ایک ممکنہ امریکی صدر سے ملاقات
ہر بڑے کاروباری کی طرح ٹرمپ کو بھی مشکلات درپیش رہیں۔
آئیے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملیے۔
قد چھ فٹ تین انچ ، عمر انسٹھ برس ، نسلی شجرہ جرمن ، فرقہ پروٹسٹنٹ، رہائشی پتہ نیویارک ، یونیورسٹی آف پنسلوینیا وارٹن اسکول گریجویٹ، معاشقے بیسیوں، شادیاں تین، طلاقیں دو ، بچے پانچ ( ایک بیٹی نے یہودیت اختیار کرلی ) ، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سات ، ذاتی دولت کا اندازہ چار ارب ڈالر ، مینشن درجن بھر، ایک عدد ذاتی بوئنگ سات سو ستاون جس میں بیڈ رومز ، کانفرنس روم ، کچن ، لاؤنج میں خالص ریشم کے کاؤچ اور سیٹ بیلٹس گولڈ پلیٹڈ ، کاروباری گر سے متعلق سترہ کتابوں کے مصنف ، عمدہ کھانے کے بے حد شوقین ، این بی سی کے مقبول رئیلٹی شو اپرینٹس کے بارہ برس تک اینکر ( فی شو معاوضہ پچاس ہزار ڈالر سے شروع ہو کر تین ملین ڈالر تک وصول کیا )۔
مگر بنیادی وجہ شہرت والد سے ورثے میں ملا رئیل اسٹیٹ کاروبار ہے۔اس کی مدد سے دیگر کاروباری شعبوں میں بھی ہاتھ ڈالا۔نیویارک کے قلب مین ہیٹن میں لاکھوں اسکوائر فٹ کمرشل پروجیکٹ ڈویلپ کیے اور دیگر کمپنیوں کے تعمیراتی منصوبوں کی اشتہاری مہم میں اپنا نام بطور فرنچائز استعمال کرنے کا معاوضہ لیا ( فوربس میگزین کے مطابق ٹرمپ برانڈ کی ویلیو دو سو ملین ڈالر ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ ویلیو تین ارب ڈالر تک بتاتے ہیں )۔
مشہور املاک اور منصوبوں میں اٹلانٹا کا عالمی شہرت یافتہ کیسینو تاج محل ، نیویارک کا اٹھاون منزلہ ٹرمپ ٹاور، شکاگو ، ہونولولو ، ٹیمپا اور ٹورنٹو میں ٹرمپ ہوٹل اینڈ ٹاورز کا رہائشی و کمرشل سلسلہ ، ٹرمپ مورڈگیج کمپنی ، ٹرمپ سیلز اینڈ لیزنگ ، ٹرمپ ریسٹورنٹس ، '' گو ٹرمپ '' ٹریول کمپنی ، ٹرمپ کلیکشن (مردانہ کپڑے اور گھڑیاں )، ٹرمپ ہوم فرنیچر، ٹرمپ فریگرینس، ٹرمپ چاکلیٹ، ٹرمپ آئس، ٹرمپ ووڈکا، ٹرمپ اسٹیکس، ٹرمپ گولف کے نام سے متعدد گولف کورسز کی ملکیت و مینجمنٹ ، ٹرمپ پروڈکشن ( ٹی وی پروڈکشن کمپنی ) ، ڈونلڈ ٹرمپ رئیل اسٹیٹ (بزنس سیمولیشن گیم )۔
ٹرمپ ماڈل مینجمنٹ کے تحت انیس سو پچانوے سے مس یونیورس اور مس یو ایس اے مقابلے بھی منعقد کروا رہے ہیں۔( مذکورہ کاروباری فہرست میں چند ایسی کمپنیاں اور مصنوعات بھی شامل ہیں جو ٹرمپ نے کسی مرحلے پر بیچ دیں یا بند کردیں )
ہر بڑے کاروباری کی طرح ٹرمپ کو بھی مشکلات درپیش رہیں۔جیسے انیس سو اٹھاسی میں تاج محل کیسینو خریدنے کے بعد رئیل اسٹیٹ کاروبار پر قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا کہ دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے کیسینو ، دی ٹرمپ شٹل ایر لائن اور دو سو بیاسی فٹ کی لگژری کشتی ٹرمپ پرنسس فروخت کرنا پڑی ، انیس سو ننانوے میں والد کے چھوڑے تین سو ملین ڈالر کے اثاثوں کا چوتھا حصہ ملا ( دو بہنیں دو بھائی)۔
صدارتی انتخاب لڑنے کا عرصے سے شوق ہے۔ انیس سو اٹھاسی ، دو ہزار چار اور دو ہزار بارہ میں صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کا عندیہ دیا۔دو ہزار چھ اور چودہ میں نیویارک اسٹیٹ کی گورنر شپ کی دوڑ میں بھی کودتے کودتے رہ گئے۔ بالاخر آیندہ برس کی صدارتی امیدواری کے لیے ری پبلیکن پارٹی کے پلیٹ فارم پر چار ماہ پہلے کود ہی گئے۔اب تک انھیں دیگر پارٹی امیدواروں جیف بش (جارج بش کے چھوٹے بھائی ) اور اسکاٹ والکر پر سبقت حاصل ہے لیکن ٹرمپ کو یہ سبقت اگلے جولائی میں ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی کنونشن تک برقرار رکھنی ہے۔
صدارتی ٹکٹ ملنے کی صورت میں ان کا مقابلہ ممکنہ ڈیمو کریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن سے ہوسکتا ہے۔ٹرمپ کے حامیوں میں زیادہ تر سفید فام ، جنوبی ریاستوں کے مذہبی قدامت پرست ، نسل پرست اور یہودی لابی نمایاں ہے۔وہ پہلے امیدوار ہیں جن کی صدارتی کامیابی کے لیے ایوانجلیکل چرچ کے کچھ پادری ابھی سے خصوصی دعائیں کروا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اولین سیاسی شہرت اپریل دو ہزار گیارہ میں ملی جب انھوں نے بارک اوباما کی امریکی شہریت چیلنج کی۔ اوباما نے جب ریاست ہوائی کا برتھ سرٹیفکیٹ لہرا دیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے پینترا بدل کر کہا خدا معلوم نقلی ہے کہ اصلی۔ موجودہ صدارتی دوڑ میں ٹرمپ نے ایک بار پھر اوباما کی امریکی شہریت کا مسئلہ اٹھا دیا ہے۔ ان کے چھیاسٹھ فیصد حامیوں کو آج بھی یقین ہے کہ اوباما نہ صرف غیر ملکی بلکہ مسلمان ہیں۔
دو ہزار تیرہ کے اسرائیلی انتخابات کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کے بنجمن نیتن یاہو کی حمایت کی۔چھ ماہ پہلے انھیں اسرائیل امریکا تعلقات کے فروغ میں نمایاں خدمات پر لبرٹی ایوارڈ عطا ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کھلے ڈلے آدمی ہیں اور جو چاہتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ان کے حامی اس عادت کو راست گوئی اور مخالفین اجڈ پن مانتے ہیں۔سابق صدر جارج بش (جونیئر ) کی طرح ٹرمپ کی تقاریر اور انٹرویوز کے بعض جملے متنازعہ مگر مقبول ہیں اور ان سے یہ بھی اندازہ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ امریکا کے اگلے صدر بنتے ہیں تو وہ کیسا امریکا ہوگا۔ چند اقوالِ زریں پیشِ خدمت ہیں۔
مجھ میں اور دیگر امیدواروں میں یہ فرق ہے کہ میں زیادہ ایمان دار اور مجھ سے متعلق خواتین زیادہ حسین ہیں۔
خواتین کے باب میں بس ایک افسوس رہے گا کہ لیڈی ڈیانا کو راغب نہیں کرسکا۔
فاکس نیوز کے پہلے ری پبلیکن مباحثے کی ناظمہ میگن کیلی نے مجھ سے الٹے سیدھے سوال پوچھے۔شائد ماہواری کے سبب...
ہم اتنی کامیابیاں حاصل کریں گے کہ آپ لفظ کامیابی سے بور ہوجائیں گے۔
میں نے کچھ برا نہیں کیا۔میں نے کیا برا کیا ؟ مجھے پسند کرو یا ناپسند مگر ٹرمپ جو چاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے۔ زندگی میں ہر شے قسمت سے جڑی ہے۔میری ایک خوبی یہ بھی ہے کہ میں امیر ہوں۔میں بے وقوف نہیں خاصا اسمارٹ آدمی ہوں۔ میں نے ہمیشہ سخت فیصلے کیے ہیں اور نتائج پر بھی نظر رکھی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکا کا نظام ایک کاروبار کی طرح چلایا جائے۔
جمی کارٹر ایرفورس ون ( صدارتی طیارہ ) سے اترتے ہوئے اپنا بیگ خود اٹھاتے تھے۔کارٹر شریف آدمی تھے لیکن ہمیں ایسا صدر چاہیے جو باہر نکل کے تشریف پے ٹھڈا رسید کرے اور جیت جائے نہ کہ انڈر وئیرز سے بھرا بیگ اٹھاتا پھرے۔
جب ایران سے جوہری مذاکرات کے دوران جان کیری سائیکل سے گر کے ٹانگ تڑوا بیٹھے تو ایرانیوں نے ضرور سوچا ہوگا کیسا چغد آدمی ہے۔
اوباما نے اتنی مایوس کن کارکردگی دکھائی ہے کہ کئی نسلوں تک کوئی سیاہ فام امریکا کا صدر نہیں بن سکتا۔ہمارے عظیم افریقی امریکن صدر کے کردار کا ان غنڈوں ( سیاہ فام ) پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا جو بالٹی مور کو خوشی خوشی کھلم کھلا برباد کررہے ہیں۔سست روی سیاہ فاموں کا وصف ہے۔وہ میری دولت گن رہے ہیں اور اس عادت سے مجھے نفرت ہے۔
گلوبل وارمنگ کا تصور چینیوں کی ایجاد ہے تاکہ امریکی مصنوعات کو نیچا دکھایا جاسکے۔ہم ان کی مصنوعات پر پچیس فیصد ٹیکس لگائیں گے۔نیویارک میں سخت سردی ہے۔اسیگلوبل وارمنگ کی بے حد ضرورت ہے۔
میں جنوبی سرحد پر دیوار بناؤں گا اور اس کا خرچہ میکسیکو سے وصول کروں گا۔میکسیکو سے آنے والے زیادہ تر لوگ مجرم ، منشیات فروش اور ریپسٹ ہیں۔شائد کچھ شریف لوگ بھی ہوں۔
ایسے وقت جب تیل کی قیمتیں نیچے آ گئی ہیں سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔سعودی عرب ہمارا دوست نہیں ہوسکتا۔
ہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا میں مسلمان ایک مسئلہ ہیں۔ورلڈ ٹریڈ ٹاور تباہ کرنے والے سویڈن سے تو نہیں آئے۔
قد چھ فٹ تین انچ ، عمر انسٹھ برس ، نسلی شجرہ جرمن ، فرقہ پروٹسٹنٹ، رہائشی پتہ نیویارک ، یونیورسٹی آف پنسلوینیا وارٹن اسکول گریجویٹ، معاشقے بیسیوں، شادیاں تین، طلاقیں دو ، بچے پانچ ( ایک بیٹی نے یہودیت اختیار کرلی ) ، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سات ، ذاتی دولت کا اندازہ چار ارب ڈالر ، مینشن درجن بھر، ایک عدد ذاتی بوئنگ سات سو ستاون جس میں بیڈ رومز ، کانفرنس روم ، کچن ، لاؤنج میں خالص ریشم کے کاؤچ اور سیٹ بیلٹس گولڈ پلیٹڈ ، کاروباری گر سے متعلق سترہ کتابوں کے مصنف ، عمدہ کھانے کے بے حد شوقین ، این بی سی کے مقبول رئیلٹی شو اپرینٹس کے بارہ برس تک اینکر ( فی شو معاوضہ پچاس ہزار ڈالر سے شروع ہو کر تین ملین ڈالر تک وصول کیا )۔
مگر بنیادی وجہ شہرت والد سے ورثے میں ملا رئیل اسٹیٹ کاروبار ہے۔اس کی مدد سے دیگر کاروباری شعبوں میں بھی ہاتھ ڈالا۔نیویارک کے قلب مین ہیٹن میں لاکھوں اسکوائر فٹ کمرشل پروجیکٹ ڈویلپ کیے اور دیگر کمپنیوں کے تعمیراتی منصوبوں کی اشتہاری مہم میں اپنا نام بطور فرنچائز استعمال کرنے کا معاوضہ لیا ( فوربس میگزین کے مطابق ٹرمپ برانڈ کی ویلیو دو سو ملین ڈالر ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ ویلیو تین ارب ڈالر تک بتاتے ہیں )۔
مشہور املاک اور منصوبوں میں اٹلانٹا کا عالمی شہرت یافتہ کیسینو تاج محل ، نیویارک کا اٹھاون منزلہ ٹرمپ ٹاور، شکاگو ، ہونولولو ، ٹیمپا اور ٹورنٹو میں ٹرمپ ہوٹل اینڈ ٹاورز کا رہائشی و کمرشل سلسلہ ، ٹرمپ مورڈگیج کمپنی ، ٹرمپ سیلز اینڈ لیزنگ ، ٹرمپ ریسٹورنٹس ، '' گو ٹرمپ '' ٹریول کمپنی ، ٹرمپ کلیکشن (مردانہ کپڑے اور گھڑیاں )، ٹرمپ ہوم فرنیچر، ٹرمپ فریگرینس، ٹرمپ چاکلیٹ، ٹرمپ آئس، ٹرمپ ووڈکا، ٹرمپ اسٹیکس، ٹرمپ گولف کے نام سے متعدد گولف کورسز کی ملکیت و مینجمنٹ ، ٹرمپ پروڈکشن ( ٹی وی پروڈکشن کمپنی ) ، ڈونلڈ ٹرمپ رئیل اسٹیٹ (بزنس سیمولیشن گیم )۔
ٹرمپ ماڈل مینجمنٹ کے تحت انیس سو پچانوے سے مس یونیورس اور مس یو ایس اے مقابلے بھی منعقد کروا رہے ہیں۔( مذکورہ کاروباری فہرست میں چند ایسی کمپنیاں اور مصنوعات بھی شامل ہیں جو ٹرمپ نے کسی مرحلے پر بیچ دیں یا بند کردیں )
ہر بڑے کاروباری کی طرح ٹرمپ کو بھی مشکلات درپیش رہیں۔جیسے انیس سو اٹھاسی میں تاج محل کیسینو خریدنے کے بعد رئیل اسٹیٹ کاروبار پر قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا کہ دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے کیسینو ، دی ٹرمپ شٹل ایر لائن اور دو سو بیاسی فٹ کی لگژری کشتی ٹرمپ پرنسس فروخت کرنا پڑی ، انیس سو ننانوے میں والد کے چھوڑے تین سو ملین ڈالر کے اثاثوں کا چوتھا حصہ ملا ( دو بہنیں دو بھائی)۔
صدارتی انتخاب لڑنے کا عرصے سے شوق ہے۔ انیس سو اٹھاسی ، دو ہزار چار اور دو ہزار بارہ میں صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کا عندیہ دیا۔دو ہزار چھ اور چودہ میں نیویارک اسٹیٹ کی گورنر شپ کی دوڑ میں بھی کودتے کودتے رہ گئے۔ بالاخر آیندہ برس کی صدارتی امیدواری کے لیے ری پبلیکن پارٹی کے پلیٹ فارم پر چار ماہ پہلے کود ہی گئے۔اب تک انھیں دیگر پارٹی امیدواروں جیف بش (جارج بش کے چھوٹے بھائی ) اور اسکاٹ والکر پر سبقت حاصل ہے لیکن ٹرمپ کو یہ سبقت اگلے جولائی میں ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی کنونشن تک برقرار رکھنی ہے۔
صدارتی ٹکٹ ملنے کی صورت میں ان کا مقابلہ ممکنہ ڈیمو کریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن سے ہوسکتا ہے۔ٹرمپ کے حامیوں میں زیادہ تر سفید فام ، جنوبی ریاستوں کے مذہبی قدامت پرست ، نسل پرست اور یہودی لابی نمایاں ہے۔وہ پہلے امیدوار ہیں جن کی صدارتی کامیابی کے لیے ایوانجلیکل چرچ کے کچھ پادری ابھی سے خصوصی دعائیں کروا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اولین سیاسی شہرت اپریل دو ہزار گیارہ میں ملی جب انھوں نے بارک اوباما کی امریکی شہریت چیلنج کی۔ اوباما نے جب ریاست ہوائی کا برتھ سرٹیفکیٹ لہرا دیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے پینترا بدل کر کہا خدا معلوم نقلی ہے کہ اصلی۔ موجودہ صدارتی دوڑ میں ٹرمپ نے ایک بار پھر اوباما کی امریکی شہریت کا مسئلہ اٹھا دیا ہے۔ ان کے چھیاسٹھ فیصد حامیوں کو آج بھی یقین ہے کہ اوباما نہ صرف غیر ملکی بلکہ مسلمان ہیں۔
دو ہزار تیرہ کے اسرائیلی انتخابات کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کے بنجمن نیتن یاہو کی حمایت کی۔چھ ماہ پہلے انھیں اسرائیل امریکا تعلقات کے فروغ میں نمایاں خدمات پر لبرٹی ایوارڈ عطا ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کھلے ڈلے آدمی ہیں اور جو چاہتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ان کے حامی اس عادت کو راست گوئی اور مخالفین اجڈ پن مانتے ہیں۔سابق صدر جارج بش (جونیئر ) کی طرح ٹرمپ کی تقاریر اور انٹرویوز کے بعض جملے متنازعہ مگر مقبول ہیں اور ان سے یہ بھی اندازہ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ امریکا کے اگلے صدر بنتے ہیں تو وہ کیسا امریکا ہوگا۔ چند اقوالِ زریں پیشِ خدمت ہیں۔
مجھ میں اور دیگر امیدواروں میں یہ فرق ہے کہ میں زیادہ ایمان دار اور مجھ سے متعلق خواتین زیادہ حسین ہیں۔
خواتین کے باب میں بس ایک افسوس رہے گا کہ لیڈی ڈیانا کو راغب نہیں کرسکا۔
فاکس نیوز کے پہلے ری پبلیکن مباحثے کی ناظمہ میگن کیلی نے مجھ سے الٹے سیدھے سوال پوچھے۔شائد ماہواری کے سبب...
ہم اتنی کامیابیاں حاصل کریں گے کہ آپ لفظ کامیابی سے بور ہوجائیں گے۔
میں نے کچھ برا نہیں کیا۔میں نے کیا برا کیا ؟ مجھے پسند کرو یا ناپسند مگر ٹرمپ جو چاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے۔ زندگی میں ہر شے قسمت سے جڑی ہے۔میری ایک خوبی یہ بھی ہے کہ میں امیر ہوں۔میں بے وقوف نہیں خاصا اسمارٹ آدمی ہوں۔ میں نے ہمیشہ سخت فیصلے کیے ہیں اور نتائج پر بھی نظر رکھی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکا کا نظام ایک کاروبار کی طرح چلایا جائے۔
جمی کارٹر ایرفورس ون ( صدارتی طیارہ ) سے اترتے ہوئے اپنا بیگ خود اٹھاتے تھے۔کارٹر شریف آدمی تھے لیکن ہمیں ایسا صدر چاہیے جو باہر نکل کے تشریف پے ٹھڈا رسید کرے اور جیت جائے نہ کہ انڈر وئیرز سے بھرا بیگ اٹھاتا پھرے۔
جب ایران سے جوہری مذاکرات کے دوران جان کیری سائیکل سے گر کے ٹانگ تڑوا بیٹھے تو ایرانیوں نے ضرور سوچا ہوگا کیسا چغد آدمی ہے۔
اوباما نے اتنی مایوس کن کارکردگی دکھائی ہے کہ کئی نسلوں تک کوئی سیاہ فام امریکا کا صدر نہیں بن سکتا۔ہمارے عظیم افریقی امریکن صدر کے کردار کا ان غنڈوں ( سیاہ فام ) پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا جو بالٹی مور کو خوشی خوشی کھلم کھلا برباد کررہے ہیں۔سست روی سیاہ فاموں کا وصف ہے۔وہ میری دولت گن رہے ہیں اور اس عادت سے مجھے نفرت ہے۔
گلوبل وارمنگ کا تصور چینیوں کی ایجاد ہے تاکہ امریکی مصنوعات کو نیچا دکھایا جاسکے۔ہم ان کی مصنوعات پر پچیس فیصد ٹیکس لگائیں گے۔نیویارک میں سخت سردی ہے۔اسیگلوبل وارمنگ کی بے حد ضرورت ہے۔
میں جنوبی سرحد پر دیوار بناؤں گا اور اس کا خرچہ میکسیکو سے وصول کروں گا۔میکسیکو سے آنے والے زیادہ تر لوگ مجرم ، منشیات فروش اور ریپسٹ ہیں۔شائد کچھ شریف لوگ بھی ہوں۔
ایسے وقت جب تیل کی قیمتیں نیچے آ گئی ہیں سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔سعودی عرب ہمارا دوست نہیں ہوسکتا۔
ہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا میں مسلمان ایک مسئلہ ہیں۔ورلڈ ٹریڈ ٹاور تباہ کرنے والے سویڈن سے تو نہیں آئے۔