کارل مارکس کی واپسی
شہ سرخی کیا تھی، تاریخ کے ایک طویل دائرے کا خلاصہ تھا۔
شہ سرخی کیا تھی، تاریخ کے ایک طویل دائرے کا خلاصہ تھا۔ رائٹر کی خبر تھی اور برطانیہ کے ایک نمایاں اخبار کی پیشانی۔۔۔ کارل مارکس کی واپسی۔ تفصیل کچھ یوں تھی، کارل مارکس کے مجوزہ طریقہ ء کار سے اختلاف ہو سکتا ہے کہ اس نظام کا کیا جائے؟ لیکن سرمایہ دارانہ نظام بنیادی طور پر کس طرح کام کرتا ہے، کارل مارکس کا تجزیہ اور نظریات آج بھی کلاسیکل اکنامکس کا جیتا جاگتا حصہ ہیں۔
برطانیہ میں حال ہی میں شکست کے بعد لیبر پارٹی کی قیادت کی تبدیلی کا مرحلہ طے ہوا تو غیر متوقع امیدوار گیریمی کوربائن سامنے آئے۔ موصوف بائیں بازو کے خیالات کے ببانگ دہل حامل ہیں۔
انھوں نے اپنی شیڈو کابینہ کے لیے ایک سابق یونین لیڈر میکڈونلڈ کا انتخاب کیا جنھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ عقدہ کھولا کہ کارل مارکس پھر سے، فیشن میں ہے۔ ان کے بقول غلط یا صیح کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر یہ طے ہے کہ کارل مارکس کا نظریہ سرمایہ داری کی بنیادوں اور اس کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے آج بھی بر محل ہے۔ کوئی ہما شما کہتا تو ہم شک شبہے اور سازش کی تلاش کرتے مگر یہ بات تو سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز سے چھڑی ، سو اگر مگر کے تردد میں پڑے بغیر اس پر کان دھرے اور اس اطلاع کی پرکھ پرچول کرنے کی کوشش کی۔کارل مارکس ایک جرمن فلاسفر تھا۔
موصوف کا زمانہ ۱۸۱۸ سے ۱۸۸۳ تک کا تھا۔ یہ دور یورپ میں بہت تہلکہ خیز تھا۔ صنعتی دور شروع ہو چکا تھا۔ دولت کی پیداوار کا غالب حصہ زراعت کی بجائے صنعت سے آنا شروع ہوا۔ لیبر کی حیثیت فقط ایک پیداواری عنصر کی ٹھہری۔ معاوضہ اس قدر کم کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے، حا لات کار اپنی جگہ پر بد تر رہے۔ ایسے میں لیبر کا استحصال دلیری سے ہوا۔اسی استحصال نے آگے جا کر امریکا میں شکاگو میں مزدور تحریک کو جنم دیا۔
اس پس منظر میں کارل مارکس نے تاریخ میں انسانی طبقات کی کشمکش کو کھنگال کر یہ نظریہ پیش کیا کہ تاریخ میں ہمیشہ طبقاتی کشمکش رہی ہے۔ طاقتور طبقے پیداواری وسائل پر قابض رہتے ہیں ۔ لیبر کے ہاتھ قلیل معاوضہ تھما کر دولت کی پیداوارکا باقی حصہ اپنے پاس رکھ لیتے اور یوں پیداواری عمل میں وہ امیر تر اور لیبر مسلسل تہی دست۔ اس یکطرفہ عمل میں تہی دست طبقات چاروناچار مدافعت پر اتر آتے ہیں اور بالآخر بالا دست طبقات پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے مقطع میں وہ سخن گسترانہ بات آ پڑتی ہے جہاں اس الجھن کے لیے سوشلزم اور کمیونزم کی سلجھن کا راستہ تجویز ہوتا ہے۔
سوشلزم اور کمیونزم کے سیاسی انتظام نے جو شکل اختیار کی وہ بجائے خود تضادات اور انسانی جبلت سے متصادم راہ پر چل نکلا۔ اپنی اس مخصوص شکل میں وہ سیاسی انتظام اپنے انجام کو پہنچ گیا لیکن طبقات کی کشمکش کی ازلی کہانی جوں کی توں جاری ہے۔ بلکہ سوشلزم کی سیاسی مراجعت کے بعد سرمایہ دارانہ نظام تگڑا ہو کر سامنے آیا۔ سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔ نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام نے اس کے بعد خوب پر پرزے نکالے بلکہ اپنی لاٹھی سے دنیا بھر سے مرضی کی بھینسیں ہانکنے کا کل وقتی کام بھی شروع کر دیا۔ ایک تو کریلا دوسرے نیم چڑھا، دنیا جلد ہی تھو تھو کر اٹھی۔ امریکا میں نوے کی دہائی کے آخر میں آئی ٹیک کا بلبلا پھٹا ، اسٹاک ایکسچینج کا غبارہ پھٹا تو معیشت کے آنگن میں مندے نے ڈیرے ڈال دیے۔
ذرا دم لے کر بینک اور فری مارکیٹ اکانومی پھر سے بر سر پیکار ہو گئے۔ دولت ایک بار پھر ادھر ادھر اچھلنے لگی۔ فنانشل سروسز اور پراپرٹی نئی محبت کے طور پر ابھرے۔ ایلن گرین اسپین نے فری مارکیٹ اکانومی کے سر پر مسلسل شفقت کا ہاتھ رکھا اور مارکیٹ اکانومی میں حکومتی مداخلت کے فلسفے کو کھونٹے سے باندھ دیا۔ ۲۰۰۸ کی خزاں نے شب خون مارا تو عقدہ کھلا کہ جن بینکوں پہ ناز تھا وہ تو بے شمار قانونی خلاف ورزیوں کے ذریعے دولت کے انبار لگا رہے تھے۔ پردہ ہٹا تو بڑے بڑے بینک راتوں رات افسانہ ہو گئے۔
پراپرٹی کے دام اونے رہے نہ پونے۔ فری مارکیٹ کی علمبردار حکومتوں کو ٹیکس گذاروں کے سرمائے سے ان بینکوں کو سنبھالا دینا پڑا ۔ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ سرمایہ داری کا ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا اگرمارکیٹ اکانومی کا یہ بنجارہ کہیں اور لاد گیا۔ عقل عیار نے آن ہی آن میں جواز گھڑا کہ اس کے سکہ بند نظریات کے بر عکس اب حکومتی مداخلت ہی سب سے دانشمندی ہے۔ امریکا سے لے کر یورپ تک اربوں ڈالر ، پونڈ اور یورو کی کمک پہنچی تو بینک اور مارکیٹیں سنبھلیں۔اقتصادی حالات سنبھلے تو اندازا ہوا کہ معاشی بہتری کا بیشتر فائدہ تو سینیئر کارپوریٹ ایگزیکٹوز کو ہوا، بیچارے ورکرز پھر سے نیچے کے نیچے کھڑے رہ گئے۔
معاشی عدم مساوات کا یہ جانا پہچانا کھیل دیکھ کر چند سر پھرے نیویارک میں جمع ہو گئے۔ احتجاج کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ دولت کا اس قدر یکطرفہ ارتکاز ہوا ہے کہ اب ننانوے فیصد لوگ نیچے ہیں اور ایک فیصد ان کے بالا دست۔ گونجنے والا نعرہ ہی کہانی کا خلاصہ تھا۔ ہم ننانوے فیصد ہیں۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں شامل احتجاج ہو گئے۔ دنیا بھر میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ پھیل گیا۔ سرمایہ دار میڈیا اور سسٹم کی پہریدار حکومتیں حرکت میں آئیں، وقتی طور پر یہ تحریک دھیرے دھیرے دب گئی یا اپنا جلوہ دکھا کر وقتی طور پر سکوت کے آنگن میں اتر گئی لیکن جن حالات نے اس تحریک کو منظم کیا وہ حالات جوں کے توں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام انیسویں صدی کے الھڑپن سے گزر کر اب گھاگ ہو چکا ہے۔
اپنا بھلا تو خوب سمجھتا ہی ہے زیر دست طبقات کا برا ان سے بہتر جانتا ہے۔ کارل مارکس کے تجویز کردہ انتظام کو ٹھکانے لگانے میں اس نظام کی خامیوں کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی عیاریوں کا بھی کھل کر استعمال کیا۔ سو اب سرمایہ دارانہ نظام کی قوت مدافعت پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ میڈیا، اکیڈمکس اور قانون سازی پر مکمل گرفت نے کسی بھی فوری خطرے سے فی الحال سرمایہ داری کو محفوظ کر لیا ہے لیکن اس کی تعمیر میں مضمر خرابی اسے کل کلاں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دے گی۔ انسانی تاریخ میں لالچ اور ہوس کی صدیوں سے بھر پور کہانی کا دستور ہی کچھ ایسا رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم او ای سی ڈی کی ۲۰۱۱ کی اپنی رپورٹ کے مطابق دس فیصد امیر طبقات کی آمدن گزشتہ تین دہائیوں میں دس فیصد غریب ترین طبقات کی نسبت نو گنا بڑھی۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں یہ فرق اس سے کہیں تیزی سے بڑھا۔ مجموعی طور پر عالم میں معاشی عدم مساوات کا حال یہ ہوا کہ اوکسفیم کی معاشی عدم مساوات کی اس سال کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۹ میں دنیا کی اشرافیہ کے پاس دنیا کی دولت کا چوالیس فیصد حصہ تھا جو پانچ سالوں میں بڑھ کر اڑتالیس فیصد ہو گیا۔ اس پس منظر میں حیرت نہیں ہوتی کہ گاہے گاہے سرمایہ دار ملکوں میں بائیں بازو کے دھڑے مضبوط ہوئے ہیں۔
تازہ ترین اظہار اب برطانیہ میں لیبر پارٹی کی قیادت کے انتخاب کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ترقی پزیر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی وسائل پر اشرافیہ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ معاشی عدم مساوات کے پاؤں مسلسل پھیل رہے ہیں۔ جس شدت پسندی کا پاکستان شکار ہے اس کے کچھ ڈانڈے غربت اور بے روزگاری سے بھی ملتے ہیں۔ حکومت اور سیاست ہے کہ لوٹ مار اور معاشی مفادات کے ہاتھوں میںہاتھ دے بیٹھی ہے۔ کارل مارکس کا تجویز کردہ راستہ اپنے انجام کو ضرور پہنچا لیکن عالم میں چار دانگ پھیلی غربت، معاشی عدم مساوات اور وسائل پر بلا شرکت غیرے بالا دست طبقوں کا تصرف ڈیڑھ سو سال پہلے بھی اسی طرح موجود تھا اور آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ ان حالات میں اگر لیبر پارٹی کے نئے لیڈر کہتے ہیں کہ کارل مارکس پھر سے فیشن میں ہے تو ضرور سرمایہ داری کی دال میں کہیں نہ کہیں کالا ہے۔
برطانیہ میں حال ہی میں شکست کے بعد لیبر پارٹی کی قیادت کی تبدیلی کا مرحلہ طے ہوا تو غیر متوقع امیدوار گیریمی کوربائن سامنے آئے۔ موصوف بائیں بازو کے خیالات کے ببانگ دہل حامل ہیں۔
انھوں نے اپنی شیڈو کابینہ کے لیے ایک سابق یونین لیڈر میکڈونلڈ کا انتخاب کیا جنھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ عقدہ کھولا کہ کارل مارکس پھر سے، فیشن میں ہے۔ ان کے بقول غلط یا صیح کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر یہ طے ہے کہ کارل مارکس کا نظریہ سرمایہ داری کی بنیادوں اور اس کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے آج بھی بر محل ہے۔ کوئی ہما شما کہتا تو ہم شک شبہے اور سازش کی تلاش کرتے مگر یہ بات تو سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز سے چھڑی ، سو اگر مگر کے تردد میں پڑے بغیر اس پر کان دھرے اور اس اطلاع کی پرکھ پرچول کرنے کی کوشش کی۔کارل مارکس ایک جرمن فلاسفر تھا۔
موصوف کا زمانہ ۱۸۱۸ سے ۱۸۸۳ تک کا تھا۔ یہ دور یورپ میں بہت تہلکہ خیز تھا۔ صنعتی دور شروع ہو چکا تھا۔ دولت کی پیداوار کا غالب حصہ زراعت کی بجائے صنعت سے آنا شروع ہوا۔ لیبر کی حیثیت فقط ایک پیداواری عنصر کی ٹھہری۔ معاوضہ اس قدر کم کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے، حا لات کار اپنی جگہ پر بد تر رہے۔ ایسے میں لیبر کا استحصال دلیری سے ہوا۔اسی استحصال نے آگے جا کر امریکا میں شکاگو میں مزدور تحریک کو جنم دیا۔
اس پس منظر میں کارل مارکس نے تاریخ میں انسانی طبقات کی کشمکش کو کھنگال کر یہ نظریہ پیش کیا کہ تاریخ میں ہمیشہ طبقاتی کشمکش رہی ہے۔ طاقتور طبقے پیداواری وسائل پر قابض رہتے ہیں ۔ لیبر کے ہاتھ قلیل معاوضہ تھما کر دولت کی پیداوارکا باقی حصہ اپنے پاس رکھ لیتے اور یوں پیداواری عمل میں وہ امیر تر اور لیبر مسلسل تہی دست۔ اس یکطرفہ عمل میں تہی دست طبقات چاروناچار مدافعت پر اتر آتے ہیں اور بالآخر بالا دست طبقات پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے مقطع میں وہ سخن گسترانہ بات آ پڑتی ہے جہاں اس الجھن کے لیے سوشلزم اور کمیونزم کی سلجھن کا راستہ تجویز ہوتا ہے۔
سوشلزم اور کمیونزم کے سیاسی انتظام نے جو شکل اختیار کی وہ بجائے خود تضادات اور انسانی جبلت سے متصادم راہ پر چل نکلا۔ اپنی اس مخصوص شکل میں وہ سیاسی انتظام اپنے انجام کو پہنچ گیا لیکن طبقات کی کشمکش کی ازلی کہانی جوں کی توں جاری ہے۔ بلکہ سوشلزم کی سیاسی مراجعت کے بعد سرمایہ دارانہ نظام تگڑا ہو کر سامنے آیا۔ سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔ نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام نے اس کے بعد خوب پر پرزے نکالے بلکہ اپنی لاٹھی سے دنیا بھر سے مرضی کی بھینسیں ہانکنے کا کل وقتی کام بھی شروع کر دیا۔ ایک تو کریلا دوسرے نیم چڑھا، دنیا جلد ہی تھو تھو کر اٹھی۔ امریکا میں نوے کی دہائی کے آخر میں آئی ٹیک کا بلبلا پھٹا ، اسٹاک ایکسچینج کا غبارہ پھٹا تو معیشت کے آنگن میں مندے نے ڈیرے ڈال دیے۔
ذرا دم لے کر بینک اور فری مارکیٹ اکانومی پھر سے بر سر پیکار ہو گئے۔ دولت ایک بار پھر ادھر ادھر اچھلنے لگی۔ فنانشل سروسز اور پراپرٹی نئی محبت کے طور پر ابھرے۔ ایلن گرین اسپین نے فری مارکیٹ اکانومی کے سر پر مسلسل شفقت کا ہاتھ رکھا اور مارکیٹ اکانومی میں حکومتی مداخلت کے فلسفے کو کھونٹے سے باندھ دیا۔ ۲۰۰۸ کی خزاں نے شب خون مارا تو عقدہ کھلا کہ جن بینکوں پہ ناز تھا وہ تو بے شمار قانونی خلاف ورزیوں کے ذریعے دولت کے انبار لگا رہے تھے۔ پردہ ہٹا تو بڑے بڑے بینک راتوں رات افسانہ ہو گئے۔
پراپرٹی کے دام اونے رہے نہ پونے۔ فری مارکیٹ کی علمبردار حکومتوں کو ٹیکس گذاروں کے سرمائے سے ان بینکوں کو سنبھالا دینا پڑا ۔ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ سرمایہ داری کا ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا اگرمارکیٹ اکانومی کا یہ بنجارہ کہیں اور لاد گیا۔ عقل عیار نے آن ہی آن میں جواز گھڑا کہ اس کے سکہ بند نظریات کے بر عکس اب حکومتی مداخلت ہی سب سے دانشمندی ہے۔ امریکا سے لے کر یورپ تک اربوں ڈالر ، پونڈ اور یورو کی کمک پہنچی تو بینک اور مارکیٹیں سنبھلیں۔اقتصادی حالات سنبھلے تو اندازا ہوا کہ معاشی بہتری کا بیشتر فائدہ تو سینیئر کارپوریٹ ایگزیکٹوز کو ہوا، بیچارے ورکرز پھر سے نیچے کے نیچے کھڑے رہ گئے۔
معاشی عدم مساوات کا یہ جانا پہچانا کھیل دیکھ کر چند سر پھرے نیویارک میں جمع ہو گئے۔ احتجاج کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ دولت کا اس قدر یکطرفہ ارتکاز ہوا ہے کہ اب ننانوے فیصد لوگ نیچے ہیں اور ایک فیصد ان کے بالا دست۔ گونجنے والا نعرہ ہی کہانی کا خلاصہ تھا۔ ہم ننانوے فیصد ہیں۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں شامل احتجاج ہو گئے۔ دنیا بھر میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ پھیل گیا۔ سرمایہ دار میڈیا اور سسٹم کی پہریدار حکومتیں حرکت میں آئیں، وقتی طور پر یہ تحریک دھیرے دھیرے دب گئی یا اپنا جلوہ دکھا کر وقتی طور پر سکوت کے آنگن میں اتر گئی لیکن جن حالات نے اس تحریک کو منظم کیا وہ حالات جوں کے توں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام انیسویں صدی کے الھڑپن سے گزر کر اب گھاگ ہو چکا ہے۔
اپنا بھلا تو خوب سمجھتا ہی ہے زیر دست طبقات کا برا ان سے بہتر جانتا ہے۔ کارل مارکس کے تجویز کردہ انتظام کو ٹھکانے لگانے میں اس نظام کی خامیوں کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی عیاریوں کا بھی کھل کر استعمال کیا۔ سو اب سرمایہ دارانہ نظام کی قوت مدافعت پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ میڈیا، اکیڈمکس اور قانون سازی پر مکمل گرفت نے کسی بھی فوری خطرے سے فی الحال سرمایہ داری کو محفوظ کر لیا ہے لیکن اس کی تعمیر میں مضمر خرابی اسے کل کلاں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دے گی۔ انسانی تاریخ میں لالچ اور ہوس کی صدیوں سے بھر پور کہانی کا دستور ہی کچھ ایسا رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم او ای سی ڈی کی ۲۰۱۱ کی اپنی رپورٹ کے مطابق دس فیصد امیر طبقات کی آمدن گزشتہ تین دہائیوں میں دس فیصد غریب ترین طبقات کی نسبت نو گنا بڑھی۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں یہ فرق اس سے کہیں تیزی سے بڑھا۔ مجموعی طور پر عالم میں معاشی عدم مساوات کا حال یہ ہوا کہ اوکسفیم کی معاشی عدم مساوات کی اس سال کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۹ میں دنیا کی اشرافیہ کے پاس دنیا کی دولت کا چوالیس فیصد حصہ تھا جو پانچ سالوں میں بڑھ کر اڑتالیس فیصد ہو گیا۔ اس پس منظر میں حیرت نہیں ہوتی کہ گاہے گاہے سرمایہ دار ملکوں میں بائیں بازو کے دھڑے مضبوط ہوئے ہیں۔
تازہ ترین اظہار اب برطانیہ میں لیبر پارٹی کی قیادت کے انتخاب کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ترقی پزیر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی وسائل پر اشرافیہ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ معاشی عدم مساوات کے پاؤں مسلسل پھیل رہے ہیں۔ جس شدت پسندی کا پاکستان شکار ہے اس کے کچھ ڈانڈے غربت اور بے روزگاری سے بھی ملتے ہیں۔ حکومت اور سیاست ہے کہ لوٹ مار اور معاشی مفادات کے ہاتھوں میںہاتھ دے بیٹھی ہے۔ کارل مارکس کا تجویز کردہ راستہ اپنے انجام کو ضرور پہنچا لیکن عالم میں چار دانگ پھیلی غربت، معاشی عدم مساوات اور وسائل پر بلا شرکت غیرے بالا دست طبقوں کا تصرف ڈیڑھ سو سال پہلے بھی اسی طرح موجود تھا اور آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ ان حالات میں اگر لیبر پارٹی کے نئے لیڈر کہتے ہیں کہ کارل مارکس پھر سے فیشن میں ہے تو ضرور سرمایہ داری کی دال میں کہیں نہ کہیں کالا ہے۔