پھیلتے ہوئے شہر

1981ء میں پہلی بار دبئی اور 1986ء میں دوحہ آنے کا موقع ملا تھا۔

Amjadislam@gmail.com

گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے مکاں کیا کیا

دوحہ قطر کے نئے ہوائی اڈے سے نکل کر ہوٹل سوس بیل کی طرف جاتے ہوئے ہمارے میزبان علی احمد عتیق صاحب نے باتوں کی بھیڑ میں ایک غلط سڑک پکڑ لی۔

اگرچہ گزشتہ تیس برسوں میں متعدد بار اس شہر میں آنا ہوا ہے کہ ہر برس یہاں مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر کی طرف سے پاکستان اور بھارت سے ایک ایک منتخب ادیب کو ایوارڈ دینے کے ساتھ ساتھ ایک عالمی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور ہر بار میں نے اس شہر کو پہلے سے مختلف اور وسیع تر پایا ہے مگر یہ اندازہ پہلی بار ہوا کہ اب یہ نسبتاً محدود آبادی کے باوجود اپنے پھیلاؤ کے اعتبار سے ایک بڑا شہر بن چکا ہے کہ ہمیں اس ایک غلط کاٹے ہوئے موڑ کی قیمت کم از کم 20 منٹ کے اضافی سفر کی شکل میں ادا کرنا پڑی۔

مجھے دنیا کے کچھ بڑے بڑے شہروں مثلاً بیجنگ، نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس، لندن، ٹورانٹو، ٹوکیو، ممبئی اور کراچی میں بھی کم یا زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے اور بلاشبہ یہ شہر بھی ابھی تک مسلسل پھیل رہے ہیں لیکن جتنی تیزی سے خلیجی ممالک کے کچھ شہروں بالخصوص دبئی اور دوحہ کا رہائشی رقبہ بڑھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

1981ء میں پہلی بار دبئی اور 1986ء میں دوحہ آنے کا موقع ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت ان دونوں شہروں کے ہوائی اڈے ہمارے ملتان (پرانے) اور کوئٹہ کے ایئرپورٹس سے بہتر نہیں تھے۔ دوحہ ایئرپورٹ پر امیگریشن کے صرف چار کاؤنٹر تھے اور دبئی ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی بازار شروع ہو جاتا تھا اور ابھی کسی کی اپنی ایئرلائن بھی وجود میں نہیں آئی تھی۔

ایسا کیوں اور کیسے ہوا یہ ایک بہت دلچسپ مگر فکرانگیز سوال ہے کہ آج ان دونوں علاقوں کی جو ایئرلائنز دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار ہوتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کی بنیاد ابتدائی ٹریننگ تعمیر اور ترقی میں سب سے زیادہ رول پاکستان کی اس بدنصیب ایئرلائن یعنی PIA کا رہا ہے جس کا اب کوئی نام بھی نہیں لیتا۔


تو بات ہو رہی تھی شہروں کے پھیلاؤ کی کہ اب ایک مرکزی سڑک کے آس پاس آباد دوحہ جدید ترین ذیلی سڑکوں اور شاہراہوں سے اس قدر بھر چکا ہے کہ بقول شخصے دوحہ کے چاروں طرف بھی دوحہ پھیلا ہوا ہے۔ 2006ء میں یہاں ایشین گیمز ہوئیں اور اب 2022ء میں فٹ بال کا عالمی کپ ہو گا۔ پٹرول اور گیس کے ذخائر، الجزیرہ ٹی وی چینل اور امریکا سے باہر امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے کے باعث اب یہ شہر عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

اردو زبان و ادب کے حوالے سے بھی گلف ایریا میں دوحہ کو سب سے زیادہ متحرک علاقہ کہا جا سکتا ہے کہ یوں تو کویت، مسقط، بحرین، ابو ظہبی اور دبئی میں ادبی تقریبات کا انعقاد تاریخی اعتبار سے شروع ہوا اور بالخصوص دبئی میں اسی کی دہائی کے آغاز میں مرحوم سلیم جعفری نے زندہ ادبی مشاہیر کے جشن منانے کا جو سلسلہ شروع کیا ۔

اس کی بازگشت دنیا بھر میں سنی گئی مگر یہ روایت اس کے ساتھ ہی دم توڑ گئی جب کہ باقی ممالک میں بھی مختلف تنظیمیں اور افراد کچھ دیر کے لیے سرگرم رہے مگر کسی نہ کسی وجہ سے ان کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا۔ دوحہ کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ یہاں ایک عاشق اردو لاہوریئے نے شعر و ادب سے محبت اور اس کے اظہار کا ایک ایسا چراغ روشن کیا جو اس کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی ابھی تک نہ صرف روشن ہے بلکہ اس کی آب وتاب میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ میرا اشارہ ملک مصیب الرحمن مرحوم کی طرف ہے۔

جس نے مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر کے تحت ایک مختصر عرصے تک سلیم جعفری مرحوم کے اشتراک سے اور اس سے پہلے اور بعد کم و بیش پندرہ برس تک اس ادارے کے تحت بے مثال تقریبات کا انعقاد کیا۔ ایک سالانہ ادبی ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا جس میں ہر برس پاکستان اور بھارت سے اعلیٰ سطح کے حامل لکھاریوں پر مشتمل جیوریاں ایک ایک ادیب کو منتخب کرتی ہیں۔ اسی طرح 2000ء تک (ایک برس پاکستان کے اور دوسرے برس ہندوستان کے) کسی نمایندہ شاعر کے ساتھ جشن منانے کا سلسلہ بھی جاری رہا جو ایک عظیم الشان مشاعرے کی صورت میں ہوتا تھا وہ مشاعرہ اب بھی ایوارڈز کی تقریب کے اگلے روز منعقد ہوتا ہے مگر جشن والا سلسلہ بوجوہ ختم کر دیا گیا ہے۔ حالیؔ نے کہا تھا:

فخر ہوتا ہے قبیلے کا سدا ایک ہی شخص

لیکن مجلس فروغ اردو ادب کے چیئرمین محمد عتیق نے جس طرح سے ملک مصیب الرحمن کی رحلت کے بعد ان کے شروع کیے ہوئے کام کو آگے بڑھایا اور مجلس کے ساتھیوں بالخصوص پاکستان چیپٹر کے نگران داؤد ملک کی معاونت سے اس سلسلے کو جاری رکھا وہ انتہائی قابل تعریف ہے۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق مہمانوں سے محبت اور ان کی عزت تو سبھی میزبان کرتے ہیں مگر جس سلیقے، وقار اور تنظیم کے ساتھ دوحہ میں آنے والے مہمانوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔

اس کی مثال کم کم ہی نظر آتی ہے اسی طرح دوحہ میں پاکستانیوں اور بھارتیوں کی قائم کردہ کچھ اور تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں جو اپنی جگہ پر ایک قابل تعریف اور حوصلہ افزا کام ہے لیکن اس ضمن میں جو کام عدیل اکبر اور اس کے رقفا نے سالانہ لیکچرز کے انعقاد کی صورت میں کیا ہے وہ بے حد لائق تحسین ہے کہ ہر برس یہ لوگ پاکستان سے کسی بڑے دانشور کو مدعو کرتے ہیں اور پاکستان ہی سے متعلق کسی موضوع کے حوالے سے اس کے خیالات سے حاضرین محفل کو استفادے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

اسی طرح بھارت بنیاد تنظیموں میں سب سے نمایاں کام نوجوان شاعر عزیز سنیل کا ہے جس نے ایک ادبی مجلے ''دستاویز'' کی شکل میں بہت عمدہ کام کیا ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو دوحہ شہر صرف جغرافیائی طور پر ہی نہیں پھیل رہا بلکہ اس میں پاکستان اور بھارت کے ادب، ثقافت اور تہذیب کے حوالے سے بھی نئے نئے علاقے آباد ہو رہے ہیں۔
Load Next Story