تنازع کشمیر… امریکا اور برطانیہ کا کردار
پاکستان اوربھارت کےدرمیان کشیدگی کی وجہ کیا ہےدونوں ملکوں کی قیادت ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کوبھی اسکا بخوبی ادراک ہے
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ عرصے میں خاصی کشیدگی چلی آ رہی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول لائن کی کئی بار خلاف ورزی کی اور سیالکوٹ سیکٹر میں ورکنگ باؤنڈری کی بھی خلاف ورزی کی۔ بھارت کی ان کارروائیوں سے آزاد کشمیر اور پاکستان کے شہریوں کا جانی نقصان ہوا۔
پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ نیویارک میں جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف وہاں موجود تھے جب کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی وہیں تھے، یہ ایسا موقع تھا جب دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہو سکتی تھی جس سے خیرسگالی کا پیغام جاتا لیکن حالات ایسے تھے کہ یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ کیا ہے، دونوں ملکوں کی قیادت ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کو بھی اس کا بخوبی ادراک ہے۔گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے دورے اور وہاں خطاب کے دوران بر ملا کہہ دیا ہے کہ دنیا خطے میں امن چاہتی ہے تو مسئلہ کشمیر حل کرائے۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر پاک بھارت تقسیم کا نا مکمل ایجنڈا اور پاک بھارت تنازعات کی بنیاد ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ بھارتی جارحیت، لائن آف کنٹرول پر اس کی خلاف ورزیاں اور اشتعال انگیز کارروائیاں علاقائی امن کو متاثر کر رہی ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب تک کشمیر کا تنازع موجود ہے، دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار اور پائیدار تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے جہاں خطاب کیا، وہ ملک اس خطے میں موجود تنازعات سے بخوبی آگاہ ہے۔ برصغیر کو ہندوستان اور پاکستان کی صورت میں آزاد کرنے والا ملک برطانیہ ہی تھا۔
برطانوی قیادت کو کشمیر اور بھارت کے الحاق کی حقیقت سے بھی آگاہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت کی کوتاہ بینی اور برطانوی قیادت کی دوعملی کے باعث متنازعہ معاملات کو جلد حل نہ کیا جا سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان تنازعات کی بناء پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی جو بڑھتے بڑھتے 1965ء تک پہنچی اور پھر 71ء کا سانحہ رونما ہوا، جب مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ پھر معرکہ کارگل ہو گیا۔
اب بھی حالات اچھے نہیں ہیں کیونکہ یہ تنازع موجود ہے، یہ کسی بھی وقت بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت اندرا گاندھی نے زیڈ اے بھٹو سے یہ شرط منوا لی تھی کہ مسئلہ کشمیر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا لیکن خود بھارت کی طرف سے تسلسل کے ساتھ کی جانے والی حرکات قبیحہ کا ارتکاب حالات کو خراب کرنے کا باعث بنا۔ اب بلوچستان اور کراچی میں بھی اپنی مذموم سازشوں کے جالے بُن رہا ہے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی ایک اسسٹنٹ کو ''ڈوزیئر'' دے دیے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ شملہ معاہدے کی شرط کو عبور کرتے ہوئے از سرنو عالمی منظر نامے پر پہنچ گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی یہ مسئلہ اٹھایا تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جلی کٹی سنا دی۔ اب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل نے کہا ہے کہ بھارتی جارحیت علاقائی امن کو متاثر کر رہی ہے۔ جنرل راحیل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا بند کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت میں موجود تنازعات کے حل کے لیے عالمی برادری خصوصاً امریکا اور برطانیہ نے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی ضرورت ہے۔ عالمی مفادات کے تحت امریکا اور برطانیہ نے تنازع کشمیر کے حوالے سے گومگو کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ سرد جنگ کے دور میں پاکستان امریکا اور نیٹو کا اتحادی تھا۔
اس حوالے سے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف فائنل شو ڈاؤن میں بھی پاکستان کا رول اہم ترین رہا۔ اسی وجہ سے امریکا اور اس کے اتحادی سوویت یونین کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ سرد جنگ کے دور میں بھارت نے سوویت یونین کا ساتھ دیا لیکن اس کے باوجود امریکا اور برطانیہ نے تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا نہیں کیا بلکہ جب مشرقی پاکستان میں بھارت نے مداخلت کی تو اس وقت بھی یہ دونوں ملک خاموش رہے۔
سفارتی سطح پر امریکا اور برطانیہ یہ ضرور کہتے رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے لیکن جب اس کے حل کی باری آتی تو اس کے ساتھ یہ موقف نتھی کر دیا جاتا کہ فریقین راضی ہوں تو وہ کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں راضی ہوں۔ اب بھارت کیوں راضی ہو گا؟ یوں یہ مسئلہ لٹکتا چلا آیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔
ان ایٹمی قوتوں کے درمیان لڑائی انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ادھر پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، ان حالات میں بھارت اگر کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکے۔ درحقیقت بھارت دہشت گردی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عالمی برادری کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے، امریکا اور برطانیہ کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں کردار ادا کریں۔
پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ نیویارک میں جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف وہاں موجود تھے جب کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی وہیں تھے، یہ ایسا موقع تھا جب دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہو سکتی تھی جس سے خیرسگالی کا پیغام جاتا لیکن حالات ایسے تھے کہ یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ کیا ہے، دونوں ملکوں کی قیادت ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کو بھی اس کا بخوبی ادراک ہے۔گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے دورے اور وہاں خطاب کے دوران بر ملا کہہ دیا ہے کہ دنیا خطے میں امن چاہتی ہے تو مسئلہ کشمیر حل کرائے۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر پاک بھارت تقسیم کا نا مکمل ایجنڈا اور پاک بھارت تنازعات کی بنیاد ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ بھارتی جارحیت، لائن آف کنٹرول پر اس کی خلاف ورزیاں اور اشتعال انگیز کارروائیاں علاقائی امن کو متاثر کر رہی ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب تک کشمیر کا تنازع موجود ہے، دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار اور پائیدار تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے جہاں خطاب کیا، وہ ملک اس خطے میں موجود تنازعات سے بخوبی آگاہ ہے۔ برصغیر کو ہندوستان اور پاکستان کی صورت میں آزاد کرنے والا ملک برطانیہ ہی تھا۔
برطانوی قیادت کو کشمیر اور بھارت کے الحاق کی حقیقت سے بھی آگاہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت کی کوتاہ بینی اور برطانوی قیادت کی دوعملی کے باعث متنازعہ معاملات کو جلد حل نہ کیا جا سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان تنازعات کی بناء پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی جو بڑھتے بڑھتے 1965ء تک پہنچی اور پھر 71ء کا سانحہ رونما ہوا، جب مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ پھر معرکہ کارگل ہو گیا۔
اب بھی حالات اچھے نہیں ہیں کیونکہ یہ تنازع موجود ہے، یہ کسی بھی وقت بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت اندرا گاندھی نے زیڈ اے بھٹو سے یہ شرط منوا لی تھی کہ مسئلہ کشمیر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا لیکن خود بھارت کی طرف سے تسلسل کے ساتھ کی جانے والی حرکات قبیحہ کا ارتکاب حالات کو خراب کرنے کا باعث بنا۔ اب بلوچستان اور کراچی میں بھی اپنی مذموم سازشوں کے جالے بُن رہا ہے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی ایک اسسٹنٹ کو ''ڈوزیئر'' دے دیے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ شملہ معاہدے کی شرط کو عبور کرتے ہوئے از سرنو عالمی منظر نامے پر پہنچ گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی یہ مسئلہ اٹھایا تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جلی کٹی سنا دی۔ اب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل نے کہا ہے کہ بھارتی جارحیت علاقائی امن کو متاثر کر رہی ہے۔ جنرل راحیل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا بند کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت میں موجود تنازعات کے حل کے لیے عالمی برادری خصوصاً امریکا اور برطانیہ نے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی ضرورت ہے۔ عالمی مفادات کے تحت امریکا اور برطانیہ نے تنازع کشمیر کے حوالے سے گومگو کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ سرد جنگ کے دور میں پاکستان امریکا اور نیٹو کا اتحادی تھا۔
اس حوالے سے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف فائنل شو ڈاؤن میں بھی پاکستان کا رول اہم ترین رہا۔ اسی وجہ سے امریکا اور اس کے اتحادی سوویت یونین کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ سرد جنگ کے دور میں بھارت نے سوویت یونین کا ساتھ دیا لیکن اس کے باوجود امریکا اور برطانیہ نے تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا نہیں کیا بلکہ جب مشرقی پاکستان میں بھارت نے مداخلت کی تو اس وقت بھی یہ دونوں ملک خاموش رہے۔
سفارتی سطح پر امریکا اور برطانیہ یہ ضرور کہتے رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے لیکن جب اس کے حل کی باری آتی تو اس کے ساتھ یہ موقف نتھی کر دیا جاتا کہ فریقین راضی ہوں تو وہ کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں راضی ہوں۔ اب بھارت کیوں راضی ہو گا؟ یوں یہ مسئلہ لٹکتا چلا آیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔
ان ایٹمی قوتوں کے درمیان لڑائی انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ادھر پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، ان حالات میں بھارت اگر کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکے۔ درحقیقت بھارت دہشت گردی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عالمی برادری کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے، امریکا اور برطانیہ کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں کردار ادا کریں۔