ٹریفک پولیس کی نااہلی نے عوام کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے
آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جس قوم میں جتنا ڈسپلن ہے وہ اتنی ہی مہذب ہے۔
ہم نے دیکھا ہے ان چیونٹیوں کو قطاروں میں سفر کرتے ہوئے، جو شدید بھوک کی حالت میں رزق کے باریک ریزوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں، ہم نے دیکھا ہے ان پرندوں کو غول دَر غول ایک ترتیب میں اُڑتے ہوئے، جو دانا دُنکا چگنے کے بعد شام ڈھلے اپنے گھونسلوں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ فطرتِ کائنات بھوک اور طمانیت دونوں اشکال میں نظم و نسق کی متقاضی ہے اور اس سے واضح ہے کہ گویا ڈسپلن ہی زندگی ہے اور ڈسپلن ہی تہذیب ہے! کسی بھی نظام کے تسلسل اور دوام کے لیے اس کی حدود و قیود کا قیام ضروری ہوتا ہے۔
آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جس قوم میں جتنا ڈسپلن ہے وہ اتنی ہی مہذب ہے۔ بابائے قوم نے ہمیں ''اتحاد، ایمان، تنظیم'' کا ''طلسمی کوڈ'' اسی لیے عطا کیا تھا کہ ہم ایک عظیم قوم بن سکیں مگر افسوس کہ ہم نے ترقی کے اس راز کو ہوا میں اُڑا دیا اور آج ہم میں ایمان ہے نہ اتحاد کیونکہ بحیثیت قوم ہم میں تنظیم (ڈسپلن) نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں، یقیناً یہی وجہ ہے کہ ہم ایک قوم بننے کے بجائے ایک گروہ بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا ڈسپلن اور تہذیب کا ڈھانچہ تو اس کے ٹریفک نظام کی ایک جھلک دیکھ کر ہی ادراک میں دَر آتا ہے۔
تحفظِ عامہ کے ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان کا ٹریفک سسٹم دنیا کا بدترین ٹریفک نظام ہے، یہ نظام نہیں بلکہ کیچڑ کا ایک سیلاب ہے جو بے ڈھنگی سڑکوں پر بپھرا چلا جاتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی ٹریفک کی عکاسی اس مثال کے علاوہ اور کسی بھی طرح ممکن نہیں جو برطانیہ کے پبلک سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے ایک تجزیہ کار ہابل نے پیش کی، اس نے پاکستانی ٹریفک سسٹم کے بارے میں کچھ یوں ریمارکس دیے: ''پاکستان کی ٹریفک کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے حکومتِ پاکستان نے ہنگامی حالت میں ایک الرٹ جاری کیا ہو کہ دشمن کے بمبار طیارے پاکستانی شہروں کو نشانہ بنانے کے لیے اُڑان بھر چکے ہیں۔
لہٰذا جتنی جلد ہو سکے تمام شہری اپنے اپنے شہر چھوڑ کر بھاگ جائیں، تو گویا یہ اعلان سنتے ہی لوگ اپنے اپنے وہیکلز پر بیٹھ کر گلیوں اور بازاروں سے ایک لاوے کی طرح اُبل پڑیں اور کسی کو یہ ہوش تک نہ ہو کہ اسے کس سمت جانا ہے، بس جدھر جن کے منہ آئیں وہ مجمعوں کو چیرتے، سگنل توڑتے، سینگ پھنساتے، ٹکریں مارتے نکلے جا رہے ہوں''۔ ہابل کا یہ تجزیہ تیس سال پہلے کا ہے جب پاکستان کی آبادی نو کروڑ کے لگ بھگ ہو گی جب کہ ُاس وقت سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بھی انتہائی کم تھی۔
اسّی کے عشرے میں کسی خاندانی رئیس کے پاس ہی گاڑی ہوتی تھی اور موٹر سائیکل بھی کسی کم کم آدمی کے پاس ہی ہوا کرتی تھی البتہ سائیکل ہر پانچویں شخص کے پاس ضرور تھی۔ آج جب ہر بنگلے میں کم از کم چار چار گاڑیاں کھڑی ہیں اور ہر متوسط گھر میں دو چار موٹر سائیکلیں بھی موجود ہیں تو ایسے میں اگر ہابل کے تجزیے کو بعینہٖ تصور کر لیا جائے تو ذرا قیاس کیجئے کہ ٹریفک کینوس پر کتنی خوفناک تصویر اُبھرتی ہے! واقعی آج پاکستان کے گنجان آباد اور میٹروپولیٹن شہروں کی ٹریفک کی صورتحال دیکھ کر اعصاب پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر بڑا شہر وائبریٹر پر لگا ہوا ہو۔
ہمارے ہاں سڑکیں بنانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کے لیے کچھ قوانین اور فٹ پاتھ پر رینگنے والے پاپیادوں کے لیے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بِدیش سے مستعار لیا گیا ایک معذور قسم کا ٹریفک قانون ''موٹر وہیکل ایکٹ 1965'' موجود ہے جس میں کچھ بے مطلب ترامیم بھی کی گئی ہیں مگر اس ایکٹ کا نفاذ آج تک یقینی نہیں بنایا جا سکا۔
تمام صوبائی حکومتوں اور خودمختار علاقوں نے اس کے تحت ٹرانسپورٹ و ٹریفک کا ایک محکمہ تو قائم کر رکھا ہے مگر اس ایکٹ میں درج آئینی مندرجات کی پاسداری کسی صوبے میں کہیں بھی نظر نہیں آتی، اگر یوں کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ 1965ء کے اس موٹر وہیکل ایکٹ کو صرف لائسنس کے اجراء اور تجدید تک ہی محدود کر کے رکھ دیا گیا اور دیگر متعلقہ شعبوں میں اس کا اطلاق بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر چوپٹ راج اور کیا ہو گا کہ غریب عوام کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں وصول کرنیوالے (چند ایک کے سوا) تمام ٹریفک وارڈنز اور سینئر ٹریفک وارڈنز تک کو اس موٹر وہیکل ایکٹ کی ایک درجن شقیں بھی زبانی یاد نہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کی باقاعدہ کوئی وزارت نہ تو وفاق میں ہے۔
نہ ہی کسی صوبے میں، صرف سندھ میں وزارتِ ٹرانسپورٹ کا ایک برائے نام سا قلمدان موجود ہے مگر اس صوبے کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹرانسپورٹ کا جو حال ہے اسے دیکھ کر سینہ کوبی کو دل چاہتا ہے، پورے شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ پرائیویٹ ''منی مزدوں'' کے رحم و کرم پر ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے ترقی یافتہ صوبہ کہلاتا ہے مگر اس کے بڑے شہروں میں ٹریفک کے مسائل اس حد تک بے قابو ہو چکے ہیں کہ ان کو سلجھانے کے لیے اب کسی آسمانی فورس کو ہی بلانا پڑیگا۔
پنجاب کے 36 ضلعی شہروں کے ساتھ ساتھ ہر ضلع کی تحصیلیں بھی کمرشل شہروں میں شمار ہوتی ہیں مگر پنجاب حکومت کی نااہلی کا یہ حال ہے کہ صرف پانچ بڑے شہروں لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں ہی سٹی ٹریفک کا سرکاری میکانزم موجود ہے۔ ٹریفک کا عملہ اور چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) جسے سٹی ٹریفک آفیسر کہا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا، بھی صرف ان ہی پانچ شہروں میں موجود ہیں، کیا بہتر ہوتا اگر یہی سسٹم ہر ڈویژن کی سطح تک پھیلا دیا جاتا۔ ٹرانسپورٹ کے نظام اور ٹریفک مسائل کے حوالے سے پنجاب کی راجدھانی تخت لاہور کا ذکر کیا جائے تو انتہائی مایوس کن داستان سننے کو ملتی ہے۔
پاکستان ابھی تک اس قابل نہیں ہو پایا کہ وہ اپنے درجن بھر شہروں کو بھی بین الاقوامی درجہ دلوا سکے، صرف کراچی اور لاہور ہی دو ایسے شہر ہیں جنہیں کاسمو پولیٹن اور میٹروپولیٹن ہونے کا اعزاز حاصل ہے مگر ان دونوں شہروں کی ٹریفک کسی خوفناک ماورائی دنیا کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ یورپین سیاحوں کو لاہور میں چنگچیوں پر گھومتے دیکھ کر ہمارے جیسے لوگوں کو خود پر شرم آ رہی ہوتی ہے۔ جن سیاحوں کا لاہور کی ٹریفک سے واسطہ پڑتا ہے انہیں یقینا اپنے ملک واپس جا کر ٹراماسنٹر میں داخلہ لینا پڑتا ہو گا۔ خادمِ اعلیٰ نے لاہور میں اڑھائی سڑکیں بنا کر اسے پاکستان کا پیرس بنا دیا مگر کیا وجہ ہے کہ اسے آج بھی ایشیاء کا گندہ ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ عام گندگی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو براہِ راست لاہور کی بے ہنگم اور غیر معیاری ٹریفک سے پیدا ہو رہی ہے۔
یہ آلودگی محض ٹریفک کے دھوئیں اور گرد و غبار کی نہیں بلکہ ٹریفک کے جان لیوا شور اور سماعتوں پر بم برساتے اندھا دھند ہارنز اور چنگ چی رکشوں و موٹر سائیکلوں کے پھٹے سائلنسرز کی آلودگی بھی اس میں شامل ہے۔ ہارن بجانا ہمارے ملک کا کلچر بن چکا ہے اور ہم اس قدر ہارن زدہ ہو چکے ہیں کہ ہمیں بھیانک ہارنز کے علاوہ کم سطح کی آوازیں آسانی سے سنائی ہی نہیں پڑتیں۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں والے بھی بے دریغ ہارن کا استعمال کرتے ہیں مگر پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں، مزدوں، ویگنوں کے علاوہ شہر میں کھلے عام دندناتے پھر رہے لوڈر ٹرکوں نے تو پریشر اور سیفٹی ہارن بجا بجا کر لوگوں کے دماغ چیر دیے ہیں۔ حکومت پنجاب کا ٹرانسپورٹ سسٹم برائے نام ہونے کی وجہ سے لاہور شہر پر چنگ چی رکشوں کا راج ہے اور سواریاں بامرِ مجبوری ان میں سفر کرنے پر مجبور ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب بھر میں چالیس لاکھ سے زائد چنگ چی رکشے کچی پکی سڑکوں پر چنگھاڑتے پھرتے ہیں، صرف لاہور میں چار لاکھ چنگ چی رکشے رواں دواں ہیں جن میں آئے روز سیکڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
چنگ چی رکشوں نے لاہور کی ٹریفک کو اس درجہ بدصورت کر دیا ہے کہ سڑکوں اور بازاروں سے گزرتے ہوئے آنکھیں اور کان زور سے ڈھانپ لینے کو دل چاہتا ہے۔ اوور لوڈنگ کی وجہ سے تقریباً تمام چنگ چیوں کے سائلنسر خوفناک حد تک پھٹ جاتے ہیں جن سے نکلنے والی بھڑبھراہٹ مِیل بھر دور سے ہی کان پھاڑنے لگتی ہے۔ لاہور کی ٹریفک کے مسائل بڑھانے میں چنگ چی کے بعد سب سے بڑا ہاتھ موٹر سائیکلوں کا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو یہ تو یاد ہے کہ نئی سڑکیں ملک کی ضرورت ہیں مگر یہ بالکل بھی یاد نہیں کہ ان سڑکوں پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے ہمیں کس قسم کی گاڑیوں کو ٹریفک کا حصہ بننے کی اجازت دینی چاہیے یا کس شہر میں کاروں اور موٹر سائیکلوں کی کس حد تک گنجائش ہو سکتی ہے اس پر کبھی کسی متعلقہ ادارے یا حکومتی عہدیدار نے غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بے لگامی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ آپ کہیں سے بھی گزریں دفتروں، درسگاہوں، مسجدوں اور مارکیٹوں کے باہر موٹر سائیکلوں کا ایک میلہ لگا ہوتا ہے۔
آج جتنے بھی ٹریفک حادثات ہوتے ہیں ان میں 90 فیصد موٹر سائیکلوں اور چنگ چیوں کی وجہ سے ہیں۔ سڑکوں پر پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں رہی، فٹ پاتھ سسٹم تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے اور پیدل چلنے والوں کا حق بھی۔ ٹریفک مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نودولتیوں کی کاروں سے سڑکیں ٹھُنس کر رہ گئی ہیں، رہی سہی کسر موٹر سائیکلوں اور چنگ چیوں نے پوری کر دی ہے، اس پر مستزاد کہ گدھا ریڑھیوں اور مال بردار تانگوں کو بھی اسی ٹریفک کے بیچ پھنس کر چلنا ہوتا ہے، پھر سب کو ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی جلدی بھی ہوتی ہے۔
ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ بغیر ڈرائیونگ سیکھے سڑکوں پر گاڑیاں لے آتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا، لائسنس باقاعدہ تربیت اور ٹیسٹ کی بنیاد پر کم اور سفارش و رشوت کی بنیاد پر زیادہ ملتے ہیں، بعض اوقات تو ایسے افراد کو بھی لائسنس عطا کر دیے جاتے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ گاڑی کے گیئرز کتنے ہوتے ہیں۔ لاہور میں ٹریفک کے بے مہار اور مادرپدر آزاد ہونے کی ایک معقول وجہ ٹریفک کا عملہ بھی ہے، اس وقت لاہور میں بشمول تین ہزار وارڈنز تقریباً بتیس سو ٹریفک اہلکار ہیں جن میں دو ہزار اہلکار افسروں کے ذاتی کاموں اور پروٹوکول میں جھونک دیے گئے ہیں جب کہ ایک ہزار کے لگ بھگ شہر کی مختلف سڑکوں اور چوراہوں پر تعینات ہیں۔
ان میں بھی بہت کم ڈیوٹی کرتے سڑکوں پر نظر آتے ہیں اور زیادہ تر پوائنٹ خالی چھوڑ کر آس پاس کی دکانوں، ہوٹلوں اور پارکوں میں سستانے، گپ شپ کرنے اور پرائیویٹ افیئرز میں مشغول نظر آتے ہیں۔ ہم نے پورے لاہور کا سروے کیا ہے اور ہمیں ماڈل ٹاؤن موڑ، کلمہ چوک اور ایل او ایس کے علاوہ کہیں بھی کوئی ٹریفک اہلکار نظر نہیں آیا، کئی پوائنٹس پر تو ٹریفک وارڈن اور انسپکٹر تک موجود ہی نہیں ہوتے، اس کی سب سے بڑی مثال چوبرجی چوک ہے۔
جب سے شہباز شریف نے اس ادارے میں شاہی پولیس کے لوگوں کو مستعار لیا ہے انھوں نے چاک و چوبند ملازمین کو بھی ہڈ حرام بننے پر راغب کر دیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے دور میں پنجاب ٹریفک پولیس کا ادارہ از سرِنو منظم کر کے اس میں قابل اور توانا عملہ بھرتی کیا تھا تو شروع کے چند سال اس کی کارکردگی موٹروے پولیس کے شایانِ شان تھی مگر شہباز شریف نے ٹریفک پولیس کو پرویزالٰہی کی باقیات سمجھ کر اسے ختم کرنے کے لیے ایک دشمنی ضرور کی کہ ٹریفک وارڈن سے اوپر سی ٹی او تک کے تمام عہدوں پر شاہی پولیس کے روایتی پولیس افسروں کو فائز کر دیا جنھوں نے کمال فنکاری سے ٹریفک نظام کو تباہ و بر باد کر کے رکھ دیا، یہی وجہ ہے کہ آدھے سے زیادہ عملہ ٹریفک کنٹرول کرنے کی بجائے وی آئی پی پروٹوکول اور افسرانِ بالا کے دفتروں اور گھروں میں ان کی ذاتی ملازمت پر مامور ہے۔
صرف یہی نہیں ٹریفک پولیس کی کارکردگی صفر کرنے میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے سب سے بڑی زیادتی یہ کی ہے کہ ٹریفک پولیس کی نگرانی ڈی آئی جی ٹریفک سے واپس لے کر آئی جی کے سپرد کر دی۔ اس سے بھی بڑھ کر زیادتی یہ ہے کہ شاہی پولیس کے لوگ تو ٹریفک پولیس جوائن کر سکتے ہیں مگر ٹریفک پولیس کا جو عملہ پرویزالٰہی کے دور سے کام کر رہا ہے، اسے پنجاب پولیس کے کسی تھانے میں نہیں بھیجا جا سکتا، آج ٹریفک پولیس کے وارڈن ذلیل و خوار ہیں اور ''پرویزی عملہ'' سمجھ کر ان کی ملازمت ان کے لیے سزا بنا دی گئی ہے، ٹریفک ملازمین جب تک خود خوشحال نہ ہونگے اور جب تک ان کے خود کے مسائل حل نہ ہونگے وہ ٹریفک کے مسائل کیا خاک حل کرینگے؟
اعلیٰ پولیس افسران ذرا یہ تو بتا دیں کہ جو سہولیات و مراعات حکومت کی طرف سے انہیں اور ان کے اہل و عیال کو حاصل ہیں کیا ان کا عشرِ عشیر بھی ان کے ''یس سر،، کہنے والوں کو حاصل ہے؟ سینئر ٹریفک وارڈن، ٹریفک وارڈن اور نچلے عملہ کو نہ تو خود کو میڈیکل کی سہولیات میسر ہیں نہ ہی ان کے بیوی بچوں اور والدین کو، انہیں میڈیکل تعطیلات کے علاوہ روٹین کی ہفتہ واری ریسٹ اور اتفاقیہ رخصت لینے کے لیے بھی دَربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں مثلاً چھٹی کی ایک درخواست پہلے انہیں انسپکٹر، پھر ڈی ایس پی اور پھر ایس پی سے فارورڈ کروانا پڑتی ہے حالانکہ قانونی طور پر یہی افسران خود بھی چھٹیاں منظور کرنے کے مجاز ہیں لیکن اعلیٰ افسران نے ان سے یہ اختیار چھین کر اپنی مٹھی میں مرکوز کر رکھا ہے۔
ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ ٹریفک ملازمین کو اپنی وردیاں بھی اپنی جیبوں سے سلانا پڑتی ہیں کیونکہ انھیں جو وردیاں محکمے کی طرف سے ملتی ہیں ان کا کپڑا انتہائی کمتر درجے کا ہوتا ہے اور ریڈی میڈ ہونے کی وجہ سے وہ سب کے اجسام پر موزوں بھی نہیں بیٹھتیں، وردیوں کے ساتھ ساتھ بوٹ بھی ایک پاؤں چھوٹا اور ایک بڑا ہوتے ہیں اور زیادہ تر تو یہ بھی ملنے میں دو دو سال لگ جاتے ہیں، اس کے علاوہ وائرلیس سیٹ کی جو بیٹریاں وارڈنز کو ملتی ہیں وہ بھی صحیح حالت میں نہیں ہوتیں، ٹریفک ملازمین کی یہ بھی شکایت ہے کہ انہیں گورنمنٹ سرونٹ کی بجائے پرسنل سرونٹ سمجھا جاتا ہے اور انہیں ٹریفک کنٹرول کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ افسران بالا کے ایماء پر سزا کے طور پر سڑکوں پر کھڑا کیا جاتا ہے اور اگر دورانِ ڈیوٹی کوئی نماز پڑھنے، کھانا کھانے یا رفع حاجت کی نیت سے بھی تھوڑی دیر پوائنٹ چھوڑتا ہے تو اس کی غیر حاضری ظاہر کر کے اسے پیشیوں، جرمانوں اور سزاؤں کے چکر میں ڈال کر ٹریفک کنٹرول کرنیوالا عملہ سڑکوں سے مزید کم کر دیا جاتا ہے۔
ٹریفک کے ذمے داری افسران 9 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ڈیپارٹمنٹل پروموشن کا نظام تک وضع نہیں کر پائے اور سڑکوں پر ذلیل ہونے والے ٹریفک عملے کو اگلے سال پروموشن ہو جانے کے چکمے دیتے رہتے ہیں، جن سرکاری موٹر سائیکلوں پر وارڈن حضرات ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالوں کا پیچھا کرتے ہیں انہیں ٹھیک کرانے کے لیے ہر سیکٹر میں مناسب ورکشاپس اور مکینک تک کی سہولت میسر نہیں اور ان کی مرمت کے اخراجات بھی وارڈن خود ادا کرتے ہیں۔ نہ تو انہیں رہائش کے لیے کوئی سرکاری کوارٹر دستیاب ہے نہ ہی ان کے بچوں کے لیے کوئی محکمانہ اسکول موجود ہے۔ دھوبی، نائی، پلمبر، الیکٹریشن اور درجہ چہارم کے ملازمین کو افسرانِ بالا اپنے گھروں اور ڈیروں پر ذاتی امور کی انجام دہی کے لیے استعمال کرتے ہیں ، محکمہ نے قلعہ گجر سنگھ کمپنی سے سکیورٹی کے لیے جو کانسٹیبل ہائر کیے تھے وہ بھی اضافی محافظوں کے طور پر شاہی افسران کے لیے ہیں نہ کہ ان وارڈنز کے لیے جو سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد ایل او ایس کے سنسان کیمپ میں تھوڑی دیر سستانے آتے ہیں۔
جو لوگ کروڑوں کا ریونیو اکٹھا کر کے محکمے کو دیتے ہیں، ان کی تنخواہوں سے سزا کے طور پر جو دس ہزار روپے تک کا جرمانہ کٹتا ہے وہ بھی سیدھا اعلیٰ افسروں کی جیب میں جاتا ہے اور لفٹروں کے نقدچالان کی رقم بھی نہ جانے کہاں چلی جاتی ہے جسکا کوئی سرکاری ریکارڈ محکمے میں نہیں ہوتا۔ نائٹ پٹرولنگ کرنیوالے ایس ٹی ڈبلیو 300 روپے کے عوض وارڈن کو ڈیوٹی چھوڑ کر جانے کی اجازت دیتے ہیں اور پیسے نہ دینے کی صورت میں اس کی سپیشل رپورٹ بنوا کر بھجوا دی جاتی ہے۔
موجودہ دور میں وارڈن سسٹم میں میرٹ کی دھجیاں اُڑا دی گئی ہیں اور تمام معاملات میرٹ کی بجائے صرف سفارش پر حل ہوتے ہیں، دورانِ ڈیوٹی نہ تو پینے کے پانی کا کوئی مناسب بندوبست ہے اور نہ ہی ٹریفک کنٹرولرز کے لیے کوئی ہفتہ وار یا ماہانہ میڈیکل چیک اپ کا کوئی سسٹم موجود ہے، بدعنوان ملازمین افسرانِ بالا کے منظور ِنظر ٹھہرتے ہیں جب کہ دیانتدار اور فرض شناس سرونٹس کو بار بار شو کاز نوٹس جاری کر دیے جاتے ہیں۔ سرکاری فنڈ کے ہوتے سرکاری استعمال کی چیزوں مثلاً الیکٹرک راڈ اور برساتیوں وغیرہ کے لیے علیحدہ سے سیکٹر فنڈ بھی لے لیا جاتا ہے، وائرلیس سیٹ جو 8 سال پہلے جاری کیے گئے تھے اب بالکل ناکارہ ہو چکے ہیں، ان کی مرمت کے اخراجات بھی وارڈنز کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔
وی آئی پی اور بااثر افراد کا ٹریفک قوانین توڑنے پر اگر چالان کر دیا جائے تو بغیر انکوائری کے متعلقہ عملے کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ شاہی پولیس سے انڈکٹ کیے گئے سینئر ٹریفک وارڈنز جو کہ مڈل، انڈر میٹرک اور بمشکل ایف اے پاس ہوتے ہیں وہ روایتی پولیس کے لہجے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ وارڈنز اور دیگر ماتحت عملہ کو نازیبا الفاظ بکنے سے بھی گریز نہیں کرتے، آئی جی اور دوسرے کئی چھوٹے موٹے ریاستی نوابوں کے فضول اور ذاتی امور کے لیے آنے جانے پر بھی خواہ مخواہ پروٹوکول لگا دیے جاتے ہیں اور آدھے شہر کی ٹریفک پولیس کو ان نکمے اور نالائق سرکاری بادشاہوں کی حفاظت پر چپکا دیا جاتا ہے، شہزادہ گلفام عزت مآب جناب وزیر اعلیٰ پنجاب اور شہنشاہِ معظم مدظلہِ عالی جناب وزیر اعظم پاکستان کی جب رائیونڈ پیلس یا تختِ لاہور کو آمد آمد ہوتی ہے یا کہیں اور کو روٹ لگتا ہے تو لاہور کی تین ہزار ٹریفک پولیس اور تقریباً اتنی ہی شاہی پولیس کو پورا لاہور بند کر دینے پر مامور کر دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف ٹریفک کے معاملات درہم برہم ہوتے ہیں بلکہ روٹ کے راستوں سے اور آس پاس سے گزرنے والے شہریوں کو زبردست تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
معمولی معاملات اور جھوٹی شکایات پر بھی اعلیٰ افسران ٹریفک وارڈنز کی تین ماہ تک تنخواہیں بند کر دیتے ہیں جس سے نہ صرف انہیں بلکہ ان کی فیملی کو بھی ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے، پیشی کی صورت میں ان کے ساتھ درجہ چہارم کے ملازمین والا سلوک اختیار کیا جاتا ہے، وارڈن حضرات جب کسی سنگین جرم کی مد میں کسی گاڑی مالک کو لے کر تھانے میں پرچہ دینے جاتے ہیں تو منشی پرچہ کاٹنے سے انکار کر دیتا ہے اور ملزم کو اپنی ذاتی مرغی سمجھ لیتا ہے۔ ٹریفک ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی لاقانونیت پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اور محکمہ کے اپنے ہی ملازمین کے ساتھ بار بار زیادتیاں کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ لاہور ٹریفک ڈیپارٹمنٹ میں ہزاروں ایسے کیس ہیں جنہیں سن کر خود اس کے ملازموں کو شرم آتی ہے۔
اس کی ایک زندہ مثال 2013ء کا وہ کیس ہے جب بغیر کسی وجہ اور ثبوت کے تین سو وارڈنز کو ڈِس مس کر دیا گیا تھا اور چار پانچ ماہ بعد معطلی کی تاریخ کے دن سے انہیں دوبارہ بحال بھی کر دیا گیا مگر بغیر تنخواہوں کے، حالانکہ ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ ہو سکا مگر ذمے داریان کو نہ شرم ہی آئی نہ حیا ہی محسوس ہوئی۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ٹریفک پولیس کے مسائل کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور ٹریفک پولیس کے ادارے کو ایک بار پھر پہلے کی طرح صاف شفاف اور کارکردگی آمیز بنانا چاہیے تا کہ پنجاب کے نہیں تو کم از کم لاہور شہر کے ٹریفک مسائل تو کسی حد تک حل ہو سکیں۔
اس کے علاوہ معاشرے کو صحتمند اور ٹریفک نظام کو خوبصورت ترین بنانے کے لیے ہماری ان تجاویز پر عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے: یعنی یہ کہ پریشر ہارن، سیفٹی ہارن اور کسی بھی قسم کا ہارن بجانے پر شہر میں مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے کیونکہ ان سے نہ صرف ذہنی پریشانی جنم لے رہی ہے بلکہ لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، آدمی کے شور برداشت کرنے کی آخری حد 160 ڈیسیبل تک ہے اس کے بعد انسانی دماغ بلاسٹ ہو جاتا ہے، بہرہ ہونے کے لیے 85 ڈیسیبل تک کا شور ہی بہت ہوتا ہے، سماعت کی عام بیماریاں اور معمولی بہرہ پن 45 ڈیسیبل سے ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن پریشر ہارن، سیفٹی ہارن اور پھٹے سلنسروں کی آوازوں کی ویلاسٹی 160 ڈیسیبل سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے جو نہ صرف لوگوں کو بہرہ کرتی ہے بلکہ ان کے ذہنی اور جذباتی رویوں میں بھی کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔
آج لوگ جتنے زیادہ ڈپریشن کا شکار ہیں ہارن اور گاڑیوں کا شور اس پر جلتی کا کام کر رہے ہیں اور لوگوں کے رویے اور بھی زیادہ ترش ہوتے جا رہے ہیں جس سے آئے دن قتل اور تشدد کی بہیمانہ وارداتیں مشاہدے میں آتی ہیں، مہذب معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی ایسی شور پرستی پر سخت پابندی ہونی چاہیے؛ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو فوراً بحق سرکار ضبط کر لینا چاہیے کیونکہ ان سے آنکھوں، پھیپھڑوں، گلے اور کینسر کی بیماریاں ہی نہیں پھیلتیں بلکہ اس سے ماحول بھی بری طرح آلودہ ہوتا ہے جو گلوبل وارمنگ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ون ویلنگ، ڈینجرس میوزیکل ہارن اور ایڈوینچرل ڈرائیونگ ناقابلِ ضمانت جرائم ہونے چاہییں جن کے لیے مجرم کے خلاف ٹریفک وارڈن کو فوراً ایف آئی آر کاٹنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
چنگ چی رکشوں اور موٹر سائیکلوں پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ہر صوبے کو اپنے ہر بڑے شہر میں صوبائی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے چاہییں جو اتنی تعداد میں گاڑیوں کی صنعتکاری کریں کہ لوگوں کو ہر پانچ منٹ بعد برائے نام کرایہ پر سرکاری گاڑی میسر آ سکے، ٹریفک قوانین سے آگاہی کے لیے شہر کے ہر علاقے میں ورکشاپس اور کانفرنسز کا انعقاد ہونا چاہیے جس میں گورنمنٹ کے رجسٹرڈ وہیکل اونرز کی شمولیت ضروری ہو، ٹریفک لائسنس کے لیے سخت ترین رولز اور ٹیسٹ ہونے چاہییں اور صرف ایک ماہر ڈرائیور کو ہی لائسنس کا اجراء ہونا چاہیے اور اس بات پر بھی سخت پابندی ہو کہ صرف متعلقہ لائسنس ہولڈر ہی کسی شاہراہ پر گاڑی لانے کا مجاز ہو، سڑکوں پر ٹریفک کیمرے ہر چوک اور سگنل پر نصب ہونے چاہییں اور خلاف ورزی کنندگان کے گھروں پر چالان پہنچانے اور جرمانہ وصول کرنے کا سسٹم وضع ہونا چاہیے۔
ٹریفک وارڈنز کے لیے ہر چوک میں ڈیجیٹل مانیٹرنگ سیل قائم ہونے چاہییں جن میں بیٹھ کر وہ اپنے سرکل کی تمام ٹریفک کو ٹی وی سکرینوں پر دیکھ سکیں، اس کے علاوہ ان کے پاس راستوں سے نابلد شہریوں کو آگاہ کرنے کی گائیڈ ٹیم بھی موجود ہو، ڈرائیونگ لائسنس رینیول اور لرننگ لائسنس کی آن لائن سہولت ہونی چاہیے، دورانِ ڈرائیونگ مسلسل تین بار سگنل کی خلاف ورزی کرنے پر وارڈن کو لائسنس کینسل کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
پرائیویٹ پبلک ٹرانسپورٹ کو کسی بھی صورت میں سرکاری اڈوں کے علاوہ شہر میں کسی ایسے چوک یا اشارے کے قریب غیرقانونی اڈے بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جن کے آس پاس یا اوپر رہائشیں اور دفاتر ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ کو بھی چاہیے کہ وہ سندھ ہائیکورٹ کی طرح چنگ چی رکشوں پر از خود نوٹس کے ذریعے فوری طور پر پابندی عائد کرے تا کہ شہریوں کو شور شرابے، فضائی آلودگی اور ٹریفک حادثات سے نجات مل سکے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تعلیمی نصاب میں ٹریفک کا مضمون شامل کریں تا کہ پڑھے لکھے نوجوانوں میں ٹریفک قوانین اور شہرداری کے حقوق کے بارے میں آگاہی ہو، ٹریفک کی روانی کے لیے فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے ناجائز تجاوزات کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔
آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جس قوم میں جتنا ڈسپلن ہے وہ اتنی ہی مہذب ہے۔ بابائے قوم نے ہمیں ''اتحاد، ایمان، تنظیم'' کا ''طلسمی کوڈ'' اسی لیے عطا کیا تھا کہ ہم ایک عظیم قوم بن سکیں مگر افسوس کہ ہم نے ترقی کے اس راز کو ہوا میں اُڑا دیا اور آج ہم میں ایمان ہے نہ اتحاد کیونکہ بحیثیت قوم ہم میں تنظیم (ڈسپلن) نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں، یقیناً یہی وجہ ہے کہ ہم ایک قوم بننے کے بجائے ایک گروہ بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا ڈسپلن اور تہذیب کا ڈھانچہ تو اس کے ٹریفک نظام کی ایک جھلک دیکھ کر ہی ادراک میں دَر آتا ہے۔
تحفظِ عامہ کے ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان کا ٹریفک سسٹم دنیا کا بدترین ٹریفک نظام ہے، یہ نظام نہیں بلکہ کیچڑ کا ایک سیلاب ہے جو بے ڈھنگی سڑکوں پر بپھرا چلا جاتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی ٹریفک کی عکاسی اس مثال کے علاوہ اور کسی بھی طرح ممکن نہیں جو برطانیہ کے پبلک سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے ایک تجزیہ کار ہابل نے پیش کی، اس نے پاکستانی ٹریفک سسٹم کے بارے میں کچھ یوں ریمارکس دیے: ''پاکستان کی ٹریفک کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے حکومتِ پاکستان نے ہنگامی حالت میں ایک الرٹ جاری کیا ہو کہ دشمن کے بمبار طیارے پاکستانی شہروں کو نشانہ بنانے کے لیے اُڑان بھر چکے ہیں۔
لہٰذا جتنی جلد ہو سکے تمام شہری اپنے اپنے شہر چھوڑ کر بھاگ جائیں، تو گویا یہ اعلان سنتے ہی لوگ اپنے اپنے وہیکلز پر بیٹھ کر گلیوں اور بازاروں سے ایک لاوے کی طرح اُبل پڑیں اور کسی کو یہ ہوش تک نہ ہو کہ اسے کس سمت جانا ہے، بس جدھر جن کے منہ آئیں وہ مجمعوں کو چیرتے، سگنل توڑتے، سینگ پھنساتے، ٹکریں مارتے نکلے جا رہے ہوں''۔ ہابل کا یہ تجزیہ تیس سال پہلے کا ہے جب پاکستان کی آبادی نو کروڑ کے لگ بھگ ہو گی جب کہ ُاس وقت سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بھی انتہائی کم تھی۔
اسّی کے عشرے میں کسی خاندانی رئیس کے پاس ہی گاڑی ہوتی تھی اور موٹر سائیکل بھی کسی کم کم آدمی کے پاس ہی ہوا کرتی تھی البتہ سائیکل ہر پانچویں شخص کے پاس ضرور تھی۔ آج جب ہر بنگلے میں کم از کم چار چار گاڑیاں کھڑی ہیں اور ہر متوسط گھر میں دو چار موٹر سائیکلیں بھی موجود ہیں تو ایسے میں اگر ہابل کے تجزیے کو بعینہٖ تصور کر لیا جائے تو ذرا قیاس کیجئے کہ ٹریفک کینوس پر کتنی خوفناک تصویر اُبھرتی ہے! واقعی آج پاکستان کے گنجان آباد اور میٹروپولیٹن شہروں کی ٹریفک کی صورتحال دیکھ کر اعصاب پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر بڑا شہر وائبریٹر پر لگا ہوا ہو۔
ہمارے ہاں سڑکیں بنانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کے لیے کچھ قوانین اور فٹ پاتھ پر رینگنے والے پاپیادوں کے لیے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بِدیش سے مستعار لیا گیا ایک معذور قسم کا ٹریفک قانون ''موٹر وہیکل ایکٹ 1965'' موجود ہے جس میں کچھ بے مطلب ترامیم بھی کی گئی ہیں مگر اس ایکٹ کا نفاذ آج تک یقینی نہیں بنایا جا سکا۔
تمام صوبائی حکومتوں اور خودمختار علاقوں نے اس کے تحت ٹرانسپورٹ و ٹریفک کا ایک محکمہ تو قائم کر رکھا ہے مگر اس ایکٹ میں درج آئینی مندرجات کی پاسداری کسی صوبے میں کہیں بھی نظر نہیں آتی، اگر یوں کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ 1965ء کے اس موٹر وہیکل ایکٹ کو صرف لائسنس کے اجراء اور تجدید تک ہی محدود کر کے رکھ دیا گیا اور دیگر متعلقہ شعبوں میں اس کا اطلاق بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر چوپٹ راج اور کیا ہو گا کہ غریب عوام کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں وصول کرنیوالے (چند ایک کے سوا) تمام ٹریفک وارڈنز اور سینئر ٹریفک وارڈنز تک کو اس موٹر وہیکل ایکٹ کی ایک درجن شقیں بھی زبانی یاد نہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کی باقاعدہ کوئی وزارت نہ تو وفاق میں ہے۔
نہ ہی کسی صوبے میں، صرف سندھ میں وزارتِ ٹرانسپورٹ کا ایک برائے نام سا قلمدان موجود ہے مگر اس صوبے کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹرانسپورٹ کا جو حال ہے اسے دیکھ کر سینہ کوبی کو دل چاہتا ہے، پورے شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ پرائیویٹ ''منی مزدوں'' کے رحم و کرم پر ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے ترقی یافتہ صوبہ کہلاتا ہے مگر اس کے بڑے شہروں میں ٹریفک کے مسائل اس حد تک بے قابو ہو چکے ہیں کہ ان کو سلجھانے کے لیے اب کسی آسمانی فورس کو ہی بلانا پڑیگا۔
پنجاب کے 36 ضلعی شہروں کے ساتھ ساتھ ہر ضلع کی تحصیلیں بھی کمرشل شہروں میں شمار ہوتی ہیں مگر پنجاب حکومت کی نااہلی کا یہ حال ہے کہ صرف پانچ بڑے شہروں لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں ہی سٹی ٹریفک کا سرکاری میکانزم موجود ہے۔ ٹریفک کا عملہ اور چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) جسے سٹی ٹریفک آفیسر کہا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا، بھی صرف ان ہی پانچ شہروں میں موجود ہیں، کیا بہتر ہوتا اگر یہی سسٹم ہر ڈویژن کی سطح تک پھیلا دیا جاتا۔ ٹرانسپورٹ کے نظام اور ٹریفک مسائل کے حوالے سے پنجاب کی راجدھانی تخت لاہور کا ذکر کیا جائے تو انتہائی مایوس کن داستان سننے کو ملتی ہے۔
پاکستان ابھی تک اس قابل نہیں ہو پایا کہ وہ اپنے درجن بھر شہروں کو بھی بین الاقوامی درجہ دلوا سکے، صرف کراچی اور لاہور ہی دو ایسے شہر ہیں جنہیں کاسمو پولیٹن اور میٹروپولیٹن ہونے کا اعزاز حاصل ہے مگر ان دونوں شہروں کی ٹریفک کسی خوفناک ماورائی دنیا کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ یورپین سیاحوں کو لاہور میں چنگچیوں پر گھومتے دیکھ کر ہمارے جیسے لوگوں کو خود پر شرم آ رہی ہوتی ہے۔ جن سیاحوں کا لاہور کی ٹریفک سے واسطہ پڑتا ہے انہیں یقینا اپنے ملک واپس جا کر ٹراماسنٹر میں داخلہ لینا پڑتا ہو گا۔ خادمِ اعلیٰ نے لاہور میں اڑھائی سڑکیں بنا کر اسے پاکستان کا پیرس بنا دیا مگر کیا وجہ ہے کہ اسے آج بھی ایشیاء کا گندہ ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ عام گندگی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو براہِ راست لاہور کی بے ہنگم اور غیر معیاری ٹریفک سے پیدا ہو رہی ہے۔
یہ آلودگی محض ٹریفک کے دھوئیں اور گرد و غبار کی نہیں بلکہ ٹریفک کے جان لیوا شور اور سماعتوں پر بم برساتے اندھا دھند ہارنز اور چنگ چی رکشوں و موٹر سائیکلوں کے پھٹے سائلنسرز کی آلودگی بھی اس میں شامل ہے۔ ہارن بجانا ہمارے ملک کا کلچر بن چکا ہے اور ہم اس قدر ہارن زدہ ہو چکے ہیں کہ ہمیں بھیانک ہارنز کے علاوہ کم سطح کی آوازیں آسانی سے سنائی ہی نہیں پڑتیں۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں والے بھی بے دریغ ہارن کا استعمال کرتے ہیں مگر پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں، مزدوں، ویگنوں کے علاوہ شہر میں کھلے عام دندناتے پھر رہے لوڈر ٹرکوں نے تو پریشر اور سیفٹی ہارن بجا بجا کر لوگوں کے دماغ چیر دیے ہیں۔ حکومت پنجاب کا ٹرانسپورٹ سسٹم برائے نام ہونے کی وجہ سے لاہور شہر پر چنگ چی رکشوں کا راج ہے اور سواریاں بامرِ مجبوری ان میں سفر کرنے پر مجبور ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب بھر میں چالیس لاکھ سے زائد چنگ چی رکشے کچی پکی سڑکوں پر چنگھاڑتے پھرتے ہیں، صرف لاہور میں چار لاکھ چنگ چی رکشے رواں دواں ہیں جن میں آئے روز سیکڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
چنگ چی رکشوں نے لاہور کی ٹریفک کو اس درجہ بدصورت کر دیا ہے کہ سڑکوں اور بازاروں سے گزرتے ہوئے آنکھیں اور کان زور سے ڈھانپ لینے کو دل چاہتا ہے۔ اوور لوڈنگ کی وجہ سے تقریباً تمام چنگ چیوں کے سائلنسر خوفناک حد تک پھٹ جاتے ہیں جن سے نکلنے والی بھڑبھراہٹ مِیل بھر دور سے ہی کان پھاڑنے لگتی ہے۔ لاہور کی ٹریفک کے مسائل بڑھانے میں چنگ چی کے بعد سب سے بڑا ہاتھ موٹر سائیکلوں کا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو یہ تو یاد ہے کہ نئی سڑکیں ملک کی ضرورت ہیں مگر یہ بالکل بھی یاد نہیں کہ ان سڑکوں پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے ہمیں کس قسم کی گاڑیوں کو ٹریفک کا حصہ بننے کی اجازت دینی چاہیے یا کس شہر میں کاروں اور موٹر سائیکلوں کی کس حد تک گنجائش ہو سکتی ہے اس پر کبھی کسی متعلقہ ادارے یا حکومتی عہدیدار نے غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بے لگامی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ آپ کہیں سے بھی گزریں دفتروں، درسگاہوں، مسجدوں اور مارکیٹوں کے باہر موٹر سائیکلوں کا ایک میلہ لگا ہوتا ہے۔
آج جتنے بھی ٹریفک حادثات ہوتے ہیں ان میں 90 فیصد موٹر سائیکلوں اور چنگ چیوں کی وجہ سے ہیں۔ سڑکوں پر پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں رہی، فٹ پاتھ سسٹم تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے اور پیدل چلنے والوں کا حق بھی۔ ٹریفک مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نودولتیوں کی کاروں سے سڑکیں ٹھُنس کر رہ گئی ہیں، رہی سہی کسر موٹر سائیکلوں اور چنگ چیوں نے پوری کر دی ہے، اس پر مستزاد کہ گدھا ریڑھیوں اور مال بردار تانگوں کو بھی اسی ٹریفک کے بیچ پھنس کر چلنا ہوتا ہے، پھر سب کو ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی جلدی بھی ہوتی ہے۔
ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ بغیر ڈرائیونگ سیکھے سڑکوں پر گاڑیاں لے آتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا، لائسنس باقاعدہ تربیت اور ٹیسٹ کی بنیاد پر کم اور سفارش و رشوت کی بنیاد پر زیادہ ملتے ہیں، بعض اوقات تو ایسے افراد کو بھی لائسنس عطا کر دیے جاتے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ گاڑی کے گیئرز کتنے ہوتے ہیں۔ لاہور میں ٹریفک کے بے مہار اور مادرپدر آزاد ہونے کی ایک معقول وجہ ٹریفک کا عملہ بھی ہے، اس وقت لاہور میں بشمول تین ہزار وارڈنز تقریباً بتیس سو ٹریفک اہلکار ہیں جن میں دو ہزار اہلکار افسروں کے ذاتی کاموں اور پروٹوکول میں جھونک دیے گئے ہیں جب کہ ایک ہزار کے لگ بھگ شہر کی مختلف سڑکوں اور چوراہوں پر تعینات ہیں۔
ان میں بھی بہت کم ڈیوٹی کرتے سڑکوں پر نظر آتے ہیں اور زیادہ تر پوائنٹ خالی چھوڑ کر آس پاس کی دکانوں، ہوٹلوں اور پارکوں میں سستانے، گپ شپ کرنے اور پرائیویٹ افیئرز میں مشغول نظر آتے ہیں۔ ہم نے پورے لاہور کا سروے کیا ہے اور ہمیں ماڈل ٹاؤن موڑ، کلمہ چوک اور ایل او ایس کے علاوہ کہیں بھی کوئی ٹریفک اہلکار نظر نہیں آیا، کئی پوائنٹس پر تو ٹریفک وارڈن اور انسپکٹر تک موجود ہی نہیں ہوتے، اس کی سب سے بڑی مثال چوبرجی چوک ہے۔
جب سے شہباز شریف نے اس ادارے میں شاہی پولیس کے لوگوں کو مستعار لیا ہے انھوں نے چاک و چوبند ملازمین کو بھی ہڈ حرام بننے پر راغب کر دیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے دور میں پنجاب ٹریفک پولیس کا ادارہ از سرِنو منظم کر کے اس میں قابل اور توانا عملہ بھرتی کیا تھا تو شروع کے چند سال اس کی کارکردگی موٹروے پولیس کے شایانِ شان تھی مگر شہباز شریف نے ٹریفک پولیس کو پرویزالٰہی کی باقیات سمجھ کر اسے ختم کرنے کے لیے ایک دشمنی ضرور کی کہ ٹریفک وارڈن سے اوپر سی ٹی او تک کے تمام عہدوں پر شاہی پولیس کے روایتی پولیس افسروں کو فائز کر دیا جنھوں نے کمال فنکاری سے ٹریفک نظام کو تباہ و بر باد کر کے رکھ دیا، یہی وجہ ہے کہ آدھے سے زیادہ عملہ ٹریفک کنٹرول کرنے کی بجائے وی آئی پی پروٹوکول اور افسرانِ بالا کے دفتروں اور گھروں میں ان کی ذاتی ملازمت پر مامور ہے۔
صرف یہی نہیں ٹریفک پولیس کی کارکردگی صفر کرنے میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے سب سے بڑی زیادتی یہ کی ہے کہ ٹریفک پولیس کی نگرانی ڈی آئی جی ٹریفک سے واپس لے کر آئی جی کے سپرد کر دی۔ اس سے بھی بڑھ کر زیادتی یہ ہے کہ شاہی پولیس کے لوگ تو ٹریفک پولیس جوائن کر سکتے ہیں مگر ٹریفک پولیس کا جو عملہ پرویزالٰہی کے دور سے کام کر رہا ہے، اسے پنجاب پولیس کے کسی تھانے میں نہیں بھیجا جا سکتا، آج ٹریفک پولیس کے وارڈن ذلیل و خوار ہیں اور ''پرویزی عملہ'' سمجھ کر ان کی ملازمت ان کے لیے سزا بنا دی گئی ہے، ٹریفک ملازمین جب تک خود خوشحال نہ ہونگے اور جب تک ان کے خود کے مسائل حل نہ ہونگے وہ ٹریفک کے مسائل کیا خاک حل کرینگے؟
اعلیٰ پولیس افسران ذرا یہ تو بتا دیں کہ جو سہولیات و مراعات حکومت کی طرف سے انہیں اور ان کے اہل و عیال کو حاصل ہیں کیا ان کا عشرِ عشیر بھی ان کے ''یس سر،، کہنے والوں کو حاصل ہے؟ سینئر ٹریفک وارڈن، ٹریفک وارڈن اور نچلے عملہ کو نہ تو خود کو میڈیکل کی سہولیات میسر ہیں نہ ہی ان کے بیوی بچوں اور والدین کو، انہیں میڈیکل تعطیلات کے علاوہ روٹین کی ہفتہ واری ریسٹ اور اتفاقیہ رخصت لینے کے لیے بھی دَربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں مثلاً چھٹی کی ایک درخواست پہلے انہیں انسپکٹر، پھر ڈی ایس پی اور پھر ایس پی سے فارورڈ کروانا پڑتی ہے حالانکہ قانونی طور پر یہی افسران خود بھی چھٹیاں منظور کرنے کے مجاز ہیں لیکن اعلیٰ افسران نے ان سے یہ اختیار چھین کر اپنی مٹھی میں مرکوز کر رکھا ہے۔
ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ ٹریفک ملازمین کو اپنی وردیاں بھی اپنی جیبوں سے سلانا پڑتی ہیں کیونکہ انھیں جو وردیاں محکمے کی طرف سے ملتی ہیں ان کا کپڑا انتہائی کمتر درجے کا ہوتا ہے اور ریڈی میڈ ہونے کی وجہ سے وہ سب کے اجسام پر موزوں بھی نہیں بیٹھتیں، وردیوں کے ساتھ ساتھ بوٹ بھی ایک پاؤں چھوٹا اور ایک بڑا ہوتے ہیں اور زیادہ تر تو یہ بھی ملنے میں دو دو سال لگ جاتے ہیں، اس کے علاوہ وائرلیس سیٹ کی جو بیٹریاں وارڈنز کو ملتی ہیں وہ بھی صحیح حالت میں نہیں ہوتیں، ٹریفک ملازمین کی یہ بھی شکایت ہے کہ انہیں گورنمنٹ سرونٹ کی بجائے پرسنل سرونٹ سمجھا جاتا ہے اور انہیں ٹریفک کنٹرول کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ افسران بالا کے ایماء پر سزا کے طور پر سڑکوں پر کھڑا کیا جاتا ہے اور اگر دورانِ ڈیوٹی کوئی نماز پڑھنے، کھانا کھانے یا رفع حاجت کی نیت سے بھی تھوڑی دیر پوائنٹ چھوڑتا ہے تو اس کی غیر حاضری ظاہر کر کے اسے پیشیوں، جرمانوں اور سزاؤں کے چکر میں ڈال کر ٹریفک کنٹرول کرنیوالا عملہ سڑکوں سے مزید کم کر دیا جاتا ہے۔
ٹریفک کے ذمے داری افسران 9 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ڈیپارٹمنٹل پروموشن کا نظام تک وضع نہیں کر پائے اور سڑکوں پر ذلیل ہونے والے ٹریفک عملے کو اگلے سال پروموشن ہو جانے کے چکمے دیتے رہتے ہیں، جن سرکاری موٹر سائیکلوں پر وارڈن حضرات ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالوں کا پیچھا کرتے ہیں انہیں ٹھیک کرانے کے لیے ہر سیکٹر میں مناسب ورکشاپس اور مکینک تک کی سہولت میسر نہیں اور ان کی مرمت کے اخراجات بھی وارڈن خود ادا کرتے ہیں۔ نہ تو انہیں رہائش کے لیے کوئی سرکاری کوارٹر دستیاب ہے نہ ہی ان کے بچوں کے لیے کوئی محکمانہ اسکول موجود ہے۔ دھوبی، نائی، پلمبر، الیکٹریشن اور درجہ چہارم کے ملازمین کو افسرانِ بالا اپنے گھروں اور ڈیروں پر ذاتی امور کی انجام دہی کے لیے استعمال کرتے ہیں ، محکمہ نے قلعہ گجر سنگھ کمپنی سے سکیورٹی کے لیے جو کانسٹیبل ہائر کیے تھے وہ بھی اضافی محافظوں کے طور پر شاہی افسران کے لیے ہیں نہ کہ ان وارڈنز کے لیے جو سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد ایل او ایس کے سنسان کیمپ میں تھوڑی دیر سستانے آتے ہیں۔
جو لوگ کروڑوں کا ریونیو اکٹھا کر کے محکمے کو دیتے ہیں، ان کی تنخواہوں سے سزا کے طور پر جو دس ہزار روپے تک کا جرمانہ کٹتا ہے وہ بھی سیدھا اعلیٰ افسروں کی جیب میں جاتا ہے اور لفٹروں کے نقدچالان کی رقم بھی نہ جانے کہاں چلی جاتی ہے جسکا کوئی سرکاری ریکارڈ محکمے میں نہیں ہوتا۔ نائٹ پٹرولنگ کرنیوالے ایس ٹی ڈبلیو 300 روپے کے عوض وارڈن کو ڈیوٹی چھوڑ کر جانے کی اجازت دیتے ہیں اور پیسے نہ دینے کی صورت میں اس کی سپیشل رپورٹ بنوا کر بھجوا دی جاتی ہے۔
موجودہ دور میں وارڈن سسٹم میں میرٹ کی دھجیاں اُڑا دی گئی ہیں اور تمام معاملات میرٹ کی بجائے صرف سفارش پر حل ہوتے ہیں، دورانِ ڈیوٹی نہ تو پینے کے پانی کا کوئی مناسب بندوبست ہے اور نہ ہی ٹریفک کنٹرولرز کے لیے کوئی ہفتہ وار یا ماہانہ میڈیکل چیک اپ کا کوئی سسٹم موجود ہے، بدعنوان ملازمین افسرانِ بالا کے منظور ِنظر ٹھہرتے ہیں جب کہ دیانتدار اور فرض شناس سرونٹس کو بار بار شو کاز نوٹس جاری کر دیے جاتے ہیں۔ سرکاری فنڈ کے ہوتے سرکاری استعمال کی چیزوں مثلاً الیکٹرک راڈ اور برساتیوں وغیرہ کے لیے علیحدہ سے سیکٹر فنڈ بھی لے لیا جاتا ہے، وائرلیس سیٹ جو 8 سال پہلے جاری کیے گئے تھے اب بالکل ناکارہ ہو چکے ہیں، ان کی مرمت کے اخراجات بھی وارڈنز کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔
وی آئی پی اور بااثر افراد کا ٹریفک قوانین توڑنے پر اگر چالان کر دیا جائے تو بغیر انکوائری کے متعلقہ عملے کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ شاہی پولیس سے انڈکٹ کیے گئے سینئر ٹریفک وارڈنز جو کہ مڈل، انڈر میٹرک اور بمشکل ایف اے پاس ہوتے ہیں وہ روایتی پولیس کے لہجے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ وارڈنز اور دیگر ماتحت عملہ کو نازیبا الفاظ بکنے سے بھی گریز نہیں کرتے، آئی جی اور دوسرے کئی چھوٹے موٹے ریاستی نوابوں کے فضول اور ذاتی امور کے لیے آنے جانے پر بھی خواہ مخواہ پروٹوکول لگا دیے جاتے ہیں اور آدھے شہر کی ٹریفک پولیس کو ان نکمے اور نالائق سرکاری بادشاہوں کی حفاظت پر چپکا دیا جاتا ہے، شہزادہ گلفام عزت مآب جناب وزیر اعلیٰ پنجاب اور شہنشاہِ معظم مدظلہِ عالی جناب وزیر اعظم پاکستان کی جب رائیونڈ پیلس یا تختِ لاہور کو آمد آمد ہوتی ہے یا کہیں اور کو روٹ لگتا ہے تو لاہور کی تین ہزار ٹریفک پولیس اور تقریباً اتنی ہی شاہی پولیس کو پورا لاہور بند کر دینے پر مامور کر دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف ٹریفک کے معاملات درہم برہم ہوتے ہیں بلکہ روٹ کے راستوں سے اور آس پاس سے گزرنے والے شہریوں کو زبردست تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
معمولی معاملات اور جھوٹی شکایات پر بھی اعلیٰ افسران ٹریفک وارڈنز کی تین ماہ تک تنخواہیں بند کر دیتے ہیں جس سے نہ صرف انہیں بلکہ ان کی فیملی کو بھی ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے، پیشی کی صورت میں ان کے ساتھ درجہ چہارم کے ملازمین والا سلوک اختیار کیا جاتا ہے، وارڈن حضرات جب کسی سنگین جرم کی مد میں کسی گاڑی مالک کو لے کر تھانے میں پرچہ دینے جاتے ہیں تو منشی پرچہ کاٹنے سے انکار کر دیتا ہے اور ملزم کو اپنی ذاتی مرغی سمجھ لیتا ہے۔ ٹریفک ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی لاقانونیت پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اور محکمہ کے اپنے ہی ملازمین کے ساتھ بار بار زیادتیاں کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ لاہور ٹریفک ڈیپارٹمنٹ میں ہزاروں ایسے کیس ہیں جنہیں سن کر خود اس کے ملازموں کو شرم آتی ہے۔
اس کی ایک زندہ مثال 2013ء کا وہ کیس ہے جب بغیر کسی وجہ اور ثبوت کے تین سو وارڈنز کو ڈِس مس کر دیا گیا تھا اور چار پانچ ماہ بعد معطلی کی تاریخ کے دن سے انہیں دوبارہ بحال بھی کر دیا گیا مگر بغیر تنخواہوں کے، حالانکہ ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ ہو سکا مگر ذمے داریان کو نہ شرم ہی آئی نہ حیا ہی محسوس ہوئی۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ٹریفک پولیس کے مسائل کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور ٹریفک پولیس کے ادارے کو ایک بار پھر پہلے کی طرح صاف شفاف اور کارکردگی آمیز بنانا چاہیے تا کہ پنجاب کے نہیں تو کم از کم لاہور شہر کے ٹریفک مسائل تو کسی حد تک حل ہو سکیں۔
اس کے علاوہ معاشرے کو صحتمند اور ٹریفک نظام کو خوبصورت ترین بنانے کے لیے ہماری ان تجاویز پر عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے: یعنی یہ کہ پریشر ہارن، سیفٹی ہارن اور کسی بھی قسم کا ہارن بجانے پر شہر میں مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے کیونکہ ان سے نہ صرف ذہنی پریشانی جنم لے رہی ہے بلکہ لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، آدمی کے شور برداشت کرنے کی آخری حد 160 ڈیسیبل تک ہے اس کے بعد انسانی دماغ بلاسٹ ہو جاتا ہے، بہرہ ہونے کے لیے 85 ڈیسیبل تک کا شور ہی بہت ہوتا ہے، سماعت کی عام بیماریاں اور معمولی بہرہ پن 45 ڈیسیبل سے ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن پریشر ہارن، سیفٹی ہارن اور پھٹے سلنسروں کی آوازوں کی ویلاسٹی 160 ڈیسیبل سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے جو نہ صرف لوگوں کو بہرہ کرتی ہے بلکہ ان کے ذہنی اور جذباتی رویوں میں بھی کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔
آج لوگ جتنے زیادہ ڈپریشن کا شکار ہیں ہارن اور گاڑیوں کا شور اس پر جلتی کا کام کر رہے ہیں اور لوگوں کے رویے اور بھی زیادہ ترش ہوتے جا رہے ہیں جس سے آئے دن قتل اور تشدد کی بہیمانہ وارداتیں مشاہدے میں آتی ہیں، مہذب معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی ایسی شور پرستی پر سخت پابندی ہونی چاہیے؛ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو فوراً بحق سرکار ضبط کر لینا چاہیے کیونکہ ان سے آنکھوں، پھیپھڑوں، گلے اور کینسر کی بیماریاں ہی نہیں پھیلتیں بلکہ اس سے ماحول بھی بری طرح آلودہ ہوتا ہے جو گلوبل وارمنگ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ون ویلنگ، ڈینجرس میوزیکل ہارن اور ایڈوینچرل ڈرائیونگ ناقابلِ ضمانت جرائم ہونے چاہییں جن کے لیے مجرم کے خلاف ٹریفک وارڈن کو فوراً ایف آئی آر کاٹنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
چنگ چی رکشوں اور موٹر سائیکلوں پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ہر صوبے کو اپنے ہر بڑے شہر میں صوبائی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے چاہییں جو اتنی تعداد میں گاڑیوں کی صنعتکاری کریں کہ لوگوں کو ہر پانچ منٹ بعد برائے نام کرایہ پر سرکاری گاڑی میسر آ سکے، ٹریفک قوانین سے آگاہی کے لیے شہر کے ہر علاقے میں ورکشاپس اور کانفرنسز کا انعقاد ہونا چاہیے جس میں گورنمنٹ کے رجسٹرڈ وہیکل اونرز کی شمولیت ضروری ہو، ٹریفک لائسنس کے لیے سخت ترین رولز اور ٹیسٹ ہونے چاہییں اور صرف ایک ماہر ڈرائیور کو ہی لائسنس کا اجراء ہونا چاہیے اور اس بات پر بھی سخت پابندی ہو کہ صرف متعلقہ لائسنس ہولڈر ہی کسی شاہراہ پر گاڑی لانے کا مجاز ہو، سڑکوں پر ٹریفک کیمرے ہر چوک اور سگنل پر نصب ہونے چاہییں اور خلاف ورزی کنندگان کے گھروں پر چالان پہنچانے اور جرمانہ وصول کرنے کا سسٹم وضع ہونا چاہیے۔
ٹریفک وارڈنز کے لیے ہر چوک میں ڈیجیٹل مانیٹرنگ سیل قائم ہونے چاہییں جن میں بیٹھ کر وہ اپنے سرکل کی تمام ٹریفک کو ٹی وی سکرینوں پر دیکھ سکیں، اس کے علاوہ ان کے پاس راستوں سے نابلد شہریوں کو آگاہ کرنے کی گائیڈ ٹیم بھی موجود ہو، ڈرائیونگ لائسنس رینیول اور لرننگ لائسنس کی آن لائن سہولت ہونی چاہیے، دورانِ ڈرائیونگ مسلسل تین بار سگنل کی خلاف ورزی کرنے پر وارڈن کو لائسنس کینسل کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
پرائیویٹ پبلک ٹرانسپورٹ کو کسی بھی صورت میں سرکاری اڈوں کے علاوہ شہر میں کسی ایسے چوک یا اشارے کے قریب غیرقانونی اڈے بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جن کے آس پاس یا اوپر رہائشیں اور دفاتر ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ کو بھی چاہیے کہ وہ سندھ ہائیکورٹ کی طرح چنگ چی رکشوں پر از خود نوٹس کے ذریعے فوری طور پر پابندی عائد کرے تا کہ شہریوں کو شور شرابے، فضائی آلودگی اور ٹریفک حادثات سے نجات مل سکے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تعلیمی نصاب میں ٹریفک کا مضمون شامل کریں تا کہ پڑھے لکھے نوجوانوں میں ٹریفک قوانین اور شہرداری کے حقوق کے بارے میں آگاہی ہو، ٹریفک کی روانی کے لیے فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے ناجائز تجاوزات کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔