ڈاکٹر جاوید اقبال

سو دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں میں سے کوئی ایک انسان ایسا ہوتا ہے

Amjadislam@gmail.com

یہ بات اب تقریباً ایک کلیشے کی شکل اختیار کر گئی ہے کہ بڑے اور نامور لوگوں کی اولاد ان کی عظمت کے حصار میں بے نام اور بے چہرہ ہو جاتی ہے اور دیکھا جائے تو یہ تاثر کوئی اتنا غلط بھی نہیں کہ بچپن سے بڑھاپے تک یہ لوگ ایک ایسے تقابل کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں جو سراسر غیر حقیقی بھی ہے اور بے انصافی پر مبنی بھی کہ عظیم لوگوں کا شمار مستثنیات کے ضمن میں ہوتا ہے اور ایک انگریزی محاورے کے مطابق جس طرح Exceptions سے Rules نہیں بنائے جاتے اسی طرح یہ توقع بھی غلط ہے کہ بڑے آدمیوں کی اولاد بھی ان تمام خواص اور صلاحیتوں کی حامل ہو جو ان کو حاصل تھے۔

سو دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں میں سے کوئی ایک انسان ایسا ہوتا ہے جو اپنے عظیم ماں یا باپ کے برابر نہ سہی لیکن کسی نہ کسی حد تک نسلی تعلق سے قطع نظر ان کی وراثت کا اہل اور حق دار ہو۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی ذاتی اہلیت کا کریڈٹ بھی بہت کم غیر مشروط انداز میں ان کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے ساتھ بھی کم و بیش کچھ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا کہ اگرچہ انھوں نے دنیاوی سطح پر بہت کامیاب زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ بطور مصنف بھی کئی زندہ رہ جانے والی اور غیر معمولی کتابیں لکھیں لیکن اکیانوے برس کی طویل عمر پانے کے باوجود بھی ان کا پہلا تعارف ''فرزند اقبال'' ہی رہا۔

اب ظاہر ہے اقبال کا فرزند ہونا اور اس حوالے سے عزت پانا کوئی کم درجے کی بات نہیں لیکن اگر اس اعزاز کی قیمت کے طور پر ان کے اپنے کیے ہوئے سارے شاندار کام کو ایک طرف کر دیا جائے تو بلاشبہ اس کا نتیجہ ایک ایسی نفسیاتی الجھن کی شکل میں نکلتا ہے جس میں فخر اور بے مائیگی کا احساس ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں یہ اور اسی طرح کی کئی باتیں اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقاتوں کی یادیں میرے ذہن میں گھوم رہی تھیں جب میں ان کے جنازے میں شرکت کے لیے جا رہا تھا لیکن گاڑی کی بریک کے ساتھ ہی اس سلسلے کو بھی یکایک بریک لگ گئی۔

معلوم ہوا کہ ان کے گھر کی طرف جانے والی سڑک زیر تعمیر ہے اس لیے ٹریفک کو ایسے متبادل راستوں کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے جہاں ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں اور رکاوٹیں ہی رکاوٹیں تھیں ایک کافی لمبا چکر کاٹ کر جب ان کے گھر کے قریب پہنچے تو پھر راستہ مسدود تھا معلوم ہوا کہ جنازہ اٹھایا جا چکا ہے اور نماز جنازہ ایک نزدیکی پارک میں ہو گی جہاں تک پہنچنے میں مزید پندرہ بیس منٹ لگ گئے اور میں تقریباً پونے پانچ بجے وہاں پہنچا جب کہ وقت چار بجے کا دیا گیا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں اس کے باوجود مجھے یقین سا تھا کہ میں نماز میں شامل ہو جاؤں گا اور یہی ہوا پارک میں جہاں تک نظر جا سکتی تھی ہزاروں لوگ صفیں سیدھی کر رہے تھے۔

نماز اور دعائے خیر کے بعد سوچا کہ ان کے صاحبزادوں منیب اور ولید اقبال اور بھانجے یوسف صلاح الدین سے تعزیت کر لی جائے کیونکہ ان کے ورثا میں سے زیادہ جان پہچان ان ہی تینوں سے تھی لیکن قدم قدم پر ٹی وی چینلز کی کیمرہ ٹیمیں رستہ روکے کھڑی تھیں، گجرات یونیورسٹی کے سابق وی سی اور ایچ ای سی کے بہت سینئر افسر ڈاکٹر نظام الدین سے ہاتھ ملانے کے دوران ان کے ''تاثرات'' ریکارڈ کرنے والوں نے اس طرح گھیرا کہ صرف میاں یوسف صلاح الدین ہی سے تعزیت کا موقع مل سکا۔ سو منیب اور ولید سے اگلے روز رسم قل کے دوران ہی اظہار افسوس کیا جا سکا۔


دعا کے بعد برادرم پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی نے دونوں بھائیوں کو باری باری خطاب کی دعوت دی اور دونوں نے ہی بہت اچھی' مختصر اور دل کو چھو لینے والی باتیں کیں۔مجھے ذاتی طور پر ڈاکٹر جاوید اقبال اور ان کی اہلیہ محترمہ بیگم ناصرہ اقبال سے متعدد ملاقاتوں کا شرف حاصل ہے ان کی باتیں سننے اور کئی بار ان کی میزبانی سے بھی لطف اندوز ہونے کی سعادت ملی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ یاد رہ جانے والی بات ان کی وہ محبت بھری شمولیت ہے جس سے انھوں نے میری ہر دعوت کے جواب میں مجھے سرفراز اور سرشار کیا وہ ایک اہل نظر اور صاحب مطالعہ دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت خوشگوار شخصیت کے بھی حامل تھے ۔

ان کی حس مزاح بھی ان ہی کی طرح خوب صورت اور بے ساختہ تھی کچھ برخود غلط قسم کے ناقدین نے علامہ صاحب کے حوالے سے قائم کی گئی کچھ آرا سے اختلاف کے حوالے سے ان پر طرح طرح کے الزامات بھی عائد کیے کسی نے اس کو ان کے اس کامپلکس کا شاخسانہ قرار دیا کہ اس طرح وہ اپنی ذاتی شخصیت کو نمایاں کرنا چاہتے تھے اور کچھ نے ان کی روایت شکن ''دانش'' کو بے جا آزاد خیالی اور سیکولر سوچ کا نتیجہ قرار دیا کہ کئی معاملات میں ان کی رائے اور تاویل عام اور مروجہ اعتقادات سے مختلف تھی۔

اقبال بلاشبہ مفکر پاکستان بھی تھے اور ایک عظیم دانش ور اور بے مثال شاعر بھی لیکن ان کی زندگی تک پاکستان صرف ایک تصور تھا، ان کی وفات سے لے کر قیام پاکستان تک تحریک پاکستان کئی امتحانوں سے گزری اور جب یہ تصور حقیقت کا روپ اختیار کر گیا تو تب سے اب تک عملی سطح پر اس خواب کی تعبیر میں کئی نئے اور ان دیکھے موڑ آ چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر اقبال زندہ ہوتے تو وہ بھی اس خواب اور اس کی تعبیر کے تشکیلی مراحل پر اپنے ردعمل کا ایسا اظہار کرتے جہاں واقعات کو ایک نئے اور شاید قدرے مختلف انداز میں دیکھنے کی ضرورت پڑتی کہ انھوں نے تو خود کہا ہے کہ

نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

ڈاکٹر جاوید اقبال سے منسوب تمام تر ''انحرافات''کو اگر اس شعر کی روشنی میں کھلے دل و دماغ کے ساتھ دیکھا جائے تو کھلتا ہے کہ وہ کیسے گہری نظر رکھنے والے اور تحریر و تقریر دونوں میں یکتا ایک وسیع النظر دانش ور تھے اور یہ کہ انھوں نے عملی طور پر علامہ صاحب کی اپنے نام لکھی ہوئی نظم کے ایک ایک شعر کو سچ کر کے دکھایا ہے اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اپنی سوچ کی اصلاح کرنا اور اپنے اخذ کردہ نتائج سے بدلے ہوئے حالات میں رجوع کرنا چھوٹے ذہنوں کے بس کی بات نہیں ہوتی، سو ہم دیکھتے ہیں کہ ''بانگ درا'' سے ''ارمغان حجاز'' تک کئی جگہوں پر علامہ صاحب نے اس حوالے سے جس ادبی دیانت اور جرات کا مظاہرہ کیا ہے اسی کا پر تو ہمیں ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی تحریروں میں بھی نظر آتا ہے۔
Load Next Story