کچھ کریں نہ کریں ناخواندگی کا مسئلہ ضرور حل کریں

ایک تعلیم یافتہ شخص صرف اپنا بھلا نہیں، بلکہ معاشرے کا بھلا بھی سوچتا ہے۔

ترقی کے یکساں مواقع نہ ہونا یا صحتمند مقابلے کی فضا کا عدم دستیاب ہونا بھی ملک کا بڑا مسئلہ ہے۔ فوٹو:فائل

نہ ہی افراطِ زر، نہ اجارہ داری، نہ کرپشن، نہ چوری چکاری!

ہماری سب سے بڑی مصیبت ہے قوم، جو کہ ہے تعلیم سے عاری!

واہ واہ! یہ تو شعر بن گیا! جی ہاں، میرے بھائیوں اور بہنوں! آج قوم کے ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خود اسکول جانا چھوڑدیتے ہیں مگر جب یہ بچے بڑے ہوں گے تو صاف مُکر جائیں گے کہ آج جن حالات میں وہ ہیں اُن کے ذمہ دار وہ خود ہی ہیں۔ یہ آپ سے مجھ سے کہیں گے کہ، ہمیں زبردستی اسکول بھیجا ہوتا! اگر اسکول کا ماحول درست نہیں تھا تو آپ کو جا کر اسکول کو سدھارنا چاہیئے تھا! یہ اسکول جو ہمیں لگتا ہے کہ حکومت چلارہی ہے، یہ دراصل ہمارے ہی پیسوں سے چلتے ہیں۔ دودھ، ڈبل روٹی اور انڈوں سے لیکر پیٹرول اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ تک ہم ہر جگہ ٹیکس کٹواتے ہیں اور اس ٹیکس کا تقریباً پونے دو فیصد اسکولوں پر خرچ ہوتا ہے، لیکن نہ ہم اسکولوں کی خبر گیری کرتے ہیں، نہ اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔

اوٹ، پٹانگ نجی اسکولوں میں ناتجربہ کار، میٹرک پاس ٹیچروں کے رحم و کرم پر اپنے بچوں کو چھوڑ آتے ہیں، اور اگر ہمارے پاس دینے کو 2، 3 ہزار نہیں ہوتے ہیں تو، اپنے بچوں کو گھر بٹھا لیتے ہیں، لیکن اپنے ہی پیسے سے چلنے والے مفت اسکولوں کی طرف رجوع نہیں کرتے ہیں۔ نتیجتاً ہماری آنے والی نسل تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں بلکہ بے بہرہ ہوتی جارہی ہے، ہم یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ان پڑھ افراد کا اژدہام ہمارے بیچ پل رہا ہے اور چند سال بعد ہم، رو رہے ہونگے جب یہی ناخواندہ بچے بڑے ہوکر، ہم سے بدلہ لیں گے۔ یہ بچے لٹیرے بنیں گے، چور، ڈکیت، بھتہ خور، دادا گیر کیونکہ اسکول تو یہ کبھی گئے نہیں۔ تب ہم من حیث القوم نوحہ کناں ہونگے کہ کاش ہم نے اپنے بچوں کو پڑھا لیا ہوتا۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ افراطِ زر ہے تو اس کا سدِ باب کیا ہوگا؟ آپ کہیں گے ملک میں زرِ مبادلہ لایا جائے، درآمدات گھٹائیں، برآمدات بڑھائیں، لیکن ان سب معاملات کو نافذ کرنےکے لئے کون آگے بڑھے گا؟ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص ایسا کیسے کر پائے گا؟ تعلیم ہی ہے جو یہ شعور دے گی۔ ترقی کے یکساں مواقع نہ ہونا یا صحتمند مقابلے کی فضا کا عدم دستیاب ہونا بھی ملک کا بڑا مسئلہ ہے۔ عدل، انصاف اور شفافیت کے سب سے بڑے دشمن سیٹھ ہوتے ہیں، سیٹھ جو اجارہ داری کے دلدادہ ہوتے ہیں اور سرمائے کے علاوہ کسی اور مفاد کو عزیز نہیں رکھتے ہیں۔ یہ نہ رشوت ستانی سے چوکتے ہیں نہ کسی اور طرح کی بد عنوانی سے۔ اس استحصالانہ سوچ کا ایک ہی حل ہے، تعلیم! ایک تعلیم یافتہ شخص آئین و قانون کو اہم جانتا ہے نہ کہ قدیم خاندانی روایات کو، جو ضروری نہیں کہ قانون کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہوں۔ ایک تعلیم یافتہ شخص صرف اپنا بھلا نہیں، معاشرے کا بھلا بھی سوچتا ہے، سرمایہ کاری صرف کاروبار میں نہیں، ملازمین کی تربیت میں بھی کرتا ہے اور معاشرے کی ترقی میں بھی کرتا ہے۔


مزدوروں اور کنٹریکٹ ملازمین کا استحصال ضروری نہیں ہے کہ صرف سیٹھ اور ساہوکار ہی کریں، ڈگری یافتہ افراد بھی اس ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن، اس ظلم کو سہنے والے عموماً ناخواندہ ہوتے ہیں یا پھر تعلیم یافتہ تو ہوتے ہیں مگر صرف نام کے۔ ایک خواندہ و باشعور شخص ایسے کانٹیریکٹ پر عموماً دستخط ہی نہیں کرے گا جو اس کے بنیادی شہری و انسانی حقوق مجروح کرے اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اپنے حقوق کے لئے لڑے گا ضرور۔

کرپشن کی بیخ کنی بھی صرف تعلیم یافتہ لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ تعلیم ہمیں شعور و آگاہی دیتی ہے، صحیح و غلط کا فرق بتاتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ باشعور شخص ''اوپر کی کمائی'' کو حق نہیں ''لعنت'' تصور کرتا ہے۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے۔ اگر قانوناً اس کی ہار ہو تو اس فیصلہ کو صحیح سمجھتا ہے، اس کے برعکس ایک بدعنوان شخص اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر رشوت ستانی اور کرپشن کے ذریعہ فیصلہ اپنے حق میں کروانے پر اڑا رہتا ہے۔

انسانیت تعلیم کا اہم ترین جزو ہے، ایسا ضرور ہے بہت سے افراد کو اردو و انگریزی پڑھنا و لکھنا آگئی ہے لیکن تعلیم کے اصل جوہر سے یہ بے بہرہ ہی ہیں اور وہ جوہر ہے خود داری، ایمانداری اور یہ جوہر اکثر ہمیں ان افراد میں بھی دِکھ جاتا ہے جو ہاتھ، پیر یا بینائی کے نہ ہونے کو اپنی ترقی میں حائل نہیں ہونے دیتے ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے دنیا کی ہر درسگاہ تک جا پہنچتے ہیں۔ خواب ہم ایشین ٹائگر بننے کے دیکھتے ہیں، لیکن اس خواب کی بنیاد تعلیم پر ہی رکھی جاسکتی ہے، جو اقوام آج ترقی یافتہ ہیں، انھوں نے پہلے اپنے نظامِ تعلیم کو بہتر بنایا اور پھر ہر شہری کو تعلیم یافتہ بنایا۔ ترقی خود بخود وارد ہوگئی۔

[poll id="701"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story