لفظ میں یوں دور کیا:''کامل عروج(مصنف کے فرزند) کی یواین او سے وابستگی کی بدولت ہمارے راستے کی تمام رکاوٹیں اور ضابطے معطل ہوتے گئے۔فلسطین و اسرائیل کے تمام ممنوعہ اور اہم مقامات کے دروازے ہم پر کھل گئے۔ فلسطینیوں کی سیاسی،معاشی اور معاشرتی زندگی کا گہرا مطالعہ کیا۔اسرائیل اور اسرائیلی قوم کی نفسیات اور تحفظات کا بھی قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ارض مقدس، جس کے انجیر اور زیتون کی اللہ نے قسم کھائی ہے، کے طول وعرض اور شرق وغرب کا مشاہدہ کیا۔''

مسافر کے ذہن میں دوران سفر یہ سوال کلبلاتا رہا کہ ایک ہی دادا کی اولاد کیوں اور کیسے ایک دوسرے کے درپے ہوگئی۔ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہوئے وہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہے۔

کتاب سفرنامہ نگار کے گہرے مشاہدے کی عکاس ہے جبکہ منظرکشی قاری کو اپنے ساتھ یوں محو کرلیتی ہے کہ وہ خود کو ان کے ہم رکاب سمجھتا ہے۔تمام مقامات، قبل ازاسلام اور بعدہ کا ایسا دل نشین خاکہ کھینچا ہے کہ دل میں ان مقامات کو دیکھنے کی حسرت جاگ اٹھتی ہے۔ سفید کاغذ پر عمدہ طباعت، دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ یہ مجلد کتاب آپ کی لائبریری کا لازمی حصہ ہونی چاہئے۔

٭٭٭
اردو محاورے
مولف:ڈاکٹر خوشنودہ نیلوفر
قیمت:380 روپے
ناشر: بک کارنر شوروم، بالمقابل اقبال لائبریری بک سٹریٹ جہلم



زبانیں مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر اپنا اعتبار اور وقار بناتی ہیں۔ ان کی نشوونما پرادبا و شعرا اپنا خون جگرصرف کرتے ہیں۔ ان کی لسانی ساخت و پرداخت میں صدیوں کے ادبی سرمائے اور ماحولیاتی و معاشرتی اثرونفوذ کو عمل دخل ہوتا ہے۔دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان بھی اپنے انداز بیان اور اسلوب تحریر میں ان تمام لوازمات کی حامل ہے جو کلام کو حسن اور بیان کو جمال عطا کرتے ہیں۔ الفاظ و تراکیب میں ظاہری حسن اور معنوی جمال جابہ جا ہمیں اردو ذخیرہ ادب میں ملتا ہے۔

محاورے اردو زبان کا لسانی سرمایہ ہیں ، ان کے بطن میں کئی کہانیاں، واقعات و حادثات بھی اسی طرح پوشیدہ ہوتے ہیں جس طرح کہاوتوں میں۔ محاورے زبان کو تہذیب و ثقافت سے جوڑے رکھنے میں معاونت تو کرتے ہی ہیں، کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ باتوں کی ترسیل بھی محاوروں کے ذریعے آسان ہوجاتی ہیں۔

زیرنظر کتاب اردو زبان کے 11000سے زائد محاوروں کو یکجا کیاگیا ہے، ساتھ عام فہم معنی بھی دئے گئے ہیں۔ ڈاکٹرخوشنودہ نیلوفر کی یہ نہایت مفید کاوش ہے جس سے نئی نسل استفادہ کرکے اپنی زبان و بیان کو خوب حسن عطا کرسکتی ہے۔

٭٭٭

فضائیہ میں گزرے ماہ وسال
مصنف: ائیرمارشل(ر) ظفرچودھری
قیمت:300روپے۔۔۔۔۔ناشر:آتش فشاں،78 ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن ،لاہور



ائیرمارشل(ر) ظفرچودھری پاک فضائیہ کے سابق سربراہ اور ان کی زیرنظر کتاب کا عنوان ہی اس کا مکمل تعارف ہے۔ سابق ائیر چیف نے اپنی یادداشتیں بنیادی طورپر انگریزی زبان میں لکھی تھیں، لیکن پھر ان کا اردوترجمہ بھی خود کرڈالا۔ ان کے گزرے مہ وسال کا ذکر اس قدر دلچسپ ہے کہ کتاب ایک ہی نشست میں پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ قیام پاکستان سے دوبرس قبل بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے دورہ پشاور کا احوال یوں بیان کرتے ہیں:

'' قائداعظم 1945ء میں پشاور تشریف لائے ، جن دنوں میں وہاں فضائیہ کے ایک یونٹ میں متعین تھا۔ وہ دہلی سے انڈین نیشنل ائیرویز کی اس پرواز سے آرہے تھے جو دوپہر کے وقت پشاور پہنچتی تھی اور جس پر کوئی چودہ پندرہ سیٹوں والا جہاز چلتاتھا۔قائداعظم کی متوقع آمد کے سبب ہندوستانی افسروں میں خاصی گرما گرم بحث ہونے لگی جو کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ ترش اور ناخوشگوار بھی ہوجاتی اور جس میں ہمارے ساتھ کے چند ہندوافسران کا گہرا تعصب بھی نمایاں ہوجاتا۔

جس دن قائداعظم کو آنا تھا ، اس روز پھر خاصی تکرار ہوئی جس کے اختتام پر ایک بنگالی پائلٹ بنام بھاسکرن دت نے اعلان کیا:'' آج میرے جہاز کی مشین گنیں لوڈڈ ہوں گی اور میں اس جہاز کو مارگراؤں گا جس میں جناح آرہاہے۔'' یہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میں نے اسے للکارا:'' بچُّو! میرا جہاز تمہارے ساتھ چمٹا رہے گا اور پیشتر اس کے کہ تم اس جہاز کے پاس پھٹکو، میں تمہیں مارگراؤں گا''۔ میں نے اس کے ساتھ ہی ٹیک آف کیا اور اس کے جہاز کو ایک لمحے کے لئے نظر سے اوجھل نہ ہونے دیا''۔


مصنف بھٹو دور میں ریٹائرڈ کردئیے گئے، یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ ایک اقدام جس کی اس وقت کے وزیراعظم بھٹو نے 'واہ'،' واہ' منظوری دی تھی، جب ائیرچیف اس پر عمل درآمد کرگزرے، اسی کی ''پاداش'' میں ان کو ریٹائرڈ کردیاگیا۔ ایسے ہی دلچسپ واقعات کا مجموعہ یہ زیرنظر کتاب۔ پڑھئے اور سردھنئے۔( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)

٭٭٭
بچپن، لڑکپن اور بھولپن
مصنف: ڈاکٹرآصف محمود جاہ
قیمت:300 روپے
ناشر:علم وعرفان پبلشرز، 34 اردوبازار ،لاہور



انسان کے لئے بچپن سے ابتدائے جوانی تک کے ادوار انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اگلی زندگی کا کافی حد تک دارومدار ان ادوار پر ہوتاہے۔ انسان کی صحت اور شخصیت، دونوں کا بناؤ اور بگاڑ اسی عہد میں ہوتاہے۔

زیرنظرکتاب کے عنوان ہی سے ظاہر ہوتاہے کہ اس میں ان سارے ادوار کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے۔ اس کا پہلا حصہ ' لڑکی کا عورت کی طرف سفر' ہے ،ابتدا میں لڑکیوں کے خطوط دیے گئے ہیں جن میں وہ اپنے مسائل کا ذکر کرتی ہیں، بعدازاں انہی خطوط کی بنیاد پر لڑکپن میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ ۔ دوسرا حصہ' نوبالغ لڑکے کا مرد بننا ' ہے۔

اس میں بھی ابتداً لڑکوں کے خطوط شامل کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد لڑکوں کو جن تبدیلیوں سے گزرناپڑتا ہے ، ان کا ذکر کیاگیاہے، مسائل اور ان کا حل بتایاگیاہے۔ تیسرا حصہ' کامیابی کا راستہ ' ہے۔

اس میں آرٹ آف لیونگ، کامیابی کا راستہ، اظہاربیان کے فن کو کیسے ترقی دی جائے، انٹرویو میں بہتر کارکردگی کیسے دکھائی جائے، ساتھ ہی نوعمری میں نشے کی عادت پر بھی بحث کی گئی ہے۔ چوتھا حصہ' ایڈز اور جنسی بیماریاں' ہے، ہیپاٹائٹس کو بھی شامل کیاگیاہے۔ پانچواں حصہ ' ٹین ایج ہیلتھ گائیڈ' ہے، اس میں اچھی صحت ، موٹاپا، نوبالغوں کے جلدی مسائل، دبلے ہونے کا خبط اور ڈائٹنگ کے نتائج پر مفصل لکھاگیاہے۔ کتاب کے آخر میں نوجوانوں کو کمیونٹی ہیلتھ ورکرز بننے کے لئے ابھاراگیاہے۔

یہ کتاب خاصے کی چیز ہے جو ہرگھر کی ضرورت ہے۔ والدین اور اساتذہ، دونوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں۔

٭٭٭
راحت صحت
مصنف: حکیم راحت نسیم سوہدروی
قیمت: درج نہیں
ناشر:نشریات، الحمدمارکیٹ اردوبازار لاہور



ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں صحت سنبھالنے پر توجہ دینے کے بجائے تمام تر کوششیں صحت بگاڑنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ آپ ذرا گھر سے باہرنکلیں، آپ کو چاروں طرف انسانی صحت سے دشمنی ہوتی نظرآئے گی، ہرکوئی جانتاہے کہ دنیا میں حکومتیں اور معاشرے سب سے زیادہ فکر صحت اور تعلیم کی کرتی ہیں، شاید ہماری حکومتیں بھی جانتی ہیں لیکن وہ جان بوجھ کر بے فکری پر مبنی رویہ اختیارکرتی ہیں۔ ایسے میں ایک شعور رکھنے والا فرد سوچتاہے کہ وہ بچ کے کہاں جائے!

وہ لوگ خوش نصیب ہیں جنھیں اپنی صحت کا شعور حاصل ہے اور وہ لوگ اس قوم کے محسن ہیں جو بیماریوں میں گرفتار لوگوںکو شعورِ صحت دے رہے ہیں۔ حکیم راحت نسیم سوہدروی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں۔'راحت صحت' کی صورت میں انھوں نے ان تمام موضوعات کا احاطہ کیاہے جن کا تعلق گھرانے اور اس کے ہرفرد کی صحت سے ہوتاہے۔ 'تھکن دور کرنے والی غذائیں'، 'بصارت کو بہتر کرنے والی غذائیں'، 'ذہانت تیز کرنے والی غذائیں'، 'عمربڑھانے والی غذائیں'،'موسم گرما بخیر وخوبی گزارئیے'،' بڑھاپے کے اثرات کو روکئے' اور' یادداشت بڑھانے کے آسان طریقے' سمیت چاردرجن مضامین زیرنظرکتاب میں شامل ہیں۔

ایک مضمون کینسر سے بچاؤ پر بھی ہے۔ اس کا علاج امیروں کے بس کی بات نہیں، ایسے میں غریبوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ موذی مرض سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں۔ خوبصورت ٹائٹل کی حامل مجلد کتاب اپنی جامعیت کے اعتبار سے ہرگھر کی ضرورت ہے۔

٭٭٭
دھرتی جائے کیوں پرائے ؟
مصنف: اعظم معراج'قیمت : 300 روپے
ناشر: جمہوری پبلی کیشنز ، ایوان تجارت روڈ ، لاہور


زیر نظر کتاب مصنف اعظم معراج کی زندگی کے واقعات اور ان سے جڑے تجربات ومشاہدات کی کوکھ سے جنم لینے والی کہانیوں پر مشتمل ہے ۔یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ یہ کتاب پاکستان میں رہنے والے مسیحی نوجوان کی سرگزشت پر مبنی ہے ۔جس کے مطالعہ سے ان مسیحی نوجوانوں کی سوچ ، فکر اور رویوں کا پتا چلتا ہے جنہوں نے اس دھرتی پر جنم لیا ، اس میں پلے بڑھے اور جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو انہیں اپنے ارد گرد کا ماحول اجنبی اور غیر مانوس دکھائی دیا۔

ان کے ساتھ کیے جانے والے سماجی برتاو اورمنفی معاشرتی رویوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اس دھرتی کے بیٹے ہوتے ہوئے بھی خود کو اس سے الگ تھلک اور پرائے محسوس کرنے لگے۔یہ ایسی سوچ اور فکر ہے جو کسی طورپر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔ یہ نوجوان جو دھرتی کے بیٹے ہونے کے باوجود پرائے تصور کیے جاتے ہیں ان کی آدرشیں ، ان کی خواہشات اور تمناوں کا جب خون ہوتا ہے تو پھر منفی جذبات ہی پیدا ہوتے ہیں ۔

یہ کتاب مسیحی نوجوانوں کی اپنے معاشرے سے بیگانگی کی وجوہات ، تاریخ اور دورِ حاضر کے پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔کتاب کو جمہوری پبلی کیشنز نے اپنی روایات کے مطابق معیاری گٹ اپ کے ساتھ بڑے احسن انداز میں شائع کرکے قارئین تک پہنچایا ہے۔

٭٭٭
جہاں سے ہم گزرے
(مشرقی پاکستان سے بنگلا دیش تک)
مصنف: ایس جی ایم بدرالدین، ناشر: درج نہیں
صفحات: 304، قیمت: 900 روپے



زیر تبصرہ کتاب ایک اہم کاوش ہے۔ ایک قابل احترام صحافی کی یادداشتوں اور تجزیوں پر مشتمل، جو سقوط ڈھاکا کو سمجھنے کے لیے ایک مدلل نقطۂ نظر پیش کرتی ہے۔ مرحوم ایس جی ایم بدرالدین کا شمار سنیئر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ پٹنہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تقسیم کے بعد کراچی سے صحافتی سفر کا آغاز کیا۔

پھر مشرقی پاکستان کا رخ کیا۔ کئی برس مارننگ نیوز، ڈھاکا کے ایڈیٹر رہے۔سقوط کے بعد وہ پاکستان کے اہم اخبارات سے منسلک رہے۔ مساوات کے ایڈیٹر رہے۔ ضیا دور میں قیدوبند کی صعوبتیں سہیں۔ یہ کتاب ان کی گاہے بہ گاہے احاطۂ تحریر میں لائی یادداشتوں پر مشتمل ہے، جو ان کی وفات کے بعد ہی شایع ہوسکی۔ کتاب کے سترہ ابواب ہیں۔ چار مضامین کا ترجمہ شامل ہے۔ انگریزی مضامین کو بھی جگہ دی گئی۔ بدرالدین صاحب سے انور شاہد کا کیا ہوا انٹرویو بھی کتاب کا حصہ ہے۔

کتاب کا محرک یوں بیان کرتے ہیں: ''مجھے متعدد مواقع ملے کہ میں پیش آنے والے واقعات کو قریب سے دیکھ سکوں، اس سیاسی عمل کو بھی دیکھ سکوں، جو اس عرصے میں جاری رہا، اور شاید اس طریقے سے میں معروضی طور پر حالات کو اپنے تجزیے میں پیش کرسکوں!''

مختلف واقعات کا آنکھوں دیکھا حال، سیاسی اور صاحبِ اقتدار شخصیات سے ملاقات اور مکالموں کے ذریعے بدرالدین صاحب نے ایک ایسی تصویر پیش کی ہے، جو اِس سانحے کے چند نئے پہلو اجاگر کرتی ہے۔ کتاب میں تصاویر بھی شامل ہیں۔ یہ اشاعت و طباعت کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ البتہ قیمت کچھ زیادہ ہے۔
Load Next Story