ایپی ڈرمولائسس بولوسا ایسا مرض جس میں جسم پر چھالے پڑ جاتے ہیں
ایک موروثی بیماری، جس میں جلد پر چھالے نمودار ہونے لگتے ہیں
ISLAMABAD:
اس مرض میں جسم پر ایسے چھالے نمودار ہونے لگتے ہیں، جن میں پانی بھر جاتا ہے۔
جسم کے بیرونی اعضا یا کھلے ہوئے حصّوں کی جلد جیسے ہاتھوں، پیروں، سینے اور گردن وغیرہ پر نمودار ہونے والے ان چھالوں کا معائنہ اور ان کے علاج کی کوشش بھی آسان ہوتی ہے اور ان کی وجہ سے مریض کو تکلیف بھی کم ہوسکتی ہے، لیکن یہ مرض اس وقت زیادہ پریشانی کا باعث بنتا ہے، جب اس سے جسم کے اندرونی اعضا متأثر ہوتے ہیں۔ یہ چھالے ہونٹوں کی اندرونی سطح اور آنتوں کی دیواروں پر بھی نمودار ہوسکتے ہیں۔
اس بیماری کی علامات کم عمری ہی میں ظاہرہونے لگتی ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ اکثر نوجوانی اور ادھیڑ عمری میں بھی اچانک جسم پر ایسے چھالے نمودار ہوسکتے ہیں۔ مریض کے طبی معائنے کے بعد ہی بتایا جا سکتا ہے کہ وہ Epidermolysis bullosa کا شکار ہے یا اسے کوئی دوسرا جلدی مرض لاحق ہو گیا ہے۔
یہ ایسی بیماری ہے، جس کا کوئی مستقل علاج تاحال دریافت نہیں کیا جاسکا۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ مرض بہت کم لوگوں کو لاحق ہوتا ہے اور زیادہ تر یہ بیماری والدین سے اولاد کو منتقل ہوتی ہے۔ یہ چھالے وقت گزرنے کے ساتھ خود ہی ختم ہو جاتے ہیں، لیکن مریض کی جلد کا معائنہ کروانا ضروری ہوتا ہے۔
علاج کی صورت میں چھالے ختم ہو جاتے ہیں، لیکن دوبارہ بھی یہ مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس مرض کی علامات پر غور کرنے کے بعد اس کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔ معالج کی کوشش ہوتی ہے کہ علاج کے مختلف طریقوں کی وجہ سے جلد پر کسی قسم کا انفیکشن نہ ہو یا چھالوں میں خارش کا مسئلہ پیدا نہ ہوسکے۔ کیوں کہ ایسا مریض خارش سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جلد پر زخم بن سکتے ہیں۔ یہ مرض شدت اختیار کر جائے تو مریض کی موت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
اس بیماری کی ابتدائی علامات میں جلد کی بیرونی سطح خاص طور پر ہاتھوں اور پیروں پر چھوٹے بڑے چھالے بننا اور ان میں پانی بھر جانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایسے مریض کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن ٹوٹنے لگتے ہیں اور ان کی افزائش کا عمل بھی سست ہوجاتا ہے۔ مریض کے جسم کے اندرونی حصوں مثلاً غذا یا سانس کی نالیوں اور آنتوں کی دیواروں پر بھی چھالے بننے لگتے ہیں۔
ہتھیلوں اور تلووں کی جلد موٹی اور سخت ہونے لگتی ہے۔ یہ چھالے سَر کی کھال پر بھی بن سکتے ہیں، جس کی وجہ سے تیزی سے بال گرنے لگتے ہیں اور ان کی نشوونما رک جاتی ہے۔ چہرے پر سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو سکتے ہیں۔ یہ بیماری دانتوں کو بھی متأثر کرتی ہے۔ ان کی سفیدی اور چمک ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسے مریض کو کھانا نگلنے میں بھی دشواری پیش آسکتی ہے۔
کسی بھی عمر میں جسم کے کسی بھی حصے پر چھالے نمودار ہونے لگیں تو مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ مرض کی تشخیص کے ساتھ فوری علاج شروع کیا جاسکے۔ طبی ماہرین کے مطابق جلد کی دو تہیں ہوتی ہیں۔ بیرونی جلد کو ایپی ڈرمس اور اندرونی جلد کو ڈرمس کہا جاتا ہے، جو آپس میں مل جاتی ہیں۔ ڈاکٹر طبی معائنے کے دوران یہ معلوم کرتے ہیں کہ چھالے جلد کی کس تہ پر اُبھر رہے ہیں۔ اس سے انہیں مرض کی تشخیص میں مدد ملتی ہے۔ اس جلدی مرض کی مختلف اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم زیادہ تر نوزائیدہ یا چند سال کے دوران بچوں کی ہتھیلوں اور تلووں کو متأثر کرتی ہے۔
اس کی دوسری قسم کی علامات پیدائش کے فوراً بعد ہی نظر آجاتی ہیں۔ ایسے بچے کے رونے کی آواز عام بچوں سے مختلف ہوسکتی ہے۔ اس سے ڈاکٹر کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بچے کے حلق میں کوئی مسئلہ ہے اور اگر وہ اس بیماری کا شکار ہے تو پیدائشی طور پر اس کے منہ میں چھالے موجود ہوں گے۔ ایسے بچے کا فوری طور پر ماہرِ اطفال سے معائنہ کروایا جاتا ہے اور اس کی ہدایت پر علاج شروع کیا جاتا ہے۔
ہمارے جسم کے حفاظتی نظام میں پیدا ہونے والا کوئی نقص بھی جلد کو متأثر کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں مختلف جلدی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ جسم کے حفاظتی نظام کی خرابی کی صورت میں مخصوص ٹشوز کے متأثر ہونے سے ہاتھوں، پیروں یا جسم کے اندرونی اعضا پر چھالے نمودار ہو سکتے ہیں۔
تاہم ضروری نہیں کہ یہ چھالے Epidermolysis bullosa کا نتیجہ ہوں۔ یہ کوئی دوسری بیماری بھی ہوسکتی ہے، جس کی تشخیص ماہر ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے۔ اس بیماری میں جوڑوں اور ہڈیوں کی کم زروی یا ان میں درد کے علاوہ جسم میں پانی کی کمی، قبض، آنکھوں میں سوجن اور جلن بھی محسوس ہوسکتی ہے۔
اس مرض میں جسم پر ایسے چھالے نمودار ہونے لگتے ہیں، جن میں پانی بھر جاتا ہے۔
جسم کے بیرونی اعضا یا کھلے ہوئے حصّوں کی جلد جیسے ہاتھوں، پیروں، سینے اور گردن وغیرہ پر نمودار ہونے والے ان چھالوں کا معائنہ اور ان کے علاج کی کوشش بھی آسان ہوتی ہے اور ان کی وجہ سے مریض کو تکلیف بھی کم ہوسکتی ہے، لیکن یہ مرض اس وقت زیادہ پریشانی کا باعث بنتا ہے، جب اس سے جسم کے اندرونی اعضا متأثر ہوتے ہیں۔ یہ چھالے ہونٹوں کی اندرونی سطح اور آنتوں کی دیواروں پر بھی نمودار ہوسکتے ہیں۔
اس بیماری کی علامات کم عمری ہی میں ظاہرہونے لگتی ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ اکثر نوجوانی اور ادھیڑ عمری میں بھی اچانک جسم پر ایسے چھالے نمودار ہوسکتے ہیں۔ مریض کے طبی معائنے کے بعد ہی بتایا جا سکتا ہے کہ وہ Epidermolysis bullosa کا شکار ہے یا اسے کوئی دوسرا جلدی مرض لاحق ہو گیا ہے۔
یہ ایسی بیماری ہے، جس کا کوئی مستقل علاج تاحال دریافت نہیں کیا جاسکا۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ مرض بہت کم لوگوں کو لاحق ہوتا ہے اور زیادہ تر یہ بیماری والدین سے اولاد کو منتقل ہوتی ہے۔ یہ چھالے وقت گزرنے کے ساتھ خود ہی ختم ہو جاتے ہیں، لیکن مریض کی جلد کا معائنہ کروانا ضروری ہوتا ہے۔
علاج کی صورت میں چھالے ختم ہو جاتے ہیں، لیکن دوبارہ بھی یہ مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس مرض کی علامات پر غور کرنے کے بعد اس کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔ معالج کی کوشش ہوتی ہے کہ علاج کے مختلف طریقوں کی وجہ سے جلد پر کسی قسم کا انفیکشن نہ ہو یا چھالوں میں خارش کا مسئلہ پیدا نہ ہوسکے۔ کیوں کہ ایسا مریض خارش سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جلد پر زخم بن سکتے ہیں۔ یہ مرض شدت اختیار کر جائے تو مریض کی موت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
اس بیماری کی ابتدائی علامات میں جلد کی بیرونی سطح خاص طور پر ہاتھوں اور پیروں پر چھوٹے بڑے چھالے بننا اور ان میں پانی بھر جانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایسے مریض کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن ٹوٹنے لگتے ہیں اور ان کی افزائش کا عمل بھی سست ہوجاتا ہے۔ مریض کے جسم کے اندرونی حصوں مثلاً غذا یا سانس کی نالیوں اور آنتوں کی دیواروں پر بھی چھالے بننے لگتے ہیں۔
ہتھیلوں اور تلووں کی جلد موٹی اور سخت ہونے لگتی ہے۔ یہ چھالے سَر کی کھال پر بھی بن سکتے ہیں، جس کی وجہ سے تیزی سے بال گرنے لگتے ہیں اور ان کی نشوونما رک جاتی ہے۔ چہرے پر سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو سکتے ہیں۔ یہ بیماری دانتوں کو بھی متأثر کرتی ہے۔ ان کی سفیدی اور چمک ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسے مریض کو کھانا نگلنے میں بھی دشواری پیش آسکتی ہے۔
کسی بھی عمر میں جسم کے کسی بھی حصے پر چھالے نمودار ہونے لگیں تو مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ مرض کی تشخیص کے ساتھ فوری علاج شروع کیا جاسکے۔ طبی ماہرین کے مطابق جلد کی دو تہیں ہوتی ہیں۔ بیرونی جلد کو ایپی ڈرمس اور اندرونی جلد کو ڈرمس کہا جاتا ہے، جو آپس میں مل جاتی ہیں۔ ڈاکٹر طبی معائنے کے دوران یہ معلوم کرتے ہیں کہ چھالے جلد کی کس تہ پر اُبھر رہے ہیں۔ اس سے انہیں مرض کی تشخیص میں مدد ملتی ہے۔ اس جلدی مرض کی مختلف اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم زیادہ تر نوزائیدہ یا چند سال کے دوران بچوں کی ہتھیلوں اور تلووں کو متأثر کرتی ہے۔
اس کی دوسری قسم کی علامات پیدائش کے فوراً بعد ہی نظر آجاتی ہیں۔ ایسے بچے کے رونے کی آواز عام بچوں سے مختلف ہوسکتی ہے۔ اس سے ڈاکٹر کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بچے کے حلق میں کوئی مسئلہ ہے اور اگر وہ اس بیماری کا شکار ہے تو پیدائشی طور پر اس کے منہ میں چھالے موجود ہوں گے۔ ایسے بچے کا فوری طور پر ماہرِ اطفال سے معائنہ کروایا جاتا ہے اور اس کی ہدایت پر علاج شروع کیا جاتا ہے۔
ہمارے جسم کے حفاظتی نظام میں پیدا ہونے والا کوئی نقص بھی جلد کو متأثر کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں مختلف جلدی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ جسم کے حفاظتی نظام کی خرابی کی صورت میں مخصوص ٹشوز کے متأثر ہونے سے ہاتھوں، پیروں یا جسم کے اندرونی اعضا پر چھالے نمودار ہو سکتے ہیں۔
تاہم ضروری نہیں کہ یہ چھالے Epidermolysis bullosa کا نتیجہ ہوں۔ یہ کوئی دوسری بیماری بھی ہوسکتی ہے، جس کی تشخیص ماہر ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے۔ اس بیماری میں جوڑوں اور ہڈیوں کی کم زروی یا ان میں درد کے علاوہ جسم میں پانی کی کمی، قبض، آنکھوں میں سوجن اور جلن بھی محسوس ہوسکتی ہے۔