سویلین حکومتوں کی کرپشن
امن وامان کا مسئلہ ہو یا کوئی وبائی بیماری پھیل جائے نشانہ صرف اورصرف سیاستداں ہی ہوگا
ہمارے یہاں یہ ایک عام روایت بن چکی ہے کہ ہرانفرادی اوراجتماعی غلطی،کوتاہی اور ناکامی پر صرف سیاستدانوں ہی کو برا بھلا کہا جاتا ہے چاہے اصل محرک کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔ ملک میں سیلاب اگر آجائیں یاکوئی دوسری آسمانی اور قدرتی آفت آجائے الزام صرف سیاستدانوں ہی کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔
امن وامان کا مسئلہ ہو یا کوئی وبائی بیماری پھیل جائے نشانہ صرف اورصرف سیاستداں ہی ہوگا۔یہ جانتے بوجھتے کہ 68سالہ خرابیوں کی جڑ اور وجہ صرف ہمارا سیاسی حلقہ احباب ہی نہیں ہے بلکہ اِس میں ساری قوم ہی ملوث ہے ۔ یہ ہمارا اجتماعی نظامِ معاشرہ ہی ہے جس میں ہم ٹریفک کے قوانین کی ہرروز بے شمار خلاف ورزی بھی کرتے ہیں ،بجلی،گیس اور پانی کی چوری بھی کرتے ہیں، تھانوں اورکچہری میں رشوت بازی،عدالتوں میں فیصلوں میں ناانصافی یا فیصلے اپنے حق میں بھی کرواتے ہیں۔ اپنے ہی بھائیوں کوگدھے اور مردار جانور کا گوشت کھلاتے ہیں۔
دودھ میں یوریا کھاد جیسی مہلک اشیاء ملاکر اُسے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ جان بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کرکے لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ دوسروں کی زمینوں پر قبضہ بھی کرتے ہیں۔ندی اور نالے بھی بیچ کھاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے بہت سے سیاستدانوں نے مالِ غنیمت لوٹ لینے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھ چھوڑی ہے۔
لیکن اگر معاشرے کے تمام با اثر اور بااختیار طبقوں کی کارکردگی کا اگر ایک غیرجانبدارانہ اورحقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے تویہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ اِس غریب ملک اور بے بس و بے کس عوام کو لوٹ کرکھا جانے والوں میں صرف ہمارے سیاستداں ہی نہیں ہیں بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔سیاستدانوں کو توکبھی کبھی یہ موقعہ غنیمت ہاتھ آتا ہے لیکن ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر طویل عرصہ سے فائز ہمارا بیوروکریٹس طبقہ اِس کام میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔اُس کی تو ساری زندگی ہی چاندی ہی چاندی ہے۔وہ پسِ پردہ رہ کر کیا کچھ کر جاتا ہے کسی کو نہ خبر ہوتی ہے اور نہ کوئی بھنک ہمارے کانوں کو پہنچ پاتی ہے۔اِسی طرح دیگر اداروں میں بھی بہت سی کالی بھیڑیں جمہوریت اور عوامی حکمرانی کا مذاق اڑا رہی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سیاستدانوں کو تو مطعون و ملعون کرتا رہتا ہے لیکن کبھی ہمارے معاشرے کے دوسرے با اثر اور کرپٹ طبقوں کو زیرِ بحث نہیں لاتا۔میڈیا ٹرائل صرف سیاستدانوں کا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ شاید یہ سب سے آسان ہدف ہے ۔سویلین حکومتوں کی کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے تو بڑے بڑے قصے آج طشت ازبام ہو رہے ہیں، لیکن آج کوئی مشرف دور کی مالی بدعنوانیوں کا ذکر نہیں کر رہا ۔
12مئی2007ء کو کس کے حکم پر کراچی میں آگ اورخون کی ہولی کھیلی گئی۔ اصغرخان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اِس میں ملوث کسی ذمے دارکو اگرآج تک سزا نہیں دی گئی۔ ہم نے اپنا ملک توڑنے کے ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ جنرل ضیاء الحق کو تو درگذرکردیا اور رچرڈ آرمٹیج کے ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ سرینڈرکرجانے والے کو بخش دیا۔ایبٹ آباد ہائی ٹارگٹڈآپریشن میں غفلت اورکوتاہی کو بھی نظر اندازکردیا لیکن سیاستدانوں کی معمولی غلطی کو لے کر ہم پہاڑ بنا کرکھڑا کردیتے ہیں۔ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھنے کی بجائے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر غورکریں تو سیاستدانوں کے اچھے اور مثبت پہلو بھی ہم پر آشکار ہونگے۔
وطنِ عزیز کو ایٹمی صلاحیت سے مزین کرنے والا کون تھا۔ وہ ایک سیاستداں ہی تھا اور پھرجس نے اپنی اِس ایٹمی صلاحیت کو نامناسب اور ناموافق حالات کے باوجود ساری دنیا سے منوایا وہ کون تھا وہ بھی ایک سیاستداں ہی تھا۔ ورنہ آمروں کو امریکا سمیت تمام سامراجی قوتوں کی آشیرباد حاصل رہی لیکن انھوں نے یہ ہمت و جرات نہ دِکھائی۔ اگرچہ بعد ازاںاِن دونوں سیاستدانوں کو اپنے اِس جرأت مندانہ فعل و عمل کی پاداش میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا مگر اُنہوں نے یہ پھر بھی کر دِکھایا۔ وہ بھی اگر چاہتے تو اپنا اقتدار بچا سکتے تھے۔ قوم کو پتھروں کے دور میں چلے جانے کا خوف دلا کر اِس اجتناب کر سکتے تھے۔ ایٹمی دھماکے نہ کرکے مالی اعانت اور ڈالرز حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے قومی فریضہ کو اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز رکھا۔
آج ہم اُنہی کے دلیرانہ اور جرأت مندانہ افعال و اعمال کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ دنیا ہمیں ایک ساتویں ایٹمی قوت سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت بارہا کوشش کرتے ہوئے بھی ہم پر حملہ آور ہونے سے ڈرتا اور ہچکچاتا ہے ۔ قطع نظر اِس کے کس نے ملک کی بے لوث خدمت کی اورکس نے اِس قوم کو تباہ وبرباد کیا ملک کی دولت لوٹ لینے والے ہر شخص کاسخت ترین احتساب ہونا چاہیے لیکن یہ یک طرفہ، غیر منصفانہ اورمتعصبانہ نہیں بلکہ شفاف، بلاامتیاز اور بلاتفریق ہر اُس طبقے کے خلاف ہونا چاہیے جس نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو زبردست نقصان پہنچایا ہو۔ جس نے بھی وطنِ عزیزکو کسی نہ کسی شکل میںزک یا نقصان پہنچایا ہے اُسے قرار واقعی سزا دیکر منتقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔
مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ بلا تحقیق وتفتیش سیاستدانوں کی معمولی سی غلطیوں اورکوتاہیوں کو بڑھا چڑھا کر اِس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے صرف وہی اِس ملک و قوم کی تباہی کے اصل ذمے دار ہیں۔پاکستان کی 67سالوں میں سیاستدانوں نے مجموعی طور پر صرف نصف مدت میں اِس ملک میں حکومت کی ہے وہ بھی مکمل بااختیار اور بے فکر ہوکر نہیں ۔ اُن کے سروں پرکسی نہ کسی قوت کا سایہ ہر وقت موجود رہتا رہا ہے۔
جب کہ باقی نصف مدت میں جن آمروں نے لمبے لمبے عرصے تک اِس قوم پر اپنا حقِ حاکمیت جتایا ہے اُنہیں کسی مضبوط اپوزیشن یا آئین ودستور کی پاسداری کا ڈر اور خوف لاحق نہیں رہا وہ اپنے اختیارات کے استعمال اور اُن کی عملداری میں مکمل مادرپدر آزاد اور خود مختار تھے مگر آج تک کسی نے اُن کا محاسبہ نہیں کیا۔ہمیں بلا امتیاز و تفریق ہر ایک کا درست اور صحیح انداز میں کڑا اور بے رحم احتساب کرنا ہوگا۔
امن وامان کا مسئلہ ہو یا کوئی وبائی بیماری پھیل جائے نشانہ صرف اورصرف سیاستداں ہی ہوگا۔یہ جانتے بوجھتے کہ 68سالہ خرابیوں کی جڑ اور وجہ صرف ہمارا سیاسی حلقہ احباب ہی نہیں ہے بلکہ اِس میں ساری قوم ہی ملوث ہے ۔ یہ ہمارا اجتماعی نظامِ معاشرہ ہی ہے جس میں ہم ٹریفک کے قوانین کی ہرروز بے شمار خلاف ورزی بھی کرتے ہیں ،بجلی،گیس اور پانی کی چوری بھی کرتے ہیں، تھانوں اورکچہری میں رشوت بازی،عدالتوں میں فیصلوں میں ناانصافی یا فیصلے اپنے حق میں بھی کرواتے ہیں۔ اپنے ہی بھائیوں کوگدھے اور مردار جانور کا گوشت کھلاتے ہیں۔
دودھ میں یوریا کھاد جیسی مہلک اشیاء ملاکر اُسے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ جان بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کرکے لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ دوسروں کی زمینوں پر قبضہ بھی کرتے ہیں۔ندی اور نالے بھی بیچ کھاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے بہت سے سیاستدانوں نے مالِ غنیمت لوٹ لینے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھ چھوڑی ہے۔
لیکن اگر معاشرے کے تمام با اثر اور بااختیار طبقوں کی کارکردگی کا اگر ایک غیرجانبدارانہ اورحقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے تویہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ اِس غریب ملک اور بے بس و بے کس عوام کو لوٹ کرکھا جانے والوں میں صرف ہمارے سیاستداں ہی نہیں ہیں بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔سیاستدانوں کو توکبھی کبھی یہ موقعہ غنیمت ہاتھ آتا ہے لیکن ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر طویل عرصہ سے فائز ہمارا بیوروکریٹس طبقہ اِس کام میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔اُس کی تو ساری زندگی ہی چاندی ہی چاندی ہے۔وہ پسِ پردہ رہ کر کیا کچھ کر جاتا ہے کسی کو نہ خبر ہوتی ہے اور نہ کوئی بھنک ہمارے کانوں کو پہنچ پاتی ہے۔اِسی طرح دیگر اداروں میں بھی بہت سی کالی بھیڑیں جمہوریت اور عوامی حکمرانی کا مذاق اڑا رہی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سیاستدانوں کو تو مطعون و ملعون کرتا رہتا ہے لیکن کبھی ہمارے معاشرے کے دوسرے با اثر اور کرپٹ طبقوں کو زیرِ بحث نہیں لاتا۔میڈیا ٹرائل صرف سیاستدانوں کا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ شاید یہ سب سے آسان ہدف ہے ۔سویلین حکومتوں کی کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے تو بڑے بڑے قصے آج طشت ازبام ہو رہے ہیں، لیکن آج کوئی مشرف دور کی مالی بدعنوانیوں کا ذکر نہیں کر رہا ۔
12مئی2007ء کو کس کے حکم پر کراچی میں آگ اورخون کی ہولی کھیلی گئی۔ اصغرخان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اِس میں ملوث کسی ذمے دارکو اگرآج تک سزا نہیں دی گئی۔ ہم نے اپنا ملک توڑنے کے ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ جنرل ضیاء الحق کو تو درگذرکردیا اور رچرڈ آرمٹیج کے ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ سرینڈرکرجانے والے کو بخش دیا۔ایبٹ آباد ہائی ٹارگٹڈآپریشن میں غفلت اورکوتاہی کو بھی نظر اندازکردیا لیکن سیاستدانوں کی معمولی غلطی کو لے کر ہم پہاڑ بنا کرکھڑا کردیتے ہیں۔ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھنے کی بجائے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر غورکریں تو سیاستدانوں کے اچھے اور مثبت پہلو بھی ہم پر آشکار ہونگے۔
وطنِ عزیز کو ایٹمی صلاحیت سے مزین کرنے والا کون تھا۔ وہ ایک سیاستداں ہی تھا اور پھرجس نے اپنی اِس ایٹمی صلاحیت کو نامناسب اور ناموافق حالات کے باوجود ساری دنیا سے منوایا وہ کون تھا وہ بھی ایک سیاستداں ہی تھا۔ ورنہ آمروں کو امریکا سمیت تمام سامراجی قوتوں کی آشیرباد حاصل رہی لیکن انھوں نے یہ ہمت و جرات نہ دِکھائی۔ اگرچہ بعد ازاںاِن دونوں سیاستدانوں کو اپنے اِس جرأت مندانہ فعل و عمل کی پاداش میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا مگر اُنہوں نے یہ پھر بھی کر دِکھایا۔ وہ بھی اگر چاہتے تو اپنا اقتدار بچا سکتے تھے۔ قوم کو پتھروں کے دور میں چلے جانے کا خوف دلا کر اِس اجتناب کر سکتے تھے۔ ایٹمی دھماکے نہ کرکے مالی اعانت اور ڈالرز حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے قومی فریضہ کو اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز رکھا۔
آج ہم اُنہی کے دلیرانہ اور جرأت مندانہ افعال و اعمال کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ دنیا ہمیں ایک ساتویں ایٹمی قوت سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت بارہا کوشش کرتے ہوئے بھی ہم پر حملہ آور ہونے سے ڈرتا اور ہچکچاتا ہے ۔ قطع نظر اِس کے کس نے ملک کی بے لوث خدمت کی اورکس نے اِس قوم کو تباہ وبرباد کیا ملک کی دولت لوٹ لینے والے ہر شخص کاسخت ترین احتساب ہونا چاہیے لیکن یہ یک طرفہ، غیر منصفانہ اورمتعصبانہ نہیں بلکہ شفاف، بلاامتیاز اور بلاتفریق ہر اُس طبقے کے خلاف ہونا چاہیے جس نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو زبردست نقصان پہنچایا ہو۔ جس نے بھی وطنِ عزیزکو کسی نہ کسی شکل میںزک یا نقصان پہنچایا ہے اُسے قرار واقعی سزا دیکر منتقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔
مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ بلا تحقیق وتفتیش سیاستدانوں کی معمولی سی غلطیوں اورکوتاہیوں کو بڑھا چڑھا کر اِس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے صرف وہی اِس ملک و قوم کی تباہی کے اصل ذمے دار ہیں۔پاکستان کی 67سالوں میں سیاستدانوں نے مجموعی طور پر صرف نصف مدت میں اِس ملک میں حکومت کی ہے وہ بھی مکمل بااختیار اور بے فکر ہوکر نہیں ۔ اُن کے سروں پرکسی نہ کسی قوت کا سایہ ہر وقت موجود رہتا رہا ہے۔
جب کہ باقی نصف مدت میں جن آمروں نے لمبے لمبے عرصے تک اِس قوم پر اپنا حقِ حاکمیت جتایا ہے اُنہیں کسی مضبوط اپوزیشن یا آئین ودستور کی پاسداری کا ڈر اور خوف لاحق نہیں رہا وہ اپنے اختیارات کے استعمال اور اُن کی عملداری میں مکمل مادرپدر آزاد اور خود مختار تھے مگر آج تک کسی نے اُن کا محاسبہ نہیں کیا۔ہمیں بلا امتیاز و تفریق ہر ایک کا درست اور صحیح انداز میں کڑا اور بے رحم احتساب کرنا ہوگا۔