پاکستان منشیات کا سب سے زیادہ استعمال
پاکستان میں ہیروئن کی تیاری اور اسمگلنگ کا آغاز انقلاب ایران اور افغانستان پر روس حملے کے بعد ہوا۔
پاکستان میں ہیروئن کی تیاری اور اسمگلنگ کا آغاز انقلاب ایران اور افغانستان پر روس حملے کے بعد ہوا۔ جب ایران کی حکومت نے منشیات کے اسمگلروں کے لیے سزائے موت مقرر کردی تو افغان جہاد کے دوران افغانستان کے بعض اسمگلروں نے پاکستان کے آزاد قبائلی علاقوں میں بعض بااثر مقامی افراد کے تعاون سے ہیروئن تیار کرنے کی لیبارٹریز قائم کرلیں۔
آزاد قبائلی علاقوں اور شمالی علاقہ جات میں افیون کی کاشت کی وجہ سے ان لیبارٹریوں کے لیے خام مال کی فراہمی بڑا آسان مسئلہ تھا۔ افغانستان کو پاکستان سے تجارتی راہداری کی سہولتیں حاصل تھیں ان سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز پاکستان کے راستے درآمد کرکے انھیں آزاد قبائلی علاقوں میں قائم لیبارٹریز تک پہنچایا جاتا رہا۔ نہ صرف انتہائی بااثر افراد، سیاست دان بلکہ منشیات کی روک تھام کے ذمے دار سرکاری اداروں کے بعض اعلیٰ افسران تک اس مذموم کاروبار میں ملوث رہے اور ہیں یہی وجہ ہے کہ شاید ہی کسی ''بڑی مچھلی'' پر ہاتھ ڈالا گیا ہو۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں گدون امازئی کے علاقے سے افیون کی کاشت ختم کرانے کے لیے امریکا کی طرف سے بھاری امداد فراہم کی گئی تاکہ افیون کے کاشت کاروں کو متبادل روزگار فراہم کیا جاسکے لیکن اس امداد میں وسیع پیمانے پرگھپلے اور خردبرد ہوا۔ اس کاروبار میں ملوث افراد کے لمبے ہاتھوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبہ سرحد کیشخص جنھیں ہیروئن کی اسمگلنگ کے جرم میں سزا دی گئی وہ جیل خانے سے فرار ہوگئے۔بین الاقوامی مارکیٹ میں ہیروئن کی پرکشش قیمت بھی اس کی تیاری اور اسمگلنگ کے فروغ کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ پاکستان کے بعض بااثر افراد نے اس کاروبار کو فروغ دے کر بے پناہ دولت کمائی ہے ۔
بعض ذرایع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک میں دس لاکھ افراد ایک ہزار کلوگرام (ایک ٹن) ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک میں 43 فیصد منشیات افغان سرحد سے اسمگل کی جاتی ہے، کھیلوں کے سامان اورگارمنٹس کے ذریعے پاکستان سے منشیات اسمگل کرنے کی خبریں بھی خاصی پرانی ہیں، منشیات کے بڑے اسمگلرز کے 5 ارب روپے کے اثاثے منجمد کردینے کی خبریں بھی نئی نہیں رہیں۔
امریکی جریدے ''فارن پالیسی'' کے مطابق پاکستان میں منشیات کی لت سے روزانہ 700 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جوکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ''یو این او ڈی'' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی نشہ آور اشیا کا 45 فیصد پاکستان سے گزرتا ہے جن پر 67 لاکھ منشیات استعمال کرنے والے پاکستانیوں کی آسان رسائی ہے۔ افغان طالبان فنڈنگ کے لیے ڈرگز تجارت کو استعمال کرتے ہیں، افغانستان میں منشیات سے 70 ارب ڈالر مافیا اور دہشت گردوں کے پاس جاتے ہیں۔ جن میں 2 ارب ڈالر تحریک طالبان پاکستان کو جاتے ہیں۔ کراچی میں طالبان جرائم پیشہ گینگز سے رابطے رکھتے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی اور منشیات سے وابستگی بھی واضح چلی آرہی ہے۔
مقام افسوس ہے کہ پاکستان میں ابھی تک غیر قانونی منشیات کی تجارت اور دہشت گردی کے درمیان مہلک گٹھ جوڑ سے چند لوگ ہی آگاہ ہیں۔ حالانکہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ منشیات تباہی کا دوسرا نام ہے جب کہ امید کا دوسرا نام زندگی ہے، پھر بھی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی زندگی منشیات کے زہر کے باعث تباہ ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں لاتعداد گھرانے بربادی کا شکار ہو رہے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ منشیات استعمال کرنے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق منشیات استعمال کرنے والے 73 فیصد افراد 60 سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں اور سب سے فکر انگیز بات یہ ہے کہ نوجوان جو کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی تصور ہوتے ہیں وہ منشیات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
اب یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی کہ پاکستانی معاشرے کو اس وقت جن بڑے خطرات کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی کے ساتھ منشیات کی پیداوار، اس کی خرید و فروخت اور استعمال سرفہرست ہیں۔
اس حوالے سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے درست نشاندہی کی ہے کہ منشیات کے مذموم کاروبار سے حاصل ہونے والا سرمایہ دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال ہورہا ہے اور منشیات کی پیداوار اور فروخت میں ملوث عناصر قومی سلامتی کے لیے دہشت گردوں کی طرح ہی خطرناک ہیں۔ اسلام آباد میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہیڈ کوارٹر کے دورے کے دوران انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ منشیات فروشوں کی مالی اعانت کرنے والوں اور دہشت گردوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہر قیمت پر توڑا جائے گا اور منشیات کے کاروبار کا پیسہ دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ انسان صدیوں سے خود کو پرسکون رکھنے کے لیے یا وقتی سکون یا سرور حاصل کرنے کے لیے مختلف اقسام کے نشے استعمال کرتا آیا ہے۔ چند برسوں سے ہمارے معاشرے میں خواتین اس لت میں زیادہ مبتلا دیکھی جا رہی ہیں اور اس کے متعدد محرکات بھی ہیں جن میں سماجی تربیت کا فقدان، لاعلمی، گھریلو حالات، غربت، ذہنی تناؤ، ایک ہی جست میں سب کچھ حاصل کرنے کی لگن، بری صحبت، ناکام ازدواجی زندگی، ناکام عشق یا محبت، کسی خاص مقصد کو نہ پاسکنا، امتحان میں ناکامی، نوکری کا نہ ملنا۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ابتدا میں خواتین میں تمباکو نوشی عام ہوئی لیکن وقت گزرنے کے بعد چرس، حشیش، افیون، ہیروئن، شیشہ پینے، شراب اور دیگر نشہ آور انجکشن کا استعمال حد درجہ بڑھ گیا ہے اور بے شک یہ پہلو خاصا غور طلب بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ اس حوالے سے ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ خواتین کو اس لت سے نکالنے کی جانب کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی جاتی۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کی نسبت خواتین کا نشہ کرنا زیادہ معیوب اور باعث شرم سمجھا جاتا ہے، جس کے باعث انھیں زیادہ تر گھروں میں قید کرکے نشہ چھڑوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نتیجے میں وہ مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔
اینٹی نارکوٹکس ویلفیئر آرگنائزیشن کے سابق سربراہ اور سوشل ورکر ڈاکٹر طارق خان کے مطابق پاکستان میں منشیات کے استعمال کی موجودہ صورتحال بہت ہی تشویش ناک ہے۔ اس وقت 63 لاکھ افراد اس لت میں مبتلا ہیں جن میں 80 فیصد مرد اور 20 فیصد خواتین شامل ہیں۔ ڈاکٹر طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر منشیات سے نجات کے مفت علاج کی سہولت بھی نہیں ہے۔
وزارت انسداد منشیات کے زیر اہتمام کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں ہونے والے ایک سرکاری سروے کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والی 68 فیصد خواتین تعلیم یافتہ ہیں جن میں 47 فیصد کالجوں تک، اور 21 فیصد مڈل یا میٹرک تک پڑھ چکی ہیں۔ 43 فیصد خواتین نشہ آور اشیا کے حصول اور استعمال کے لیے اپنی سہیلیوں یا مرد دوستوں اور 15.6 فیصد پڑوسیوں کے ذریعے پیتی ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ماضی میں صرف اور صرف امیر گھرانوں کی لڑکیاں نشہ کرتی تھیں،لیکن اب یہ لت متوسط اور نچلے طبقے میں بھی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے، اور اس کی وجہ ان کے گھریلو مسائل ہیں۔
کتنے دکھ، کتنے کرب کی بات ہے کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں منشیات کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، ایک تخمینے کے مطابق تقریباً 67 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں جن میں سے 40 لاکھ منشیات کے مستقل عادی ہیں لیکن منشیات کی روک تھام اور عادی افراد کی بحالی کے اقدامات ناکافی ہیں۔
ملک میں منشیات کا سب سے زیادہ استعمال خیبرپختونخوا میں ہوتا ہے جس سے ملحق قبائلی علاقے دہشت گردوں کا عرصہ دراز تک گڑھ بنے رہے، اس صوبے میں گیارہ فیصد آبادی منشیات کی وادی ہے۔ اس کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے جہاں ساڑھے چھ فیصد لوگ منشیات استعمال کرتے ہیں، بلوچستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد 5 فیصد اور پنجاب میں 4.8 فیصد ہے۔ نشہ آور اشیا میں چرس اور ہیروئن زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں سالانہ 44 ٹن تیار شدہ ہیروئن استعمال کی جاتی ہے، پاکستان کی غیر قانونی ڈرگ تجارت کا تخمینہ تقریباً 2 ارب ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے۔
اینٹی نارکوٹکس فورس ''ایک وفاقی ایجنسی ہے جس کا کام منشیات کے استعمال اور اس کی اسمگلنگ کو روکنا ہے لیکن یہ ادارہ جتنا پرانا ہے اتنا ہی یہ مسئلہ پرانا ہے ۔
آزاد قبائلی علاقوں اور شمالی علاقہ جات میں افیون کی کاشت کی وجہ سے ان لیبارٹریوں کے لیے خام مال کی فراہمی بڑا آسان مسئلہ تھا۔ افغانستان کو پاکستان سے تجارتی راہداری کی سہولتیں حاصل تھیں ان سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز پاکستان کے راستے درآمد کرکے انھیں آزاد قبائلی علاقوں میں قائم لیبارٹریز تک پہنچایا جاتا رہا۔ نہ صرف انتہائی بااثر افراد، سیاست دان بلکہ منشیات کی روک تھام کے ذمے دار سرکاری اداروں کے بعض اعلیٰ افسران تک اس مذموم کاروبار میں ملوث رہے اور ہیں یہی وجہ ہے کہ شاید ہی کسی ''بڑی مچھلی'' پر ہاتھ ڈالا گیا ہو۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں گدون امازئی کے علاقے سے افیون کی کاشت ختم کرانے کے لیے امریکا کی طرف سے بھاری امداد فراہم کی گئی تاکہ افیون کے کاشت کاروں کو متبادل روزگار فراہم کیا جاسکے لیکن اس امداد میں وسیع پیمانے پرگھپلے اور خردبرد ہوا۔ اس کاروبار میں ملوث افراد کے لمبے ہاتھوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبہ سرحد کیشخص جنھیں ہیروئن کی اسمگلنگ کے جرم میں سزا دی گئی وہ جیل خانے سے فرار ہوگئے۔بین الاقوامی مارکیٹ میں ہیروئن کی پرکشش قیمت بھی اس کی تیاری اور اسمگلنگ کے فروغ کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ پاکستان کے بعض بااثر افراد نے اس کاروبار کو فروغ دے کر بے پناہ دولت کمائی ہے ۔
بعض ذرایع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک میں دس لاکھ افراد ایک ہزار کلوگرام (ایک ٹن) ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک میں 43 فیصد منشیات افغان سرحد سے اسمگل کی جاتی ہے، کھیلوں کے سامان اورگارمنٹس کے ذریعے پاکستان سے منشیات اسمگل کرنے کی خبریں بھی خاصی پرانی ہیں، منشیات کے بڑے اسمگلرز کے 5 ارب روپے کے اثاثے منجمد کردینے کی خبریں بھی نئی نہیں رہیں۔
امریکی جریدے ''فارن پالیسی'' کے مطابق پاکستان میں منشیات کی لت سے روزانہ 700 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جوکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ''یو این او ڈی'' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی نشہ آور اشیا کا 45 فیصد پاکستان سے گزرتا ہے جن پر 67 لاکھ منشیات استعمال کرنے والے پاکستانیوں کی آسان رسائی ہے۔ افغان طالبان فنڈنگ کے لیے ڈرگز تجارت کو استعمال کرتے ہیں، افغانستان میں منشیات سے 70 ارب ڈالر مافیا اور دہشت گردوں کے پاس جاتے ہیں۔ جن میں 2 ارب ڈالر تحریک طالبان پاکستان کو جاتے ہیں۔ کراچی میں طالبان جرائم پیشہ گینگز سے رابطے رکھتے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی اور منشیات سے وابستگی بھی واضح چلی آرہی ہے۔
مقام افسوس ہے کہ پاکستان میں ابھی تک غیر قانونی منشیات کی تجارت اور دہشت گردی کے درمیان مہلک گٹھ جوڑ سے چند لوگ ہی آگاہ ہیں۔ حالانکہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ منشیات تباہی کا دوسرا نام ہے جب کہ امید کا دوسرا نام زندگی ہے، پھر بھی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی زندگی منشیات کے زہر کے باعث تباہ ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں لاتعداد گھرانے بربادی کا شکار ہو رہے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ منشیات استعمال کرنے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق منشیات استعمال کرنے والے 73 فیصد افراد 60 سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں اور سب سے فکر انگیز بات یہ ہے کہ نوجوان جو کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی تصور ہوتے ہیں وہ منشیات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
اب یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی کہ پاکستانی معاشرے کو اس وقت جن بڑے خطرات کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی کے ساتھ منشیات کی پیداوار، اس کی خرید و فروخت اور استعمال سرفہرست ہیں۔
اس حوالے سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے درست نشاندہی کی ہے کہ منشیات کے مذموم کاروبار سے حاصل ہونے والا سرمایہ دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال ہورہا ہے اور منشیات کی پیداوار اور فروخت میں ملوث عناصر قومی سلامتی کے لیے دہشت گردوں کی طرح ہی خطرناک ہیں۔ اسلام آباد میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہیڈ کوارٹر کے دورے کے دوران انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ منشیات فروشوں کی مالی اعانت کرنے والوں اور دہشت گردوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہر قیمت پر توڑا جائے گا اور منشیات کے کاروبار کا پیسہ دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ انسان صدیوں سے خود کو پرسکون رکھنے کے لیے یا وقتی سکون یا سرور حاصل کرنے کے لیے مختلف اقسام کے نشے استعمال کرتا آیا ہے۔ چند برسوں سے ہمارے معاشرے میں خواتین اس لت میں زیادہ مبتلا دیکھی جا رہی ہیں اور اس کے متعدد محرکات بھی ہیں جن میں سماجی تربیت کا فقدان، لاعلمی، گھریلو حالات، غربت، ذہنی تناؤ، ایک ہی جست میں سب کچھ حاصل کرنے کی لگن، بری صحبت، ناکام ازدواجی زندگی، ناکام عشق یا محبت، کسی خاص مقصد کو نہ پاسکنا، امتحان میں ناکامی، نوکری کا نہ ملنا۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ابتدا میں خواتین میں تمباکو نوشی عام ہوئی لیکن وقت گزرنے کے بعد چرس، حشیش، افیون، ہیروئن، شیشہ پینے، شراب اور دیگر نشہ آور انجکشن کا استعمال حد درجہ بڑھ گیا ہے اور بے شک یہ پہلو خاصا غور طلب بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ اس حوالے سے ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ خواتین کو اس لت سے نکالنے کی جانب کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی جاتی۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کی نسبت خواتین کا نشہ کرنا زیادہ معیوب اور باعث شرم سمجھا جاتا ہے، جس کے باعث انھیں زیادہ تر گھروں میں قید کرکے نشہ چھڑوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نتیجے میں وہ مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔
اینٹی نارکوٹکس ویلفیئر آرگنائزیشن کے سابق سربراہ اور سوشل ورکر ڈاکٹر طارق خان کے مطابق پاکستان میں منشیات کے استعمال کی موجودہ صورتحال بہت ہی تشویش ناک ہے۔ اس وقت 63 لاکھ افراد اس لت میں مبتلا ہیں جن میں 80 فیصد مرد اور 20 فیصد خواتین شامل ہیں۔ ڈاکٹر طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر منشیات سے نجات کے مفت علاج کی سہولت بھی نہیں ہے۔
وزارت انسداد منشیات کے زیر اہتمام کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں ہونے والے ایک سرکاری سروے کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والی 68 فیصد خواتین تعلیم یافتہ ہیں جن میں 47 فیصد کالجوں تک، اور 21 فیصد مڈل یا میٹرک تک پڑھ چکی ہیں۔ 43 فیصد خواتین نشہ آور اشیا کے حصول اور استعمال کے لیے اپنی سہیلیوں یا مرد دوستوں اور 15.6 فیصد پڑوسیوں کے ذریعے پیتی ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ماضی میں صرف اور صرف امیر گھرانوں کی لڑکیاں نشہ کرتی تھیں،لیکن اب یہ لت متوسط اور نچلے طبقے میں بھی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے، اور اس کی وجہ ان کے گھریلو مسائل ہیں۔
کتنے دکھ، کتنے کرب کی بات ہے کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں منشیات کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، ایک تخمینے کے مطابق تقریباً 67 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں جن میں سے 40 لاکھ منشیات کے مستقل عادی ہیں لیکن منشیات کی روک تھام اور عادی افراد کی بحالی کے اقدامات ناکافی ہیں۔
ملک میں منشیات کا سب سے زیادہ استعمال خیبرپختونخوا میں ہوتا ہے جس سے ملحق قبائلی علاقے دہشت گردوں کا عرصہ دراز تک گڑھ بنے رہے، اس صوبے میں گیارہ فیصد آبادی منشیات کی وادی ہے۔ اس کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے جہاں ساڑھے چھ فیصد لوگ منشیات استعمال کرتے ہیں، بلوچستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد 5 فیصد اور پنجاب میں 4.8 فیصد ہے۔ نشہ آور اشیا میں چرس اور ہیروئن زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں سالانہ 44 ٹن تیار شدہ ہیروئن استعمال کی جاتی ہے، پاکستان کی غیر قانونی ڈرگ تجارت کا تخمینہ تقریباً 2 ارب ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے۔
اینٹی نارکوٹکس فورس ''ایک وفاقی ایجنسی ہے جس کا کام منشیات کے استعمال اور اس کی اسمگلنگ کو روکنا ہے لیکن یہ ادارہ جتنا پرانا ہے اتنا ہی یہ مسئلہ پرانا ہے ۔