نجی اسکول حال اور ماضی

گزشتہ دنوں پانچ ستارہ نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے فیس میں ایک دم کئی گنا اضافے پر والدین سراپا احتجاج بن گئے

najmalam.jafri@gmail.com

گزشتہ دنوں پانچ ستارہ نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے فیس میں ایک دم کئی گنا اضافے پر والدین سراپا احتجاج بن گئے، حکومت نے بھی اس کا نوٹس لیا اور نجی تعلیمی اداروں کو پانچ سے دس فیصد تک اضافے کی اجازت دی، اس سے زیادہ کی مخالفت کی گئی، مگر والدین اس پر بھی مطمئن نہیں کیونکہ ان اداروں کی فیس پہلے ہی کافی زیادہ تھی۔

پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کی جانب سے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے آدھے صفحے کا اشتہار شایع ہوا جس میں انھوں نے اپنی مجبوریاں اور اخراجات وغیرہ میں اضافے سے والدین اور حکمرانوں کو آگاہ کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر ہم فیس میں اضافہ نہیں کریں گے تو پھر معیار تعلیم بھی برقرار نہیں رہ سکے گا، ساتھ ہی انھوں نے زور دے کر یہ بھی بتایا کہ تعلیم دینا بنیادی طور پر حکومت کی ذمے داری ہے، حکومت کے زیر اہتمام سرکاری اسکولوں کا یہ حال ہے کہ ان میں کوئی مزدور یا چپراسی بھی اپنے بچوں کو پڑھانے کا روادار نہیں۔

پھر انھوں نے سرکاری اسکولوں کی حالت زار کو بہتر کرنے کے لیے اپنی خدمات بھی پیش کیں۔ غرض یہ کہ اپنے موقف کی حمایت میں انھوں نے جو نکات پیش کیے ان میں سے کچھ میں خاصا وزن تھا، مگر بعض نکات میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے، مثلاً ان کا یہ کہنا کہ ہم اساتذہ کی تنخواہ میں ہر سال دس تا بیس فیصد اضافہ کرتے ہیں یہ شاید کسی ایک دو ادارے میں ایسا ہوتا ہو ورنہ دو سے ڈھائی فیصد اضافہ کیا جاتا ہے، اس میں بھی بنیادی تنخواہ بہت کم رکھ کر باقی دیگر الاؤنسز شامل کرکے قابل قبول معاوضہ کردیا جاتا ہے اور سالانہ اضافہ بنیادی تنخواہ پر ہوتا ہے، پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی استاد کی کئی سال کی خدمات ہوجاتی ہیں اور اس کے معاوضے میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے تو اس کو کسی بھی بہانے سے فارغ کردیا جاتا ہے اور کسی کم تجربہ کار استاد کا تقرر پہلے استاد کی تنخواہ سے کافی کم پر کرلیا جاتا ہے کہ ابھی تو آپ کا تجربہ کم ہے۔

پھر ادارے کو مکمل ایئرکنڈیشن بتایا گیا ہے اور اخراجات میں اضافے کی وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بجلی کے تعطل پر ہمیشہ بھاری جنریٹر استعمال کرنا پڑتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عموماً بیشتر اے سی خراب رہتے ہیں یا رکھے جاتے ہیں۔ کئی کئی ماہ جو اصل گرمی کے ہوتے ہیں ان میں اساتذہ و طلبا یاددہانی کرا کرا کے تنگ آجاتے ہیں اور یہ اے سی درست ہی نہیں ہوپاتے اس کے علاوہ بھی کئی باتیں ہیں جو ان پانچ ستارہ تعلیمی اداروں میں قابل گرفت ہیں مگر ان کا تذکرہ لاحاصل۔ رہ گئی تعلیمی صورتحال تو ان اداروں کے طلبا بھی سوائے نصاب رٹنے کے اور کچھ نہیں جانتے۔ ہر طرح کی تقریبات پر طلبا تو طلبا اساتذہ سے بھی رقم وصول کی جاتی ہے۔ یہ تو ہیں آج کے اعلیٰ تعلیمی ادارے۔

اب میں آپ کو ماضی کے ایک نجی اسکول کا حال بتانا چاہتی ہوں، ہمارا بچپن (کچی پہلی تا میٹرک) سندھ کے شہر خیرپور میں گزرا ہے۔ اس وقت وہاں محض ایک پرائمری تا میٹرک لڑکوں کا اور ایک لڑکیوں کا اسکول تھا۔ البتہ اسکول کی وسیع عمارت کی ایک منزل پر لڑکوں کے لیے کالج بھی تھا مگر ہم ابھی شاید پرائمری ہی میں تھے کہ کالج کی الگ عمارت بن گئی تھی۔

مگر میں ذرا اس سے بھی پہلے کا ذکر کر رہی ہوں کہ جب ہم کراچی سے خیرپور منتقل ہوئے تو ابھی میری تعلیم کا آغاز نہیں ہوا تھا، البتہ میری دونوں بڑی بہنیں سرکاری اسکول کی شاید پانچویں اور چھٹی جماعتوں میں داخل ہوئیں جبکہ میں کچھ عرصے بعد اسی اسکول کے پرائمری حصے میں کچی یا پکی پہلی میں داخل ہوئی، مجھ سے چھوٹا بھائی شاید ایک دو سال بعد محلے کے واحد غیر سرکاری یعنی نجی اسکول میں داخل کرایا گیا۔


اس اسکول میں کچی پہلی سے لے کر چوتھی جماعت تک کے بچے ایک ساتھ پڑھتے تھے اور صرف ایک استاد ماسٹر رہبر کے نام سے جو پورے علاقے میں مشہور اور قابل احترام شخصیت تھے اس اسکول کو چلا رہے تھے۔ اس اسکول کے طلبا گھر کے سلے ہوئے کپڑے کے تھیلے نما بستے میں ایک اردو ایک انگریزی خوشخطی کی کاپی یا کتاب کہہ لیں، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی پہلی تا چوتھی (جو بچہ جس کلاس کا ہو) اردو کی کتاب کے علاوہ ایک عدد سلیٹ اور اس پر لکھنے کے چاک، تھیلا اگر ذرا بڑا ہے تو لکڑی کی ملتانی مٹی سے بنی ہوئی تختی بھی اسی میں ڈال کر اسکول لے آتا۔ اس اسکول کی خاصیت یہ تھی کہ ایک استاد چار پانچ جماعتوں کو بیک وقت پڑھاتا تھا اور سب بچے اپنے اپنے نصاب پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ اور نصاب سلیٹ پر ریاضی کے سوالات کرنا، اردو ، انگریزی کی خوشخطی کرنا، تختی لکھنا (ہر جماعت میں) اردو انگریزی کا املا جملے بنانے اور قواعد (گرامر) کرنا تھا۔

اس اسکول کی عمارت کے بارے میں بھی بتاتی چلوں کہ یہ اسکول تین گھروں کی پچھلی دیواروں کے درمیان واقع تھا، ان مکانوں کی حد تک تین جانب دیواریں تھیں کیونکہ یہ دیواریں مکانوں کی پشت کی تھیں اس لیے ان میں کوئی کھڑکی نہ تھی جو جگہ ان مکانوں کے درمیان بطور اسکول استعمال ہو رہی تھی وہاں شاید کبھی (تقسیم سے قبل) کوئی اور مکان بننا تھا اس لیے یہ جگہ اور اس کے آگے میدان بالکل ہموار تھا، مجھے یہ بھی علم ہے کہ ان تین مکانوں میں سے ایک میں بھارت کے کسی علاقے سے ہجرت کرکے آیا ہوا ایک مسلم خاندان آباد تھا جبکہ باقی گھروں میں اس وقت کے ہندو خاندان آباد تھے ان تینوں گھروں کے مرکزی دروازے تین مختلف گلیوں میں کھلتے تھے۔

ماسٹر صاحب نے ان تینوں دیواروں کا فائدہ اٹھا کر ان کے درمیانی حصے میں کھجور کے تنوں کے ستون گاڑ کر ان پر شہتیر رکھ کر گھاس پھوس اور چٹائیوں کی چھت ڈالی تھی، سامنے سے یہ چھپر کھلا ہوا تھا، درمیانی دیوار پر ایک تختہ سیاہ آویزاں تھا، ایک کونے میں لکڑی کا ایک تختہ لگا ہوا تھا۔ ہر جماعت کے بچے ایک دوسرے کے آگے پیچھے سیدھی قطاروں میں زمین پر بچھی چٹایوں پر بیٹھے۔ کچی پہلی کے بچے اگر الف ب یا گنتی لکھ رہے ہیں جو ماسٹر صاحب نے ان کی سلیٹوں پر لکھ دی ہے اوپر کی سطر پر اس کے نیچے بچے ویسے ہی لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جماعت کے بچے خوشخطی کی مشق کر رہے ہیں۔

تیسری جماعت کے طلبا ریاضی کے سوالات حل کر رہے ہیں تو چوتھی کے طلبا کو ماسٹر صاحب نے تختہ سیاہ پر اردو یا انگریزی الفاظ لکھ دیے ہیں، ان کے جملے بنا رہے ہیں، متضاد لکھ رہے ہیں یا واحد جمع کی مشق کر رہے ہیں۔ یوں ایک ہی وقت میں پہلی سے لے کر چوتھی تک کے بچے بیک وقت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ماسٹر صاحب پورے دن کھڑے ہوکر پڑھاتے یا بچوں کی صفوں کے درمیان فاصلے میں ٹہل کر سب کے کام پر نظر رکھتے جس کی کوئی غلطی نظر آئی، اس کو اسی وقت درست کرواتے، یہ تو ماسٹر رہبر صاحب کا طریقہ تدریس تھا۔ اس مدرسے میں 70 تا 100 بچے ہوں گے، فی بچہ فیس 1 تا 5 روپے سے زائد نہ تھی، اس کے علاوہ کسی بھی مد میں کوئی پیسہ وصول نہ کیا جاتا۔ اگر بچے سو بھی ہوں تو بمشکل چار پانچ سو روپے بنتے ہوں گے جس سے اسکول اور خود ماسٹر صاحب کے اخراجات پورے ہوتے۔ ماسٹر صاحب کا طریقہ تدریس کچھ ایسا تھا کہ ان کے پڑھائے ہوئے لڑکے ہائی اسکول میں ہمیشہ نمایاں رہتے ۔

یہ اتنا کچھ میں نے اس لیے لکھا ہے تاکہ بتا سکوں کہ نجی اسکول بھی کردار سازی میں کس قدر اہم ہوتے تھے۔ جبکہ آج کے پانچ ستارہ اسکول اپنے طلبا کو غرور و تکبر، خود غرضی، حصول دولت، جذبہ خدمت و حب الوطنی سے عاری بنانے کے علاوہ کیا سکھا رہے ہیں؟ تمام تر سہولیات کے باوجود اچھے شہری عنقا ہوگئے ہیں۔ اس کے ذمے دار حکمراں ہیں جو تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو پس پشت ڈال کر دوسرے شعبوں کو اہمیت دے رہے ہیں۔
Load Next Story