قومی مفاہمت کے بغیر کہیں فوجی آپریشن نہیں ہوگا صدر زرداری

اپوزیشن دائیں بازو کے ووٹوں کیلیے کوشاں ہے، آپریشن کا مشورہ دینے والے سوچ لیں ملک میں کتنے مدرسے ہیں

اسلام آباد:صدر آصف علی زرداری سیفما کے تحت منعقدہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو: این این آئی

ISLAMABAD:
صدر آصف زرداری نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوری آپریشن کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی مفاہمت کے بغیر ملک میں کہیں بھی فوجی آپریشن نہیں ہوگا۔

سیفما کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ سوات اور جنوبی وزیرستان پر ہمیں قومی اتفاق رائے حاصل تھا لیکن موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کیساتھ اتفاق رائے نہیں ہے جو آنے والے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے، طاقت کے استعمال کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ مکمل اتفاق رائے درست پیرائے اور مناسب وقت پر کیا جائیگا۔ ملالہ سمیت دہشت گردی کا شکار بننے والے ہر بچے کا دکھ ہمارا دکھ ہے، ملالہ واقعے کے تناظر میں حکومت سے جلد بازی میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلیے کہنا درست نہیں ہے، مجھے اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں قبائل سے جاگیرداروں تک معاشرے کی پیچیدگی سے نمٹنا ہوگا۔

عالمی امن کیلیے ہمیں پہلے اپنے ملک میں امن کو فروغ دینے کی ضروت ہے۔ انتہا پسندانہ ذہنیت کو شکست دینے کی ضرورت ہے اسی لیے میں مفاہمت کی راہ پر چل رہا ہوں، عسکریت پسندی ہو یا کوئی اور چیز ہر معاملے پر میں قومی مفاہمت چاہتا ہوں۔ صدرنے کہا اس حقیقت کے باوجود میں نے تمام تر اختیارات وزیراعظم کو سونپ دیے ہیں اب بھی میں اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں، میڈیا تصویر کے دونوں رخ دکھائے۔ صدر نے کہا کہ سلمان تاثیر کے لواحقین سے ہمدردی کے لیے کتنے لوگ آئے یہاں تک کہ ان کے بیٹے کے اغواء کے بعد کتنے لوگوں نے ان سے ہمدردی کا اظہارکیا، کسی وکیل نے ان کے قتل کا مقدمہ لڑنے کی جرات نہیں کی جبکہ ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس نے رضا کارانہ طور پر قاتل کی وکالت کی، ایسے لوگ بھی ہیں جو قاتل کے اکائونٹ میں پیسے منتقل کررہے ہیں۔

انھوں نے کہا دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو تمام ممالک نے تعاون کایقین دلایا لیکن حقیقی معنوں میں سوائے چین کے کسی ملک نے بھی تعاون نہیں کیا۔ چین نے پاکستان کی سب سے زیادہ مدد کی۔ بی بی سی کے مطابق صدر زرداری نے کہا شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے پہلے ملک گیر اتفاق رائے پیدا کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے جو اب ممکن نہیں ہے۔ الیکشن کے قریب سیاسی جماعتیں دائیں بازو کے ووٹوں کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں اس لیے کسی آپریشن کے لیے مطلوبہ اتفاق رائے ممکن نہیں۔ بغیر اتفاق رائے کسی آپریشن کا شروع کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے۔


جو آپریشن شروع کرنے کا مشورہ دے رے ہیں انھیں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ ملک میں کتنے مدرسے ہیں اور انھیں متحد ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ صدر زرداری نے کہا ملالہ کے والد نے سیکیورٹی کی پیشکش قبول نہیں کی تھی اگر وہ یہ پیشکش قبول بھی کر لیتے تو بھی ملالہ کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ سیکیورٹی لینے کی صورت میں شدت پسند بڑا حملہ کرتے جس میں ان کی جان بھی چلی جاتی۔ انھوں نے کہا کہ وہ بینظیر کی مفاہمت کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے حالات مفاہمت کی پالیسی کو اپنا کر ہی ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا دنیا میں معاشی طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے اور کل کی معاشی طاقتیں اب پگھل رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت سے فرسٹ ورلڈ کی توقعات کی جاتی ہیں جب کہ انھیں جن حالات کا سامنا ہے وہ انتہائی مختلف ہیں۔ ان پر تنقید کرنا آسان ہے لیکن حالات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ آصف زرداری نے کہا کہ وہ بینظر بھٹو کے ساتھ تھے جب جمہوری طاقتوں نے پاکستان کو امداد کی یقین دہانیاں کرائیں لیکن جب وقت آیا تو ایسی شرائط عائد کیں جنھیں پورا کرنا شاید پاکستان کے بس میں ہی نہیں ہے۔ شدت پسندی کے خلاف ہمیں آج بھی جنگ لڑنی ہے اور کل بھی۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے جا رہے ہیں اور یہ لڑائی ہمیں خود ہی لڑنی ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق صدر نے کہا دہشت گردی کیخلاف جنگ کے طریقہ کار پر قوم تقسیم ہے، میں بطور صدر پاکستان، تاریخ اور آپ کے سامنے جوابدہ ہوں۔ دہشت گرد زبردستی اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں تاہم انھیں ان کے گھنائونے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیاجائے گا۔ قوم دہشت گردی کے عفریت کے مکمل خاتمے کیلیے اپنی صفوں میں وسیع تر اتحاد پیداکرے۔ ہم شروع سے ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے آرہے ہیں، یہ مخالفت جاری رکھیں گے۔ ہم عسکریت پسندوں کو اپنی سرحدوں سے باہر کارروائی کرنے کی بھی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ سرحد کے دونوں اطراف دہشت گرد افغانستان اور پاکستان کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔

دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کو دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ حزب اختلاف سے آج یہ کہنا بے سود ہو گا کہ وہ قومی اتفاق رائے قائم کرنے میں مدد کرے، کیونکہ وہ قدامت پسندوں کے ووٹ پر تکیہ کر رہے ہیں۔ دنیا نے ہمیں دہشتگردی کیخلاف مہم اور جمہوریت کی مدد کی اْمیدیں دلا رکھیں تھیں۔ لیکن جونہی ہم نے جنگ شروع کی ہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ پاکستان تو اس میں بالکل تنہا ہے۔ میرا زیادہ وقت اْس ملک کے چکر کاٹنے میں صرف ہوا جس سے پاکستان کو سب سے زیادہ مدد کی توقع تھی۔ لیکن صرف چین نے ہی ہماری مدد کی، دوسرے ملکوں نے تو محض رکاوٹیں پیدا کیں۔

Recommended Stories

Load Next Story