ماسٹر مدن آخری حصہ
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ کامیاب اور قابل انسان کے خواہ وہ کسی بھی شعبے کا ہو، حاسد پیدا ہوجاتے ہیں
یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ ان کی دونوں غزلوں کی دھن بھی ان کے استاد پنڈت امرناتھ ہی نے بنائی تھی، لیکن موسیقی کے شائقین اور چاہنے والوں نے بڑی کوششوں سے ماسٹر مدن کے چھ اورگانے بھی دریافت کرلیے جو موجود ہیں۔
ان میں دو ٹھمریاں، دو پنجابی گیت اور دوگیت گوربانی زبان میں ہیں۔ ان میں ''من کی من ہی میں رہی'' اور ''موری بِنتی مانوکنہیّا رے'' بھی بہت شوق سے سنی جاتی تھیں۔ لیکن لازوال شہرت عطا کرنے والی یہی دو غزلیں ہیں جو ماسٹر مدن کی پہچان ہیں۔ حیرت ہوتی ہے بعض اوقات یہ سوچ کرکہ بعض گانے والوں کے لاتعداد گانوں، غزلوں اور ٹھمریوں کے آگے اس 14 سالہ بچے کی ان دو غزلوں کی کیا اہمیت ہے۔ جو اپنی پندرہویں سالگرہ بھی نہ منا سکا اور 5 جون 1942 کو اس جہان فانی کو چھوڑگیا۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے کہ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ کامیاب اور قابل انسان کے خواہ وہ کسی بھی شعبے کا ہو، حاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔ بجائے خود محنت کرکے بلند مقام حاصل کرنے کے اوچھی حرکتوں اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ یہی ماسٹر مدن کے ساتھ بھی ہوا۔ ایک طرف ان کی مقبولیت تھی کہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ گھر والے خوش تھے کہ مدن کی وجہ سے ان کا گھر لکشمی دیوی کا استھان بن گیا ہے، سَرسوتی تو ویسے ہی جنم دن سے مدن کے ساتھ تھی۔ کسی بھی موسیقی کی محفل سے واپسی پر قیمتی تحائف بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ دونوں بڑے بھائیوں کی بہ نسبت ہر طرف مدن ہی کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کے پِتا سردار امر سنگھ محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے۔
یوں کہیے کہ یہ ایک سفید پوش عزت دار مذہبی گھرانہ تھا ، جس میں مدن کا جنم ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔ ماسٹر مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ 1940 میں مہاتما گاندھی نے جب شملہ کا دورہ کیا تو وہاں ایک جلسے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ لیکن اتفاق سے جس دن گاندھی جی کا جلسہ تھا اسی دن ماسٹر مدن کی سنگیت سبھا بھی سجی تھی، جس کا اہتمام بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔ مہاتما گاندھی جب تقریرکرنے کھڑے ہوئے تو پنڈال خاصا خالی تھا۔ اور وجہ تھی ماسٹر مدن کی گائیکی۔ تمام لوگ سیاسی جلسے میں آنے کے بجائے ماسٹر مدن کو سننے گئے تھے، لیکن گاندھی جی نے اس کا بالکل برا نہیں مانا، بلکہ کسی موقعے پر ماسٹر مدن کو قیمتی تحائف سے نوازا بھی۔ ہندوستان کی ہندو اور مسلم ریاستیں، راجے، مہاراجے، نواب اور شہنشاہ سب فنون لطیفہ کے قدردان تھے۔ بڑے بڑے گلوکار اور ماہرین موسیقی درباروں سے وابستہ رہے۔
فن کی پرورش میں خون جگر صرف کیا اور حکمرانوں نے انھیں فکر معاش سے آزاد رکھا، کہ وہ سب بہت دور اندیش اور دانا تھے۔ جانتے تھے کہ انسان کی روح بھی غذا مانگتی ہے۔ جذبات بھی تسکین چاہتے ہیں اور یہ غذا فنون لطیفہ کی مختلف شاخیں فراہم کرتی ہیں جس میں سرفہرست موسیقی، رقص،ادب اور شاعری شامل ہے۔
آج بھی موسیقی کے جو چند گنے چنے گھرانے زندہ ہیں ان کی آبائی شناخت درباروں سے وابستگی ہی ہے۔ شام چوراسی گھرانا، پٹیالہ گھرانا، گوالیار گھرانا، دہلی گھرانا،کیرانہ گھرانہ، رام پورگھرانہ، اندور گھرانہ،آگرہ گھرانہ اور میواتی گھرانہ کے علاوہ بہت سے دیگر موسیقی کے گھرانے اس کی بہترین مثال ہیں۔
اتنی مقبولیت اور شہرت وہ بھی اتنی کم عمری میں؟ شاید سُروں کے جادوگر مدن کو خود شہرت کی نظر لگ گئی۔ سخت محنت، کم عمری اور ذہنی دباؤ نے انھیں بیمارکردیا۔ ان کے خاندان کو یہ سب دیکھ کر تو بہت اچھا لگتا تھا کہ شہرت اور دولت کی ان کے پریوار پہ بارش ہو رہی ہے۔ لیکن کسی نے بھی ان کی صحت کی طرف توجہ نہ دی۔
وہ اکثر تھکن اور ذہنی دباؤ کی شکایت کرتے۔ اکثر مدن کو بخار بھی رہنے لگا، جب ان کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی اور وہ گائیکی سے دور ہونے لگے توگھر والوں پہ شملے میں ہی ان کا تفصیلی طبی معائنہ کرانے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ انھیں آہستہ آہستہ اثرکرنے والا زہر (Slow Poison) دیا گیا تھا۔
اگر ابتدا ہی میں ان کی گرتی ہوئی صحت کی طرف توجہ دی جاتی تو علاج ممکن تھا، لیکن شہرت کی چمک نے گھر والوں کی آنکھوں کو اس طرح چکا چوندکیا کہ انھیں بس 14 برس کے بچے کی گائیکی اور تحائف کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آیا اور پھر کلکتہ (اب کولکتہ) میں جب وہ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے تو ان پر کھانسی کا دورہ پڑا اور اس کے بعد پھر ان کی آواز بحال نہ ہوسکی۔ ان کے خاندان کا لالچ، ہوس یا حاسدوں کی سازش، جو بھی کوئی اس سانحے کی وجہ بنا ہو، اس کی وجہ سے ایک ایسا گلوکار اپنے لڑکپن ہی میں ہم سے جدا ہوگیا، جو اگر جیتا تو شاید ایک اور ''تان سین'' سامنے آتا۔
ماسٹر مدن کی موت کے بعد بہت سی باتیں اور راز کھلے جن کے مطابق جب وہ انبالہ میں اپنی گلوکاری کا مظاہرہ کر رہے تھے تو ایک مقامی گلوکار لڑکی نے انھیں اپنے کوٹھے پہ بلایا اور پان میں کچھ ڈال کر کھلادیا، دوسری طرف کچھ چشم دید لوگوں کا کہنا تھا کہ کلکتے میں اپنی پرفارمنس کے دوران کسی حاسد نے پانی کے گلاس میں چپکے سے پارہ ڈال کر پلادیا تھا۔ لیکن میرے والد اور زیڈ۔اے بخاری کا کہنا تھا کہ مدن کو اس کے اپنے سگے بھائیوں نے آہستہ آہستہ زہر دے کر مارا تھا۔ کیونکہ مدن کی شہرت، گائیکی، قیمتی تحائف اور دولت انھیں کھٹکنے لگی تھی۔ کیونکہ ہر جگہ مدن کا چرچا تھا، نام تھا، عزت تھی اور لوگ اس سے پیار کرتے تھے۔ ویسے تو ہر قابل انسان سے حسد کرنے والوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ لیکن مجھے بھی آخری بات پہ زیادہ یقین ہے۔
اس لیے نہیں کہ اس کے راوی میرے والد تھے بلکہ اس لیے بھی کہ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جب باپ نے بیٹے کی آنکھ میں سلائی پھروائی، بیٹے نے باپ کو اقتدار کی خاطر زنداں میں ڈال دیا۔ تب یہ بات زیادہ قابل اعتبار ہے کہ بڑے بھائیوں کو یوں اچانک چھوٹے بھائی کا اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر سامنے آنا اور شہرت کے تمام میڈلز اور تحائف حاصل کرنا ان سے برداشت نہ ہوا اور انھوں نے آہستہ آہستہ اس کا کام تمام کردیا۔ بظاہر وہ اس کی شہرت سے خوش بھی ہوتے تھے، لیکن اب پوسٹروں میں صرف ماسٹر مدن کا نام ہوتا تھا اور شائقین بھی اسی کو سننے آتے تھے۔
اس طرح کی اور بھی مثالیں ملتی ہیں۔ اسی لیے گلوکار احتیاطاً نہ کہیں کچھ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ خاص طور سے پان کھانے سے ہمیشہ اجتناب برتتے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہوا بہت ہی برا تھا۔ لیکن کیا یہ ماسٹر مدن کی خوش نصیبی نہیں ہے کہ لوگ آج بھی اسے چاہتے ہیں اور سنتے ہیں۔
ان میں دو ٹھمریاں، دو پنجابی گیت اور دوگیت گوربانی زبان میں ہیں۔ ان میں ''من کی من ہی میں رہی'' اور ''موری بِنتی مانوکنہیّا رے'' بھی بہت شوق سے سنی جاتی تھیں۔ لیکن لازوال شہرت عطا کرنے والی یہی دو غزلیں ہیں جو ماسٹر مدن کی پہچان ہیں۔ حیرت ہوتی ہے بعض اوقات یہ سوچ کرکہ بعض گانے والوں کے لاتعداد گانوں، غزلوں اور ٹھمریوں کے آگے اس 14 سالہ بچے کی ان دو غزلوں کی کیا اہمیت ہے۔ جو اپنی پندرہویں سالگرہ بھی نہ منا سکا اور 5 جون 1942 کو اس جہان فانی کو چھوڑگیا۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے کہ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ کامیاب اور قابل انسان کے خواہ وہ کسی بھی شعبے کا ہو، حاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔ بجائے خود محنت کرکے بلند مقام حاصل کرنے کے اوچھی حرکتوں اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ یہی ماسٹر مدن کے ساتھ بھی ہوا۔ ایک طرف ان کی مقبولیت تھی کہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ گھر والے خوش تھے کہ مدن کی وجہ سے ان کا گھر لکشمی دیوی کا استھان بن گیا ہے، سَرسوتی تو ویسے ہی جنم دن سے مدن کے ساتھ تھی۔ کسی بھی موسیقی کی محفل سے واپسی پر قیمتی تحائف بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ دونوں بڑے بھائیوں کی بہ نسبت ہر طرف مدن ہی کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کے پِتا سردار امر سنگھ محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے۔
یوں کہیے کہ یہ ایک سفید پوش عزت دار مذہبی گھرانہ تھا ، جس میں مدن کا جنم ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔ ماسٹر مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ 1940 میں مہاتما گاندھی نے جب شملہ کا دورہ کیا تو وہاں ایک جلسے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ لیکن اتفاق سے جس دن گاندھی جی کا جلسہ تھا اسی دن ماسٹر مدن کی سنگیت سبھا بھی سجی تھی، جس کا اہتمام بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔ مہاتما گاندھی جب تقریرکرنے کھڑے ہوئے تو پنڈال خاصا خالی تھا۔ اور وجہ تھی ماسٹر مدن کی گائیکی۔ تمام لوگ سیاسی جلسے میں آنے کے بجائے ماسٹر مدن کو سننے گئے تھے، لیکن گاندھی جی نے اس کا بالکل برا نہیں مانا، بلکہ کسی موقعے پر ماسٹر مدن کو قیمتی تحائف سے نوازا بھی۔ ہندوستان کی ہندو اور مسلم ریاستیں، راجے، مہاراجے، نواب اور شہنشاہ سب فنون لطیفہ کے قدردان تھے۔ بڑے بڑے گلوکار اور ماہرین موسیقی درباروں سے وابستہ رہے۔
فن کی پرورش میں خون جگر صرف کیا اور حکمرانوں نے انھیں فکر معاش سے آزاد رکھا، کہ وہ سب بہت دور اندیش اور دانا تھے۔ جانتے تھے کہ انسان کی روح بھی غذا مانگتی ہے۔ جذبات بھی تسکین چاہتے ہیں اور یہ غذا فنون لطیفہ کی مختلف شاخیں فراہم کرتی ہیں جس میں سرفہرست موسیقی، رقص،ادب اور شاعری شامل ہے۔
آج بھی موسیقی کے جو چند گنے چنے گھرانے زندہ ہیں ان کی آبائی شناخت درباروں سے وابستگی ہی ہے۔ شام چوراسی گھرانا، پٹیالہ گھرانا، گوالیار گھرانا، دہلی گھرانا،کیرانہ گھرانہ، رام پورگھرانہ، اندور گھرانہ،آگرہ گھرانہ اور میواتی گھرانہ کے علاوہ بہت سے دیگر موسیقی کے گھرانے اس کی بہترین مثال ہیں۔
اتنی مقبولیت اور شہرت وہ بھی اتنی کم عمری میں؟ شاید سُروں کے جادوگر مدن کو خود شہرت کی نظر لگ گئی۔ سخت محنت، کم عمری اور ذہنی دباؤ نے انھیں بیمارکردیا۔ ان کے خاندان کو یہ سب دیکھ کر تو بہت اچھا لگتا تھا کہ شہرت اور دولت کی ان کے پریوار پہ بارش ہو رہی ہے۔ لیکن کسی نے بھی ان کی صحت کی طرف توجہ نہ دی۔
وہ اکثر تھکن اور ذہنی دباؤ کی شکایت کرتے۔ اکثر مدن کو بخار بھی رہنے لگا، جب ان کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی اور وہ گائیکی سے دور ہونے لگے توگھر والوں پہ شملے میں ہی ان کا تفصیلی طبی معائنہ کرانے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ انھیں آہستہ آہستہ اثرکرنے والا زہر (Slow Poison) دیا گیا تھا۔
اگر ابتدا ہی میں ان کی گرتی ہوئی صحت کی طرف توجہ دی جاتی تو علاج ممکن تھا، لیکن شہرت کی چمک نے گھر والوں کی آنکھوں کو اس طرح چکا چوندکیا کہ انھیں بس 14 برس کے بچے کی گائیکی اور تحائف کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آیا اور پھر کلکتہ (اب کولکتہ) میں جب وہ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے تو ان پر کھانسی کا دورہ پڑا اور اس کے بعد پھر ان کی آواز بحال نہ ہوسکی۔ ان کے خاندان کا لالچ، ہوس یا حاسدوں کی سازش، جو بھی کوئی اس سانحے کی وجہ بنا ہو، اس کی وجہ سے ایک ایسا گلوکار اپنے لڑکپن ہی میں ہم سے جدا ہوگیا، جو اگر جیتا تو شاید ایک اور ''تان سین'' سامنے آتا۔
ماسٹر مدن کی موت کے بعد بہت سی باتیں اور راز کھلے جن کے مطابق جب وہ انبالہ میں اپنی گلوکاری کا مظاہرہ کر رہے تھے تو ایک مقامی گلوکار لڑکی نے انھیں اپنے کوٹھے پہ بلایا اور پان میں کچھ ڈال کر کھلادیا، دوسری طرف کچھ چشم دید لوگوں کا کہنا تھا کہ کلکتے میں اپنی پرفارمنس کے دوران کسی حاسد نے پانی کے گلاس میں چپکے سے پارہ ڈال کر پلادیا تھا۔ لیکن میرے والد اور زیڈ۔اے بخاری کا کہنا تھا کہ مدن کو اس کے اپنے سگے بھائیوں نے آہستہ آہستہ زہر دے کر مارا تھا۔ کیونکہ مدن کی شہرت، گائیکی، قیمتی تحائف اور دولت انھیں کھٹکنے لگی تھی۔ کیونکہ ہر جگہ مدن کا چرچا تھا، نام تھا، عزت تھی اور لوگ اس سے پیار کرتے تھے۔ ویسے تو ہر قابل انسان سے حسد کرنے والوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ لیکن مجھے بھی آخری بات پہ زیادہ یقین ہے۔
اس لیے نہیں کہ اس کے راوی میرے والد تھے بلکہ اس لیے بھی کہ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جب باپ نے بیٹے کی آنکھ میں سلائی پھروائی، بیٹے نے باپ کو اقتدار کی خاطر زنداں میں ڈال دیا۔ تب یہ بات زیادہ قابل اعتبار ہے کہ بڑے بھائیوں کو یوں اچانک چھوٹے بھائی کا اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر سامنے آنا اور شہرت کے تمام میڈلز اور تحائف حاصل کرنا ان سے برداشت نہ ہوا اور انھوں نے آہستہ آہستہ اس کا کام تمام کردیا۔ بظاہر وہ اس کی شہرت سے خوش بھی ہوتے تھے، لیکن اب پوسٹروں میں صرف ماسٹر مدن کا نام ہوتا تھا اور شائقین بھی اسی کو سننے آتے تھے۔
اس طرح کی اور بھی مثالیں ملتی ہیں۔ اسی لیے گلوکار احتیاطاً نہ کہیں کچھ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ خاص طور سے پان کھانے سے ہمیشہ اجتناب برتتے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہوا بہت ہی برا تھا۔ لیکن کیا یہ ماسٹر مدن کی خوش نصیبی نہیں ہے کہ لوگ آج بھی اسے چاہتے ہیں اور سنتے ہیں۔