امریکا پاکستان کیساتھ نیو کلیئر ڈیل کر سکتا ہے واشنگٹن پوسٹ
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کے رواںماہ دورہ امریکاسے قبل رازداری سے اس معاملے پربات چیت کی جارہی ہے
HAFIZABAD:
امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور امریکا ایک ایسے سمجھوتے کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں جس کانتیجہ دونوں ممالک کے درمیان سول نیوکلیئرڈیل کی صورت میں نکل سکتاہے۔
امریکی صحافی ڈیوڈ اگنیشئس( David Ignatius)نے اخبارمیں شائع اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ وائٹ ہاؤس جس چیز پرکام کررہا ہے وہ ایک بڑاسفارتی دھماکاہوسکتا ہے اور اس کے ذریعے ممکنہ طور پر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اوراس کے استعمال کونئی حدود میںلایا جاسکتا ہے،اگرایسا ہوگیا توایک ایسے پاک امریکا سول نیوکلیئر ڈیل کی راہ ہموار ہوجائے گی جیسا معاہدہ امریکا نے2005میں بھارت کے ساتھ کیا تھا۔اخبار نے معاملے پرپیشرفت سے آگاہ ذرائع کے حوالے سے لکھاکہ پاکستان کو نئی حدود''بریکٹس''کے بارے میںغورکرنے کامشورہ دیاگیاہے۔
اخبارنے لکھاکہ پاکستان ممکنہ طورپر اپنے نیوکلیئر پروگرام اوراس کے استعمال کو اپنی اصل دفاعی ضروریات یعنی بھارت کیخلاف استعمال تک محدودکرسکتا ہے۔اخبار نے اس کی مثال دیتے ہوئے لکھاکہ پاکستان ایک مقرر فاصلے سے زیادہ دور تک مارکرنے والے میزائل نصب نہ کرنے پر راضی ہو سکتا ہے، اس کے بدلے میں پاکستان کو48 رکنی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کیلیے امریکی حمایت مل سکتی ہے تاہم ذرائع کے مطابق پاکستان اورامریکا کے درمیان اس معاملے پرمذاکرات سست روی کاشکار ہونگے کیونکہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو ایک اعزازسمجھتا ہے اورہوسکتا ہے کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو نئی حدود میں لانے پر راضی نہ ہو۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کے رواںماہ دورہ امریکاسے قبل رازداری سے اس معاملے پربات چیت کی جارہی ہے۔نواز شریف22 اکتوبرکوامریکا جائیں گے۔ پاکستان کے ساتھ جوہری معاملات پرمذاکرات امریکا کیلیے انتہائی اہم ہیں کیونکہ گزشتہ 2دہائیوں سے امریکاپاکستانی جوہری پروگرام کودنیا کاخطرناک ترین سیکیورٹی مسئلہ قرار دیتا رہاہے۔پاکستان کے دفترخارجہ نے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہاکہ پاکستان کا جوہری پروگرام جنوبی ایشیا میں سلامتی وسیکیورٹی کی صورتحال کومدنظررکھ کربنایاگیا ہے اور یہ صورتحال پاکستان کو پابندبناتی ہے کہ وہ مکمل دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے کیلیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے۔ دفترخارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہاکہ ایک ذمے دارجوہری ملک ہونے کے ناطے پاکستان امریکا سمیت تمام ممالک کے ساتھ جوہری استحکام اورسیکیورٹی کے مسائل پرسرگرمی سے بات چیت کرتا ہے۔
انھوں نے کہاکہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کاحامی ہے اورسمجھتا ہے کہ اس کیلیے مسائل کو حل کرناضروری ہے۔ترجمان کے مطابق9ستمبرکووزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ملک کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز اور نگران ادارے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس میں بھی اس پالیسی پرکاربندرہنے کااعادہ کیاگیاتھا۔
امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور امریکا ایک ایسے سمجھوتے کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں جس کانتیجہ دونوں ممالک کے درمیان سول نیوکلیئرڈیل کی صورت میں نکل سکتاہے۔
امریکی صحافی ڈیوڈ اگنیشئس( David Ignatius)نے اخبارمیں شائع اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ وائٹ ہاؤس جس چیز پرکام کررہا ہے وہ ایک بڑاسفارتی دھماکاہوسکتا ہے اور اس کے ذریعے ممکنہ طور پر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اوراس کے استعمال کونئی حدود میںلایا جاسکتا ہے،اگرایسا ہوگیا توایک ایسے پاک امریکا سول نیوکلیئر ڈیل کی راہ ہموار ہوجائے گی جیسا معاہدہ امریکا نے2005میں بھارت کے ساتھ کیا تھا۔اخبار نے معاملے پرپیشرفت سے آگاہ ذرائع کے حوالے سے لکھاکہ پاکستان کو نئی حدود''بریکٹس''کے بارے میںغورکرنے کامشورہ دیاگیاہے۔
اخبارنے لکھاکہ پاکستان ممکنہ طورپر اپنے نیوکلیئر پروگرام اوراس کے استعمال کو اپنی اصل دفاعی ضروریات یعنی بھارت کیخلاف استعمال تک محدودکرسکتا ہے۔اخبار نے اس کی مثال دیتے ہوئے لکھاکہ پاکستان ایک مقرر فاصلے سے زیادہ دور تک مارکرنے والے میزائل نصب نہ کرنے پر راضی ہو سکتا ہے، اس کے بدلے میں پاکستان کو48 رکنی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کیلیے امریکی حمایت مل سکتی ہے تاہم ذرائع کے مطابق پاکستان اورامریکا کے درمیان اس معاملے پرمذاکرات سست روی کاشکار ہونگے کیونکہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو ایک اعزازسمجھتا ہے اورہوسکتا ہے کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو نئی حدود میں لانے پر راضی نہ ہو۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کے رواںماہ دورہ امریکاسے قبل رازداری سے اس معاملے پربات چیت کی جارہی ہے۔نواز شریف22 اکتوبرکوامریکا جائیں گے۔ پاکستان کے ساتھ جوہری معاملات پرمذاکرات امریکا کیلیے انتہائی اہم ہیں کیونکہ گزشتہ 2دہائیوں سے امریکاپاکستانی جوہری پروگرام کودنیا کاخطرناک ترین سیکیورٹی مسئلہ قرار دیتا رہاہے۔پاکستان کے دفترخارجہ نے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہاکہ پاکستان کا جوہری پروگرام جنوبی ایشیا میں سلامتی وسیکیورٹی کی صورتحال کومدنظررکھ کربنایاگیا ہے اور یہ صورتحال پاکستان کو پابندبناتی ہے کہ وہ مکمل دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے کیلیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے۔ دفترخارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہاکہ ایک ذمے دارجوہری ملک ہونے کے ناطے پاکستان امریکا سمیت تمام ممالک کے ساتھ جوہری استحکام اورسیکیورٹی کے مسائل پرسرگرمی سے بات چیت کرتا ہے۔
انھوں نے کہاکہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کاحامی ہے اورسمجھتا ہے کہ اس کیلیے مسائل کو حل کرناضروری ہے۔ترجمان کے مطابق9ستمبرکووزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ملک کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز اور نگران ادارے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس میں بھی اس پالیسی پرکاربندرہنے کااعادہ کیاگیاتھا۔