مدتیں گزریں کھوڑہ سے لاہور تک
خود میرے گاؤں کا نام بھی سنسکرت میں تھا ’کھوڑہ‘ جس کے معنی ایک پیالے کے ہیں
مدتیں گزریں لاہور سے چند سو کلومیٹر دور تب کلومیٹر نہیں میل ہوا کرتے تھے اور انھیں سے فاصلہ مانپا جاتا تھا بلکہ کچھ اس سے پہلے تک فاصلے کا ایک اور پیمانہ بھی رائج تھا جو کوس کہلاتا تھا۔ ہمارے گاؤں میں فاصلہ کوسوں میں مانپا جاتا تھا یہ غالباً سنسکرت زبان کا لفظ تھا۔ اس قدیم زبان کے کئی الفاظ ہمارے ہاں رائج تھے۔
خود میرے گاؤں کا نام بھی سنسکرت میں تھا 'کھوڑہ' جس کے معنی ایک پیالے کے ہیں۔ ہمارا گاؤں چونکہ پہاڑوں کے دائرے میں گھرا ہوا تھا اس لیے پرانے زمانے میں اسے کھوڑہ یعنی پیالہ کہا گیا۔ ہمارے گاؤں سے لاہور تک اس زمانے میں اچھا خاصا فاصلہ تھا کوئی تین بسیں بدل کر لاہور میں داخل ہوتے تھے جہاں گاؤں کے ہر فرد کی پہلی منزل داتا صاحب کے مزار کی زیارت ہوا کرتی تھی اور فاتحہ خوانی کے بعد لاہور شروع ہوتا تھا۔
میں جب پہلی بار بسلسلہ تعلیم گاؤں سے لاہور روانہ ہوا تو میری افسردہ اور اداس ماں نے ایک کہاوت دہرائی
ونج نی دھئیے راوی
نہ کوئی ونجی نہ کوئی آوی
میری بیٹی تم راوی چلو کہ جہاں نہ کوئی تمہیں ملنے آئے گا اور نہ جائے گا یعنی اتنا دور کہ وہاں آنا جانا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ کسی بیٹی کے دور راوی پار بیاہے جانے کا ماتم تھا۔ میں جو اپنی ماں کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اس کی جدائی میری ماں کے لیے گویا کسی بیٹی کی جدائی تھی۔ میری ماں گاؤں کے ایک رئیس ترین کی بیٹی اور ایک مقابلے کے رئیس کی بیگم تھی لیکن اس کے پاس نقد رقم نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس نے مجھے چپکے سے دس روپے دیے گویا ایک خزانہ مجھ پر نچھاور کر دیا۔ ہماری تمام آمدنی گاؤں کے بنئے چاچے انوکھے رام کے پاس ہوا کرتی تھی۔
میں راوی کے اکلوتے پل سے گزر کر لاہور شہر میں داخل ہوا تھا۔ میرے بھائی نے مجھے حضرت داتا صاحب کے حضور میں پیش کیا وہ داتا صاحب کے مرید تھے۔ میرے لیے دعا کی درخواست کی اور داتا صاحب نے جواب میں جو کہا وہ میں نہیں بتاؤں گا۔
میرے والد کے چھ بیٹے تھے وہ کم از کم تین بیٹے حضرت امام حسینؓ کے قافلے میں قربان کرنا چاہتے تھے، شیعہ نہیں تھے لیکن عشق حسینؓ کا یہ عالم تھا کہ کئی بار دیکھا کہ پانی کا برتن منہ سے لگاکر رکھ دیا کہ یہ کبھی حسینؓ کو بھی نہیں ملا تھا۔ بہرکیف یہ لوگ اور ان کے زمانے گزر گئے اور وہ ایک جاگیردارانہ مگر فقیرانہ زندگی بسر کر گئے۔ اختیار اور اقتدار کے باوجود نہ کسی پر ظلم کیا اور نہ کسی مظلوم کو بے سہارا جانے دیا۔
ہاں! تو بات کرنی تھی لاہور کی۔ ایک صاف ستھرا شہر جس کی مال روڈ ہر روز سہ پہر کو دھوئی جاتی تھی اور کارپوریشن کی گاڑیاں دن بھر شہر کی صفائی میں لگی رہتی تھیں لوگ بدتمیز نہیں تھے اور بے کار چیزیں ادھر ادھر نہیں پھینکتے تھے۔ مجھے وہ اجنبی اماں کبھی نہیں بھولے گی خدا اسے جنت عطا کرے جس نے انار کلی میں مجھے روک کر ناک صاف کرنا سکھایا تھا اور پھر کندھے پر تھپکی دی تھی۔ یہ خاتون لاہور کی ماں تھی خوش پوش خاتون جو لاہور کے بچوں کو تہذیب سکھاتی تھی۔ ان سے پیار کرتی تھی۔
لاہور ایک آسان شہر تھا اور اس میں ہندو سکھ اور مسلمان وغیرہ سب ایک ساتھ رہتے تھے اور لارنس گارڈن میں سیر کرتے تھے۔ اس باغ کے درختوں پر کچھ نام بھی کھدے ہوئے ملتے تھے اور باغ کے بنچوں پر نوجوان مل جل کر بیٹھتے تھے۔ سب سے بڑی سواری سائیکل تھی اور جو لڑکیوں کے لیے بھی ہوتی تھی اس کا مرکزی ڈنڈا نیچے لگا ہوا ہوتا تھا جس کی وجہ سے سائیکل پر سے لڑکیوں کا اترنا چڑھنا آسان رہتا تھا۔ ہندو سکھ مسلمان عیسائی نوجوان سب لڑکیوں کے بھائی تھے۔
اس زمانے میں آج کی طرح کی گستاخانہ اور غیر شائستہ خبریں نہیں چھپا کرتی تھیں۔ لاہور ایک مشہور شہر تھا اور اس کی شہرت پورے ہندوستان میں تھی۔ یہ باغوں اور کالجوں کا شہر کہلاتا تھا۔ جس شہر کی وجہ شہرت تعلیم گاہیں اور باغ باغیچے ہوں اس کے کلچر کا اندازہ آپ خود کرلیں۔ پھر یہ شہر لاہور ہی تھا جہاں موسیقی کے دریا بہتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے فنی پیشوں سے متعلق لوگوں میں شادیوں پر گانے بجانے کا مقابلہ ہوا تو دونوں شادیوں پر ایک ہی گانے والی بلائی گئی لاہور سے عنایت بائی ڈھیرو والی جس کے استاد تھے موسیقی کے امام استاد بڑے غلام علی خان، دونوں شادیوں میں خان صاحب بھی ہمارے گاؤں میں آئے اور گاؤں میں جو دو چار رسیا قسم کے لوگ تھے ان کی دعوت پر محفل بھی آراستہ کی گئی۔
ہمارے گاؤں کی بزرگ خواتین عنایت بائی ڈھیرو والی سے ملنے گئیں اور نصیحت کی کہ بیٹی یہ کام چھوڑ دو۔ بتاتے ہیں کہ عنایت بائی سسکیاں لے کر رونے لگی۔ عنایت بائی نے ایک غزل گائی تھی؎ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔ ورنہ تقدیر کہیں میرا تماشا نہ بنا دے۔ گاؤں کی ان خواتین نے ایک طوائف کی دکھتی رگ چھیڑ دی تھی۔ وہ اپنے اس پیشے پر کب خوش تھی بہر حال ان بزرگ خواتین نے اس طوائف کو ریشمی اور اونی چادریں تحفہ میں دیں۔ نقش و نگار والے وہ کھیس دیے جو خوشاب کی سوغات ہیں۔
جی چاہتا ہے زندگی کے ان خوبصورت گوشوں پر بھی لکھوں مگر سیاستدانوں کی بدصورتی سے جان چھوٹے تب۔
خود میرے گاؤں کا نام بھی سنسکرت میں تھا 'کھوڑہ' جس کے معنی ایک پیالے کے ہیں۔ ہمارا گاؤں چونکہ پہاڑوں کے دائرے میں گھرا ہوا تھا اس لیے پرانے زمانے میں اسے کھوڑہ یعنی پیالہ کہا گیا۔ ہمارے گاؤں سے لاہور تک اس زمانے میں اچھا خاصا فاصلہ تھا کوئی تین بسیں بدل کر لاہور میں داخل ہوتے تھے جہاں گاؤں کے ہر فرد کی پہلی منزل داتا صاحب کے مزار کی زیارت ہوا کرتی تھی اور فاتحہ خوانی کے بعد لاہور شروع ہوتا تھا۔
میں جب پہلی بار بسلسلہ تعلیم گاؤں سے لاہور روانہ ہوا تو میری افسردہ اور اداس ماں نے ایک کہاوت دہرائی
ونج نی دھئیے راوی
نہ کوئی ونجی نہ کوئی آوی
میری بیٹی تم راوی چلو کہ جہاں نہ کوئی تمہیں ملنے آئے گا اور نہ جائے گا یعنی اتنا دور کہ وہاں آنا جانا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ کسی بیٹی کے دور راوی پار بیاہے جانے کا ماتم تھا۔ میں جو اپنی ماں کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اس کی جدائی میری ماں کے لیے گویا کسی بیٹی کی جدائی تھی۔ میری ماں گاؤں کے ایک رئیس ترین کی بیٹی اور ایک مقابلے کے رئیس کی بیگم تھی لیکن اس کے پاس نقد رقم نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس نے مجھے چپکے سے دس روپے دیے گویا ایک خزانہ مجھ پر نچھاور کر دیا۔ ہماری تمام آمدنی گاؤں کے بنئے چاچے انوکھے رام کے پاس ہوا کرتی تھی۔
میں راوی کے اکلوتے پل سے گزر کر لاہور شہر میں داخل ہوا تھا۔ میرے بھائی نے مجھے حضرت داتا صاحب کے حضور میں پیش کیا وہ داتا صاحب کے مرید تھے۔ میرے لیے دعا کی درخواست کی اور داتا صاحب نے جواب میں جو کہا وہ میں نہیں بتاؤں گا۔
میرے والد کے چھ بیٹے تھے وہ کم از کم تین بیٹے حضرت امام حسینؓ کے قافلے میں قربان کرنا چاہتے تھے، شیعہ نہیں تھے لیکن عشق حسینؓ کا یہ عالم تھا کہ کئی بار دیکھا کہ پانی کا برتن منہ سے لگاکر رکھ دیا کہ یہ کبھی حسینؓ کو بھی نہیں ملا تھا۔ بہرکیف یہ لوگ اور ان کے زمانے گزر گئے اور وہ ایک جاگیردارانہ مگر فقیرانہ زندگی بسر کر گئے۔ اختیار اور اقتدار کے باوجود نہ کسی پر ظلم کیا اور نہ کسی مظلوم کو بے سہارا جانے دیا۔
ہاں! تو بات کرنی تھی لاہور کی۔ ایک صاف ستھرا شہر جس کی مال روڈ ہر روز سہ پہر کو دھوئی جاتی تھی اور کارپوریشن کی گاڑیاں دن بھر شہر کی صفائی میں لگی رہتی تھیں لوگ بدتمیز نہیں تھے اور بے کار چیزیں ادھر ادھر نہیں پھینکتے تھے۔ مجھے وہ اجنبی اماں کبھی نہیں بھولے گی خدا اسے جنت عطا کرے جس نے انار کلی میں مجھے روک کر ناک صاف کرنا سکھایا تھا اور پھر کندھے پر تھپکی دی تھی۔ یہ خاتون لاہور کی ماں تھی خوش پوش خاتون جو لاہور کے بچوں کو تہذیب سکھاتی تھی۔ ان سے پیار کرتی تھی۔
لاہور ایک آسان شہر تھا اور اس میں ہندو سکھ اور مسلمان وغیرہ سب ایک ساتھ رہتے تھے اور لارنس گارڈن میں سیر کرتے تھے۔ اس باغ کے درختوں پر کچھ نام بھی کھدے ہوئے ملتے تھے اور باغ کے بنچوں پر نوجوان مل جل کر بیٹھتے تھے۔ سب سے بڑی سواری سائیکل تھی اور جو لڑکیوں کے لیے بھی ہوتی تھی اس کا مرکزی ڈنڈا نیچے لگا ہوا ہوتا تھا جس کی وجہ سے سائیکل پر سے لڑکیوں کا اترنا چڑھنا آسان رہتا تھا۔ ہندو سکھ مسلمان عیسائی نوجوان سب لڑکیوں کے بھائی تھے۔
اس زمانے میں آج کی طرح کی گستاخانہ اور غیر شائستہ خبریں نہیں چھپا کرتی تھیں۔ لاہور ایک مشہور شہر تھا اور اس کی شہرت پورے ہندوستان میں تھی۔ یہ باغوں اور کالجوں کا شہر کہلاتا تھا۔ جس شہر کی وجہ شہرت تعلیم گاہیں اور باغ باغیچے ہوں اس کے کلچر کا اندازہ آپ خود کرلیں۔ پھر یہ شہر لاہور ہی تھا جہاں موسیقی کے دریا بہتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے فنی پیشوں سے متعلق لوگوں میں شادیوں پر گانے بجانے کا مقابلہ ہوا تو دونوں شادیوں پر ایک ہی گانے والی بلائی گئی لاہور سے عنایت بائی ڈھیرو والی جس کے استاد تھے موسیقی کے امام استاد بڑے غلام علی خان، دونوں شادیوں میں خان صاحب بھی ہمارے گاؤں میں آئے اور گاؤں میں جو دو چار رسیا قسم کے لوگ تھے ان کی دعوت پر محفل بھی آراستہ کی گئی۔
ہمارے گاؤں کی بزرگ خواتین عنایت بائی ڈھیرو والی سے ملنے گئیں اور نصیحت کی کہ بیٹی یہ کام چھوڑ دو۔ بتاتے ہیں کہ عنایت بائی سسکیاں لے کر رونے لگی۔ عنایت بائی نے ایک غزل گائی تھی؎ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔ ورنہ تقدیر کہیں میرا تماشا نہ بنا دے۔ گاؤں کی ان خواتین نے ایک طوائف کی دکھتی رگ چھیڑ دی تھی۔ وہ اپنے اس پیشے پر کب خوش تھی بہر حال ان بزرگ خواتین نے اس طوائف کو ریشمی اور اونی چادریں تحفہ میں دیں۔ نقش و نگار والے وہ کھیس دیے جو خوشاب کی سوغات ہیں۔
جی چاہتا ہے زندگی کے ان خوبصورت گوشوں پر بھی لکھوں مگر سیاستدانوں کی بدصورتی سے جان چھوٹے تب۔